زہیر عبّاس
محفلین
چوتھا باب -14
سپرنووا – لمبڈا کی واپسی
سائنس دانوں نے جو اعداد و شمار کوبی سے حاصل کیے تھے وہ افراط کے نظریئے سے میل کھا رہے تھے، تاہم ماہرین فلکیات ١٩٩٠ء کے عشرے تک اس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے رہے کیونکہ افراط کا نظریہ تجرباتی اعداد و شمار سے حاصل کردہ اومیگا سے سنگین انحراف کر رہا تھا۔ یہ لہر سب سے پہلے ١٩٩٨ء میں اس وقت اٹھی جب ایک غیر متوقع سمت سے اعداد و شمار حاصل ہوئے۔ ماہرین فلکیات ماضی میں ہونے والے کائناتی پھیلاؤ کا دوبارہ حساب لگا رہے تھے۔ بجائے ١٩٢٠ء میں ہبل کے قیقاؤسی متغیر کے طریقہ استعمال کے ، انہوں نے دور دراز میں ارب ہا نوری برس ماضی میں واقع ہونے والے سپرنووا کا تجزیہ کرنا شروع کر دیا۔ بالخصوص انہوں نے Ia جماعت کے سپرنووا کی تفتیش شروع کردی جو معیاری شمع کے لئے سب سے بہتر اجسام ہوتے ہیں۔
ماہرین فلکیات جانتے تھے کہ اس قسم کے سپرنووا کی تابانی ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ ( جماعت Ia سپرنووا کی تابانی اتنی اچھی طرح سے معلوم ہے کہ اس میں ہلکا سا بھی انحراف بہت ہی درستگی کے ساتھ ناپا جا سکتا ہے۔ جتنا زیادہ تاباں سپرنووا ہوگا اتنی ہی آہستگی کے ساتھ اس کی تابانی کم ہوتی چلی جائے گی۔) ایسے سپرنووا اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ثنائی نجمی نظام میں سفید بونا ستارہ اپنے رفیق ستارے کا مادّہ آہستہ آہستہ چوسنا شروع کرتا ہے۔ اپنے جڑواں ستارے کو ہڑپ کرتے ہوئے یہ سفید بونا ستارہ اپنی کمیت بڑھاتا رہتا ہے تاوقتیکہ اس کی کمیت ہمارے سورج کی کمیت کے 1.4 ہو جاتی ہے جو کسی بھی سفید بونے کی زیادہ سے زیادہ کمیت ہوتی ہے۔ جب وہ اس حد کو پار کرتا ہے، تو منہدم ہوتے ہوئے قسم Iaکے سپرنووا میں پھٹ پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے جو سپرنووا قسم Ia کو تابانی میں اس قدر یکساں بناتی ہے۔ یہ قدرتی امر ہے کہ سفید بونے ستارے اس کمیت کے پاس پہنچ کر قوّت ثقل کے زیر اصل خود سے اپنے آپ میں منہدم ہو جاتے ہیں۔ (جیسا کہ سبرا منین چندرا شیکھر نے ١٩٣٥ء میں ثابت کیا تھا کہ سفید بونے ستارے میں کچلنے والی قوّت ثقل ، الیکٹران کے درمیان موجود دفع کرنے والی قوّت کے ساتھ توازن میں آ جاتی ہے جس کو برقی پست دباؤ کہتے ہیں۔ اگر سفید بونے ستارے کی کمیت سورج کی کمیت کے 1.4 سے زائد ہو جاتی ہے تو قوّت ثقل دفع کرنے کی قوّت پر غالب آ جاتی ہے اور ستارہ پس جاتا ہے جس کی وجہ سے سپرنووا کا دھماکہ پیدا ہوتا ہے۔) کیونکہ دور دراز کے سپرنووا ابتدائی کائنات میں وقوع پذیر ہوتے ہیں ، لہٰذا ان کی جانچ کرکے ہم آج سے ارب ہا برس پہلے کائنات کے پھیلنے کی شرح کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
ماہرین فلکیات کی دو علیحدہ جماعتوں نے اس بات کی تلاش کرنا شروع کی کہ ہرچند کائنات اب بھی پھیل تو رہی ہے لیکن اس پھیلاؤکو بتدریج آہستہ ہونا چاہئے۔ (ان میں سے ایک جماعت کی سربراہی سپرنووا کوسمولوجی پروجیکٹ کے سول پرل مٹر جبکہ دوسرے جماعت کی سربراہی ہائی زی سپرنووا سرچ ٹیم کے پی شمڈ کر رہے تھے )۔ ماہرین فلکیات کی کئی نسلیں نہ صرف ایمان رکھتی تھیں بلکہ ہر علم فلکیات کی جماعت میں اس کو پڑھایا بھی جاتا تھا کہ اصل پھیلاؤ کی شرح بتدریج کم ہو رہی ہے۔
