متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تاریخی امن معاہدہ

جاسم محمد

محفلین
Whats-App-Image-2020-08-31-at-17-14-30.jpg

Whats-App-Image-2020-08-31-at-17-14-32.jpg
 

الف نظامی

لائبریرین
ریکارڈ کی درستگی کے لیے، فلسطینی بھائیو یہ تھریڈ پاکستانیوں کے جذبات کی عکاسی نہیں کرتا بلکہ یہودی قادیانی الائنس کا پروپگنڈا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ریکارڈ کی درستگی کے لیے، فلسطینی بھائیو یہ تھریڈ پاکستانیوں کے جذبات کی عکاسی نہیں کرتا بلکہ یہودی قادیانی الائنس کا پروپگنڈا ہے۔
متحدہ عرب امارات والے بھی اب یہودی، قادیانی ہو گئے ۔ ماشاءاللہ۔
Pakistanis bought property worth 16bn dirhams in Dubai - Pakistan - DAWN.COM
Pakistanis buy Dubai property worth $379m in three months - Pakistan - DAWN.COM
 

ابن عادل

محفلین
مجھے حیرت ہے کہ کچھ لوگ اس "عظیم واقعے" کی اس طرح رپورٹنگ کررہے ہیں کہ گویا امارات نے امن معاہدہ کرکے اپنے کوئی ایسا کارنامہ انجام دیا ہو جو بقیہ اسلامی ممالک کے لیے کلنک کا ٹیکہ ہو ۔ حیرت ہے کہ وہ یہ سوال نہیں اٹھاتے کہ امارات نے اب تک کیوں اسرائیل کی مخالفت کی اور اب ایسا کیا انقلاب عظیم آیا ہے کہ اس نے اس "نکاح بالجبر" پر قبول ہے کہ دیا ۔ حالانکہ اس کے لیے تو کئی عشروں سے اس پر دباؤ تھا ۔ جن شرائط پر امارات سے "قبول ہے" کہلوایا گیا ہے فقط ایک ہفتے کے اندر اندر ان وعدوں اور شرائط کے حوالے سے گارنٹی لینے والے سرپرست امریکہ بہادر نے صاف جواب دے دیا ۔ افسوس اس پر ہے امارات نے پاکستانی منکوحہ کی طرح مکمل سپردگی اور تسلیم کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا ۔
خیر یہ باتیں ایسی ہیں کہ جو سب کو معلوم ہیں ۔ عالمی جعرافیائی صورتحال ، مشرق وسطی کی بدلتی صورتحال ، ایک طرف امریکی صدارتی الیکشن اور دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم کے خلاف کرپشن کے کیس ، جمہوریت سے خائف بادشاہ ، تیل کی بے قدری اور بھی دیگر عوامل آخر کچھ تو چاہیے جو اسکرین کے مناظر تبدیل ہوں ۔ اب زیادہ کیا کہیں ۔۔۔
بات یہ ہے کہ یہاں پر جو شادیانے بجائے جارہے ہیں وہ کیوں ہیں ! ؟ کم از کم آدمی کوئی ٹھوس بات تو کرے ۔ بتائے تو سہی کہ اس معاہدے سے کون سا انقلاب آئے گا ۔ پچاس سے زائد مسلم ممالک میں سے چار نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے ۔ لیکن مان لیجیے کہ تمام مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں تو کیا حق ، حق نہ رہے گا ؟؟ کیا باطل حق میں تبدیل ہوجائے گا ؟؟! کیا تاریخ سے وہ صفحات مٹ جائیں گے کہ سرزمین فلسطین کو برطانیہ نے فروخت کیا تھا ۔ اور کیا وہ مناظر فرا موش کردیے جائیں گے کہ کس طرح اس سرزمین کے باشندوں کو اس لیے زبردستی ان کے گھروں سے نکال دیا گیا کہ یہ سرزمین یہودیوں کے آباؤ و اجداد کی ہے ؟ جس پر اقبال نے کیا کہ
ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہل غرب کا
 

