متفرق ترکی ابیات و اشعار

حسان خان

لائبریرین
اس کا معنی آتشِ من نہیں ہے؟
آتش کو تُرکی میں «اۏد» کہتے ہیں، جو اِستانبولی تُرکی میں حالا متروک ہو چکا ہے اور اُس کی بجائے فارسی‌الاصل «آته‌ش» ہی رائج ہے۔۔۔۔ جبکہ اِستانبولی تُرکی میں «اۏدا» اُطاق کو کہتے ہیں، بلکہ یہ تُرکی لفظ «اُطاق» ہی کی تغئیریافتہ شکل ہے اور آذربائجانی تُرکی میں ہنوز «اۏتاق» مُستَعمل ہے۔۔۔۔
اگر «آتش» کے لیے اِس مصرعے میں «اۏد» کا لفظ استعمال میں لایا گیا ہوتا تو «میری آتش» کے لیے «اۏدوم» ہوتا، نہ کہ «اۏدام»۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
قفقازی آذربائجانی شاعر «مُلّا پناه واقِف» کا ایک تُرکی بند:
بیر سن کیمی گؤزه‌ل یۏخ‌دور دۆنیادا،
آغزې شیرین، دیلی-دۏداغې شیرین.
دۏیماق اۏلماز دیدارېن‌دان بیر زامان،
تاماشاسې، قاشې، قاباغې شیرین.
(مُلّا پناه واقف)

دُنیا میں تم جیسا کوئی [دیگر] زیبا نہیں ہے۔۔۔ [اے وہ کہ] جس کا دہن شیریں، [اور] جس کی زبان و لب شیریں ہے!۔۔۔ تمہارے دیدار سے کبھی بھی سیر نہیں ہوا جا سکتا۔۔۔ [اے وہ کہ] جس کا نظارہ، جس کا ابرو، جس کی پیشانی [و چہرہ] شیریں ہے!

Bir sən kimi gözəl yоxdur dünyada,
Ağzı şirin, dili-dоdağı şirin.
Dоymaq оlmaz didarından bir zaman,
Tamaşası, qaşı, qabağı şirin.


× مندرجۂ بالا بند گیارہ ہِجوں کے ہِجائی وزن میں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
کسی نامعلوم شاعر کا ایک تُرکی قطعہ:

محنتِ عشقا تحمُّل‌دۆر کمالی عاشِقېن
اۏلمایان راضې قضایا ایتمه‌سۆن دعوایِ عشق
دارِ دُنیا کربلادېر هر حُسینی‌مشرَبه
بؤیله تقدیر ائیله‌میش‌دیر حضرتِ مَولایِ عشق

(لاادری)

رنجِ عشق کو تحمُّل کرنا عاشِق کا کمال ہے۔۔۔ جو شخص قضا پر راضی نہ ہوتا ہو وہ دعوائے عشق مت کرے!۔۔۔ [یہ] دارِ دُنیا ہر حُسَینی‌مشرَب [شخص] کے لیے «کربلا» ہے۔۔۔ حضرتِ مَولائے عشق نے ایسا [ہی] تقدیر کیا (یعنی تقدیر میں مُقدّر و مُقرّر کیا) ہے۔۔۔

Mihnet-i ışka tahammüldür kemâli âşıkın
Olmayan râzı kazaya itmesün dava-yı ışk
Dâr-ı dünya kerbelâdır her hüseynî-meşrebe
Böyle takdîr eylemiştir hazret-i mevlâ-yı ışk
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عُثمانی شاعرہ «فِطنت خانم» کی ایک تُرکی بیت:

نئیله‌رۆز ساقی شرابِ ساغرِ بِلّوروڭې
جامِ لعلۆڭ‌له سنۆڭ مستانه اۏلمېش‌لاردانوز

(فطنت خانم)

اے ساقی! ہم تمہارے ساغرِ بِلُّور کی شراب کا کیا کریں گے؟۔۔۔ ہم [تو] اُن [اشخاص] میں سے ہیں کہ جو تمہارے لعلِ [لب] کے جام کے ذریعے مست ہو گئے ہیں۔
× بِلُّور = کْرِسٹل

Neylerüz sâḳî şarâb-ı sâġar-ı billûruñı
Câm-ı la'lüñle senüñ mestâne olmışlardanuz
(Fıtnat Hanım)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عُثمانی شاعر «ضِیا پاشا» کی ایک حمدیہ بیت:
ای وارلېغې، وارې وار ائده‌ن وار
یۏق یۏق، سانا یۏق دئمه‌ک نه دُشوار

(ضیا پاشا)
اے وہ «ہست» کہ جس کی ہستی ہست کو ہست کرتی ہے!۔۔۔۔ نہیں نہیں! تم کو "نیست" کہنا کس قدر دُشوار ہے!

