متوازی دنیائیں (Parallel Worlds) از میچیو کاکو

زہیر عبّاس

محفلین
ساتواں باب - 6
اسٹرنگ کی سواری



١٩٨٤ء میں اسٹرنگ نظرئیے کی مخالفت میں اچانک کمی آ گئی۔ کالٹک کے جان شیوارز اور اس وقت کوئین میریز کالج، لندن کے مائیک گرین نے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ اسٹرنگ نظریہ ان تمام عدم مطابقتوں سے مبرا ہے جس نے دوسرے تمام نظریات کو ختم کر دیا تھا۔ طبیعیات دان پہلے ہی جانتے تھے کہ اسٹرنگ کا نظریہ ریاضیاتی بے ضابطگیوں سے پہلے ہی سے آزاد تھا۔ لیکن شیوارز اور گرین نے اس بات کا بھی مظاہرہ کیا کہ یہ تمام بے قاعدگیوں سے بھی آزاد ہے۔ نتیجتاً، اسٹرنگ کا نظریہ ہر شئے کے نظرئیے کے لئے ایک ابھرتا ہوا امیدوار بن گیا اور آج یہ صرف اکیلا ہی ایسا امیدوار ہے۔

اچانک ہی سے ایک ایسا نظریہ جس کو مردہ تصوّر کر لیا گیا تھا اس میں یکدم سے دوبارہ روح پھونک دی گئی تھی۔ ایک فضول نظریئے سے اسٹرنگ نظریہ اچانک ہی ہر شئے کے نظرئیے میں تبدیل ہو گیا تھا۔ طبیعیات دانوں کے جم غفیر گھبراہٹ میں اسٹرنگ کے نظرئیے پر لکھے گئے مقالات کو پڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ پوری دنیا کی تحقیقاتی تجربہ گاہوں سے مقالات ابل پڑے تھے۔ وہ پرانے مضامین جو لائبریری میں مٹی اور گرد سے اٹے ہوئے تھے یکدم سے طبیعیات کی دنیا میں گرما گرم موضوع بن گئے تھے۔ متوازی کائناتوں کا تصوّر جو انتہائی غیر حقیقی سمجھا جاتا تھا اب طبیعیات کی دنیا کا محور بن گیا تھا۔ سینکڑوں کانفرنسیں اور دسیوں ہزار ہا مقالات اس موضوع کے لئے مختص کر دیے گئے تھے۔

(اکثر چیزیں اس وقت ہاتھ سے نکل جاتی تھیں جب کچھ طبیعیات دانوں کو نوبیل انعام کا بخار چڑھ جاتا تھا۔ اگست ١٩٩١ء ، ڈسکوور میگزین نے تو یہاں تک اپنے سرورق پر ایک سنسنی خیز عنوان بھی لگا دیا تھا :" نیا ہر شئے کا نظریہ: ایک طبیعیات دان کائنات کی آخری پہیلی سے نمٹتا ہے ۔" مضمون نے ایک طبیعیات دان کا فقرہ لکھا جو شہرت و قسمت کی معراج پر پہنچنے کے لئے بہت زیادہ بیتاب ہو رہا تھا۔: "میں کوئی شرمیلا نہیں ہوں۔ اگر یہ چل گیا تو اس میں ایک نوبیل انعام موجود ہوگا،" اس نے شیخی بگھاری ۔ جب اسٹرنگ کے نظریہ کو اس تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ یہ ابھی اپنے عہد طفلی میں ہے تو اس نے جوابی حملہ کیا، "اسٹرنگ کا سب سے بڑا مدعی کہہ رہا ہے کہ اسٹرنگ کو ثابت کرنے میں چار سو برس لگیں گے، لیکن میں ان سے کہوں گا کہ چپ ہو جاؤ۔")

خزانے کی کھوجنے کی تلاش شروع ہو گئی تھی۔


بالآخر "سپر اسٹرنگ کی سواری" کی مخالفت بھی ہونی شروع ہو گئی۔ ہارورڈ کے ایک طبیعیات دان نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اسٹرنگ نظریہ تو طبیعیات کی شاخ ہی نہیں ہے، بلکہ یہ تو مذہب بھی نہیں بلکہ صرف خالص ریاضیاتی یا فلسفہ ہے۔ ہارورڈ کے نوبیل انعام یافتہ شیلڈن گلاشوو اس مخالفت کی کمان سنبھالے ہوئے تھے۔ وہ سپر اسٹرنگ کی سواری کا تقابل اسٹار وار پروگرام سے کرتے ہیں(جس نے وسیع ذرائع کا استعمال تو کیا لیکن اس کی کبھی جانچ نہیں ہو سکی۔) گلاشوو کہتے ہیں کہ اصل میں وہ اس بات پر بہت خوش ہیں کہ کافی نوجوان طبیعیات دان اسٹرنگ کے نظریہ پر کام کر رہے ہیں ، کیونکہ، اس پر کام کرنے سے وہ اپنے بالوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ جب ان سے ویٹن کے اس تبصرے کے بارے میں پوچھا گیا کہ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ اسٹرنگ کا نظریہ اگلے پچاس برس تک طبیعیات کی دنیا پر غالب رہے بعینہ جیسے کوانٹم میکانیات نے پچھلے پچاس برسوں پر اپنا سکہ جمائے رکھا ہے۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ اسٹرنگ کا نظریہ طبیعیات کی دنیا میں ایسے ہی اپنا غلبہ قائم رکھے گا جیسے کہ کلازا کلین نظریہ ( جس کو وہ "خبطی "سمجھتا ہے ) نے پچھلے پچاس برس تک طبیعیات کی دنیا پر اثر ڈالا ، جو کہ ظاہر ہے کہ کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ اسٹرنگ کے طبیعیات دان ہارورڈ میں داخل نہ ہوں۔ لیکن جس طرح سے طبیعیات دانوں کی اگلی نسل اسٹرنگ کے نظریہ پر منتقل ہو رہی ہے اس سے نوبیل انعام یافتہ آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز کی طرح بن گئی ہے۔ (ہارورڈ نے اس کے بعد سے کافی نوجوان اسٹرنگ نظریوں کو بھرتی کیا ہے۔)​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ساتواں باب - 7
کائناتی موسیقی




ایک مرتبہ آئن سٹائن نے کہا تھا کہ اگر کوئی نظریہ ایک ایسی تصویر پیش کرنے میں ناکام رہے جس کو ایک بچہ نہ سمجھ سکے تو ممکنہ طور پر وہ فضول ہوگی۔ خوش قسمتی سے اسٹرنگ نظرئیے کے پیچھے ایک سادہ سی طبیعیاتی تصویر موجود ہے ایک ایسی تصویر جو موسیقی پر بنی ہے۔

اسٹرنگ نظرئیے کے مطابق اگر آپ کے پاس ایک فوق خرد بین موجود ہو اور آپ الیکٹران کے قلب میں جھانک سکیں ، تو آپ کو کوئی نقطے والا ذرّہ نہیں نظر آئے گا بلکہ آپ وہاں پر ایک مرتعش تار دیکھیں گے ۔ (تار حد درجے مہین ہوگا، اس کی لمبائی پلانک 10-33 سینٹی میٹر ہوگی۔ یعنی ایک پروٹون سے ایک ارب ارب گنا کم، لہٰذا تمام ذیلی جوہری ذرّات نقطہ جیسے لگتے ہوں گے۔ اگر ہم اس تار کو کھینچیں، تو اس کی تھرتھراہٹ بدل جائے گی؛ ہو سکتا ہے کہ الیکٹران تبدیل ہو کر نیوٹرینو میں بدل جائے۔ دوبارہ اس کو چھیڑیں اب کی بار ہو سکتا ہے کہ وہ کسی کوارک میں بدل جائے۔ اصل میں اگر آپ اس کو زور سے کھینچیں گے تو وہ کسی بھی جانے پہچانے ذیلی جوہری ذرّات میں بدل سکتا ہے۔ اس طرح سے اسٹرنگ کا نظریہ بغیر کسی مشقت کے اس بات کو بیان کرتا ہے کہ اتنے زیادہ ذیلی جوہری ذرّات کیوں موجود ہیں۔ اصل میں وہ سوائے " مختلف سروں" کے اور کچھ نہیں ہیں جن کو سپر اسٹرنگ میں بجایا جاتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے وائلن کی مثال لیں ، وائلن میں سر الف، بے اور ج تیز سریں بنیادی نہیں ہیں۔ تار کو مختلف طرح سے چھیڑنے پر ہم موسیقی کے تمام پیمانے کے سر حاصل کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر 'ب' چپٹا ' د' سر سے بنیادی طور پر بالکل بھی مختلف نہیں ہے۔ یہ سب تار کی سر سے کچھ زیادہ نہیں ہیں۔ اسی طرح سے الیکٹران اور کوارک بھی کوئی بنیادی چیز نہیں ہیں بلکہ یہ صرف ایک تار ہی ہیں۔ اصل میں کائنات میں موجود تمام ذیلی جوہری ذرّات صرف تار کے ارتعاش سے زیادہ کچھ اور نہیں ہیں۔ تاروں میں ہونے والی "ہم آہنگی" قوانین طبیعیات ہیں۔

اسٹرنگ ٹوٹتے اور جڑتے ہوئے آپس میں تعامل کرتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ تعاملات ہوتے ہیں جو ہم کسی جوہر میں موجود الیکٹران اور پروٹون کے درمیان ہوتا ہوا دیکھ سکتے ہیں ۔ اس طرح سے اسٹرنگ کے نظرئیے سے ہم تمام جوہری اور نیوکلیائی طبیعیات کے قوانین کو پیش کر سکتے ہیں۔ "سریں" جو اسٹرنگ کے نظرئیے کے ذریعہ لکھی جا سکتی ہیں وہ کیمیا کے قوانین کے برابر ہیں۔ کائنات کو اب اسٹرنگ کے وسیع سمفونی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

نہ صرف اسٹرنگ کا نظریہ کوانٹم نظریہ کے ذرّات کو کائنات کی موسیقی کی سروں میں بیان کرتا ہے بلکہ یہ آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت کو بھی بیان کرتا نظر آتا ہے۔ یعنی کہ اسٹرنگ کی سب سے پست تھرتھراہٹ، دو گھماؤ والے ذرّات جس کی کوئی کمیت نہیں ہے جس کو گریویٹون بھی کہتے ہیں ایک ذرّہ یا کشش ثقل کا کوانٹم۔ اگر ہم ان گریویٹون کے تعاملات کا حساب لگائیں، تو ہمیں بالکل درست طور پر آئن سٹائن کا پرانا نظریہ کوانٹم کی صورت میں مل جائے گا۔ جب اسٹرنگ حرکت کرتے ہوئے ٹوٹتے اور جڑتے ہیں تو وہ مکان و زمان پر کافی پابندیاں لاگو کر دیتے ہیں۔ جب ہم ان پابندیوں کا تجزیہ کرتے ہیں تو دوبارہ ہمیں آئن سٹائن کا پرانا نظریہ اضافیت مل جاتا ہے۔ پس اس طرح سے اسٹرنگ کا نظریہ بغیر کسی اضافی مشقت کے آئن سٹائن کے نظریہ کو صفائی کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ ایڈورڈ ویٹن نے کہا تھا کہ اگر آئن سٹائن کبھی اضافیت کو دریافت نہیں کرتا، تو اس کا نظریہ ہو سکتا کہ اسٹرنگ کے نظریہ کی ضمنی پیداوار کے طور پر حاصل ہو جاتا۔ عمومی اضافیت تو ایک طرح سے مفت میں حاصل ہو جاتی۔

اسٹرنگ نظریہ کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس کو موسیقی سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ موسیقی ایک ایسی تمثیل بیان کرتی ہے جس کے ذریعہ ہم کائنات کی قدرت کو ذیلی جوہری پیمانے اور کائناتی پیمانے دونوں پر سمجھ سکتے ہیں۔ جیسا کہ شہرہ آفاق سارنگی ساز یہودی مینوہن نے ایک مرتبہ لکھا تھا، "موسیقی انتشار سے ترتیب کو جنم دیتی ہے ، لے انتشار کو ہم آہنگ ہونے کے لئے مجبور کرتی ہے، اور ہم آہنگی، ناموافقت میں مطابقت پیدا کرتی ہے۔"

آئن سٹائن نے لکھا تھا کہ اس کا وحدتی میدانی نظریہ بالآخر اس کو "خدا کی حکمت کو سمجھنے " کا موقع دے گا۔ اگر اسٹرنگ کا نظریہ صحیح ہوا، تو ہم اب دیکھ سکتے ہیں کہ خدا کی حکمت کائناتی موسیقی ہے جو دس جہتی اضافی خلاء میں گونج رہی ہے۔ جیسا کہ گوٹ فرائیڈ لئبنیز نے ایک مرتبہ کہا تھا، "موسیقی لاشعوری روح کی ایک ایسی چھپی ہوئی ریاضیاتی مشق ہے جس کا یہ اندازہ لگا رہا ہے۔"

تاریخی طور پر، موسیقی اور سائنس کے درمیان اوّلین تعلق پانچویں صدی قبل مسیح میں اس وقت پیدا ہوا جب یونانی فیثاغورسیوں نے ہم آہنگی کے قوانین کو دریافت کیا تھا اور ان کو ریاضیاتی طور پر کم کر دیا تھا۔ انہیں نے اس بات کا پتا چلا لیا تھا کہ بربط کے کھینچے ہوئے تار سے نکلنے والی سر اس کی لمبائی کی موافقت سے ہوتی ہے۔ اگر بربط کے تار کی لمبائی کو دوگنا کر دیا جائے تو سر پورے آٹھویں درجے سے کم ہو جائے گی۔ اگر تار کی لمبائی کو دو تہائی کم کر دیا جائے گا تو تال میں ہونے والی تبدیلی پانچواں حصّہ ہوگی۔ پس اس طرح سے موسیقی کے قوانین اور ہم آہنگی کو بالکل صحت کے ساتھ اعداد کے درمیان موجود نسبت سے کم کیا جا سکتا ہے۔ بغیر کسی حیرت کے فیثاغورسیوں کا نعرہ تھا ، "ہر شئے اعداد" ہیں۔ وہ اپنی اس دریافت سے اس قدر خوش تھے کہ انہوں نے "ہم آہنگی کے قانون" کا اطلاق پوری کائنات پر کرنا شروع کر دیا۔ ان کی کوششیں مادّے کی زبردست پیچیدگی کے باعث ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ بہرحال ایک طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسٹرنگ نظرئیے کے ساتھ ہم فیثاغورسیوں کے خواب کو پورا کر سکتے ہیں۔

اس تاریخی ربط پر تبصرہ کرتے ہوئے جیمی جمیز نے ایک مرتبہ کہا تھا، " موسیقی اور سائنس ایک مرتبہ اس طرح سے بیان کئے گئے تھے کہ اگر کوئی یہ تجویز کرنے کی غلطی کرتا کہ ان دونوں کے درمیان کوئی لازمی تفاوت ہے تو اس کو جاہل گردانہ جاتا تھا، لیکن اب اگر کوئی اس طرح کی تجویز دے کہ ان دونوں میں کوئی قدر مشترک ہے تو اس کو ایک جماعت فلسطینی کہے گی تو دوسری ٹھرکی۔ اور جو ان دونوں کو ہر دل عزیز رکھنے والا ہو اس کی تو خیر نہیں ۔"​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ساتواں باب - 8

اضافی خلاء کے مسائل


لیکن اگر اضافی خلاء صرف خالص ریاضی کے علاوہ قدرتی طور پر بھی وجود رکھتی ہیں تو اسٹرنگ نظریاتیوں کو اسی مسئلے کا سامنا کرنا ہوگا جس نے تھیوڈر کلازا اور فیلکس کلین کو ١٩٢١ء میں پریشان کیا تھا جب انہوں نے پہلے پہل اضافی جہتوں کے نظریہ کو پیش کیا تھا یعنی کہ یہ اضافی جہتیں ہیں کہاں پر ؟

کچھ عرصے پہلے تک ایک گمنام ریاضی دان کلازا نے آئن سٹائن کو ایک خط لکھا جس میں اس نے آئن سٹائن کی مساوات کو پانچ جہتوں میں پیش کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ (ایک جہت وقت کی تھی اور چار جہتیں خلاء کی تھیں)ریاضیاتی طور پر یہ کوئی مسئلہ نہیں تھا، کیونکہ آئن سٹائن کی مساوات کو کسی بھی جہت میں لکھا جا سکتا ہے۔ لیکن خط میں ایک چونکا دینے والے مشاہدہ بھی موجود تھا۔ اگر کوئی ہاتھ سے چوتھی جہت کو الگ کر دے جو پانچویں جہت کی مساوات میں ہی ملفوف ہے، تو جادوئی طور پر آپ کو میکسویل کا روشنی کا نظریہ حاصل ہو جائے گا! بالفاظ دیگر میکسویل کا برقی مقناطیسیت کا نظریہ آئن سٹائن کی قوّت ثقل کی مساوات سے اس وقت نکل آتا ہے جب ہم اس میں صرف پانچویں جہت کا اضافہ کریں۔ ہرچند کہ ہم پانچویں جہت کو نہیں دیکھ سکتے، پانچویں جہت سے لہریں پیدا ہو سکتی ہیں ، جو روشنی کی موجوں کے مماثل ہوں گی! یہ ایک قابل اطمینان نتیجہ تھا، کیونکہ پچھلے ١٥٠ برس سے طبیعیات دانوں کی مختلف نسلیں میکسویل کی مشکل مساوات کو ازبر کر چکیں تھیں۔ اب یہ پیچیدہ مساوات بغیر مشقت کے سادے طور سے ایک تھرتھراہٹ کی صورت میں نمودار ہوئی تھی جس کو پانچویں جہت میں ڈھونڈا جا سکتا تھا۔

تصور کریں کہ ایک مچھلی ایک گدلے تالاب میں کنول کے پھول کے نیچے تیر رہی ہے اور خیال کرتی ہے کہ اس کی "کائنات" صرف دو رخی ہے ۔ ہماری سہ رخی دنیا سے ہو سکتا ہے کہ ان کی شناسائی نہ ہو۔ لیکن ایک راستہ ایسا ہے جس کے ذریعہ وہ تیسری جہت کا اندازہ لگا سکتی ہیں۔ اگر بارش ہوتی ہے تو وہ واضح طور پر دیکھ سکیں گی کہ لہریں تالاب کی سطح پر سفر کر رہی ہیں۔ اسی طرح سے، ہم بھی پانچویں جہت نہیں دیکھ سکتے لیکن اس پانچویں جہت میں موجود لہریں ہمیں روشنی کی صورت میں نظر آتی ہیں۔