جاسم محمد

محفلین
بات یہ ہے کہ یہاں پر جو شادیانے بجائے جارہے ہیں وہ کیوں ہیں ! ؟ کم از کم آدمی کوئی ٹھوس بات تو کرے ۔ بتائے تو سہی کہ اس معاہدے سے کون سا انقلاب آئے گا ۔ پچاس سے زائد مسلم ممالک میں سے چار نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے ۔
وہ جو چار مسلم ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے ان میں سے صرف امارات ہی ہے جس نے حکومتی ہی نہیں بلکہ عوامی سطح پر بھی اسرائیلیوں کو تسلیم کیا ہے۔ کمرشل فلائیٹس، اہم دفاعی اور تجارتی معاہدے، سفارتی تعلقات میں اتنی تیزی ظاہر کرتی ہے کہ امارات نے دیگر مسلم ممالک کے مقابلہ میں اپنی سمت تبدیل کر لی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
بات یہ ہے کہ یہاں پر جو شادیانے بجائے جارہے ہیں وہ کیوں ہیں ! ؟ کم از کم آدمی کوئی ٹھوس بات تو کرے ۔ بتائے تو سہی کہ اس معاہدے سے کون سا انقلاب آئے گا ۔ پچاس سے زائد مسلم ممالک میں سے چار نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے ۔
The hope of a ‘warm’ peace in the Middle East - analysis
 

جاسم محمد

محفلین
کم از کم آدمی کوئی ٹھوس بات تو کرے ۔ بتائے تو سہی کہ اس معاہدے سے کون سا انقلاب آئے گا ۔
سعودی عرب اور بحرین نے اپنی فضائی حدود اسرائیلی جہازوں کیلئے کھول دی ہیں۔ کیا یہ کسی انقلاب سے کم ہے؟
Bahrain to allow flights between Israel and UAE to cross its airspace
Saudi Arabia Opens Airspace to Israeli Flights for First Time
 

جاسم محمد

محفلین
سعودی عرب کے بعد بحرین نے بھی اسرائیل کیلیے فضائی حدود کھول دیں
ویب ڈیسک جمع۔ء 4 ستمبر 2020
2076584-bahrainallowhisairspacetoisrael-1599219153-616-640x480.jpg

اسرائیل کی صرف متحدہ عرب امارات آنے اور جانے والی پروازوں ہی فضائی راستہ استعمال کرسکیں گی، بحرین (فوٹو : فائل)


مناما: سعودی عرب کے بعد بحرین نے بھی متحدہ عرب امارات کے لیے اسرائیلی پروازوں کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دیدی ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق بحرین نے بھی اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دیدی ہے۔ اس سے قبل سعودی عرب نے بھی اسرائیلی پروازوں کو اپنی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔

بحرین حکومت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات سے آنے اور جانے والی تمام پروازوں کو فضائی راستہ استعمال کرنے کی اجازت ہوگی۔ اس بیان میں اسرائیل کو استثنیٰ نہیں دیا گیا جب کہ اس سے قبل ایسے بیانات میں اسرائیل کو مستثنیٰ قرار دیا جاتا تھا۔

بحرین ایوی ایشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی پروازوں کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت متحدہ عرب امارات کی جانب سے درخواست پر دی گئی ہے۔ جس میں استدعا کی گئی تھی کہ اسرائیل سے یو اے ای آنے اور جانے والی پروازوں کو بحرین اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دے۔

واضح رہے کہ امریکی صدر کے مشیر جیرڈ کشنر نے رواں ہفتے کے آغاز میں بحرین کے بادشاہ سے ملاقات کی تھی جب کہ چند روز قبل ہی اسرائیل سے پہلی کمرشل پرواز سعودی عرب کے فضائی راستے سے متحدہ عرب امارات پہنچی تھی۔
 

جاسم محمد

محفلین
پاکستان بمقابلہ اسرائیل: جناب، آپ کی اوقات ہے کیا؟
02/09/2020 مبشر اکرم

مجھے سنہ 2011 میں اسلام آباد کی اک یونیورسٹی نے پاکستان کی سماجی ترقی اور سیاسی معاملات کے حوالے سے اک راؤنڈ ٹیبل میں مدعو کیا۔ میری گفتگو کے بعد، اپنی تعلیم کے سولہویں برس میں موجود ذہین پاکستانی طالبعلموں میں سے ایک نے سوال داغا کہ مغربی ممالک اور ادارے، بالخصوص وہ جو ”یہودیوں اور عیسائیوں“ کا ایجنڈا پاکستان میں لاگو کرنا چاہتے ہیں، وہ پاکستان کی سماجی ترقی اور سیاسی معاملات میں ان سٹیبلٹی کی خواہش کیوں کرتے ہیں؟