Ey varlığı, varı var eden var
Yok yok, sana yok demek ne düşvâr
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ایرانی آذربائجانی شاعر «رُستَم‌علی جعفری» کی ایک تُرکی بیت:

صفحهٔ رُخسارېن از بس که گؤزه‌ل‌دیر، دل‌بریم
گلسه گر مانی، باشارماز صورَتیوی چکمه‌گه

(رُستَم‌علی جعفری)

اے میرے دِل‌بر! تمہارا صفحۂ رُخسار اِس قدر زیادہ زیبا ہے کہ اگر «مانی» [جیسا ماہِر مُصوِّر و صُورت‌کَش بھی] آ جائے تو وہ تمہاری صُورت کھینچنے میں مُوَفّق و کام‌یاب نہ ہو گا۔

× مانی = فارسی-تُرکی شعری روایت میں ایک مشہور نقّاش و مُصوِّر کا نام

Səfheyi-rüxsarın əz bəs ki gözəldir, dilbərim
Gəlsə gər Mani, başarmaz surətivi çəkməgə
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
جنابِ «صائب تبریزی» کی سِتائش میں عُثمانی شاعر «ضیا پاشا» کی ایک بیت:
وادیِ جدید آچدې صائب
بولدو نیجه نُکتهٔ مُناسِب

(ضیا پاشا)
«صائب» نے [شاعری میں ایک] وادیِ جدید کھولی (یا فتح کی)۔۔۔۔ [اور] اُس نے کتنے ہی نُکتۂ مُناسِب پائے!

Vâdî-i cedîd açdı Sâ'ib
Buldu nice nükte-i münâsib
 

حسان خان

لائبریرین
جنابِ «حافظ شیرازی» نے کسی «تُرکِ شیرازی» کے سیاہ خال کے عِوَض میں «سمرقند» و «بُخارا» بخش دیے تھے۔ اُن کی پیروی کرتے ہوئے ایک ایرانی آذربائجانی شاعر «حکیم مُلّا محمّد علی هیدَجی زنجانی» بھی خود کی ایک تُرکی بیت میں اپنے محبوبِ تُرک کے تارِ زُلف کے عِوَض میں دیارِ آذربائجان کے دو شہر «اردَبیل» و «خَلخال» عطا کر رہے ہیں:
اگر بو تۆرک منیم کؤنلۆمۆ آلا الی‌نه
باغېشلارام تئلی‌نه اردَبیل و خلخالې
(حکیم محمد هیدَجی)

اگر یہ تُرک میرے دل کو اپنے دست میں لے لے تو میں اِس کے تارِ زُلف کے عِوَض میں «اردَبیل» و «خلخال» بخش دوں گا۔

Əgər bu türk mənim könlümü ala əlinə
Bağışlaram telinə Ərdəbilü Xəlxalı
 

حسان خان

لائبریرین
یہ جاننا مجھے دل‌چسپ معلوم ہوا ہے کہ جس طرح جنابِ «صائبِ تبریزی» کی فارسی غزلوں نے دیارِ آلِ عُثمان کے ہمہ شاعروں اور ادیبوں کے دِل فتح کر لیے تھے، اُسی طرح اُن کی تُرکی غزلیں بھی دیارِ رُوم جا کر پذیرِش و مقبولیت حاصل کرنے میں مُوَفّق رہی تھیں۔ حال ہی میں یہ چیز میرے عِلم میں آئی ہے کہ ایک عُثمانی شاعر «شهری» (وفات: ۱۰۷۱ھ) نے «صائب» کی ایک تُرکی غزل، کہ جو "نه احتیاج که ساقی ویره شراب سنه" کے مصرعے سے شروع ہوئی ہے، کی زمین میں نظیرہ کہا تھا۔ اُس جوابی غزل کے مقطع میں مذکور عُثمانی شاعر کہتے ہیں:

صد آفرین غزلِ رومِیانوڭه صائب

که ویردی شهری دۆ صد شَوق ایله جواب ساڭا
(شهری)