(کلازا کا نظریہ خوبصورت اور عمیق تھا جس نے تشاکل پر سے پردہ اٹھایا تھا۔ بعد میں یہ معلوم ہوا کہ اگر ہم آئن سٹائن کے پرانے نظرئیے میں مزید جہتیں شامل کر دیں اور ان کو مرتعش کریں تب یہ اضافی جہتی تھرتھراہٹ کمزور اور مضبوط نیوکلیائی قوّتوں میں پائے جانے والے ڈبلیو اور زی بوسون اور گلوآن کو پیدا کرتی ہیں! اگر کلازا کا بیان کردہ پروگرام ٹھیک ہے تو کائنات اس سے کہیں زیادہ سادہ ہے جتنا کہ ہم پہلے سمجھتے تھے۔ صرف اضافی جہتوں میں تھرتھراہٹ پیدا کریں اور ان میں سے زیادہ تر قوّتیں پیدا ہو جائیں گی جن کی کائنات پر حکمرانی ہے۔)

ہرچند ان نتائج نے آئن سٹائن کو سکتے میں ڈال دیا تھا لیکن ان کا سچا ہونا ہی بہت اچھی بات تھی۔ برسوں پر محیط عرصے پر یہ بات سامنے آنے لگی کہ کلازا کا خیال بیکار تھا۔ سب سے پہلے تو نظریہ انتشار اور بے ضابطگیوں سے لبریز تھا جو ایک عام سی قوّت ثقل کا کوانٹم کا نظریہ تھا۔ دوسرے کافی پریشان کر دینے والی طبیعیاتی سوالات موجود تھے مثلاً ہم کیوں پانچویں جہت کو نہیں دیکھ سکتے؟ جب ہم آسمان میں تیر کو پھینکتے ہیں تو وہ ہمیں کسی اور جہت میں غائب ہوتا ہوا نہیں دکھائی دیتا۔ دھوئیں کا تصوّر کریں جو آہستگی کے ساتھ تمام ہوا میں سرایت کرتا ہے۔ کیونکہ ہوا کو ہم نے ابھی تک کسی اضافی جہت میں غائب ہوتے ہوئے نہیں دیکھا، لہٰذا طبیعیات دان سمجھ گئے کہ اگر اضافی جہتیں موجود بھی ہوئیں تو ان کو لازمی طور پر ایک جوہر سے بھی چھوٹا ہونا ہوگا۔ پچھلی صدی میں ، صوفی اور ریاضی دان اضافی جہتوں پر یقین رکھتے تھے لیکن طبیعیات دان اس سے سخت چڑتے تھے وجہ اس کی صاف ظاہر تھی کہ کسی نے بھی اضافی جہت کو نہیں دیکھا تھا۔

نظریہ کو باقی رکھنے کے لئے طبیعیات دانوں نے اس بات کی تجویز دی کہ یہ اضافی جہتیں اتنی چھوٹی ہیں کہ ان کو قدرتی طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ کیونکہ ہماری دنیا چار جہتی دنیا ہے لہٰذا اس کا مطلب ہوا کہ پانچویں جہت کو مڑ کر ایک ایسے دائرے میں موجود ہونے چاہئے جو جوہر سے بھی چھوٹی ہو اتنی چھوٹی کہ جس کو تجربے سے نہیں دیکھا جا سکے۔

اسٹرنگ نظرئیے کو بھی اس مسئلے کا سامنا کرنا ہوگا۔ ہمیں ان غیر ضروری اضافی جہتوں کو چھوٹی گیند میں لپیٹنا ہوگا ( ایک ایسا عمل جس کو کسنا کہتے ہیں)۔ اسٹرنگ کے نظرئیے کے مطابق، کائنات اصل میں دس جہتی تھی، جہاں پر تمام قوّتیں ایک تار کے ذریعہ یکجا تھیں۔ بہرحال دس جہتی اضافی خلاء غیر پائیدار تھی اور دس میں سے چھ جہتیں ایک مہین گیند میں مڑنے لگیں نتیجتاً صرف چار جہتیں ہی باقی بچیں جو بگ بینگ میں باہر کی جانب پھیلیں۔ ہم ان جہتوں کو اس لئے نہیں دیکھ سکتے کہ یہ جوہر سے بھی چھوٹی ہیں لہٰذا کوئی بھی چیز ان کے اندر نہیں جاسکتی۔ (مثال کے طور پر ایک باغ کی نالی اور ایک نلکی فاصلہ سے دیکھنے پر صرف یک جہتی ہی دکھائی دیں گے جن کو ان کی لمبائی کے لحاظ سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی ان کی قریب سے جانچ کرے گا تو اصل میں وہ دو جہتی سطح یہ سلنڈر کی طرح ہوں گی لیکن دوسری جہت مڑ کر ایسی ہو گئی ہو گی جس سے وہ دور دراز کے شاہد کو نظر نہیں آئے گی۔)​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ساتواں باب - 9
اسٹرنگز(تاریں ) ہی کیوں؟


ہرچند وحدتی میدانی نظریہ حاصل کرنے کی پرانی تمام کوششیں ناکامی سے دو چار ہوئی ہیں، اسٹرنگ نظریہ ابھی تک تمام مشکلات کو بخیر و خوبی پار کر چکا ہے۔ اصل میں اس کا کوئی حریف ہی نہیں ہے۔ دو ایسی وجوہات ہیں جو اس بات کو بیان کر سکتی ہیں کہ کیوں اسٹرنگ نظریہ اس جگہ کامیاب ہوتا ہے جہاں دوسرے نظرئیے ناکام ہو جاتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ نظریہ ایک مبسوط جسم (تار) پر انحصار کرتا ہے، یہ ان تمام انحراف کو نظرانداز کرتا ہے جس کا نقطے جیسے ذرّات شکار ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ نیوٹن کا مشاہدہ تھا ، نقطے والے ذرّے کے پاس پہنچنے پر آس پاس قوّت ثقل لامحدود ہو جائے گی۔ (نیوٹن کے مشہور زمانہ قانون معکوس مربع میں قوّت ثقل 1/r2 کے بڑھتی ہے ، لہٰذا اس طرح سے یہ اس وقت لامحدود ہو جائے گی جب ہم کسی نقطے والے ذرّے تک پہنچتے ہیں۔ یعنی جیسے ہی r زیرو ہوگا، ثقلی قوت یکدم سے 1/0 ہو جائے گی جو کہ لامحدود ہوگی۔)

کوانٹم کے نظرئیے میں بھی قوّت اس وقت لامحدود رہے گی جب ہم کسی نقطے جیسے ذرّے کے قریب پہنچیں گے۔ عشرے پر محیط عرصے میں غیر واضح اصولوں کا ایک سلسلہ فائن مین اور دوسروں نے ایجاد کر لیا تھا تاکہ وہ اس کے ساتھ دوسری قسم کے انحراف کو قالین کے اندر دبا دیں۔ لیکن کوانٹم قوّت ثقل کے نظرئیے میں فائن مین کی زنبیل میں موجود ترکیبیں اس قابل نہیں ہیں جو نظرئیے میں موجود تمام لا محدودیت کو ختم کر سکے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نقاطی ذرّات اس قدر لامحدود طور پر چھوٹے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی قوّت اور توانائی لامحدود ہے۔

لیکن جب ہم تار کا نظریہ احتیاط کے ساتھ جانچتے ہیں تو ہمیں دو قسم کے میکانزم ملتے ہیں جو اس قسم کے انتشار کو ختم کرتے ہیں۔ پہلا میکانزم تاروں کی مقامیات کی وجہ سے ہے؛ دوسرا اس کے تشاکل کی وجہ سے ہے جس کو فوق تشاکل کہتے ہیں۔

اسٹرنگ نظرئیے کی مقامیات نقطے والے ذرّات کی مقامیات سے مکمل طور پر الگ ہے، لہٰذا دونوں کے انحراف بھی کافی مختلف ہیں۔ (اگر ایسی ہی بات کی جائے، تو کیونکہ ان تاروں کی لمبائی محدود ہوتی ہے، لہٰذا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ طاقت اس وقت لامحدود نہیں ہوگی جب ہم اس کے پاس پہنچیں گے۔ تار کے قریب قوّت صرف 1/L2 بڑھے گی ، اس میں L تار کی لمبائی ہے جو پلانک فاصلے کے لحاظ سے 10-33 کی لمبائی ہے۔ یہ L لمبائی انحراف کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔) کیونکہ تار کو نقطے کی طرح کا ذرّہ نہیں ہوتا بلکہ اس کا ایک محدود حجم ہوتا ہے لہٰذا کوئی بھی اس بات کو بیان کر سکتا ہے کہ انحراف تاروں سے لتھڑے ہوئے ہیں اور اس طرح سے تمام طبیعیاتی مقداریں محدود ہو جاتی ہیں۔

ہرچند ایسا لگتا ہے کہ اسٹرنگ نظرئیے میں موجود انحراف لتھڑا ہوا ہے اور محدود ہے ، لیکن اس کو درست طور پر ریاضیاتی زبان میں بیان کرنا انتہائی مشکل ہے اور اسے صرف ترخیمی شرح تفاعل سے بیان کیا جا سکتا ہے ، جو ریاضی کی دنیا کا سب سے عجیب عمل ہے۔ اس کی تاریخ اتنی طلسماتی ہے کہ اس نے ہالی ووڈ کی فلموں میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ "اچھائی پیچھا کرے گی" ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان کی کہانی ہے جو کیمبرج کی گلیوں میں رہتا ہے ۔ یہ کردار میٹ ڈیمن نے نبھایا ہے جو فلم میں شاندار ریاضیاتی قابلیت کا حامل ہوتا ہے ۔ اپنے محلے کے کچھ بدمعاشوں سے ہاتھا پائی میں الجھنے سے پہلے وہ ایم آئی ٹی میں خلاصی کی نوکری کرتا ہے۔ ایم آئی ٹی کے پروفیسر اس وقت بھونچکا رہ جاتے ہیں جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ سڑک چھاپ اصل میں ریاضی کی خدا داد صلاحیتوں کا حامل ہے جو بہت ہی آسانی کے ساتھ ان ریاضیاتی مسائل کا جواب دے دیتا ہے جو بظاہر لاینحل دکھائی دیتے ہیں۔ اس بات کا احساس کرنے کے بعد کہ اس سڑک چھاپ نے خود سے ہی اعلیٰ ریاضی سیکھ لی ہے، ان میں سے ایک نے اس کو "اگلا رامانو جان " قرار دے دیا۔

اصل میں "اچھائی پیچھا کرے گی" سرینی واسارامانو جان کی زندگی سے ماخوذ تھی جو بیسویں صدی کے عظیم ریاضی دان تھا ۔ ایک ایسا آدمی جو آخری صدی کے شروع میں ہندوستانی شہر مدراس کے قریب غربت میں اور الگ تھلگ پلا بڑھا تھا۔ علیحدہ رہنے کے باوجود اس نے خود سے ہی یورپ کی انیسویں صدی کی ریاضی کو جان لیا تھا۔ اس کا مستقبل کسی سپرنووا کی طرح تھا، مختصر عرصے کے لئے آسمان کو اپنی ریاضیاتی چمک سے منور کر دیا تھا۔ بدقسمتی سے اس کا انتقال ١٩٢٠ء میں ٹی بی سے صرف ٣٧ برس کی عمر میں ہو گیا۔ میٹ ڈیمن کی طرح اس نے ریاضی کی مساوات ترخیمی شرح تفاعل کا خواب دیکھا تھا جس کی عجیب لیکن خوبصورت ریاضیاتی خصوصیات صرف چوبیس جہتوں میں تھیں۔ ریاضی دان اب بھی رامانو جان کی اس کتاب کو حل کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں جو اس کے مرنے کے بعد ملی تھی۔ رامانو جان کے کام کو دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ آٹھ جہتوں پر عام استعمال میں لیا جا سکتا ہے جو سیدھا ہی اسٹرنگ نظرئیے پر لاگو ہو سکتا ہے۔ طبیعیات دان نظرئیے کو بنانے کے لئے اس میں دو اضافی جہتیں شامل کرتے ہیں۔(مثال کے طور پر تقطیبی رنگین چشمے اس حقیقت کا استعمال کرتے ہیں کہ روشنی کی دو طبیعی تقطیب ہوتی ہیں؛ وہ الٹا سیدھا یا پھر اوپر نیچے مرتعش ہو سکتی ہے۔ لیکن روشنی کی میکسویل کی مساوات کا ریاضیاتی کلیہ صرف چار چیزوں سے ہی بیان کیا جا سکتا ہے۔ ان چار ارتعاش میں سے اصل میں دو تو بالکل ہی اضافی ہیں۔) جب ہم رامانو جان تفاعل میں مزید دو جہتوں کا اضافہ کرتے ہیں تو ریاضی کے جادوئی اعداد ١٠ اور ٢٦ بن جاتے ہیں جو اسٹرنگ نظرئیے کے جادوئی اعداد ہی ہیں۔ ایک طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ رمانو جان جنگ عظیم اوّل سے پہلے ہی اسٹرنگ نظرئیے پر کام کر رہا تھا!

ان ترخیمی شرح تفاعل کی شاندار خصوصیات اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ نظریہ کیوں دس جہتوں میں وجود رکھتا ہے۔ صرف ان ہی جہتوں میں وہ تمام انحراف جنہوں نے دوسرے نظریوں کو ناکامی سے دوچار کر دیا تھا ایسے غائب ہو جاتے ہیں جیسے کہ جادو ہو گیا ہو ۔ لیکن تاروں کی مقامیات بذات خود اتنی طاقتور نہیں ہے کہ تمام انحرافات کو ختم کر دے۔ نظرئیے میں باقی رہ جانے والے انحرافات اسٹرنگ نظرئیے کی دوسری خاصیت یعنی کہ اس کے تشاکل نے ختم کر دیئے ۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ساتواں باب - 10
فوق تشاکل



اسٹرنگ میں سائنس کی دنیا میں جاننے والے سب سے زیادہ بڑے تشاکل ہیں۔ چوتھے باب میں افراط اور معیاری نمونے کو بیان کرتے ہوئے ہم نے دیکھا تھا کہ تشاکل ہمیں وہ خوبصورت طریقہ دیتا ہے جس میں ہم ذیلی جوہری ذرّات کو خوبصورت اور دلنشیں انداز میں ترتیب دے سکتے ہیں۔ تین قسم کے کوارک کو ہم تشاکل کے حساب سے SU(3) میں ترتیب دے سکتے ہیں، جو آپس میں تینوں کوارک کو ادل بدل سکتے ہیں۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ عظیم وحدتی نظرئیے میں ، پانچ اقسام کے کوارک اور لیپٹون تشاکل SU(5)کے مطابق ترتیب میں رکھے جا سکتے ہیں۔

اسٹرنگ نظرئیے میں یہ تشاکل نظرئیے میں باقی بچ جانے والے انحرافات اور بے ضابطگیوں کو زائل کر دیتے ہیں۔ کیونکہ تشاکل ان خوبصورت اور طاقتور اوزاروں میں سے ہیں جن کو ہم استعمال کر سکتے ہیں ، کوئی بھی اس بات کی امید کر سکتا ہے کہ کائنات کا نظریہ لازمی طور پر اب تک سائنس کی دنیا میں جانے والا سب سے نفیس اور طاقتور تشاکل رکھتا ہو گا۔ منطقی طور پر تشاکل ایسا پسند کیا جانا چاہئے جو نہ صرف کوارک بلکہ قدرت میں پائے جانے والے تمام ذرّات کو آپس میں ادل بدل سکے یعنی مساوات میں اس وقت کوئی تبدیلی نہ ہو جب ہم ذرّات کو مساوات میں آگے پیچھے کریں۔ یہ صحیح طور پر سپر اسٹرنگ کے تشاکل کو بیان کرتی ہے جس کو ہم فوق تشاکل کہتے ہیں۔ یہ صرف تشاکل ہی ہے جو طبیعیات کی دنیا میں جاننے والے تمام ذیلی جوہری ذرّات کو آپس میں ایک دوسرے سے ادل بدل کرتا ہے۔ اس طرح سے یہ اسے ایک مثالی امیدوار اس تشاکل کا بنا دیتا ہے جو کائنات کے تمام ذرّات کو ایک واحد، نفیس، اور وحدتی نظریہ میں سمو دیتا ہے۔

اگر ہم کائنات کی طاقتوں اور ذرّات پر نظر ڈالیں، تو ان میں سے سب دو جماعتوں سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ ایک فرمیون اور دوسرا بوسون ۔ ذرّات کے ان جماعتوں سے تعلق کا انحصار ان کے گھماؤ پر ہوتا ہے۔ وہ ایک ننھے لٹو کی طرح کا برتاؤ کرتے ہیں جو مختلف شرح سے گھوم سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر فوٹون روشنی کا ایک ذرّہ جو برقی مقناطیسی قوّت کے وسط کا ذرّہ بھی ہے اس کا گھماؤ ایک ہوتا ہے۔ کمزور اور مضبوط نیوکلیائی قوّتوں کا ربط ڈبلیو بوسون اور گلوآن سے ہوتا ہے جن کا گھماؤ بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ گریویٹون جو قوّت ثقل کا ذرّہ ہوتا ہے اس کا گھماؤ دو ہوتا ہے۔ عدد صحیح والے گھماؤ کے حامل تمام ذرّات بوسون کہلاتے ہیں۔ اسی طرح سے مادّے کے وہ ذرّات ایسے ذیلی جوہری ذرّات سے بیان کئے جاتے ہیں جن کا گھماؤ نصف عدد صحیح ہوتا ہے جیسا کہ 1/2, 3/2,5/2 وغیرہ وغیرہ۔( نصف عدد صحیح گھماؤ والے ذرّات فرمیون کہلاتے ہیں اور اس میں الیکٹران، نیوٹران اور کوارک شامل ہیں۔) لہٰذا فوق تشاکل نفاست کے ساتھ بوسون اور فرمیون میں اور قوّت اور مادّے میں موجود دوغلے پن کو بیان کرتا ہے۔