میں نے جواب میں سوال داغا کہ آپ خود اپنے سوال کے بارے میں کتنا جانتے ہیں؟ جواب میں آئیں بائیں شائیں۔ میں نے اپنا سوال اک بار پھر دہرایا اور کہا: ”میرے نوجوان دوست، سوال کی بھی حرمت ہوتی ہے، اور اس حرمت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ کو خود اپنے سوال کے بارے میں پتا ہو۔ میں یہاں اک ’انفارمڈ ڈسکشن ‘ کے لیے آیا ہوں، اپنا اور آپ کا وقت ضائع کرنے نہیں۔“ میرے اس آرگیومنٹ کے جواب میں اپنی تعلیم کے سولہویں برس میں موجود ذہین طالبعلم، خواتین طالبات سمیت، اک دم ”مہذب“ بھی بن گئے اور مجھ پر ہوٹنگ شروع کر دی۔ میں خاموش بیٹھا رہا۔ ماڈریٹر نے ماحول تھوڑا قابو کیا، اور پھر پچھلے دس برسوں میں مجھے دوبارہ مدعو نہ کیا۔ میں نے بھی وہاں جانا قطعاً مس نہ کیا۔

پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے اک عجب سی فضا ہے۔ اس فضا کے تحت، اسلام آباد کے اک مشہور روحانیت اور بوتل پسند کالم نگار کے بقول، دنیا کی تیسری ذہین ترین قوم کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گویا اسرائیل اس بات پر مرا جا رہا ہے کہ پاکستان اسے تسلیم کر لے۔ اور پاکستان کے اسرائیل کو تسلیم کر لینے سے نجانے اسرائیل کو کون کون سے فوائد حاصل ہو جائیں گے۔

ہمارے مولوی دوست، اس معاملے کو ملی غیرت، دینی حمیت اور اسلامی اصولوں کے زیرے، ثابت سرخ مرچ اور کڑی پتا کا تڑکا لگا کر بھی پیش کرتے ہیں۔ کہتا چلوں کہ ریاستیں سیاسی اکائیاں ہوتی ہیں، مذہبی نہیں۔ دنیا کی تمام ریاستیں اپنے اپنے مارکیٹنگ کے نعرے رکھتی ہیں، اور مذہب بھی ان نعروں میں سے ایک ہے۔ جب کہ ریاست کے کاروبار کا ان نعروں سے کوئی ٹیکنیکل تعلق ایسا نہیں ہوتا کہ جس پر وہ ریجنل یا گلوبل لیول کے اپنے سیاسی اور معاشی مفادات قربان کریں۔

مثلاً، امریکہ آزادیوں کے نعرے لگاتا ہے، اور پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔ انڈیا سیکولر ہے، اور سعودی عرب امت مسلمہ کا واحد ناخدا۔ پاکستان، اسلام کا اتنا ہی قلعہ ہے کہ جتنا انڈیا اصل میں سیکولر ہے اور امریکہ آزادیوں کا اتنا ہی محافظ ہے کہ جتنا سعودی عرب مسلمانوں کا ناخدا ہے۔

بنیادی طور پر اور اصل میں یہ سب مارکیٹنگ کے نعرے ہیں، اور بالکل اک فرد کی طرح، ریاست بھی اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کی غلام ہوتی ہے۔ پاکستانی ریاست کے دارالحکومت، راولپنڈی کا بخار کچھ اور طرح کا ہے تو لہذا، اسلام کے قلعہ کے نام پر تشریف سرخ کروائے رکھنا، گویا ہمارا قومی مشغلہ بن چکا ہے۔

اک تفصیلی جائزہ پھر کبھی پیش کردوں گا، مگر جلدی کا ہی کچھ پڑھ لیجیے، تاکہ جاری شدہ ملی، قومی اور مذہبی غیرت کے تڑکے کو تھوڑا سوڈے اور کالے نمک کا ہاضمہ مل سکے۔