کم از کم ایک درجن کے قریب ہر سپرنووا کی جانچ کے بعد ان کو معلوم ہوا کہ ابتدائی کائنات تیز ی سے نہیں پھیل رہی ہے جیسا کہ پہلے سمجھا جاتا تھا (یعنی کہ سپرنووا کی سرخ منتقلی اور ان کی سمتی رفتار اس سے کہیں کم تھی جتنا کہ سمجھا جا رہا تھا )۔ جب ابتدائی کائنات کے پھیلاؤ کی شرح کا موازنہ آج کی شرح سے کیا تو یہ نتیجہ نکلا کہ دور حاضر میں پھیلاؤ کی شرح کافی ہے۔ یہ دونوں جماعتیں ایک انتہائی حیرت انگیز نتیجہ پر پہنچیں جس نے ان کو ہلا کر رکھ دیا ، اصل میں تو کائنات اسراع پذیر تھی۔ انھیں یہ جان کر کافی مایوسی ہوئی کہ کسی بھی قدر کے اومیگا کے عدد کو اس میں بٹھانا ناممکن تھا۔ صرف ایک ہی طریقہ تھا جس میں عدد کو صحیح طریقے سے بٹھایا جا سکتا تھا کہ ان میں لمبڈا کو دوبارہ سے شامل کیا جائے، یعنی کہ خالی خلاء کی وہ توانائی جس کو آئن سٹائن نے سب سے پہلے متعارف کروایا تھا۔ مزید براں یہ کہ انھیں معلوم ہوا کہ اومیگا ایک غیر معمولی اور بڑے لمبڈا سے چھپ گیا ہے جس کی وجہ سے کائنات ڈی سٹر کی بیان کردہ کائنات کے مطابق پھیل رہی ہے۔ دونوں جماعت الگ الگ اس نتیجے پر پہنچیں لیکن وہ اپنے نتائج کو چھپوانے میں تذبذب کا شکار تھیں کیونکہ تاریخی طور پر لمبڈا کی قدر کو صفر مانا جاتا تھا۔ کٹ پیک آبزرویٹری کے جارج جکوبی نے کہا ، " لمبڈا ہمیشہ سے غیر منطقی خیال رہا ہے، اور کوئی بھی پاگل جو یہ کہہ سکے کہ یہ صفر کے برابر نہیں ہے پاگل سمجھا جاتا تھا۔"
شمڈ یاد کرتا ہے ، " میں اپنا سر نفی میں ہلا رہا تھا، لیکن ہم نے ہر چیز جانچی۔۔۔۔۔ میں لوگوں کو بتانے میں تذبذب کا شکار تھا، کیونکہ مجھے پورا یقین تھا کہ وہ مجھے تاراج کر دیں گے۔" بہرحال جب دونوں جماعتوں نےاپنے نتائج کو ١٩٩٨ء میں عام کیا ، تو اعداد و شمار کے پہاڑوں کا ڈھیر جو انہوں نے لگایا تھا اس کو کوئی بھی آسانی کے ساتھ نظر انداز نہیں کر سکتا تھا۔ لمبڈا جو آئن سٹائن کا "گناہ عظیم" تھا جس کو جدید طبیعیات نے تقریباً فراموش کر دیا تھا ، وہ نوے سال بعد گمنامی کے اندھیرے میں سے نکل کر واپس لوٹ آیا تھا!
طبیعیات دان گنگ رہ گئے تھے۔ پرنسٹن کے انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ اسٹڈی کے ایڈورڈ ویٹن نے کہا ، " میں جب سے طبیعیات کی دنیا میں ہوں اس وقت سے لے کر اب تک کے یہ سب سے عجیب تجرباتی نتائج تھے۔" جب اومیگا کی قدر0.3 کو لمبڈا کی قدر 0.7 میں جمع کرتے ہیں تو ہمارے پاس 1 کی پوری قدر آ جاتی ہے ، جو افراط کے نظریہ کے اندازے کے عین مطابق ہے۔ جس طرح سے آ ڑا کٹا معمہ ہماری آنکھوں کے سامنے حل ہو کر بنتا ہے اسی طرح سے ماہرین تکوینیات اس کو افراط کے نظریہ کا کھویا ہوا حصّہ دیکھ رہے تھے۔ یہ خالی خلاء سے خود سے نکل کر سامنے آگیا تھا۔
ان نتائج کی تصدیق ڈبلیو میپ کے سیارچے نے بھی شاندار طور پر کردی۔ اس سے حاصل کردہ نتائج نے بتایا کہ لمبڈا کی نسبتی توانائی یا تاریک توانائی کائنات میں موجود تمام مادّے اور توانائی کا ٧٣ فیصد ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ ٹکڑا آڑے کٹے معمے کا غالب ٹکڑا بن گیا ہے۔