اے «صائب»! تمہاری غزلیاتِ رُومی (تُرکی) پر صد آفرین!۔۔۔ کہ «شهری» نے دو صد اِشِتیاق کے ساتھ تم کو (یعنی تمہاری غزل کا) جواب دیا [ہے]۔

Sad âferîn gazel-i Rûmiyânuña Sâ'ib
Ki virdi Şehrî dü-sad şevk ile cevâb saña
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مجھ کو تُرکی نغمے بِسیار پسند ہیں، اور میں شب و روز اُن کو بِسیار اِشتِیاق کے ساتھ سُنتا ہوں۔ لیکن میری اِس پسند کا بُنیادی سبب تُرکیہ میں رائج عامّہ‌پسند (پوپ) موسیقی کا میرے ذَوقِ موسیقی سے موافق ہونا، اور زبانِ تُرکی کا (خُصوصاً اِستانبولی لہجہ) کا صَوتی لحاظ سے میرے کانوں کو بے‌حد خُوب و زیبا لگنا ہے۔ اُن نغموں کو میں اُن کی "شاعری" کے لیے نہیں سُنتا، اور اُن میں کسی خوب شاعری یا شعریت کی توقُّع کرنا بھی عبَث ہے۔ عامّہ‌پسند موسیقی میں اہم چیز آہنگ و نوا ہوتی ہے، اور الفاظ عموماً فقط خانہ‌پُری کے لیے ہوتے ہیں، اور تُرکی عامّہ‌پسند نغمے بھی مُستَثا نہیں ہیں۔ تاہم، بعض اوقات اُن نغموں میں چند سطریں ایسی نظر آ جاتی ہیں، جو واقعاً معنائی لحاظ سے سطحیت کے درجے سے بالا ہوتی ہیں، اور ذرا پسند کر جاتی اور اثر کر جاتی ہیں۔ مثلاً، اِس وقت جو میں تُرکی نغمہ سُن رہا ہوں اُس میں یہ دو سطریں مجھ کو پسند آئی ہیں:

سنی بانا سۏرارلارسا
بنیم ان گۆزه‌ل یئنیلگیم دییه‌جه‌ڲیم


اگر تمہارے بارے میں مجھ سے پوچھا جائے
تو مَیں "میری زیباترین شِکست" کہوں گی۔۔۔۔

Seni bana sorarlarsa
Benim en güzel yenilgim diyeceğim
 

حسان خان

لائبریرین
سرزمینِ «شام» کے شہر «حلَب» سے تعلق رکھنے والے عُثمانی شاعر «حلَب‌لی ادیب» اپنے شہرِ مألوف کی سِتائش میں کہتے ہیں:

اۏلماسا رشکِ جِنان گُلشنِ زیبایِ حلَب

دِلیمیز اۏلماز ایدی بُلبُلِ شیدایِ حلَب
(حلَب‌لی ادیب)

اگر «حلَب» کا گُلشنِ زیبا، رشکِ جنّت نہ ہوتا تو ہمارا دِل (یا ہماری زبان) «حلَب» کا بُلبُلِ شَیدا نہ ہوتا! (یعنی ہم بُلبُلِ شَیدائے «حلَب» اِسی باعث ہیں کیونکہ شہرِ «حلَب» رشکِ باغِ جنّت ہے۔)

Olmasa reşk-i cinân gülşen-i zîbâ-yı Haleb
Dilimiz olmaz idi bülbül-i şeydâ-yı Haleb
(Halepli Edîb)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ہائے شام! ہائے حلَب!

باعثِ غم‌آوری ہے کہ دیارِ «شام» میں واقع شہرِ «حلَب» اِس دہائی میں تباہ و ویران و برباد ہو گیا ہے، اور افسوس! کہ حالا اِس شہر کے بارے میں فقط بد خبریں سُننے کو مِلتی ہیں، جن کو سُن کر اِس تباہی پر آہِ تأسُّف کھینچنے اور ماتم کرنے کے بجُز کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ اِس تاریکی میں فقط یہ خیال اُمید کی شُعاع بن کر سامنے آتا ہے کہ وقت ہمیشہ ایسا نہ تھا، بلکہ گُذشتہ زمانوں میں یہ عظیم و قدیم شہر، سرزمینِ «شام» کا بُزُرگ‌ترین شہر، اور عُثمانی دَور میں سلطنتِ عُثمانیہ کا تیسرا بُزُرگ‌ترین و آبادترین شہر تھا۔ عُثمانی شاعروں اور نویسندوں نے اِس شہر کا ذِکر ہمیشہ خُوب الفاظ اور تمجید و سِتائش کے ساتھ کیا۔ ایک عُثمانی شاعر «مُعیدی» کسی مثنوی میں اِس شہر کی اور اِس شہر کے مردُم کی سِتائش کرتے ہوئے کہتے ہیں:

تۏلو هر گوشه دل‌رُبالار ایله
حورپَیکر پری‌لِقالار ایله
(مُعیدی)


[اِس شہر کا] ہر گوشہ دِل‌رُباؤں اور حُورپَیکر پری‌لِقاؤں سے پُر ہے۔۔۔

Tolu her kûşe dil-rübâlar ile
Hûr-peyker perî-likâlar ile
(Mu’îdî)


شاعرانِ سابِق کی زبان سے شہرِ «حلَب» کی ایسی سِتائشیں دیکھتا ہوں تو مُشکِل سے یقین آتا ہے کہ ویسا زمانہ بھی کبھی گُذرا ہے۔ بہر حال، لسان‌الغیب «حافظِ شیرازی» کا ایک مصرع ہے کہ: " چُنان نمانْد چُنین نیز هم نخواهد مانْد" (ویسا [وقت] باقی نہ رہا، [پس] ایسا [وقت] بھی باقی نہ رہے گا)، لہٰذا پُراُمید ہوں کہ یہ وقتِ حاضره بھی زُود بہتری کی طرف بدلے گا، اور شہرِ «حلَب» اپنی قبلی رَونق دوبارہ پائے گا!
 

حسان خان

لائبریرین
قفقازی آذربائجانی شاعر «سیّد عظیم شیروانی» کے ایک تُرکی قصیدے کی ابتدائی پانچ ابیات:

جهان مُلکۆن‌دا زر مشکل‌گُشادېر

نه مطلب ایسته‌سه‌ن اۏن‌دان روادېر
اگر بیر کس‌ده اۏلسا مالِ دُنیا
تماماً خلق اۏنی‌یله آشنادېر
گدانې زر قېلېر عالَم‌ده سُلطان
اگر سُلطان اۏلا بی‌زر، گدادېر
بو سؤز شرعاً اگر کُفر اۏلماسایدې
دئیه‌ردیم فی‌الحقیقت زر خُدادېر
دئسه‌م گر قاضیُ‌الحاجات، حق‌دیر
دئسه‌م گر کاشِفُ‌الغم‌دیر، روادېر
(سیّد عظیم شیروانی)

مُلکِ جہاں میں «زر» مُشکِل‌کُشا ہے۔۔۔ تم جو بھی مقصود و آرزو چاہو، وہ اُس [کے ذریعے] سے روا و برآوردہ ہے۔۔۔ اگر کسی شخص کے پاس مالِ دُنیا ہو تو مردُم تماماً اُس کے ساتھ آشنا [و دوست] ہیں۔۔۔ «زر» گدا کو عالَم میں سُلطان کر دیتا ہے۔۔۔ [اور] اگر سُلطان بے‌زر ہو [جائے] تو وہ گدا ہے۔۔۔ اگر یہ سُخن شرعاً کُفر نہ ہوتا تو میں کہتا کہ: در حقیقت «زر» خُدا ہے۔۔۔۔ اگر میں [«زر» کو] برآورندۂ حاجات کہوں تو برحق ہے۔۔۔ اگر میں کہوں کہ [«زر»] برطَرَف‌کُنندۂ غم ہے، تو روا و جائز ہے۔۔۔

Cahan mülkündə zər müşkülgüşadır,
Nə mətləb istəsən ondan rəvadır.
Əgər bir kəsdə olsa mali-dünya,
Təmamən xəlq oniylə aşinadır.
Gədani zər qılır aləmdə sultan,
Əgər sultan ola bizər, gədadır.
Bu söz şər'ən əgər küfr olmasaydı,
Deyərdim filhəqiqət zər Xudadır.
Desəm gər qaziyül-hacat, həqdir,
Desəm gər kaşifül-qəmdir, rəvadır.
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
سن‌دن بنی دُور ائیله‌دی دَورانِ دنی لیک
القَلْبُ عَلیٰ بابِكَ لَيْلاً وَنَهارا

(وصیلی)