اسرائیل کی آبادی تقریباً نوے لاکھ ہے اور اس کی سالانہ قومی پیداوار تقریباً 400 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان کی آبادی 21 کروڑ ہے اور اس کی سالانہ قومی پیداوار اس وقت تقریباً 270 ارب ڈالر ہے۔ اسرائیل کی فی کس سالانہ پیداوار تقریباً 42000 امریکی ڈالر ہے اور پاکستان کی فی کس سالانہ پیداوار تقریباً 1370 ڈالر ہے۔ اسرائیل نے 2019 میں تقریباً 115 ارب امریکی ڈالرز کی ایکسپورٹس کیں۔ اسلام کے عظیم قلعے نے اسی سال تقریباً 24 ارب امریکی ڈالر کی ایکسپورٹس کیں۔

اسرائیلی پاسپورٹ دنیا میں 21 ویں نمبر کا بہترین پاسپورٹ ہے اور دنیا کے تقریباً 161 ممالک میں جانے کے لیے اسرائیلی شہریوں کو یا تو ویزے کی ضرورت نہیں، یا انہیں آمد پر ویزہ دے دیا جاتا ہے۔ مملکت خداداد پاکستان کا پاسپورٹ 192 ویں نمبر پر ہے اور دنیا کے 26 ممالک میں پاکستانی پاسپورٹ ہولڈرز کو ویزہ کی ضرورت نہیں پڑتی یا پھر انہیں آمد پر ویزہ دے دیا جاتا ہے۔

افغانستان کا پاسپورٹ 104 دیں اور ایتھوپیا کا پاسپورٹ 96 ویں نمبر پر ہے۔
سوڈا اور کالا نمک اور بھی موجود ہے، مگر فی الحال اسی پر گزارہ کیجیے۔

اسرائیل کے وزیراعظم، بنیامین ناتن یاہو نے 2017 میں کہا تھا کہ جلد ہی اک وقت وہ آنے والا ہے کہ اسرائیل تنہا نہیں ہو گا۔ تنہا وہ ممالک ہوں گے جو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے ہوں گے۔

پاکستانیوں کو اس عجب خیال کے غضب نشے میں مبتلا کرنے میں اسلامی امہ کے ممالک کا اک بڑا ہاتھ ہے۔ بدو اب پاکستانیوں کو بدھو بنا کر رستہ بدل رہے ہیں۔

اندرونی طور پر پاکستانیوں کو اس عجب خیال کے غضب نشے میں مبتلا کرنے والے اور راتوں کو جاگ کر ہماری حفاظت کرنے والے عظیم مجاہد یہودی ارکان کانگریس سے دوبارہ حکومت کرنے کا موقع مانگتے ہیں، دوبئی میں ٹھمکا رقص کرتے ہیں، امریکہ میں پیزے بیچتے ہیں، تھنک ٹینکس کی نوکریاں کرتے ہیں۔ جبکہ دین اسلام کے پاکستانی سپاہی آئس کریم پارلرز چلاتے ہیں اور دس دس برس مقدمے چلاتے ہیں کہ ہمیں پاکستان واپس نہ بھیجا جائے۔

رات کو جاگ کر ہماری حفاظت کرنے والے عظیم مجاہد، دین کے سپاہی اور ان کی اولادیں زندگی کے لطف اٹھاتی ہیں اور پاکستانی بدھو یہاں نعرے مارتے ہوئے اس عجب خیال کے غضب نشے کا ربڑی سلوشن سونگھتے رہتے ہیں۔
ماشاءاللہ!
 

جاسم محمد

محفلین
مسلم اکثریتی ملک کوسوو کا اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان
ویب ڈیسک جمع۔ء 4 ستمبر 2020
2076719-kosovoandisrealdiplomaticrelationannoucebytrump-1599246854-369-640x480.jpg

کوسوو/سربیا کے سربراہ اور اسرائیل حکام وائٹ ہاؤس میں موجود ہیں، ٹرمپ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کا اعلان کرتے ہوئے (فوٹو : امریکی سوشل میڈیا)

واشنگٹن: مسلم اکثریتی ملک کوسوو اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے اور یروشلم میں سفارت خانہ کھولنے پر رضامند ہوگیا، ٹرمپ نے کہا ہے کہ مزید کئی اسلامی اور عرب ممالک اسرائیل سے جلد تعلقات قائم کریں گے۔