فوق تشاکل نظرئیے میں تمام ذیلی ذرّات میں ایک ساتھی ہوتا ہے ۔ ہر فرمیون کے ساتھ بوسون ہوتا ہے۔ ہرچند کہ ہم نے یہ فوق تشاکل ساتھیوں کو قدرتی طور پر نہیں دیکھا، طبیعیات دانوں نے الیکٹران کے ساتھی کا نام "سلیکٹران" رکھ دیا ہے جس کا گھماؤ صفر ہے۔ (طبیعیات دان کسی ذرّے کے فوق ساتھی کو بیان کرنے کے لئے اس کے نام کے آگے ایس لگا دیتے ہیں۔) کمزور تعاملات میں وہ ذرّات شامل ہیں جن کو لیپٹون کہتے ہیں؛ ان کے فوق ساتھی سلپٹون کہلاتے ہیں۔ اسی طرح سے، کوارک کے ساتھی اسکوارک جن کا گھماؤ صفر ہوتا ہے کہلاتے ہیں۔ عام طور سے معلوم ذرّات کے ساتھی (کوارک، لیپٹون، گریویٹون، فوٹون وغیرہ) اسپارٹیکل یا فوق ذرّات کہلاتے ہیں۔ ان ذرّات کو ابھی ہمارے جوہری تصادم گروں میں دریافت کیا جانا باقی ہے۔ (ان کے اب تک دریافت نہ کئے جانے کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہمارے اسراع گر اتنے طاقتور نہیں ہیں کہ ان کو پیدا کر سکیں۔)

چونکہ تمام ذیلی جوہری ذرّات یا تو فرمیون ہوتے ہیں یا بوسون، لہٰذا ایک فوق تشاکل نظرئیے میں یہ قابلیت ہے کہ تمام معلوم ذیلی جوہری ذرّات کو ایک سادے سے تشاکل میں جمع کر دے۔ اب ہمارے پاس اتنا بڑا تشاکل ہے جس میں ہم پوری کائنات کو شامل کر سکتے ہیں۔

برف کے گولے کے بارے میں سوچیں۔ برف کے گولے سے نکلنے والے ہر چھ کانٹے ایک ذیلی جوہری ذرّے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جس میں ہر دوسرا کانٹا بوسون ہے جبکہ اس کے ساتھ دوسرا کانٹا فرمیون ہے۔ اس فوق برفیلے گولے کی خوبصورتی یہ ہے کہ آپ اس کو کہیں بھی گھمائیں یہ ایک جیسا ہی نظر آئے گا۔ اس طرح سے فوق برفیلا گولہ تمام ذرّات اور ان کے اسپارٹیکل کو ایک وحدت میں پرو دیتا ہے۔ لہٰذا اگر ہمیں ایک قیاسی وحدتی میدانی نظریہ صرف چھ ذرّات کے ساتھ بنانا ہو، تو اس کا قدرتی امیدوار فوق برفیلا گولہ ہوگا۔

فوق تشاکل لامحدود باقی بچے ہوئے ذرّات کو ختم کرنے میں بھی مدد کرتا ہے جو دوسرے نظریات کو ختم کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ ہم نے پہلے بیان کیا تھا کہ زیادہ تر انحرافات اسٹرنگ کی مقامیات کی وجہ سے ختم ہو گئے ہیں یعنی کیونکہ اسٹرنگ کی محدود لمبائی ہوتی ہے، لہٰذا قوّت اس قدر بلند نہیں ہوتی کہ اس کے قریب پہنچنے پر وہ لامحدود ہو جائے۔ جب ہم باقی انحرافات کی جانچ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بوسون اور فرمیون کے تعاملات سے دو قسمیں نکلتی ہیں۔ بہرحال یہ دونوں ہمیشہ مخالف بار کے ساتھ نمودار ہوتی ہیں۔ اس طرح سے بوسون بالکل درستگی کے ساتھ فرمیون کو زائل کر دیتے ہیں! بالفاظ دیگر کیونکہ فرمیون اور بوسون کا حصّہ ہمیشہ ایک دوسرے کی مخالفت رکھنے والے بار سے ظاہر ہوتا ہے، نظرئیے کے باقی لامحدود بچنے والے ذرّے بھی ایک دوسرے کو زائل کر دیں گے۔ لہٰذا فوق تشاکل لیپا پوتی سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے؛ نہ صرف یہ جمالیاتی دلفریب تشاکل ہے کہ اس نے قدرت میں پائے جانے والے تمام ذرّات کو ہم آہنگ کر دیا ہے، بلکہ یہ اپنی روح میں اسٹرنگ نظریہ کی بے قاعدگیوں کو بھی زائل کر دیتا ہے۔

ایک چکنے راکٹ کی صورت گری کی تشبیہ کو دوبارہ سے یاد کریں، جس میں پروں میں ہونے والی تھرتھراہٹ بڑھتے بڑھتے پروں کو پاش پاش کر دیتی ہے۔ اس کا ایک حل تو تشاکل کی طاقت کا استعمال ہے تاکہ ایک پر میں ہونے والی تھرتھراہٹ دوسرے میں ہونے والی تھرتھراہٹ کو زائل کردے۔ جب ایک پر گھڑیال کی ساعت وار صورت میں تھرتھرائے گا، تو دوسرا ضد ساعت وار تھرتھرا کر پہلی ارتعاش کو زائل کر دے گا۔ لہٰذا راکٹ بنانے میں استعمال ہونے والی تشاکل صرف مصنوعی ہونے کے باوجود بھی فن کا ایک شاہکار ہوگی جس کے استعمال سے پروں میں ہونے والے ارتعاش کو زائل کرکے ان میں توازن پیدا کیا جائے گا۔ اسی طرح سے فوق تشاکل فرمیون اور بوسون کی صورت میں ایک دوسرے کے انحرافات کو زائل کرتے ہیں۔

(فوق تشاکل اصل میں اس پریشان کن تیکنیکی مسائل کے سلسلے کو بھی حل کر دیتا ہے جو عظیم وحدتی نظریہ کے لئے مہلک ہوتی ہیں۔ عظیم وحدتی نظرئیے میں موجود پیچیدہ ریاضیاتی انحرافات کو ختم ہونے کے لئے فوق تشاکل کی ضرورت ہے۔)

ہرچند کہ فوق تشاکل ایک شاندار تصوّر پیش کرتا ہے ، سر دست کوئی بھی تجرباتی ثبوت ایسا دستیاب نہیں ہے جو اس کو ثابت کر سکے۔ اس کی سادی وجہ یہ ہے کہ شناسا الیکٹران اور پروٹون کے فوق ساتھی اتنے زیادہ ضخیم ہوتے ہیں کہ دور حاضر کے ذرّاتی اسراع گروں میں ان کو بنانا مشکل ہے۔ بہرحال ایک ثبوت کا ایسا خوش گمان حصّہ موجود ہے جو فوق تشاکل کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ اب ہم جان چکے ہیں کہ کوانٹم کی تین قوّتوں کی طاقت ایک دوسرے سے کافی مختلف ہے۔ اصل میں کم توانائیوں پر مضبوط توانائی کمزور توانائی سے تیس گنا زیادہ طاقتور ہوتی ہے جبکہ برقی مقناطیسی قوّت سے سو گنا زیادہ۔ بہرحال ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا۔ بگ بینگ کی ساعت کے وقت، ہمارا اندازہ ہے کہ تمام تینوں قوّتیں ، طاقت میں برابر تھیں۔ اگر ہم الٹا چلیں، طبیعیات دان حساب لگا سکتے ہیں کہ وقت کی ابتدا میں ان تینوں کی طاقت کیا ہوگی۔ معیاری نمونہ کی جانچ کرنے کے بعد طبیعیات دانوں کو معلوم ہوا کہ بگ بینگ کے وقت تینوں قوّتیں ایک نقطہ پر مرتکز تھیں۔ لیکن وہ درست طور پر ایک جیسی نہیں تھیں۔ جب ہم اس میں فوق تشاکل کو ڈالتے ہیں تو تینوں قوّتیں بے عیب طور پر نظر آتی ہیں اور قوّت میں بھی برابر ہوتی ہیں بالکل ایسے ہی جیسا کہ وحدتی میدانی نظریہ پیش کرتا ہے۔ ہرچند یہ فوق تشاکل کا براہ راست ثبوت تو نہیں ہے ، پھر بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ کم از کم فوق تشاکل معلوم طبیعیات سے میل کھاتی ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ساتواں باب - 11
معیاری نمونے کا استنباط



اگرچہ فوق تشاکل کے کوئی حسب ضابطہ پیرامیٹر نہیں ہیں، اسٹرنگ نظریہ وہ حل پیش کرتا ہے جو حیرت انگیز طور پر معیاری نمونے کے قریب ہیں۔ ان تمام رنگا رنگ عجیب ذیلی جوہری ذرّات کے مجموعہ اور انیس پیرامیٹر (مثلاً ذرّات کی کمیت اور ان کے جفتی قوّت) کے ساتھ۔ مزید براں ، معیاری نمونے میں تین ایک جیسے اور اضافی نقول تمام کوارک اور لیپٹون کی موجود ہیں جو بالکل ہی غیر ضروری ہیں۔ خوش قسمتی سے اسٹرنگ نظریہ معیاری نمونے کی کافی مقداری خصوصیات کو بغیر کسی مشقت کے بیان کر سکتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ عدم سے کسی چیز کو حاصل کر لیں۔ ١٩٨٤ءمیں یونیورسٹی آف ٹیکساس کے فلپ کنڈلاس ، یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، سانتا باربرا کے گیری ہوروویٹز اور اینڈریو اسٹرومنگر اور ایڈورڈ ویٹن نے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ اگر آپ اسٹرنگ نظرئیے کی دس جہتوں میں سے چھ کو موڑ دیں اور اس کے باوجود بھی باقی بچ جانے والی چار جہتوں میں فوق تشاکل کو برقرار رکھی، تو ننھی چھ جہتی دنیا کو ریاضیاتی زبان میں کثیر الجہت کیلیبی یو سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ کیلیبی یو خلاء سے چند سادہ مفروضے لے کر انہوں نے اس بات کو ثابت کیا کہ اسٹرنگ کو توڑ کر ایک ایسے نظریہ میں بیان کیا جا سکتا ہے جو حیرت انگیز طور پر معیاری نمونے سے قریب تر ہے۔

اس طرح سے اسٹرنگ نظرئیے نے ہمیں اس سوال کا سادہ سا جواب دے دیا کہ آیا کیوں معیاری نمونے میں تین اضافی نسلیں موجود ہیں۔ اسٹرنگ کے نظرئیے میں نسلوں کی تعدد یا کوارک کے نمونوں میں فالتو چیزیں ان "شگافوں" کے اعداد کی نسبت رکھتے ہیں جو ہمیں کثیر الجہت کیلیبی یو میں ملتے ہیں۔(مثال کے طور پر ایک ڈونٹ، ایک اندرونی نلکی اور ایک کافی کے پیالے کی سطح پر صرف ایک ہی سوراخ ہوتا ہے۔ عینک کے عدسوں میں دو سوراخ ہوتے ہیں۔ کیلیبی یو سطح پر اپنی مرضی کے سوراخ ہو سکتے ہیں ۔) لہٰذا صرف کسی کثیر الجہت کیلیبی یو کو پسند کرکے جس میں کافی سارے شگاف ہوں ، ہم معیاری نمونے کو بنا سکتے ہیں جس میں فالتو کوارک کی مختلف نسلیں ہو سکتی ہیں۔ (ہم کیلیبی یو خلاء کو کبھی نہیں دیکھ سکتے کیونکہ وہ بہت ہی چھوٹی ہوتی ہے، لہٰذا ہم یہ بھی نہیں دیکھ سکتے کہ اس خلاء میں ڈونٹ کی شکل کے شگاف ہوتے ہیں۔) گزرے برسوں کے دوران طبیعیات دانوں کی جماعتیں جب انتہائی جفا کشی کے ساتھ تمام ممکنہ کیلیبی یو خلاء کو ترتیب دے رہے تھے اس وقت انھیں اس بات کا اندازہ ہوا کہ چھ جہتوں کی مقامیات ہماری چار جہتوں کی کائنات میں موجود کوارک اور لیپٹون کا تعین کرتے ہیں۔

ایم نظریہ​


اسٹرنگ نظریہ کے گرد موجود سنسنی ١٩٨٤ء میں دوبارہ ابھری لیکن زیادہ دیر تک جاری نہیں رہ سکی۔ ١٩٩٠ء کی دہائی کے وسط میں سپر اسٹرنگ کی سواری طبیعیات دانوں کی دلچسپی کو بتدریج کھو رہی تھی۔ نظرئیے میں موجود آسان مسائل سے چھٹکارا حاصل ہو گیا تھا اب صرف مشکل مسائل ہی باقی بچے تھے۔ ایک مسئلہ یہ تھا کہ اسٹرنگ نظریہ کے ارب ہا حل دریافت کئے جا رہے تھے۔ عمل بستگی یا مکان و زمان کو مختلف طریقے سے موڑ کر اسٹرنگ کے حل کو صرف چار جہتوں کے بجائے کسی بھی جہت میں لکھا جا سکتا ہے۔ ارب ہا اسٹرنگ کے حل میں سے ہر ایک ریاضیاتی طور پر خود کفیل کائنات کے مطابق ہو سکتا ہے۔

طبیعیات دان اچانک ہی اسٹرنگ نظرئیے کے حل میں ڈوبنے لگے۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر کائناتیں ہماری کائنات جیسی لگتی ہیں۔ کیلیبی یو خلاء کے مناسب چناؤ کے ساتھ یہ کافی آسان ہے کہ معیاری نمونے کے خام خواص کو اس کے عجیب مجموعہ کوارک اور لیپٹون بلکہ پر تجسس فالتو نقول کو معیاری نمونے کی نسبت آسانی سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال یہ بہت ہی مشکل ہے ( اور اب تک ایسا ہی ہے ) کہ اس کے ذریعہ معیاری نمونے کو اس کے انیس پیرامیٹر کی مخصوص مقداروں کے ساتھ اور تین فالتو نسلوں کے ساتھ ہو بہو بیان کیا جا سکے۔ (یہ پریشان کر دینے والے اسٹرنگ حل کی تعداد کو ان طبیعیات دانوں نے خوش آمدید کہا ہے جو کثیر کائناتوں کے تصوّر پر یقین رکھتے ہیں۔ کیونکہ اس میں سے ہر ایک حل ایک خود کفیل متوازی کائنات کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن یہ بہت ہی حوصلہ شکن بات ہے کہ ہمارے طبیعیات دانوں کو اپنی کائنات ان کثیر کائناتوں کے جنگل میں نہیں مل رہی ہے۔)

اس کے مشکل ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمیں فوق تشاکل کو توڑنا ہوگا، کیونکہ ہم فوق تشاکل کو اپنی کم توانائی والی دنیا میں نہیں دیکھتے۔ مثلاً قدرتی طور پر سلیکٹران یعنی کہ الیکٹران کے فوق ساتھی نظر نہیں آتے۔ اگر فوق تشاکل کو توڑا نہ جائے تو ہر ذرّے کی کمیت اس کے فوق ذرّے کے برابر ہوگی۔ طبیعیات دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ فوق تشاکل ٹوٹ گیا ہے ان نتائج کے ساتھ جس میں فوق ذرّات کی کمیتیں بہت زیادہ ہیں اس سے بھی زیادہ جو ہمارے ذرّاتی اسراع گر پیدا کر سکتے ہیں ۔ لیکن سر دست ابھی تک کوئی بھی فوق تشاکل کو توڑنے کے لئے کسی قابل قدر طریقے کو پیش نہیں کر سکا ہے۔

کاولی انسٹیٹیوٹ فار تھیوریٹیکل فزکس ، سانتا باربرا کے ڈیوڈ گروس تبصرہ کرتے ہیں کہ اسٹرنگ نظرئیے کے تین مکانی جہتوں میں کروڑ ہا کروڑ حل موجود ہیں، جو بہت زیادہ ہیں کیونکہ کوئی بھی ایسا طریقہ موجود نہیں ہے جس میں ہم ان حل میں سے کوئی مناسب حل کو چن سکیں۔

اس کے علاوہ بھی دوسرے پریشان کر دینے والے سوالات اپنی جگہ موجود ہیں ۔ ایک سب سے پریشان کن امر یہ ہے کہ اسٹرنگ کے پانچ خود مختار نظریات موجود ہیں۔ اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ کائنات پانچ مختلف وحدتی نظریات کو برداشت کرتی ہوگی۔ آئن سٹائن سمجھتا تھا کہ کائنات کو تخلیق کرتے وقت خدا کے پاس زیادہ چناؤ کے موقع نہیں تھے، تو پھر ایسا کیوں کہ ہے کہ خدا نے پانچ کو تخلیق کیا؟

اصل نظریہ کی بنیاد وینزیانو کے کلیہ پر رکھی ہوئی ہے جس کو سپر اسٹرنگ نظریہ قسم اوّل کہا جاتا ہے۔ قسم اوّل نظریہ کی بنیاد دونوں قسم کے تاروں یعنی کہ کھلے ہوئے تاروں ( تار جن کے دو کونے ہوتے ہیں ) اور بند تاروں (دائروی تار) پر ہے۔ یہ وہ نظریہ ہے جس پر سب سے زیادہ تحقیق ١٩٧٠ء کی دہائی میں ہوئی ہے۔ (اسٹرنگ میدانی نظرئیے کا استعمال کرتے ہوئے، کیکاوا اور میں اس قابل ہو گئے تھے قسم اوّل کے تعاملات کا ایک مکمل سیٹ بنا سکیں۔ ہم نے اس بات کا مظاہرہ بھی کیا کہ اسٹرنگ کی قسم اوّل کو پانچ قسم کے تعاملات کی ضرورت ہوتی ہے؛ بند تاروں ( دائروی تاروں)کے لئے ہم نے بتایا کہ صرف ایک ہی تعامل کی شرط ضروری ہے۔)