[گردشِ] زمانۂ پست نے [اگرچہ] مجھے تم سے دُور کر دیا، لیکن [میرا] دل شب و روز تمہارے در پر [رہتا] ہے۔

Senden beni dûr eyledi devrân-ı denî lîk
El-kalbü alâ bâbike leylen ve nehârâ

(Vesîlî)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
قُرآن میں داستانِ «حضرتِ یوسُف» کے آخر میں آیا ہے کہ برادرانِ «یوسف» نے «حضرتِ یوسف» کی بُزُرگی و فصیلت کا اعتراف کرتے ہوئے اُن سے کہا تھا کہ: "تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنَا" (قسم بہ خُدا! واقعاً خُدا نے تم کو ہم پر برتری بخشی ہے)۔۔۔ ایک عُثمانی شاعر «وصیلی» ایک تُرکی-عرَبی بیت میں مذکورہ قُرآنی عبارت کو اِقتِباس کرتے ہوئے محبوبِ خود کے حُسنِ چہرہ کی سِتائش میں کہتے ہیں:

گؤرۆپ یۆزۆنی حور و ملَک دیدی فلک‌ده
تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنَا
(وصیلی)


تمہارے چہرے کو دیکھ کر فلک میں حُور و فرشتہ نے کہا: "قسم بہ خُدا! واقعاً خُدا نے تم کو ہم پر برتری بخشی ہے"۔

Görüp yüzüni hûr u melek didi felekde
Tellâhi lekad âserakel’lâhü aleynâ
(Vesîlî)
 

حسان خان

لائبریرین
دیدۆم صنما وصلونا جان ویرسه‌م ایره‌م می
ناز ایله تبسُّم قېلوبان دیدی که لا لا

(وصیلی)
میں نے کہا: "اے صنم! اگر میں جان دوں تو کیا میں تمہارے وصل تک پہنچ جاؤں گا؟"۔۔۔ اُس نے ناز کے ساتھ تبسُّم کرتے ہوئے کہا کہ: "لا لا!" (نہیں، نہیں!)


Didüm sanemâ vasluna cân virsem irem mi
Nâz ile tebessüm kıluban didi ki lâ lâ

(Vesîlî)
 

حسان خان

لائبریرین
عُثمانی شاعر «ذِهنی» کی ایک بیت میں «مِصر و شام و حلَب» کا ذِکر:
گؤره‌لی قندِ لبۆڭ شهدی‌نی بیر طوطیِ دل
اونودوپ‌دور شکَرِ مصر ایله شام و حلَبی
(ذِهنی)

جب سے اِک طُوطیِ دِل نے تمہارے قندِ لب کے شہد کو دیکھا ہے، اُس نے شَکَرِ مِصر و شام و حلَب کو فراموش کر دیا ہے۔ (دیارِ آلِ عُثمان میں «شام» شہرِ دمشق کو کہا جاتا تھا۔)

Göreli kand-i lebüñ şehdini bir tûti-i dil
Unudupdur şeker-i Mısr ile Şâm u Haleb’i
(Zihnî)
 

حسان خان

لائبریرین
شہرِ «حلَب» کی سِتائش میں ایک عُثمانی شاعر «لبیب» کی ایک تُرکی بیت:
نه گونه وصف اۏلونور شهرِ جان‌فزایِ حلَب
که مست ایده‌ر قلمِ شاعری هوایِ حلَب
(لبیب)

شہرِ جاں‌فَزائے «حلَب» کی تَوصیف کِس طرح ہو [سکے]؟۔۔۔۔ کہ شہرِ «حلَب» کی [زیبا] آب و ہوا تو شاعر کے قلم کو [بھی] مست کر دیتی ہے۔

Ne gûne vasf olunur şehr-i cân-fezâ-yı Haleb
Ki mest ider kalem-i şâ’iri hevâ-yı Haleb
(Lebîb)
 

حسان خان

لائبریرین
هر گاه که یادِ رُخِ جانان ایده‌رین بن
کُنجِ غمې بیر دم‌ده گُلستان ایده‌رین بن

(نشاطی)
میں جس وقت بھی رُخِ جاناں کی یاد کرتا ہوں، مَیں گوشۂ غم کو ایک لمحے میں (یعنی فوراً) گُلستان کر لیتا ہوں۔

Her gâh ki yâd-ı ruh-ı cânân iderin ben
Künc-i gamı bir demde gülistân iderin ben

(Neşâti)
 
Top