وائٹ ہاؤس سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق اس حوالے سے کوسوو کے صدر اور سربیا کے سربراہ نے وائٹ ہاؤس میں مفاہمتی یادداشت پر دستخط بھی کیے۔ اس موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی حکام موجود تھے۔

اپنے ٹویٹ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ مشرق وسطی میں امن کے لیے آج ایک اور عظیم دن ہے، مسلمان اکثریتی ملک کوسوو اور اسرائیل اپنے تجارتی تعلقات معمول پر لانے اور سفارتی تعلقات قائم کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں، اس حوالے سے کوسوو اور سربیا کے سربراہان کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

امریکی صدر نے مزید کہا کہ مزید اسلامی اور عرب ممالک جلد اس عمل کی پیروی کرتے ہوئے جلد اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرلیں گے۔
 

زیک

مسافر
مسلم اکثریتی ملک کوسوو کا اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان
ویب ڈیسک جمع۔ء 4 ستمبر 2020
2076719-kosovoandisrealdiplomaticrelationannoucebytrump-1599246854-369-640x480.jpg

کوسوو/سربیا کے سربراہ اور اسرائیل حکام وائٹ ہاؤس میں موجود ہیں، ٹرمپ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کا اعلان کرتے ہوئے (فوٹو : امریکی سوشل میڈیا)

واشنگٹن: مسلم اکثریتی ملک کوسوو اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے اور یروشلم میں سفارت خانہ کھولنے پر رضامند ہوگیا، ٹرمپ نے کہا ہے کہ مزید کئی اسلامی اور عرب ممالک اسرائیل سے جلد تعلقات قائم کریں گے۔

وائٹ ہاؤس سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق اس حوالے سے کوسوو کے صدر اور سربیا کے سربراہ نے وائٹ ہاؤس میں مفاہمتی یادداشت پر دستخط بھی کیے۔ اس موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی حکام موجود تھے۔

اپنے ٹویٹ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ مشرق وسطی میں امن کے لیے آج ایک اور عظیم دن ہے، مسلمان اکثریتی ملک کوسوو اور اسرائیل اپنے تجارتی تعلقات معمول پر لانے اور سفارتی تعلقات قائم کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں، اس حوالے سے کوسوو اور سربیا کے سربراہان کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

امریکی صدر نے مزید کہا کہ مزید اسلامی اور عرب ممالک جلد اس عمل کی پیروی کرتے ہوئے جلد اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرلیں گے۔
کوسوو کو بھی اسرائیل نے اب تسلیم کیا ہے۔ خیال رہے کہ کوسوو کو آدھی دنیا تسلیم نہیں کرتی
 

جاسم محمد

محفلین
اسرائیل میں مقیم یہودی اپنے پیدائشی شہر کراچی آنے کیلئے پر امید
05 ستمبر ، 2020

816815_3653264_ranchor_akhbar.jpg

دبئی (سبط عارف) کراچی میں پیدا ہونے والے بہت سے یہودی ، جو اس وقت اسرائیل میں مقیم ہیں، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین معاہدے کے بعد پُر امید ہیں کہ وہ اپنے پیدائشی شہر کراچی کا بھی دورہ کرسکیں۔

پاکستانی نژاد یہودیوں نے جیو نیوز دبئی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے امید کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنے آبائی وطن کا دورہ کرنا چاہتے ہیں۔

پاکستان کے قیام کے وقت کراچی میں تقریبا 2500 یہودی رہتے تھے جن کیلئے ایک عبادت گاہ بھی تھی جس کا نام تھا "میگن شالوم سینگاگ” اس پر بنی اسرائیل مسجد درج تھا۔

یہ عبادت گاہ کراچی کے علاقے رنچھوڑ لائن میں تھا جو کراچی جنوبی ضلع کی ایک قدیم ترین بستی ہے۔رنچھوڑ لائن کے کئی پرانے باسیوں کو یہودیوں کی یہ عبادت گاہ بہت اچھی طرح ذہن نشین ہے۔