کیکاوا اور میں نے اس بات کا بھی مظاہرہ کیا کہ ممکنہ طور پر خود کفیل نظریات کو صرف ایک بند تار سے بھی بنایا جا سکتا ہے ( جو ایک حلقے کی طرح کے ہوں گے )۔ آج اس کو ہم قسم دوم کی اسٹرنگ نظریات کے نام سے جانتے ہیں جہاں تاروں کے تعاملات کو ایک دائروی تار میں چبھا کر دو چھوٹے تاروں سے کروایا جاتا ہے۔ (جو خلیہ کی خطیت کے مشابہ ہوتا ہے )۔

سب سے حقیقی اسٹرنگ نظریہ دگر جفتی اسٹرنگ کہلاتا ہے ، جس کی تشکیل پرنسٹن گروپ نے کی ہے (اس گروپ میں ڈیوڈ گروس، ایمل مارٹنیک، ریان روہم اور جیفری ہاروے شامل تھے ) دگر جفتی اسٹرنگ متاشکل جماعت جس کو(E(8).E(8کہتے ہیں یہ اس سے بھی مطابقت رکھ سکتی ہے ۔ (E(8).E(8یا (O(32 اتنے بڑے ہیں کہ عظیم وحدتی نظریہ کو نگل سکتے ہیں۔ دگر جفتی نظرئیے کی بنیاد مکمل طور پر بند تاروں پر رکھی ہوئی ہے۔ ١٩٨٠ء اور ١٩٩٠ء کی دہائی میں جب سائنس دان سپر اسٹرنگ کی بات کرتے تھے تو اصل میں وہ دگر جفتی اسٹرنگ کی جانب اشارہ کر رہے ہوتے تھے کیونکہ اس میں اتنی قابلیت تھی کہ اس کے ذریعہ سے کوئی بھی معیاری نمونہ اور عظیم وحدتی نظرئیے کی جانچ کر سکتا تھا۔ مثال کے طور پر متشاکل جماعت (E(8).E(8کو (E(8) میں ، (E(6 میں توڑا جا سکتا ہے جو اتنی بڑی ہوتی ہیں کہ اس میں معیاری نمونے کے تشاکل (SU(3).SU(2).U(1 بھی شامل ہوتے ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ساتواں باب - 12
فوق قوّت ثقل کا راز




پانچ سپر اسٹرنگ نظریات کے علاوہ ایک اور تنگ کرنے والا سوال بھی موجود تھا جس کو اسٹرنگ نظریئے کو حل کرنے کے چکر میں فراموش کر دیا گیا تھا۔ ١٩٧٦ء تین طبیعیات دان پیٹر وین نیو وین ہوازن ، سرگیو فیرارا اور ڈینیل فریڈ مین جو اس وقت اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیو یارک ، اسٹونی بروک میں کام کرتے تھے، دریافت کیا کہ آئن سٹائن کی اصل قوّت ثقل کا نظریہ اس وقت فوق متشاکل بن جاتا ہے جب اس میں صرف ایک میدان کا اضافہ کیا جائے یعنی کہ ایک فوق کے ساتھ اصل قوّت ثقل کے میدان کا (جس کو گریوٹینو کہتے ہیں، جس کا مطلب "چھوٹے گریویٹون " ہوتے ہیں اور ان کا گھماؤ 3/2 ہوتا ہے۔) یہ نیا نظریہ فوق قوّت ثقل کہلاتا ہے اور اس کی بنیاد تاروں کے بجائے نقاط والے ذرّات پر رکھی ہے۔ سپر اسٹرنگ کے برعکس جس میں لامحدود سروں اور گمگ کے سلسلے ہوتے ہیں، فوق قوّت ثقل میں دو ذرّات ہوتے ہیں۔ ١٩٧٨ء اکولی نورمل سپیریرے کے یوجین کریمر، جوئیل شیراک اور برنارڈ جولیا نے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ فوق قوّت ثقل سب سے زیادہ عمومی طور پر گیارہ جہتوں میں لکھی جا سکتی ہے۔( اگر ہم فوق قوّت ثقل کو بارہ یا تیرہ جہتوں میں لکھیں گے تو ریاضیاتی طور پر بے قاعدگیاں نمودار ہوں گی۔) ١٩٧٠ء کے عشرے کے اواخر اور ١٩٨٠ء کی دہائی کے شروع میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ فوق قوّت ثقل شاید افسانوی وحدتی میدانی نظریہ کو حقیقت بنا دے گا۔ اس نظریئے نے تو اسٹیفن ہاکنگ کو اس قدر متاثر کر دیا تھا کہ اس نے "نظری طبیعیات کا خاتمہ" کے عنوان سے ایک افتتاحی لیکچر اس وقت دیا تھا جب اس کو کیمبرج یونیورسٹی میں ریاضی کی لوکیشین نشست ملی تھی، یہ وہی نشست ہے جو ایک زمانے میں نیوٹن کے پاس ہوتی تھی۔ لیکن جلد ہے فوق قوّت ثقل کا نظریہ بھی انہی مسائل کا شکار ہو گیا جن کا دوسروں نے سامنا کیا تھا۔ ہرچند اس میں عام میدانی نظریئے کے برخلاف کم لامحدود چیزیں تھیں لیکن حتمی تجزیے کے بعد معلوم ہوا کہ فوق قوّت ثقل محدود نہیں ہے اور یہ بھی ممکنہ طور پر بے ضابطگیوں سے لبریز ہے۔ تمام دوسرے میدانی نظریوں کی طرح (بجز اسٹرنگ نظریئے کے) اس نے بھی سائنس دانوں کو چکمہ دے دیا تھا۔

دوسرا فوق تشاکل نظریہ جو گیارہ جہتوں میں قائم رہ سکتا ہے وہ ہے فوق جھلی نظریہ۔ ہرچند تار کی صرف ایک ہی جہت ہوتی ہے جو اس کی لمبائی کو بیان کرتی ہے، فوق جھلی کی دو یا اس سے زیادہ جہتیں ہو سکتیں ہیں کیونکہ یہ سطح کو ظاہر کرتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دو قسم کی جھلیاں (دو جھلی اور پنچ جھلی) بھی گیارہ جہتوں میں خود مختار طور پر رہ سکتی ہیں۔

بہرحال فوق جھلی کے بھی اپنے مسائل ہیں؛ ان پر کام کرنا بہت ہی مشکل سمجھا جاتا ہے، اور اس کے کوانٹم کے نظریات اصل میں تو پھیل جاتے ہیں۔ بربط کے تار تو اتنے سادے ہیں کہ یونانی فیثا غورسیوں نے آج سے دو ہزار برس پہلے ان کے قانون ہم آہنگی کو دریافت کرلیا تھا، جھلی اس قدر مشکل ہے کہ ابھی تک کسی نے بھی قابل ذکر طور پر کوئی موسیقی کا نظریہ اس کی بنیاد پر نہیں بنایا۔ مزید یہ جھلیاں بھی غیر پائیدار ہیں اور بالآخر انحطاط پذیر ہو کر نقاط والے ذرّات کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ لہٰذا ١٩٩٠ء کے عشرے کے وسط تک طبیعیات دانوں کے پاس کافی پراسرار چیزیں موجود تھیں۔ دس جہتوں میں کیوں اسٹرنگ کے پانچ نظریئے کام کرتے ہیں؟ اور گیارہ جہتوں میں کیوں صرف دو اسٹرنگ نظریئے، فوق قوّت ثقل اور فوق جھلیاں کام کرتی ہیں؟ مزید براں ان سب میں فوق تشاکل موجود ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ساتواں باب - 13
گیارہویں جہت



١٩٩٤ء ایک دھماکہ کیا گیا۔ ایک اور ایسی دریافت ہوئی جس نے پورا زاویہ نگاہ ہو ہی بدل دیا۔ کیمبرج یونیورسٹی کے ایڈورڈ ویٹن اور پال ٹاؤن سینڈ نے ریاضیاتی طور پر دریافت کی کہ دس جہتی اسٹرنگ نظریہ اصل میں ایک نامعلوم مبدا کی پراسرار اور اضافی گیارہویں جہت کے نظریہ کے مشابہ ہے ۔ مثال کے طور پر ویٹن نے بتایا کہ اگر ہم جھلی والے نظریئے کو لے کر اس کی ایک جہت کو موڑ دیں تو یہ دس جہتی قسم دوم الف کی اسٹرنگ نظریہ بن جائے گی!

اس کے بعد جلد ہی اس بات کو بھی معلوم کرلیا گیا کہ تمام کی تمام پانچوں اسٹرنگ کے نظریئے اس طرح کا برتاؤ کرتے ہیں یعنی کہ یہ سب کے سب الگ الگ گیارہویں جہت کے مشابہ ہیں۔ کیونکہ مختلف اقسام کی جھلیاں گیارہویں جہت میں ہو سکتی ہیں، ویٹن نے اس نئے نظریئے کو ایک نظریئے کا نام دیا۔ نہ صرف اس نے پانچ مختلف اسٹرنگ نظریوں کو ایک وحدت میں پرو دیا بلکہ اضافی طور پر اس نے فوق قوّت ثقل کو بھی بیان کر دیا۔

اگر آپ کو یاد ہو کہ فوق قوّت ثقل ایک گیارہویں جہت کا نظریہ تھا جس میں صرف دو ذرّات ہوتے ہیں جن کی کمیت صفر ہوتی ہے، جو آئن سٹائن کی اصل گریویٹون ہے ۔ مزید براں یہ اپنے فوق متشاکل ساتھی (جس کو گریوٹینو بھی کہتے ہیں ) کو بھی یہ بیان کر دیتی ہے۔ لیکن ایم نظریئے میں لامحدود ذرّات مختلف کمیتوں کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ ( جو بمطابق لامحدود تھرتھراہٹ کے ہوتے ہیں جو گیارہویں جہت کی جھلی کی کسی قسم پر تیر رہی ہوتے ہیں)۔ تاہم ایم نظریہ فوق قوّت ثقل کی موجودگی کی توجیح پیش کر سکتا ہے اگر ہم اس بات کو فرض کریں کہ ایک ایم نظریئے کا ایک ننھا حصّہ (ایک بے کمیت ذرّہ) ایک پرانا فوق قوّت ثقل نظریہ ہے۔ بالفاظ دیگر فوق قوّت ثقل نظریہ ایک ایم نظریہ کا ذیلی جوڑا ہے۔ اسی طرح سے اگر ہم یہ پراسرار گیارہویں جہت والی جھلی جیسے نظریئے کو لے کر اس کی ایک جہت کو موڑ دیں، تو جھلی تار میں بدل جائے گی۔ اصل میں یہ بعینہ قسم دوم کا اسٹرنگ نظریہ بن جاتا ہے! مثال کے طور پر اگر ہم کسی کرہ کو گیارہ جہتوں میں دیکھیں گے اور اس کی ایک جہت کو موڑ دیں گے، تو کرہ منہدم ہو جائے گا، اور اس کا خط استوا بند تار بن جائے گا۔ ہم اسٹرنگ نظریئے کو اس وقت گیارہویں جہت میں جھلی کی ایک قاش کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں جب ہم گیارہویں جہت کو ایک چھوٹے سے دائرے میں موڑتے ہیں۔

پس اس طرح سے ہم خوبصورت اور سادہ طریقہ تمام دس جہتی اور گیارہ جہتی طبیعیات کو ہم آہنگ کرکے ایک نظریئے میں سمو دیتے ہیں! یہ ایک نظری مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

مجھے اس دریافت کے اثرات اب بھی یاد ہیں۔ ٹاؤن سینڈ کی اعلیٰ ظرفی تھی کہ اس نے سامعین سے میرا تعارف بھی کروایا۔ لیکن میری تقریر سے پہلے اس نے زبردست جوش کے ساتھ اس نئے نتیجے کو بیان کیا یعنی کہ گیارہویں جہت میں مختلف اسٹرنگ کے نظریات متحد ہو کر ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ میری گفتگو کا عنوان دسویں جہت تھا۔ اس سے پہلے کہ میں شروع کرتا اس نے مجھ سے کہا کہ یہ چیز ثابت ہو گئی تو میری گفتگو کا عنوان متروک ہو جائے گا۔

میں نے دل ہی دل میں سوچا، "اوہ ہو ۔" یا تو وہ ہذیان بک رہا ہے، یا طبیعیاتی سماج مکمل طور پر الٹنے جا رہا ہے۔

مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ لہٰذا میں نے اس پر سوالات کی یلغار کردی۔ میں نے اس طرف اشارہ کیا کہ گیارہویں جہتی فوق جھلیوں کا ایک نظریہ جسے اس نے بنانے میں مدد دی ہے وہ اس لئے فضول ہوگا کیونکہ وہ ریاضیاتی طور پر کند ہے، اور اس سے بھی زیادہ بری بات یہ ہے کہ یہ پائیدار نہیں ہے۔ اس نے تسلیم کیا کہ واقعی یہ مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے۔ لیکن اس کو بھرپور یقین تھا کہ یہ سوالات مستقبل میں حل کر لئے جائیں گے۔

میں نے یہ بھی کہا کہ گیارہویں جہت کی فوق قوّت ثقل محدود نہیں ہے؛ یہ اسٹرنگ نظریئے کو چھوڑ کر دوسرے تمام نظریوں کی طرح نہیں ٹھر سکے گی۔ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا ۔ اس نے انتہائی اطمینان سے جواب دیا۔ کیونکہ فوق قوّت ثقل کچھ اور نہیں ہے بجائے ایک بڑے اور پراسرار نظریئے کے۔ ایم نظریہ محدود ہے اصل میں یہ اسٹرنگ نظریہ ہی تھا جس کو دوبارہ سے گیارہویں جہت میں جھلیوں کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔

تب میں نے کہا کہ فوق جھلیاں ناقابل قبول ہیں کیونکہ کوئی بھی اس قابل نہیں ہو سکا کہ تصادم ہوتی اور دوبارہ بنتی ہوئی جھلیوں کے تعاملات کو بیان کر سکے۔(جیسا کہ میں نے خود بھی برسوں پہلے اسٹرنگ نظریئے پرلکھے جانے والے اپنے پی ایچ ڈی مقالے میں کیا تھا )۔ اس نے تسلیم کیا کہ یہ مسئلہ بھی اپنی جگہ موجود ہے لیکن یہ بھی حل ہو سکتا ہے۔ میں نے آخر میں یہ بھی کہا کہ کیونکہ ایم نظریہ تو اصل میں نظریہ ہی نہیں ہے، کیونکہ اس کی بنیادی مساوات کی کسی کو خبر نہیں ہے۔ اسٹرنگ نظریئے کے برعکس ( جس کو اس سادہ اسٹرنگ میدانی مساوات میں بیان کیا جا سکتا ہے جس کو میں نے برسوں پہلے لکھا تھا جو تمام نظریئے کا احاطہ کرتا ہے۔) جھلیوں کا کوئی میدانی نظریہ ہے ہی نہیں۔ اس نے یہ اعتراض بھی تسلیم کیا۔ لیکن اس کو یقین تھا کہ ایم نظریہ کی مساوات بھی بالآخر تلاش کر لی جائے گی۔

میرا دماغ گھوم رہا تھا۔ اگر وہ درست ہوتا تو اسٹرنگ کا نظریہ ایک بار پھر سے بنیادی طور پر تبدیل ہو جاتا۔ جھلیوں کی جگہ کبھی طبیعیات کی دنیا میں کچرے کا ڈبہ ہوتی تھی اب یکدم وہ دوبارہ اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔

اس انقلاب کی وجہ یہ تھی کہ اسٹرنگ نظریہ اب بھی پیچھے کی جانب ارتقائی منازل طے کر رہا تھا۔ آج بھی کوئی نہیں جانتا کہ وہ کیا سادہ طبیعیاتی اصول اس پورے نظریہ کے پیچھے کار فرما ہے۔ میں اس کو اس طرح سے سمجھتا ہوں جیسے کہ کوئی صحرا میں چل رہا ہو اور اتفاقاً ایک چھوٹے اور خوبصورت کنکر سے جا ٹکرائے۔ جب ہم اس پر سے ریت کو ہٹائیں تو اس وقت ہمیں معلوم ہو کہ اصل میں یہ پتھر کا ٹکڑا تو ایک دیوہیکل اہرام کی چوٹی ہے جو ٹنوں ریت میں دفن ہے۔ برسوں کی محنت و مشقت کے بعد جب اس پر سے ریت کو ہٹایا جائے تو اس میں پر اسرار خط تصویر ، خفیہ تہ خانے اور سرنگیں ملیں۔ ایک دن اس کی نچلی منزل مل جائے اور بالآخر اس کا دروازہ کھول دیا جائے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ساتواں باب - 14
جھلی کی دنیا


ایک نئی خاصیت جو ایم نظریہ کی ہے کہ نہ صرف یہ تاروں کو بلکہ مختلف جہتوں کی جھلیوں کا بھی پورا چڑیا گھر متعارف کرواتا ہے۔ اس تصویر میں، نقاط والے ذرّات "صفر جھلی " کہلاتے ہیں کیونکہ یہ لامحدود طور پر چھوٹے ہوتے ہیں اور ان کی کوئی جہت ہی نہیں ہوتی۔ ایک تار صرف "ایک برین " ہوتا ہے کیونکہ یہ صرف ایک ہی جہتی جسم ہوتا ہے جس کو اس کی لمبائی بیان کرتی ہے۔ جھلی ایک "دو برین" ہوتی ہے جیسے کہ باسکٹ بال کی سطح جس کو اس کی لمبائی اور چوڑائی سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ (باسکٹ بال تین جہتوں میں تیر سکتی ہے، لیکن اس کی سطح دو جہتی ہوتی ہے۔) ہماری کائنات ایک قسم کی "سہ برین" ہو سکتی ہے ۔ ایک سہ جہتی جسم جس کی لمبائی، چوڑائی اور اونچائی ہوتی ہے۔ (جیسا کہ کوئی بھی ذی فہم دیکھ سکتا ہے کہ اگر مکان کی پی جہتیں ہوں، جس میں پی بطور عدد صحیح کے ہے، تو ہماری کائنات ایک پی برین کائنات ہوگی۔ ایک جدول جو ان تمام پی برین کو ظاہر کرتا ہے "برین اسکین" کہلاتا ہے۔)