کراچی میں پیدا ہونے والے یہودی اب بھی بڑی اچھی اردو بولتے ہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے منتقل ہونے والے آخری یہودی خاندان سے جیو نیوز دبئی نے رابطہ کیا۔

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ٹیلی فون سروس کے آغاز ہونے کے بعد فون پر گفتگو کی۔ یہ یہودی اب بھی کراچی کی ٹھنڈی شامیں اور راوداری کو یاد کرتے ہیں۔ ایمانوئیل میتات 59 سال کے ہیں۔

اسرائیل میں رہتے ہیں۔اردو بہت شاندار بولتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے شیدائی ہیں۔

سبز ہلالی پرچم کے رنگوں سے مزین پاکستانی قومی ٹیم کہیں بھی کرکٹ کھیلے، پاکستانی کے کئی سو میل دور بسے میتات کے دل کی دھڑکن اسرائیل میں کرکٹ دیکھتے ہوئے تیز ہوتی ہے۔

ایمانوئیل میتات تین دہائی پہلے پاکستان سے منتقل ہوئے۔ فون پر بات ہوئی تو کہنے لگے ’’بھائی! بریانی تیار کرو ۔۔ میں دبئی آؤں گا‘‘۔

متحدہ عرب امارات کے حکام نے دو ممالک کے درمیان ٹیلی فون کال کرنے کی پابندی کو ختم کردی ہے اب متحدہ عرب امارات سے لوگ اسرائیل ٹیلی فون کرسکتے ہیں۔

دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ متحدہ عرب امارات کا انٹرنیشنل ڈائیلانگ کوڈ 971 ہے جبکہ اسرائیل کا ڈائیلانگ کوڈ 972 ہے۔

ایمانوئل میتات اب کراچی جانے کی خواہش رکھتے ہیں حالانکہ یہ ابھی یہ ایک خواب ہی ہے لیکن انہوں نے جلد دبئی جانے کا منصوبہ بنایا لیا ہے۔

میتات کا گھرانہ وہ آخری یہودی گھرانہ تھا جو پاکستان سے منتقل ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ جب اُن کے والد کی 1957 میں کراچی میں شادی ہوئی تھی ، تو کراچی میں یہودیوں کے 600 خاندان رہتے تھے۔

انھوں نے کراچی کے بی وی ایس اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ میتات کہتے ہیں کہ ان کے والد ریحیم کاروباری شخصیت تھے۔

قالین کا کاروبار کرتے تھے۔ اور پوری دنیا سے یہودی قالین کا آرڈر دیتے تھے۔

وہ پاکستان چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ مگر کچھ مجبوریاں نہ ہوتی تو وہ بھی پاکستان نہ چھوڑتے۔ میتات نے بڑے فخر سے اپنا پرانا پاکستانی پاسپورٹ دیکھایا۔ جس پر ان کا مذہب بھی درج ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ کراچی کی عبادت گاہ میں شہر کی تمام یہودی آبادی جمع ہوتی تھی۔

بہت اطمینان سے عبادت کرکے مسلمان تانگے والے ہمیں گھروں تک پہنچاتے تھے۔ وہ کہتے ہیں متعدد بار مسلمان تانگے والے پیسے بھی نہیں لیتے تھے۔ وہ افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ جولائی 1988 میں عبادت گاہ کی جگہ شاپنگ پلازہ بنا دیا گیا۔

میتات کے علاوہ کچھ اور یہودیوں نے بھی گفتگو کی مگر انھوں نے اپنا نام میڈیا میں نہ دینے کی شرط پر بتایا کہ کراچی میں اُن کا بچپن گذرا مگر اب بہت درویاں پیدا ہوچکی ہیں مگر وہ امید کرتے ہیں کہ وہ بھی کراچی گھومنے کا خواب دیکھتے ہیں۔

کئی نے کہا کہ اُن کے ابا و اجداد کے قبریں کراچی میں موجود ہیں وہ اُن قبروں پر جانا چاہتے ہیں۔ کراچی کے دو قبرستانوں میں یہودی برادری کی قبریں ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
امارات اسرائیل امن معاہدہ کرانے پر ڈونلڈ ٹرمپ نوبیل امن انعام کیلئے نامزد
230271_2222802_updates.jpg