ایسے کافی طریقے موجود ہیں جس میں ہم جھلی کو لے کر اس کو تار میں منہدم کر سکتے ہیں۔ بجائے گیارہویں جہت کو موڑیں ہم گیارہویں جہت کی جھلی کے خط استوا کو کاٹ بھی سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک دائروی پٹی بن جائے گی۔ اگر ہم اس پٹی کی موٹائی کو کم کر دیں تب پٹی ایک دس جہتی تار بن جائے گی۔ پیٹر ہوراوا اور ادوار ویٹن نے اس بات کو دکھایا کہ ہم دگر جفتی طریقے سے تار کو حاصل کر سکتے ہیں۔

اصل میں یہ بات دکھائی جا سکتی ہے کہ پانچ ایسے طریقے ہیں جس میں گیارہویں جہت کے ایم نظریئے کو دس جہت میں لایا جا سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں پانچ سپر اسٹرنگ نظریئے حاصل ہوتے ہیں۔ ایم نظریہ ہمیں اس پراسرار چیز کا تیز، بدیہی جواب دیتا ہے کہ آیا کیوں پانچ مختلف اسٹرنگ کے نظریات موجود ہیں۔ فرض کریں کہ آپ ایک بڑے پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہیں اور نیچے سطح کی طرف دیکھتے ہیں۔ تیسری جہت کے تفوق والی جگہ سے ہم میدان کے مختلف حصّے ایک مربوط تصویر کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ بعینہ گیارہویں جہت کے تفوق والی جگہ سے جب دسویں جہت کی طرف دیکھیں گے، تو ہمیں پانچ اسٹرنگ نظریات کے عجیب پوش گیارہویں جہت کے مختلف حصّوں سے زیادہ کچھ اور نہیں لگیں گے۔

ثنویت

ہرچند کہ پال ٹاؤن سینڈ نے اس وقت زیادہ تر ان سوالات کا جواب نہیں دیا تھا جو میں نے پوچھے تھے، لیکن جس بات نے مجھے اس کے درست ہونے پر راضی کیا وہ ایک دوسری تشاکل کی قوّت تھی۔ طبیعیات کی دنیا میں جاننے والی سب سے بڑی تشاکل نہ صرف ایم نظریئے میں موجود ہے بلکہ اس نے ایک اور ترکیب اپنی آستینوں میں چھپائی ہوئی ہے، یعنی کہ ثنویت جو ایم نظریئے کو ایک ایسی غیر معمولی صلاحیت فراہم کرتی ہے جس سے وہ تمام پانچ نظریوں کو ایک نظریئے میں سمو دیتی ہے۔

برق اور مقناطیسیت کی مثال کو لیں جو میکسویل کی مساوات کے تابع ہے۔ بہت پہلے یہ بات جان لی گئی تھی کہ اگر آپ صرف برقی میدان کو مقناطیسی میدان سے بدل لیں، تو مساوات لگ بھگ ایک جیسی ہی رہے گی ۔ یہ تشاکل اس صورت میں بنایا جا سکتا ہے جب آپ میکسویل کی مساوات میں یک قطبیوں ( مقناطیسیت کے ایک قطب) کو شامل کر لیں۔ تبدیل شدہ میکسویل کی مساوات ہوبہو ویسی ہی رہے گی اگر ہم برقی میدان کو مقناطیسی میدان سے بدل دیں اور برقی بار ای کو مقناطیسی بار کے مخالف بار جی سے تبدیل کر دیں۔ اس کا مطلب ہوا کہ بجلی (اگر برقی بار پست ہے ) ہوبہو مقناطیسیت کے برابر ہے (اگر مقناطیسی بار بلند ہو)۔ یہ ہم قدری ثنویت کہلاتی ہے۔

ماضی میں یہ ثنویت سائنسی تجسس کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھی جاتی تھی۔ ایک تفریح طبع کا کرتب، کیونکہ کسی نے کبھی بھی بلکہ اب تک یک قطبی نہیں دیکھے تھے۔ بہرحال طبیعیات دانوں کو یہ معلوم تھا کہ میکسویل کی مساوات میں ایک خفیہ تشاکل موجود ہے جس کو بظاہر قدرت کہیں استعمال نہیں کرتی (کم از کم ہمارے کائنات کے علاقے میں تو ایسا ہی ہے )۔

اسی طرح پانچوں اسٹرنگ نظریات ایک دوسرے کے متبادل ہیں۔ قسم اوّل اور دگر جفتی SO(32) اسٹرنگ نظریئے کو دیکھیں۔ عام حالت میں یہ دونوں نظریئے ایک دوسرے جیسے بالکل نہیں لگتے۔ قسم اوّل کی بنیاد بند اور کھلے تاروں پر بنیاد رکھتی ہیں جو پانچ مختلف طریقوں سے تعامل کر سکتے ہیں جس میں اسٹرنگ ٹوٹتے اور جڑ تے ہیں۔ دوسری طرف SO(32) اسٹرنگ کی بنیاد مکمل طور پر بند تاروں پر ہوتی ہے جن کے ساتھ تعامل کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے جو خلیہ کی طرح خطیت سے گزرتے ہیں۔ قسم اوّل کا اسٹرنگ صرف دس جہتی خلاء میں ہی بیان کیا جا سکتا ہے، جبکہ SO(32) اسٹرنگ کو ایک تھرتھراہٹ کے جوڑے سے بیان کیا جا سکتا ہے اور اس کو چھبیس جہتی مکان سے بیان کیا جا سکتا ہے۔

عام طور پر دو ایسے نظریات نہیں ملتے جو آپس میں ایک دوسرے سے اس قدر جدا ہوں۔ بہرحال جیسا کہ برقی مقناطیسیت میں ہوتا ہے کہ نظریات طاقتور ثنویت رکھتے ہیں یعنی کہ اگر آپ تعاملات کی طاقت کو بڑھنے دیں گے، قسم اوّل اسٹرنگ تبدیل ہو کر SO(32) دگر جفتی اسٹرنگ میں ایسے بدل جائیں گے جیسے کہ کوئی جادو ہوا ہو ۔ (یہ نتیجہ اتنا غیر متوقع ہے کہ جب میں نے پہلی مرتبہ نتائج کو دیکھا تھا، تو میں اپنا سر حیرانگی سے ہلا رہا تھا۔ طبیعیات میں، ہم ایسا بہت ہی کم دیکھتے ہیں کہ دو نظریات جو آپس میں ایک دوسرے سے ہر طرح سے مختلف ہوتے ہیں لیکن ریاضیاتی طور پر ان کو ایک دوسرے کے برابر ثابت کیا جا سکتا ہے۔)​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ساتواں باب - 14
جھلی کی دنیا


ایک نئی خاصیت جو ایم نظریہ کی ہے کہ نہ صرف یہ تاروں کو بلکہ مختلف جہتوں کی جھلیوں کا بھی پورا چڑیا گھر متعارف کرواتا ہے۔ اس تصویر میں، نقاط والے ذرّات "صفر جھلی " کہلاتے ہیں کیونکہ یہ لامحدود طور پر چھوٹے ہوتے ہیں اور ان کی کوئی جہت ہی نہیں ہوتی۔ ایک تار صرف "ایک برین " ہوتا ہے کیونکہ یہ صرف ایک ہی جہتی جسم ہوتا ہے جس کو اس کی لمبائی بیان کرتی ہے۔ جھلی ایک "دو برین" ہوتی ہے جیسے کہ باسکٹ بال کی سطح جس کو اس کی لمبائی اور چوڑائی سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ (باسکٹ بال تین جہتوں میں تیر سکتی ہے، لیکن اس کی سطح دو جہتی ہوتی ہے۔) ہماری کائنات ایک قسم کی "سہ برین" ہو سکتی ہے ۔ ایک سہ جہتی جسم جس کی لمبائی، چوڑائی اور اونچائی ہوتی ہے۔ (جیسا کہ کوئی بھی ذی فہم دیکھ سکتا ہے کہ اگر مکان کی پی جہتیں ہوں، جس میں پی بطور عدد صحیح کے ہے، تو ہماری کائنات ایک پی برین کائنات ہوگی۔ ایک جدول جو ان تمام پی برین کو ظاہر کرتا ہے "برین اسکین" کہلاتا ہے۔)

ایسے کافی طریقے موجود ہیں جس میں ہم جھلی کو لے کر اس کو تار میں منہدم کر سکتے ہیں۔ بجائے گیارہویں جہت کو موڑیں ہم گیارہویں جہت کی جھلی کے خط استوا کو کاٹ بھی سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک دائروی پٹی بن جائے گی۔ اگر ہم اس پٹی کی موٹائی کو کم کر دیں تب پٹی ایک دس جہتی تار بن جائے گی۔ پیٹر ہوراوا اور ادوار ویٹن نے اس بات کو دکھایا کہ ہم دگر جفتی طریقے سے تار کو حاصل کر سکتے ہیں۔

اصل میں یہ بات دکھائی جا سکتی ہے کہ پانچ ایسے طریقے ہیں جس میں گیارہویں جہت کے ایم نظریئے کو دس جہت میں لایا جا سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں پانچ سپر اسٹرنگ نظریئے حاصل ہوتے ہیں۔ ایم نظریہ ہمیں اس پراسرار چیز کا تیز، بدیہی جواب دیتا ہے کہ آیا کیوں پانچ مختلف اسٹرنگ کے نظریات موجود ہیں۔ فرض کریں کہ آپ ایک بڑے پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہیں اور نیچے سطح کی طرف دیکھتے ہیں۔ تیسری جہت کے تفوق والی جگہ سے ہم میدان کے مختلف حصّے ایک مربوط تصویر کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ بعینہ گیارہویں جہت کے تفوق والی جگہ سے جب دسویں جہت کی طرف دیکھیں گے، تو ہمیں پانچ اسٹرنگ نظریات کے عجیب پوش گیارہویں جہت کے مختلف حصّوں سے زیادہ کچھ اور نہیں لگیں گے۔

ثنویت

ہرچند کہ پال ٹاؤن سینڈ نے اس وقت زیادہ تر ان سوالات کا جواب نہیں دیا تھا جو میں نے پوچھے تھے، لیکن جس بات نے مجھے اس کے درست ہونے پر راضی کیا وہ ایک دوسری تشاکل کی قوّت تھی۔ طبیعیات کی دنیا میں جاننے والی سب سے بڑی تشاکل نہ صرف ایم نظریئے میں موجود ہے بلکہ اس نے ایک اور ترکیب اپنی آستینوں میں چھپائی ہوئی ہے، یعنی کہ ثنویت جو ایم نظریئے کو ایک ایسی غیر معمولی صلاحیت فراہم کرتی ہے جس سے وہ تمام پانچ نظریوں کو ایک نظریئے میں سمو دیتی ہے۔

برق اور مقناطیسیت کی مثال کو لیں جو میکسویل کی مساوات کے تابع ہے۔ بہت پہلے یہ بات جان لی گئی تھی کہ اگر آپ صرف برقی میدان کو مقناطیسی میدان سے بدل لیں، تو مساوات لگ بھگ ایک جیسی ہی رہے گی ۔ یہ تشاکل اس صورت میں بنایا جا سکتا ہے جب آپ میکسویل کی مساوات میں یک قطبیوں ( مقناطیسیت کے ایک قطب) کو شامل کر لیں۔ تبدیل شدہ میکسویل کی مساوات ہوبہو ویسی ہی رہے گی اگر ہم برقی میدان کو مقناطیسی میدان سے بدل دیں اور برقی بار ای کو مقناطیسی بار کے مخالف بار جی سے تبدیل کر دیں۔ اس کا مطلب ہوا کہ بجلی (اگر برقی بار پست ہے ) ہوبہو مقناطیسیت کے برابر ہے (اگر مقناطیسی بار بلند ہو)۔ یہ ہم قدری ثنویت کہلاتی ہے۔

ماضی میں یہ ثنویت سائنسی تجسس کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھی جاتی تھی۔ ایک تفریح طبع کا کرتب، کیونکہ کسی نے کبھی بھی بلکہ اب تک یک قطبی نہیں دیکھے تھے۔ بہرحال طبیعیات دانوں کو یہ معلوم تھا کہ میکسویل کی مساوات میں ایک خفیہ تشاکل موجود ہے جس کو بظاہر قدرت کہیں استعمال نہیں کرتی (کم از کم ہمارے کائنات کے علاقے میں تو ایسا ہی ہے )۔

اسی طرح پانچوں اسٹرنگ نظریات ایک دوسرے کے متبادل ہیں۔ قسم اوّل اور دگر جفتی SO(32) اسٹرنگ نظریئے کو دیکھیں۔ عام حالت میں یہ دونوں نظریئے ایک دوسرے جیسے بالکل نہیں لگتے۔ قسم اوّل کی بنیاد بند اور کھلے تاروں پر بنیاد رکھتی ہیں جو پانچ مختلف طریقوں سے تعامل کر سکتے ہیں جس میں اسٹرنگ ٹوٹتے اور جڑ تے ہیں۔ دوسری طرف SO(32) اسٹرنگ کی بنیاد مکمل طور پر بند تاروں پر ہوتی ہے جن کے ساتھ تعامل کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے جو خلیہ کی طرح خطیت سے گزرتے ہیں۔ قسم اوّل کا اسٹرنگ صرف دس جہتی خلاء میں ہی بیان کیا جا سکتا ہے، جبکہ SO(32) اسٹرنگ کو ایک تھرتھراہٹ کے جوڑے سے بیان کیا جا سکتا ہے اور اس کو چھبیس جہتی مکان سے بیان کیا جا سکتا ہے۔

عام طور پر دو ایسے نظریات نہیں ملتے جو آپس میں ایک دوسرے سے اس قدر جدا ہوں۔ بہرحال جیسا کہ برقی مقناطیسیت میں ہوتا ہے کہ نظریات طاقتور ثنویت رکھتے ہیں یعنی کہ اگر آپ تعاملات کی طاقت کو بڑھنے دیں گے، قسم اوّل اسٹرنگ تبدیل ہو کر SO(32) دگر جفتی اسٹرنگ میں ایسے بدل جائیں گے جیسے کہ کوئی جادو ہوا ہو ۔ (یہ نتیجہ اتنا غیر متوقع ہے کہ جب میں نے پہلی مرتبہ نتائج کو دیکھا تھا، تو میں اپنا سر حیرانگی سے ہلا رہا تھا۔ طبیعیات میں، ہم ایسا بہت ہی کم دیکھتے ہیں کہ دو نظریات جو آپس میں ایک دوسرے سے ہر طرح سے مختلف ہوتے ہیں لیکن ریاضیاتی طور پر ان کو ایک دوسرے کے برابر ثابت کیا جا سکتا ہے۔)​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ساتواں باب - 15
لیزا رینڈل - حصّہ اوّل



شاید اسٹرنگ نظریئے کے مقابلے میں ایم نظریئے کو جو سب سے زیادہ فوقیت حاصل ہے وہ یہ کہ یہ اضافی جہتیں بہت مہین ہونے کے بجائے اصل میں کافی بڑی ہو سکتی ہیں کہ ان کا مشاہدہ تجربہ گاہ میں کیا جا سکتا ہے۔ اسٹرنگ کے نظریئے میں ان چھ اضافی جہتوں کو لازمی طور پر ایک ننھی سی گیند میں لپٹا ہوا ہونا چاہئے، کثیر الجہت کیلیبی یو اتنا چھوٹا ہوگا کہ آج کے دور کے آلات سے دکھائی نہیں دے گا۔ یہ تمام چھ جہتیں اس قدر عمل بستگی میں جا چکی ہیں کہ اضافی جہتوں میں داخل ہونا ممکن نہیں رہا ہے۔ یہ بات ان لوگوں کے لئے مایوسی سے بڑھ کر ہے جو ایک دن اس امید کے انتظار میں تھے کہ وہ ثقب کرم کے ذریعہ عمل بستگی والی اضافی خلاء میں سے مختصر راستہ لینے کے بجائے ایک لامحدود اضافی مکان میں چڑھ جائیں گے۔

بہرحال ایم نظریئے میں بھی جھلیاں موجود ہی؛ یعنی کہ یہ ممکن ہے کہ ہم اپنی پوری کائنات کو ایک جھلی کی طرح دیکھیں جو ایک اس سے بھی بڑی کائنات میں تیر رہی ہے۔ نتیجتاً ان تمام اضافی جہتوں کو گیند میں لپٹا ہوا ہونا ضروری نہیں ہے۔ اصل میں ان میں سے کچھ اتنی بڑی ہو سکتی ہیں کہ وہ لامحدود ہوں گی۔

ایک طبیعیات دان جنہوں نے کائنات کی اس نئی تصویر کو کھوجنے کی کوشش کی ہے وہ ہارورڈ کی لیزا رینڈل ہیں۔ جوڈی فوسٹر سے ہلکی سی مشابہت رکھنے والی رینڈل اس خوفناک مسابقت، مردانہ اور مردوں سے زبردست طرح سے پر نظری طبیعیات کے شعبے میں کچھ الگ سی دکھائی دیتی ہیں۔ وہ اس تصوّر کی جانچ کر رہی ہیں کہ آیا کائنات اصل میں تین برین والی ہے جو مکان کی اضافی جہتوں میں تیر رہی ہے، شاید یہ بات اس کو بیان کر سکے کہ کیوں قوّت ثقل دوسری تین قوّتوں کے مقابلے میں کمزور ہے۔

رینڈل کوئینز ، نیویارک میں پلی بڑھی ہیں( یہ وہی آرچی بنکر کا قصبہ ہے)۔ بچپن میں ان کو طبیعیات سے کوئی لگاؤ نہیں تھا، وہ ریاضی سے شغف رکھتی تھیں۔ ہرچند کہ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ہم میں سے ہر ایک سائنس دان ہی پیدا ہوتا ہے بس مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ہم میں سے سب اس سائنس دان عہد بلوغت تک لے کر آگے نہیں چل سکتے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم ریاضی کی دیوار سے ٹکرا جاتے ہیں۔