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تاریخی امن معاہدے پر دستخط کی باضابطہ تقریب 15 ستمبر کو ہوگی جس کی میزبانی ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے— فوٹو: فائل

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تاریخی امن معاہدے میں کلیدی کردار ادا کرنے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کے نوبیل انعام کیلئے نامزد کردیا گیا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نام نوبیل امن انعام کیلئے ناروے کے رکن پارلیمنٹ کرسچیئن ٹائیبرنگ جیڈی نے تجویز کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال سے نوبیل انعام کے دیگر امیدواروں کے مقابلے میں ڈونلڈ ترمپ نے امن کے قیام کے لیے بہت زیادہ کام کیا ہے‘۔

خیال رہے کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تاریخی امن معاہدے پر دستخط کی باضابطہ تقریب 15 ستمبر کو ہوگی جس کی میزبانی ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے۔

سال 2020 کے نوبیل امن انعام کیلئے اب تک 318 شخصیات کو نامزد کیا جاچکا ہے، جن میں سے مشاورت کے بعد حتمی ناموں کا اعلان کیا جائے گا۔

ٹائیبرنگ جیڈی نے نوبیل کمیٹی کو لکھے گئے خط میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ہونے والے امن معاہدے اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ کے کردار کو سراہا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ ’جیسا کہ امید کی جارہی ہے کہ دیگر مشرق وسطیٰ کے ممالک بھی امارات کے نقش قدم پر چلیں گے، یہ معاہدہ ایک گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے جو اس خطے میں تعاون اور خوشحالی کا باب کھولے گا‘۔

خیال رہے کہ یہ پہلی بار نہیں جب ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کیلئے نامزد کیا گیا ہے۔ اس سے قبل 2018 میں بھی ٹائیبرنگ جیڈی نے ہی ٹرمپ اور شمالی کوریا کے رہنما کم جانب ان کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کا نام نوبیل امن انعام کیلئے پیش کیا تھا تاہم وہ جیت نہیں سکے تھے۔

نارویجین رکن پارلیمنٹ ٹائیبرنگ جیڈی نے کہا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حمایتی نہیں ہیں لیکن ماضی میں امن کے لیے ٹرمپ سے کم کام کرنے والے لوگ بھی انعام جیت چکے ہیں۔

خیال رہے کہ اس سے قبل 2009 میں اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما کو عہدہ سنبھالنے کے صرف 9 ماہ بعد ہی نوبیل امن انعام سے نوازا گیا تھا جس پر کافی تنقید بھی ہوئی تھی، ان ںاقدین میں ڈونلڈ ٹرمپ بھی شامل تھے۔

مختلف شعبوں میں نوبیل انعام جیتنے والوں کا اعلان اکتوبر میں کیا جائے گا۔
 

بابا-جی

محفلین
ٹرمپ اپنے مقاصِد میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اُسے لانچ کرنے والے بہت خُوش ہوں گے۔ مُسلم ممالک اب چُورن بیچیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ٹرمپ اپنے مقاصِد میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اُسے لانچ کرنے والے بہت خُوش ہوں گے۔ مُسلم ممالک اب چُورن بیچیں۔
مسلم ممالک پہلے کہا کرتے تھے کہ ان کے درمیان لڑائیاں اسرائیل اور امریکہ کر واتا ہے۔ اب وہی امریکہ اور اسرائیل امن معاہدہ کروا رہا ہے تو اس پر بھی شدید تحفظات ہیں۔ یعنی مسلمان کسی حال میں خوش نہیں۔ ان کے ممالک میں جنگیں ہوتی رہیں تو اغیار کی سازش۔ اور اگر امن معاہدے ہو جائیں تو اس میں بھی اغیار کی سازش ہے۔ آج تک ایسے حالات دنیا میں قائم ہوئے ہی نہیں جہاں مسلمانوں نے کبھی دلی خوشی کا اظہار کیا ہو۔ ہر حال میں نا خوش۔
جب مسلمانوں کی تین بر اعظموں پر حکومتیں تھیں تب بھی یہ تکلیف تھی کہ پوری دنیا نے اسلام قبول کیوں نہیں کیا۔ یعنی اپنے عروج کے وقت بھی مسلمان خود سے مطمئن نہیں تھے۔
 
Top