یہ بات کسی کو چاہئے اچھی لگے یا بری لیکن اگر ہمیں سائنس کو بطور پیشہ اپنانا ہے تو ہمیں "قدرت کی زبان" یعنی کہ ریاضی سیکھنی ہوگی۔ ریاضی کے بغیر ہم صرف قدرت کے ناچ میں خود سے حصّہ لینے کے بجائے تماشائی بن کر اس ناچ کو دیکھیں گے۔ جیسا کہ ایک مرتبہ آئن سٹائن نے کہا تھا، "خالص ریاضی" اپنی روح میں منطقی خیالات کی شاعری ہے۔" چلیں مجھے اس بات کو یوں کہنے دیں۔ کوئی فرانسیسی تہذیب و تمدن سے پیار کر سکتا ہے، لیکن فرانسیسی خیالات کو صحیح طرح سے سمجھنے کے لئے، فرانسیسی زبان اور فعل کی گردان کو اچھی طرح سے سمجھنا ہوگا۔ یہ بات سائنس اور ریاضی کے لئے بھی بالکل ایسی ہی ہے۔ گلیلیو نے ایک مرتبہ لکھا، "[کائنات] کو اس وقت تک نہیں پڑھا جا سکتا جب تک ہم زبان کو نہ سیکھ لیں اور ان حروف سے شناسا نہ ہو جائیں جس میں اس کو لکھا گیا ہے۔ یہ ریاضیاتی زبان میں لکھی گئی ہے، اور الفاظ مثلث ، دائرے، اور دوسری جیومیٹری کی اشکال ہیں ، جن کے بغیر انسانی دماغ ایک لفظ بھی نہیں پڑھ سکتا۔"

لیکن اکثر ریاضی دان خود کو تمام سائنس دانوں کے مقابلے میں سب سے کم عملی کہہ کر پکارتے ہیں۔ جتنی مبہم اور بیکار ریاضی ہوگی اتنا ہی اچھا ہوگا۔ جس بات نے رینڈل کو اس وقت ایک الگ راہ چننے پر لگایا جب وہ ١٩٨٠ء کی دہائی کی ابتدا میں ہارورڈ میں سند حاصل کر رہی تھی وہ یہ حقیقت تھی کہ اس کو اس خیال سے محبت تھی کہ طبیعیات کائنات کے نمونے بنا سکتی ہے۔ ہم طبیعیات دان جب پہلی مرتبہ کسی نظریئے کو پیش کرتے ہیں، تو وہ صرف مساوات کے گچھے پر ہی مشتمل نہیں ہوتی۔ نئی طبیعیاتی نظریات کی بنیاد عام طور پر سادہ مثالی نمونوں پر رکھی جاتی ہے جو کسی مظاہر کے قریب ہوں۔ یہ نمونے عام طور پر سمجھنے کے لئے ترسیمی، تصویری اور سادے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر کوارک کے نمونے کی بنیاد اس خیال پر ہے کہ پروٹون کے اندر تین چھوٹے جز ہوتے ہیں جن کو کوارک کہتے ہیں۔ رینڈل اس بات سے کافی متاثر تھی کہ سادے نمونے جن کی اساس طبیعی تصاویر پر ہوتی ہے وہ صحیح طور پر کائنات کی زیادہ تر چیزوں کو بیان کر سکتے ہیں۔

١٩٩٠ء میں اس نے ایم نظریئے میں دلچسپی لینی شروع کی یعنی کہ جس میں کہا جاتا ہے کہ تمام کائنات ممکنہ طور پر ایک جھلی ہے۔ اس نے شاید قوّت ثقل کے سب سے حیرت انگیز خاصیت کی طرف بڑھنا شروع کیا یعنی کہ اس کی قوّت فلکیاتی پیمانے پر کم تر ہے۔ نہ تو نیوٹن اور نہ ہی آئن سٹائن نے اس بنیادی پراسرار سوال کا پتہ لگانے کی کوشش کی۔ کائنات کی دیگر تینوں قوّتیں (برقی مقناطیسی، کمزور نیوکلیائی قوّت، اور مضبوط نیوکلیائی قوّت ) یہ تمام کی تمام ایک جیسی ہی طاقت رکھتی ہیں، جبکہ قوّت ثقل ان سے بہت زیادہ مختلف ہے۔

خاص طور پر کوارک کی کمیت اس سے کہیں زیادہ کم ہے جو کمیت کوانٹم قوّت ثقل کے ساتھ نسبت رکھتی ہے۔ " اختلاف چھوٹا نہیں ہے دونوں کمیت کے پیمانے میں ١٠١٦ کا فرق ہے! صرف وہ نظریات جو اس جسیم نسبت کو بیان کر سکیں وہ ممکنہ طور پر وہی امید وار نظریئے ہیں جو معیاری نمونے کے نیچے ہیں۔" رینڈل کہتی ہیں۔

یہ حقیقت کہ قوّت ثقل اتنی کمزور کیوں ہے ستاروں کے بڑے ہونے کی توجیح پیش کرتی ہے۔ زمین اپنے سمندروں، پہاڑوں، اور بر اعظموں کے ساتھ اس وقت جب سورج کے حجم سے مقابل ہو تو اس کی حیثیت ریت کے ڈھیر سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ لیکن کیونکہ قوّت ثقل اتنی کمزور ہوتی ہے، لہٰذا یہ پورے ستارے کی کمیت کو لے کر ہی ہائیڈروجن کو اتنا دبا پاتی ہے کہ وہ پروٹون کی برقی قوّت دھکیل پر غالب آ جائے۔ لہٰذا ستارے اس لئے ضخیم ہوتے ہیں کیونکہ قوّت ثقل دوسری قوّتوں کے مقابل کافی کمزور ہوتی ہے۔

ایم نظریئے نے طبیعیات میں کافی ہیجان برپا کیا ہوا ہے، کافی جماعتوں نے کوشش کی کہ اس نظریئے کو کائنات پر لاگو کر کے دیکھیں۔ یہ بات فرض کرکے کہ کائنات ایک تین برین والی تیرتی ہوئی پنچ جہتی دنیا ہے۔ تو اس وقت تین برین کی سطح کے ارتعاش بمطابق جوہروں کے ہم اپنے ارد گرد دیکھ سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ تھرتھراہٹ کبھی بھی اس تین برین کو نہیں چھوڑیں گی پس یہ کبھی بھی پانچویں جہت میں نہیں ڈوبیں گی۔ اگر ہماری کائنات پانچویں جہت میں بھی تیر رہی ہوگی تب بھی ہمارے جوہر ہماری کائنات کو نہیں چھوڑیں گے کیونکہ یہ اصل میں تین برین کی سطح کی تھرتھراہٹ ہی ہیں۔ یہ کلازا اور آئن سٹائن کے اس سوال کا جواب دے سکتا ہے جو انہوں نے ١٩٢١ء میں اٹھایا تھا۔ پانچویں جہت کہاں ہے؟ جواب ہے ہم پانچویں جہت میں تیر رہے ہیں لیکن ہم اس میں داخل نہیں ہو سکتے کیونکہ ہمارے جسم تین برین کی سطح سے چپکے ہوئے ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ساتواں باب - 16

لیزا رینڈل - حصّہ دوم


لیکن اس تصوّر میں ایک ممکنہ سقم موجود ہے۔ قوّت ثقل خلاء میں خم کو ظاہر کرتی ہے۔ لہٰذا سادہ طور پر ہم یہ امید کر سکتے ہیں کہ قوّت ثقل بجائے تین برین کو بھرنے کے پانچ جہتی خلاء کو بھر سکتی ہے۔ اور اس طرح کرنے کے دوران قوّت ثقل اس وقت ہلکی ہو جائے گی جب وہ تین برین کو چھوڑے گی۔ یہی چیز قوّت ثقل کو کمزور کرتی ہے۔ یہ نظریئے کی مدد کرنے کے لئے ایک اچھی چیز ہے، کیونکہ قوّت ثقل جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ دوسری تین قوّتوں کے مقابلے میں بہت کمزور ہے۔ لیکن یہ قوّت ثقل کو اس قدر کمزور کر دیتی ہے کہ نیوٹن کے قانون معکوس مربع کی خلاف ورزی ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود یہ قانون سیاروں، ستاروں اور کہکشاؤں پر بہت ہی اچھی طرح سے کام کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ خلاء میں ہمیں قوّت ثقل کے لئے کہیں قانون معکوس مثلث ملتا نظر نہیں آتا۔ (ذرا تصوّر کریں کہ ایک روشنی کا بلب کمرے کو روشن کر رہا ہے۔ روشنی کرہ میں پھیلی ہوئی ہے۔ لہٰذا اگر آپ کرہ کا رقبہ دگنا کر دیں گے، تو روشنی کرہ پر رقبے کے لحاظ سے چار گنا زیادہ پھیل جائے گی۔ اگر روشنی کا بلب n جہتوں میں وجود رکھتا ہے تو روشنی پورے کرہ پر ہلکی ہو جائے گی جب اس کرہ کا رقبہ بقدر نصف قطر کی طاقت n-1 کی طاقت سے بڑھایا جائے گا۔)

اس سوال کا جواب دینے کے لئے طبیعیات دانوں کی ایک جماعت جس میں این آر کانی حامد، ایس ڈیموپولوس اور جی دیوالی شامل تھے اس نے تجویز پیش کی کہ شاید پانچویں جہت لامحدود نہ ہو بلکہ ہم سے صرف ملی میٹر کے فاصلے پر موجود صرف ہماری کائنات کے اوپر تیر رہی ہو، جیسا کہ ایچ جی ویلز کی سائنسی قصے میں تھا۔ (اگر پانچویں جہت ایک ملی میٹر سے زیادہ دور ہوئی تو یہ نیوٹن کے قانون معکوس مربع کی زبردست خلاف ورزی ہوگی۔) اگر پانچویں جہت صرف ایک ملی میٹر کے فاصلے پر ہے، تو اس کو چھوٹے فاصلوں پر نیوٹن کے قانون ثقل میں ہونے والے انحراف سے ناپا جا سکتا ہے۔ نیوٹن کا قانون ثقل فلکیاتی فاصلوں پر نہایت ہی اچھے طریقے سے کام کرتا ہے، لیکن اس کو کبھی بھی ملی میٹر کے حجم پر نہیں جانچا گیا ہے۔ تجرباتی اب نیوٹن کے قانون معکوس مربع میں ہونے والی خفیف انحرافات کو ناپنے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ سر دست یہ نتائج چلنے والے تجربات کا موضوع بنے ہوئے ہیں جیسا کہ ہم نویں باب میں دیکھیں گے۔

رینڈل اور اس کے رفیق رامائن سندرم نے ایک نئے طریقے سے کام کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اس امکان جو جائزہ لیں سکیں کہ پانچویں جہت صرف ایک ملی میٹر کے فاصلے پر موجود نہیں ہے بلکہ شاید لامحدود ہے۔ یہ کام کرنے کے لئے ان کو نیوٹن کے قوّت ثقل کے قانون کو توڑے بغیر ثابت کرنا تھا کہ پانچویں جہت کیسے لامحدود ہو سکتی ہے۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں رینڈل نے معمے کا ممکنہ حل تلاش کرلیا تھا۔ اس نے معلوم کیا کہ تین برین کی اپنی ہی ثقلی کھینچ موجود ہے جو گریویٹون کو پانچویں جہت میں جانے سے روکتی ہے۔ گریویٹون کو تین برین سے چمٹے رہنا ہوتا ہے( جیسے کہ مکھیاں ، مکھی مار کاغذ پر چپکی ہوئی ہوتی ہیں) اس کا سبب تین برین سے نکلنے والی قوّت ثقل ہے ۔ پس جب ہم نیوٹن کے قانون کو ناپنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہماری کائنات میں بہت حد تک درست کام کرتا ہے۔ قوّت ثقل جب تین برین کو چھوڑ کر پانچویں جہت میں ڈوبتی ہے تو اس وقت ہلکی اور کمزور ہو جاتی ہے؛ لیکن وہ زیادہ دور تک نہیں جاتی؛ کائنات کا معکوسی قانون اب بھی نافذالعمل رہتا ہے کیونکہ گریویٹون اس وقت بھی تین برین کی طرف کشش رکھتے ہیں۔ (رینڈل نے ایک اور ہماری جھلی کے متوازی ممکنہ جھلی کو متعارف کروایا ہے۔ اگر ہم دونوں جھلیوں کے درمیان ہونے والی خفیف تعاملات کی پیمائش کریں تو اس کو اتنا درست کیا جا سکتا ہے جس کی بنیاد پر ہم عددی طور پر قوّت ثقل کی کمزوری کو بیان کر سکتے ہیں ۔)

"اس وقت کافی سنسنی تھی جب پہلی مرتبہ اس بات کو پیش کیا گیا کہ اضافی جہتیں [ترتیب وجود کے مسئلے] کے ماخذ کی طرف ایک اور طرح سے توجہ دی جا سکتی ہے،" رینڈل کہتی ہیں۔ "مزید مکانی جہتوں کا خیال شروع میں وحشی اور پاگل پن لگتا ہے، لیکن کافی مضبوط توجیحات ایسی موجود ہیں جس سے اس بات پر یقین دلاتی ہیں کہ اصل میں اضافی مکانی جہتیں موجود ہیں۔"

اگر یہ طبیعیات دان درست ہوئے، تب قوّت ثقل اتنی ہی طاقتور ہو گی جتنی کہ یہ دوسری تین قوّتیں ہیں، بس فرق صرف اتنا ہے کہ قوّت ثقل کافی سبک رفتار ہے کیونکہ اس میں سے کچھ رس کر اضافی خلاء میں چلی جاتی ہے۔ اس نظریئے کا ایک عمیق اثر یہ ہے کہ توانائی جس پر یہ کوانٹم اثرات قابل پیمائش بنتے ہیں ہو سکتا ہے کہ پلانک توانائی(1019 ارب وولٹ )نہ ہو جیسا کہ پہلے سمجھا جاتا تھا۔ شاید دسیوں کھرب الیکٹران وولٹ ضروری ہوں گے۔ اگر ایسی صورت ہے تو لارج ہیڈرون کولائیڈر (جس کو مکمل کرنے کی تاریخ ٢٠٠٧ء کی ہے ) شاید ایک عشرے میں ہی ان کوانٹم کے ثقلی اثرات کی کھوج کر لے گا۔ اس بات نے تجرباتی طبیعیات دانوں کے درمیان اجنبی ذرّات کو ڈھونڈنے کے لئے کافی زبردست دلچسپی پیدا کردی۔ یہ وہ ذرّات ہوں گے جو معیاری نمونے کے ذیلی ذرّات میں ابھی شامل نہیں ہیں۔ ممکن ہے کہ کوانٹم ثقلی اثرات ہماری پہنچ میں ہی ہوں۔

جھلیاں اگرچہ معقول لیکن تاریک مادّے کی بابت بھی قیاسی جواب دیتی ہیں۔ ایچ جی ویلز کے ناول غیر مرئی آدمی میں اہم کردار چوتھی جہت میں معلق تھا لہٰذا وہ غائب ہو گیا تھا۔ اسی طرح فرض کریں کہ ایک متوازی کائنات موجود ہے جو ہماری کائنات کے بالکل اوپر معلق ہوئی ہے۔ کوئی بھی متوازی کائنات کی کہکشاں ہمارے لئے غیر مرئی ہو گی ۔ لیکن خم زدہ اضافی خلاء کی وجہ سے پیدا ہونے کی قوّت ثقل ، کائنات میں اچھلتی کودتی رہے گی ۔ لہٰذا جب ہم اپنی کہکشاؤں کی خصوصیات کو ناپیں گے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ثقلی کھینچ اس سے کہیں زیادہ زوردار ہے جتنی کہ نیوٹن کا قانون بیان کرتا ہے کیونکہ اس کے پیچھے ایک اور کہکشاں چھپی ہوئی ہوگی، جو قریبی برین میں تیر رہی ہوگی۔ یہ خفیہ کہکشاں جس نے ہماری کہکشاں کے پیچھے بسیرا کیا ہوا ہوگا ، مکمل طور پر غیر مرئی ہوگی، اور ایک اور جہت میں تیر رہی ہوگی، لیکن یہ ایسا تاثر دے گی جیسا کہ ہالہ ہماری کہکشاں کے گرد موجود ہے جو کل کمیت کا ٩٠ فیصد ہے۔ لہٰذا تاریک مادّہ ہو سکتا ہے کہ متوازی کائنات کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہو۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ساتواں باب - 17
متصادم کائناتیں - حصّہ اوّل




ایم نظریئے کا اطلاق سنجیدہ علم تکوینیات پر کرنا قبل از وقت ہو سکتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر طبیعیات دانوں نے برین طبیعیات کا اطلاق کائنات کے عمومی افراط پذیر دور کے نظریئے میں نیا موڑ لانے کے طریقے پر کرنے کی کوشش کی ہے۔ تین ممکنہ کونیات نے کچھ توجہ حاصل کی ہے۔ پہلا علم کونیات اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہے کہ ہم کیوں چار جہتی مکان و زمان میں رہتے ہیں؟ اصولی طور پر، ایم نظریئے کو ایک سے لے کر گیارہ کسی بھی جہت میں بنایا جا سکتا ہے لہٰذا یہ بات عجیب لگتی ہے کہ کیوں چار جہتوں کو الگ کیا گیا ہے۔ رابرٹ برانڈن برگر اور کمرن وافا نے اندازہ لگایا ہے کہ ایسا مخصوص تاروں کی جیومیٹری کی وجہ سے ہوتا ہے۔

اس منظر نامے میں کائنات مکمل تشاکل کے ساتھ شروع ہوئی تھی، جس میں تمام اضافی جہتیں پلانک پیمانے پر مڑی ہوئی تھیں۔ جس چیز نے کائنات کو پھیلنے پر مجبور کیا وہ تاروں کے حلقے تھے جو کس کر دوسری جہتوں پر لپٹے ہوئے تھے۔ ایک دبے ہوئے گچھے کا تصوّر کریں جو مزید پھیل نہیں سکتا کیونکہ یہ تاروں سے کسا ہوا ہے۔ اگر کسی طرح سے تار ٹوٹ جاتے ہیں، تو لچھا اچانک سے آزاد ہو کر پھیلنے لگے گا۔ ان ننھی جہتوں میں، کائنات پھیلنے سے رکی ہوئی ہوگی کیونکہ ہم نے تار اور ضد تار دونوں کو لپیٹا ہوا ہوگا۔ (یوں سمجھ لیں کہ ضد تار، تاروں کی مخالف سمت میں لپٹے ہوئے ہوں گے)۔ اگر تار اور ضد تار آپس میں ٹکرائیں گے، تو وہ فنا ہو کر غائب ہو سکتے ہیں جس طرح سے گرہ کو کھولا جاتا ہے۔ بہت بڑی جہتوں میں کافی جگہ موجود ہوتی ہے جس کی وجہ سے تار اور ضد تار مشکل سے ہی آپس میں ٹکراتے ہیں اور اس طرح سے یہ کبھی نہیں کھلتے۔ بہرصورت برانڈن برگر اور وافا نے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ تین اور اس سے کم مکانی جہتوں میں اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ تار، ضد تاروں سے ٹکڑا جائیں۔ ایک مرتبہ جب یہ تصادم وقوع پذیر ہونے لگتے ہیں تو تار کھلنے لگتے ہیں اور جہتیں باہر کی جانب تیزی سے اچھل کر نکلتی ہیں جس کے نتیجے میں بگ بینگ کی ابتدا ہوتی ہے۔ اس تصویر کی جو خاص بات ہے وہ یہ کہ تاروں کی مقامیات اس بات کو کافی حد بیان کرتی ہے کہ ہم کیوں اپنے ارد گرد چار جہتی مکان و زمان کو دیکھتے ہیں۔ اضافی جہتی کائناتیں ہونا ممکن ہیں لیکن ان کا نظر آنا کافی بعید از قیاس ہے کیونکہ وہ اب ابھی کس کر تاروں اور ضد تاروں سے بندھی ہوئی ہوں گی۔

لیکن ایم نظریئے میں دوسرے امکانات بھی موجود ہیں۔ اگر کائنات ایک دوسرے سے نکل اور پھوٹ رہی ہیں جس کے نتیجے میں نئی کائنات وجود میں آ رہی ہے، تو شاید اس کا الٹ بھی ممکن ہے، کائنات آپس میں متصادم بھی ہو سکتی ہیں جس کے نتیجے میں وہ چنگاری پیدا ہوتی ہوںگی جو نئی کائناتوں کو بناتی ہوںگی۔ اس منظر نامے میں کائنات کے پھوٹنے کے بجائے نئی کائنات کے بگ بینگ کے وقوع پذیر ہونے کی ممکنہ وجہ دو متوازن برین کائناتوں کا آپس کا ٹکراؤ ہے ۔

دوسرا نظریہ پرنسٹن کے پال اسٹین ہارڈت، یونیورسٹی آف پینسلوانیا کے برٹ اورٹ اور کیمبرج یونیورسٹی کے نیل ٹروک نے پیش کیا، جس میں انہوں نے "بڑی آگ کی کائنات یا آتشی کائنات " کو تخلیق کیا تاکہ ایم جھلی کے نئے خواص تصویر میں ڈال دیئے جائیں، جس میں کچھ اضافی جہتیں بڑی ہو کر لامتناہی بھی ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے شروعات دو چپٹی، یکساں اور متوازی تین برین سے کی جو توانائی کی پست ترین شکل کو پیش کر رہی تھیں۔ اصل میں وہ خالی، سرد کائناتوں کے ساتھ شروع ہوئیں لیکن قوّت ثقل کے انہوں کھینچ کر ایک کر دیا۔ بالآخر وہ ایک دوسرے سے متصادم ہو گئیں اور وسیع حرکی توانائی ہماری کائنات کو بنانے والے مادّے اور اشعاع کی صورت میں تبدیل ہو گئیں۔ کچھ لوگ اس کو "عظیم دھماکے" کے بجائے "عظیم پھیلاؤ " کہتے ہیں کیونکہ اس میں دو برین متصادم ہو رہے ہیں ۔

تصادم کی قوّت نے دونوں کائناتوں کو دور دھکیل دیا۔ جب یہ دو جھلیاں ایک دوسرے سے الگ ہو گئیں تو یہ تیزی سے ٹھنڈی ہونے لگیں، جس کے نتیجے آج نظر آنے والی کائنات وجود میں آئی۔ کائنات کا پھیلنا اور ٹھنڈا ہونا دسیوں کھرب تک چلے گا تاآنکہ کائنات کا درجہ حرارت مطلق صفر تک جا پہنچے اور اس کی کثافت خلاء میں ایک الیکٹران فی پدم(1015) مکعب نوری برس کی ہو ۔ اصل میں کائنات خالی جامد ہو جائے گی۔ لیکن قوّت ثقل ان دونوں جھلیوں کو کھنچنا جاری رکھے گی یہاں تک کہ دسیوں کھرب سال بعد یہ دونوں پھر سے متصادم ہوں گی اور یہ چکر پھر سے دہرایا جائے گا۔

(یہ نیا نظریہ اس قابل ہے کہ افراط کے اچھے نتائج کو حاصل کر سکے(چپٹا پن ، یکسانیت وغیرہ)۔ یہ اس مسئلے کو بھی حل کر دیتا ہے کہ کائنات اس قدر چپٹی کیوں ہے – کیونکہ وہ دونوں برین ہی چپٹے تھے جس سے اس کی شروعات ہوئی ہے۔ یہ نمونہ افق کے مسئلہ کو بھی کماحقہ بیان کرتا ہے - یعنی آیا کیوں کائنات ہر سمت دیکھنے میں یکساں نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جھلیاں کافی عرصے پہلے توازن میں آ گئیں تھیں۔ لہٰذا افراط افق کے مسئلے کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ کائنات یکدم پھول گئی ، یہ حل افق کا مسئلہ مخالف طرح سے حل کرتا ہے یعنی کہ کائنات توازن میں آہستگی کے ساتھ پہنچی۔

(اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کائنات سے باہر دوسری جھلیاں تیر رہی ہیں جو ہماری کائنات سے مستقبل میں ٹکڑا سکتی ہیں، اور یوں ایک اور "عظیم پھیلاؤ" جنم لے گا۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ہماری کائنات اسراع پذیر ہے، ایک اور تصادم ہونے کا کافی امکان موجود ہے۔ اسٹین ہارڈت مزید اضافہ کرتا ہے، "کائنات کے پھیلاؤ میں ہونے والا اسراع ہو سکتا ہے کہ ایک اور تصادم کی جانب اشارہ ہو۔ یہ کوئی خوشگوار خیال نہیں ہے۔")​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ساتواں باب - 18
متصادم کائناتیں - حصّہ دوم


کوئی بھی ایسا منظرنامہ جو ڈرامائی طور پر افراط کی مروجہ تصویر کو للکارے گا وہ یقینی طور پر زبردست گرما گرم بحث کو جنم لے گا۔ اصل میں ایک ہی ہفتے میں ایک مقالہ انٹرنیٹ پر جاری کر دیا گیا ، جسے یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے آندرے لنڈے اور اس کی شریک حیات، ریناٹا کالوش (جو خود نظریاتی اسٹرنگ ہیں) اور لیو کوف مین نے اس نظریئے پر تنقید کے لئے شایع کیا ہے۔ لنڈے نے اس نمونے پر اس لئے تنقید کی ہے کہ کوئی بھی ایسی قیامت خیز چیز جیسا کہ دو متصادم کائناتیں ہوں ممکنہ طور پر وحدانیت کو جنم دیں گی، جہاں درجہ حرارت اور کثافت لامتناہی ہو جائے گی۔ " یہ کسی کرسی کو بلیک ہول میں پھینکنے جیسا ہی ہے، جس میں اس کرسی کے ذرّات تحلیل ہو جائیں گے ، لیکن آپ کہیں کہ اس نے کسی طرح سے کرسی کو بچا کر رکھا ہے،" لنڈے احتجاج کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ اسٹین ہارڈت جواب دیتے ہیں، " چار جہتوں میں وحدانیت جیسی دکھے گی ویسی وہ پانچ جہت میں نہیں نظر آئے گی۔۔۔ جب برین آپس میں ٹکرائیں گے، تو پانچویں جہت قلیل عرصے کے لئے غائب ہو جائے گی لیکن برین خود سے غائب نہیں ہوں گے۔ لہٰذا کثافت اور درجہ حرارت لامتناہی نہیں ہوگا اور وقت اس میں سے گزرنا جاری رکھے گا۔

اگرچہ عمومی اضافیت اس سے غضبناک ہو جائے گی لیکن اسٹرنگ نظریئے میں ایسا نہیں ہوگا۔ اور جو چیز ہمارے نمونے میں تباہی پھیلانے والی نظر آتی ہے اس سے یہاں پر نمٹا جا سکتا ہے۔" اسٹین ہارڈت کے پاس ایم نظریئے کی قوّت ہے، جو وحدانیت کو ختم کرنے کے لئے جانی جاتی ہے۔ اصل میں یہی وجہ ہے کہ نظری طبیعیات دان قوّت ثقل کا کوانٹم نظریہ چاہتے ہیں جس کے ساتھ وہ کام کا آغاز تمام لا محدودیت کو ختم کرکے کر سکیں۔ لنڈے بہرحال اس نظریئے سے حاصل ہونے والی تصویر کی زد پذیری کی جانب اشارہ کرتے ہیں ، یعنی کہ برین چپٹے ہو کر وجود اور ابتدا میں یکساں شرح رکھتے ہیں۔ "اگر آپ بے عیب شروع کریں گے، تو آپ اس قابل ہوں گے کہ اس بات کو بیان کر سکیں جو آپ دیکھتے ہیں۔۔۔ لیکن تب بھی آپ کے پاس سوال کا جواب نہیں ہوگا۔ یعنی کہ آیا کیوں کائنات اس قدر توازن کے ساتھ شروع ہوئی؟" لنڈے کہتے ہیں۔ اسٹین ہارڈت جواب دیتے ہیں ، "چپٹا جمع چپٹا برابر چپٹے کے ہے۔" بالفاظ دیگر، آپ کو یہ بات فرض کرنی ہوگی کہ جھلیوں کی شروعات توانائی کی سب سے پست حالت یعنی کہ چپٹے سے شروع ہوئی ہوگی۔

ایلن گتھ نے اپنا دماغ کھلا رکھا۔" میں نہیں سمجھتا کہ پال اور نیل اپنے نقطۂ نظر کو ثابت کرنے کے قریب ہیں۔ لیکن ان کے تصوّر واقعی میں توجہ کے قابل ہے،" وہ کہتے ہیں۔ وہ اپنی جگہ بدل کر اسٹرنگ نظریاتیوں کو للکارتے ہیں کہ وہ افراط کو بیان کریں۔ " لمبے عرصے میں، میں سمجھتا ہوں کہ لامحالہ اسٹرنگ نظریئے اور ایم نظریئے کو افراط کو اپنا اندر سمونا پڑے گا، کیونکہ افراط ہی بظاہر ایک ایسا حل ہے جو مسئلے کو حل کرنے کے لئے بنایا ہے – یعنی کہ آیا کہ کیوں کائنات اس قدر یکساں اور چپٹی ہے؟

آخری میں کونیات کا ایک اور نظریہ میدان میں موجود ہے جو اسٹرنگ نظریئے کا سہارا لیتا ہے ، "بگ بینگ سے پہلے" کا نظریہ جس کو گیبریل وینزیانو نے پیش کیا ہے ۔ یہ وہی ماہر طبیعیات ہیں جنہوں نے ١٩٦٨ء میں اسٹرنگ کا نظریہ شروع کیا تھا۔ اس نظریئے میں کائنات اصل میں ایک بلیک ہول کے طور پر شروع ہوئی۔ اگر ہم جاننا چاہتے ہیں کہ بلیک ہول اندر سے کیسا دکھائی دیتا ہے، تو ہمیں اس کو باہر سے دیکھنا ہوگا۔

اس نظریئے میں کائنات کی اصل عمر لامحدود ہے اور اس کی شروعات ماضی بعید میں خالی اور ٹھنڈ سے ہوئی۔ قوّت ثقل نے پوری کائنات میں مادّے کے ڈھیر بنانے شروع کر دیے تھے ، جنہوں نے بتدریج تکثیف ہو کر ایسے علاقے کثیف علاقے بنا لئے جو بلیک ہول میں تبدیل ہو گئے۔

واقعاتی افق ہر بلیک ہول کے گرد بننے شروع ہو گئے، جنہوں نے مکمل طور پر واقعاتی افق کے خارجی حصّے کو اندرونی حصّے سے الگ کر دیا۔ ہر واقعاتی افق کے اندر، مادّہ قوّت ثقل کے زیر اثر دبنا شروع ہو گیا، یہاں تک کہ بلیک ہول پلانک لمبائی تک پہنچ گیا۔ اس نقطے پر پہنچ کر اسٹرنگ نظریہ کمان سنبھال لیتا ہے۔ پلانک لمبائی وہ کم سے کم فاصلہ ہے جس کی اجازت اسٹرنگ نظریہ دیتا ہے۔ بلیک ہول اس نقطہ پر پہنچ کر واپس ایک عظیم دھماکے میں پھٹ پڑتا ہے جس کے نتیجے میں بگ بینگ شروع ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ عمل کائنات میں دھرایا جاتا ہے ، لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ شاید دوسرے بلیک ہول یا کائناتیں دور دراز میں موجود ہوں۔

( یہ خیال کہ ہماری کائنات ایک بلیک ہول ہے اتنا بھی بعید از قیاس نہیں ہے جتنا کہ لگتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بلیک ہول شدید کثیف ہوتے ہیں جن کی انتہائی زبردست اور کچل دینے والے ثقلی میدان ہوتے ہیں، لیکن ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا۔ بلیک ہول کے واقعاتی افق کا حجم اس کی کمیت کے تناسب سے ہوتا ہے۔ جتنا زیادہ کثیف بلیک ہول ہوگا اس کا واقعاتی افق بھی اتنا زیادہ بڑا ہوگا۔ لیکن بڑے واقعاتی افق کا مطلب ہوگا کہ مادّہ کافی بڑی جگہ میں پھیلا ہوا ہے؛ نتیجتاً، کثافت، کمیت کے بڑھنے کے ساتھ کم ہوگی۔ اصل میں اگر بلیک ہول کا وزن اتنا ہوگا جتنا کہ ہماری کائنات کا، تو اس کا حجم بھی ہماری کائنات کے جتنا ہی ہوگا اور اس کی کمیت ہماری کائنات کے مقابلے میں کافی کم ہوگی۔)

کچھ فلکی طبیعیات دان بہرحال اسٹرنگ نظریئے اور ایم نظریئے کے کائنات پر اطلاق سے خوش نہیں ہیں۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، سانتا کروز کے جول پری میک دوسروں کے مقابلے میں کم دریا دل ہیں ، "میں سمجھتا ہوں کہ اس چیز سے کچھ بنانا بہت ہی بیوقوفانہ بات ہوگی ۔۔۔ ان مقالات میں موجود خیالات کی جانچ نہیں کی جا سکتی۔" یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ آیا پری میک ٹھیک ہیں، لیکن اسٹرنگ نظریئے کی رفتار میں تیزی آئی ہے، لہٰذا امید ہے کہ مسئلے کا حل جلد ہی حاصل ہو جائے گا، اور ہو سکتا ہے کہ یہ ہمارے خلاء میں موجود سیارچوں کی طرف سے ہی آ جائے۔ جیسا کہ ہم نویں باب میں دیکھیں گے، ایک نئی نسل کا ثقلی سراغ رساں مثلاً لیزا خلاء میں ٢٠٢٠ء تک بھیجا جائے گا جو ہمیں نظریئے کی جانچ کرنے میں مدد کرے گا ۔ مثال کےطور پر اگر افراط پذیر کائنات کا نظریہ درست ہوا ، تو لیزا شدید ثقلی موجوں کا سراغ لگا لے گے جو اصل افراطی دور میں پیدا ہوئی ہوں گی۔ آتشی کائنات بہرحال کائنات کے درمیان ہونے والے تصادم کو انتہائی آہستگی کے ساتھ ہونے والا تصادم بتاتی ہے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ثقلی موجیں انتہائی ہلکی ہوں گی۔ لیزا تجرباتی طور پر ان میں سے کسی ایک نظریئے کو ثابت اور کسی ایک کو باطل کرے گی۔ بالفاظ دیگر اصل بگ بینگ میں پیدا ہونے والی قوّت ثقل کی لہروں میں رمز بند اطلاعات کو حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ کونسا نظریہ درست ہے۔ پہلی مرتبہ شاید لیزا ہمیں افراط پذیر کائنات، اسٹرنگ نظریئے اور ایم نظریئے کے بارے میں ٹھوس تجرباتی نتائج دے گا۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ساتواں باب - 19
چھوٹے بلیک ہولز


کیونکہ اسٹرنگ کا نظریئے پوری کائنات کا نظریہ ہے لہٰذا اس کی براہ راست جانچ کے لئے تجربہ گاہ میں ایک کائنات بنانی پڑے گی (نواں باب دیکھیں)۔ عام طور پر ہم قوّت ثقل کے کوانٹم اثرات کو ہم پلانک توانائی پر دیکھنے کی امید کرتے ہیں جو ہمارے موجودہ ذرّاتی اسراع گروں کی طاقت سے بھی ایک پدم گنا زیادہ ہے اور یہ بات اسٹرنگ نظریئے کی براہ راست جانچ کو ناممکن بنا دیتی ہے۔ لیکن اگر حقیقت میں کوئی متوازی کائنات ہم سے ایک ملی میٹر فاصلے پر وجود رکھتی ہے، تو وہ توانائی جس پر کوانٹم اثرات اور وحدت وقوع پذیر ہوگی وہ کافی کم ہوگی جو اگلی نسل کے ذرّاتی اسراع گروں کی پہنچ میں ہوگی جیسا کہ لارج ہیڈرون کولائیڈر ۔ اس بات نے بلیک ہول کی طبیعیات میں ایک دلچسپی لینے کے لئے ایک طوفان بپا کر دیا ہے، سب سے زیادہ ہیجان انگیز "چھوٹا بلیک ہول "ہے۔ چھوٹا بلیک ہول ایسے برتاؤ کرے گا جیسے کہ ایک ذیلی جوہری ذرّہ کرتا ہے ، یہ ایک ایسی تجربہ گاہ ہیں جس میں ہم اسٹرنگ نظریئے کی کچھ پیش گوئیوں کی جانچ کر سکتے ہیں۔ طبیعیات دان ان کو ایل ایچ سی کے ذریعہ ممکنہ طور پر بنانے کے لئے کافی پرجوش ہیں۔ (چھوٹے بلیک ہول ، الیکٹران کے مقابلے میں اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ وہ زمین پر کسی چیز کو نگل نہیں سکتے۔ کائناتی اشعاع جو عام طور پر زمین سے ٹکراتی ہیں ان کی توانائی ان چھوٹے بلیک ہولز سے کہیں زیادہ ہوتی ہے جن کا کوئی خطرناک اثر زمین پر نہیں ہوتا۔)

جتنا انقلابی خیال یہ لگتا ہے اصل میں ایسا نہیں ہے ، ایک ایسے بلیک ہول کا خیال جس نے ذیلی جوہری ذرّے کا سوانگ بھرا ہوا ہے کافی پرانا ہے اور اس کو پہلی مرتبہ آئن سٹائن نے ١٩٣٥ء میں متعارف کروایا تھا۔ آئن سٹائن کے مطابق ایک ایسا وحدتی میدانی نظریہ ضرور موجود ہونا چاہئے جس میں ذیلی جوہری ذرّات سے بنا ہوا مادّہ مکان و زمان کی ساخت میں کسی طرح سے خلل ڈالے۔ اس کے مطابق ذیلی ذرّات جیسا کہ الیکٹران اصل میں تو خم زدہ مکان میں پیچ یا ثقب کرم تھے جو دور سے ذرّات جیسے دکھائی دیتے تھے۔ آئن سٹائن نے ناتھن روزن کے ساتھ مل کر اس خیال کو پیش کیا کہ ہو سکتا ہے کہ اصل میں الیکٹران چھوٹے بلیک ہولز ہیں جنہوں نے بھیس بدلا ہوا ہے۔ اس طرح سے اس نے مادّے کو اپنی اس وحدتی میدانی نظریئے میں سمونے کی کوشش کی جو ذیلی ذرّات کو کم کرکے خالص جیومیٹری میں بدل سکتی ہے۔

چھوٹے بلیک ہولز کو دوبارہ سے اسٹیفن ہاکنگ نے متعارف کروایا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ بلیک ہول اس وقت بنتے ہیں جب مادّے کو بھینچ کر شیوارز چائلڈ نصف قطر میں کر دیا جائے۔ کیونکہ کمیت اور توانائی ایک دوسرے میں تبدیل ہو سکتے ہیں ، لہٰذا بلیک ہول توانائی کو بھینچ کر بھی بنائے جا سکتے ہیں۔ لوگوں کی اس بات میں کافی دلچسپی قائم ہے کہ آیا ایل ایچ سی اس دھول سے چھوٹے بلیک ہول کو تخلیق کر پائے گی یا نہیں، جو دو پروٹونوں کے ١٤٠ کھرب وولٹ الیکٹران کی توانائی سے ٹکرانے کے بعد پیدا ہوگا۔ یہ بلیک ہول کافی ننھے ہوں گے اور ان کی عمر صرف 10-23 سیکنڈ ز کی ہوگی۔ لیکن ایل ایچ سی کے تخلیق کردہ ذیلی جوہری ذرّات کے راستے میں یہ واضح طور پر نظر آئیں گے۔

طبیعیات دانوں کو اس بات کی بھی امید ہے کہ خلائے بعید سے آنے والی کونیاتی اشعاع میں بھی چھوٹے بلیک ہول موجود ہو سکتے ہیں۔ پیری اوگر کازمک رے آبزرویٹری ، ارجنٹینا اس قدر حساس ہے کہ یہ سائنس کی دنیا میں کچھ اب تک کی درج کی جانے والی سب سے بڑی کائناتی اشعاع کی بوچھاڑ کو درج کر سکتی ہے۔ امید یہ ہے کہ چھوٹے بلیک ہول قدرتی طور پر کائناتی اشعاع میں مل جائیں، یہ اس وقت ایک مخصوص پھوار پیدا کرتے ہیں جب زمین کی بالائی فضا سے ٹکراتے ہیں۔ ایک حساب تو اس بات کو ظاہر کرتا ہے اوگر کازمک رے سراغ رساں شاید اس قابل ہو کہ ایک سال میں ان دس کونیاتی اشعاع کی بو چھاڑوں کو درج کر سکے جو چھوٹے بلیک ہولز کو جنم دیتی ہوں۔

چھوٹے بلیک ہول کا سراغ ہو سکتا ہے کہ اسی عشرے میں مل جائے چاہئے ایل ایچ سی ، سوئٹزر لینڈ میں ہو یا اوگر کازمک رے ڈٹیکٹر ، ارجنٹینا میں، یہ متوازی کائناتوں کے وجود کا کافی اچھا ثبوت ہوگا۔ ہرچند یہ حتمی طور پر اسٹرنگ نظریئے کو ثابت نہیں کرے گا لیکن یہ تمام طبیعیات دنیا کو اس بات پر ضرور راضی کر لے گا کہ اسٹرنگ نظریہ تمام تجرباتی نتائج سے ہم آہنگ ہے اور صحیح سمت کی طرف جا رہا ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ساتواں باب - 20

بلیک ہولز اور اطلاع کا تناقض




اسٹرنگ نظریہ ممکن ہے کہ کچھ بلیک ہولز کے گہرے تناقضات پر کچھ روشنی ڈال سکے مثلاً اطلاع کا تناقض ۔ جیسا کہ آپ کو یاد ہوگا کہ بلیک ہولز مکمل طور پر کالے نہیں ہوتے بلکہ سرنگ کے ذریعہ تھوڑی سی اشعاع کو خارج کرتے ہیں۔ کوانٹم نظریئے کی وجہ سے ہمیشہ اس بات کا امکان رہے گا کہ اشعاع کو بلیک ہول کی قوّت ثقل کے شکنجے سے فرار کا موقع ملے۔ اس وجہ سے بلیک ہول سے اشعاع آہستہ آہستہ رسیں گی جس کو "ہاکنگ کی اشعاع" کہا جاتا ہے۔

ان اشعاع کا ایک مخصوص درجہ حرارت ہوتا ہے (جو کہ بلیک ہول کے واقعاتی افق کی نسبت ہوتا ہے)۔ ہاکنگ نے اس مساوات کا عمومی استنباط کیا ہے جس میں ہاتھ سے کافی کام کرنا پڑتا ہے۔ بہرحال ایک سخت محنت والا استنباطی نتیجہ اس بات کا متقاضی ہے کہ شماریاتی میکانیات کی بھرپور طاقت کا استعمال کیا جائے۔ (اس کی بنیاد بلیک ہول کی کوانٹم کی شماری حالت پر ہے )۔ عام طور پر شماریاتی مکانیکی حسابات ان حالتوں کا شمار کرکے حاصل کئے جاتے ہیں جو ایک جوہر یا سالمہ رکھتا ہے۔ لیکن آپ کس طرح سے بلیک ہول کی حالتوں کو شمار کریں گے؟ آئن سٹائن کے نظریئے میں بلیک ہول مکمل طور پر ہموار ہوتے ہیں، لہٰذا کوانٹم کی حالت کا شمار کرنا مشکل ہوگا۔

اسٹرنگ نظری اس خلاء کو پر کرنے کے لئے کافی پرامید ہیں، لہٰذا ہارورڈ کے اینڈریو اسٹرومنگر اور کمرم وافا نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ ایم نظریئے کا استعمال کرتے ہوئے بلیک ہول کا تجزیہ کیا جائے۔ کیونکہ بلیک ہول بذات خود کام کرنے کے لئے ایک انتہائی مشکل جسم ہے ، لہٰذا انہوں نے ایک مختلف ترکیب کا استعمال کیا اور ایک عیارانہ سوال پوچھا۔ بلیک ہول کی ثنویت کیا ہے؟ (ہم یاد دلاتے چلیں کہ الیکٹران کی ثنویت ایک یک قطبی مقناطیس مثلاً ایک شمالی قطب والا مقناطیس ہے۔ لہٰذا الیکٹران کا کمزور برقی میدان میں تجزیہ جو آسانی سے ہو جاتا ہے کرکے ہم مزید کافی مشکل تجربات کو کر سکتے ہیں ۔ مثلاً ایک یک قطبی کو بڑے مقناطیسی میدان میں رکھیں۔ امید تو ہے کہ بلیک ہول کے ساتھی کا تجزیہ کرنا خود بلیک ہول کے تجزیہ کرنے سے آسان ہوگا بہرحال دونوں کے نتائج ایک جیسے ہی ہوں گے۔ ریاضیاتی توڑ جوڑ کے سلسلے کے بعد اسٹرومنگر اور وافا اس بات کا مظاہرہ کرنے کے قابل ہو گئے کہ بلیک ہول ایک برین اور پانچ برین کے مجموعہ کا جڑواں ہے۔ یہ ایک شاندار کامیابی تھی، کیونکہ ان برین کی حالت کی تعداد کا شمار معلوم تھا۔ جب اسٹرومنگر اور وافا نے کوانٹم کی حالتوں کا شمار کیا تو انھیں بالکل درست طور پر ہاکنگ کے نتائج حاصل ہوئے۔

یہ ایک بہت ہی اچھی خبر تھی۔ اسٹرنگ نظریہ جس کو اکثر اوقات یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ یہ کسی طور پر حقیقی دنیا سے جڑا نظر نہیں آتا، شاید ہمیں بلیک ہولز کے حر حرکیات کا سب سے نفیس حل فراہم کر دے۔

اب اسٹرنگ نظری بلیک ہول کی طبیعیات کے سب سے مشکل مسئلے سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کر رہے ہیں یعنی کہ "اطلاعاتی تناقض"۔ ہاکنگ کہتا ہے کہ اگر آپ کوئی چیز بلیک ہول میں پھینکیں گے تو اس میں موجود اطلاع ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی اور وہ دوبارہ کبھی حاصل نہیں کی جا سکے گی۔(یہ کسی بھی جرم کرنے کا سب سے بہترین طریقہ ہے۔ کوئی بھی مجرم بلیک ہول کو تمام گناہوں کے ثبوتوں کو مٹانے کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔ فاصلے پر رہتے ہوئے ہم صرف جو چیز بلیک ہول کی ناپ سکتے ہیں وہ اس کی کمیت ، گھماؤ اور بار ہے۔ اس بات سے کچھ فرق نہیں پڑے گا کہ آپ نے بلیک ہول میں کیا چیز ڈالی ہے جو بھی چیز ڈالی جائے گی وہ تمام اطلاعات کو ضائع کر دے گی۔ (اس بات کو یوں بھی کہا جاتا ہے کہ "بلیک ہولز کے بال نہیں ہیں" یعنی یہ تمام اطلاع تمام بالوں کو ضائع کر دیتے ہیں بجز ان تین چیزوں کے۔)

ہماری کائنات سے اطلاع کا ضائع ہونا آئن سٹائن کے نظریئے کی رو سے بھی لامحالہ بات ہے ، لیکن یہ کوانٹم میکانیات کے اصول کی صریحاً خلاف ورزی ہے جو کہتا ہے کہ اطلاع کبھی بھی ضائع نہیں ہوگی۔ کائنات میں کہیں اطلاع ضرور تیر رہی ہوگی یہ بات اس وقت بھی درست ہوگی جب اطلاع کا اصل ماخذ بھی بلیک ہول میں ڈال دیا جائے گا۔

"زیادہ تر طبیعیات دان اس پر یقین رکھنا چاہتے ہیں کہ اطلاع ضائع نہ ہو۔" ہاکنگ نے لکھا، " کیونکہ اس طرح سے دنیا محفوظ اور قابل پیش بین ہو جائے گی۔ لیکن میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اگر کوئی آئن سٹائن ک عمومی اضافیت کا نظریئے سنجیدگی کے ساتھ لے تو اسے اس امکان کی اجازت دینی ہوگی کہ مکان و زمان خود سے ایک گراہ میں بند ہے اور اطلاع اس گراہ میں غائب ہو گئی ہے۔ اس بات کا تعین کرنا کہ اصل میں اطلاع ضائع ہو گئی ہے یا نہیں یہ عصر حاضر کی نظری طبیعیات کا اہم سوال ہے۔"

یہ وہ تناقض ہے جس نے اسٹرنگ نظریات کے خلاف ہاکنگ کو موقع فراہم کیا ہے یہ اصل میں اب بھی حل طلب ہے۔ لیکن اسٹرنگ نظریاتی اب بھی اس بات پر شرط لگاتے ہیں کہ وہ بالآخر اس بات کا سراغ لگا لیں گے کہ غائب شدہ اطلاع آخر جاتی کہاں ہے۔ (مثال کے طور پر، اگر آپ ایک کتاب کو بلیک ہول میں پھینکیں گے، یہ بات قابل فہم ہے کہ اس کتاب میں موجود اطلاع آہستگی کے ساتھ واپس کائنات میں ننھی ارتعاش کی شکل میں جو ہاکنگ کی اشعاع کی صورت میں بلیک ہول کو تحلیل کر رہی ہوں گی نکل آئیں گی۔ یا شاید یہ بلیک ہول کے دوسری طرف موجود سفید شگاف میں سے نکل آئے گی۔) یہی وجہ ہے کہ میں ذاتی طور پر اس بات کو سمجھتا ہوں کہ جب کوئی حتمی طور پر حساب لگاتا ہے کہ اسٹرنگ نظریئے میں اس وقت کیا ہوگا جب اطلاع بلیک ہول میں غائب ہو جائے گی، تو اصل میں اسے معلوم ہوگا کہ اطلاع در حقیقت غائب نہیں ہوئی بلکہ لطیف طور پر کسی دوسری جگہ ظاہر ہو گئی ہے۔

٢٠٠٤ء میں ایک انگشت بدنداں کر دینے والا واقعہ اس وقت نمودار ہوا جب ہاکنگ نے نیویارک ٹائمز کے صفحہ اوّل اور ٹیلی ویژن کیمروں کے سامنے اس بات کا اعلان کیا کہ وہ اطلاعاتی مسئلہ کے موضوع پر غلط تھا۔ (تئیس برس قبل اس نے دوسرے طبیعیات دانوں سے شرط لگائی تھی کہ اطلاع کبھی بھی بلیک ہول سے نہیں نکل سکتی۔ شرط ہارنے والے کو جیتنے والے کو ایک انسائیکلوپیڈیا دینا تھا جس میں سے معلومات کو آسانی کے ساتھ حاصل کیا جا سکتا ہو۔) اپنے شروع کے ریاضیاتی حساب کتاب کو دوبارہ سے کرنے کے بعد اس نے نتیجہ اخذ کیا کہ اگر کوئی چیز جیسا کہ کتاب بلیک ہول میں گرتی ہے تو یہ اس سے خارج ہونے والی اشعاع کے میدان میں گڑبڑ پیدا کر دے گی، اور یوں اطلاع واپس کائنات میں نکل جائے گی۔ کتاب کے اندر موجود معلومات اشعاع کی صورت میں رمز بند ہو کر آہستہ سے بلیک ہول سے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر رسے گی۔

ایک طرح اس اعلان نے ہاکنگ کو کوانٹم طبیعیات دانوں کے جم غفیر میں شامل کر دیا جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اطلاع غائب نہیں ہو سکتی۔ لیکن اسی بات نے ایک سوال کو بھی اٹھا دیا ہے کہ آیا کیا اطلاع متوازی کائنات میں بھیجی جا سکتی ہے۔

بہرحال کسی کو بھی یقین نہیں ہے کہ یہ اس موضوع پر کوئی حتمی رائے ہے۔ تاآنکہ اسٹرنگ نظریہ مکمل طور پر نہیں بن جاتا اس وقت تک کوئی بھی یقین نہیں کرے گا کہ اطلاع کا تناقض مکمل طور پر حل ہو گیا ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ساتواں باب - 21

نعکاسی کائنات




ایم نظریئے کی آخری ایک اور پیش بینی ہے جس کو ابھی تک نہیں سمجھا جا سکا ہے لیکن اس کے طبیعی اور فلسفیانہ نتائج ہو سکتے ہیں۔ یہ نتائج ہمیں ان سوالات کو پوچھنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کیا کائنات ایک ہولو گرام ہے؟ کیا کوئی "کائنات کا عکس" موجود ہے جہاں ہمارے جسم دو جہتی شکل میں موجود ہیں؟ کیا کائنات کو ایک سی ڈی میں رکھا جا سکتا ہے جس کو ہماری تفریح طبع کی خاطر چلایا جا سکتا ہو؟ ہولو گرام اب کریڈٹ کارڈز ، بچوں کے عجائب گھروں، اور تفریحی پارکوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ انتہائی شاندار ہوتے ہیں کیونکہ یہ سہ جہتی شبیہ کو دو جہتی سطح پر اتار لیتے ہیں۔ عام طور پر اگر آپ کسی تصویر کو دیکھتے ہیں اور جب اپنا سر ہلاتے ہیں تو تصویر بدلتی نہیں ہے۔ لیکن ہولو گرام ذرا مختلف ہوتا ہے۔ جب آپ ہولوگرافک تصویر کو دیکھتے ہیں اور اپنے سر کو حرکت دیتے ہیں اس وقت آپ کو تصویر بدلتی ہوئی نظر آتی ہے ایسا لگتا ہے جیسے کہ آپ اس تصویر کو کھڑکی یا سوراخ سے دیکھ رہے ہیں۔ (ممکن ہے کہ ہولو گرام بالآخر سہ جہتی ٹیلی ویژن اور فلموں کو حقیقی دنیا میں لے آئیں۔ مستقبل میں ممکن ہے کہ ہم اطمینان سے اپنے کمرے میں بیٹھ کر دیوار پر لگی اسکرین کو دیکھ رہے ہوں گے جو ہمیں دور دراز کی جگہوں کے مکمل سہ جہتی نظارے ایسے کرا رہی ہوگی جیسا کہ ٹیلی ویژن کی اسکرین اصل میں کھڑکی ہو اور ہم اس کھڑکی کے اندر سے نئے نظارے کر رہے ہوں۔ مزید براں اگر دیوار پر لگنے والی اسکرین ایک بڑے سلنڈر کی شکل کی ہوگی اور جو ہمارے کمرے کے بیچ میں رکھی ہوئی ہو تو ایسا لگے کہ ہم ایک نئی دنیا میں چلے گئے ہیں۔ ہم جہاں بھی نگاہ اٹھا کر دیکھیں گے ہم پر ایک نئی سہ جہتی حقیقت آشکار ہوگی جس کو اصلی دنیا سے الگ کرنا بہت مشکل ہوگا۔)

ہولو گرام کی اصل روح یہ ہے کہ وہ دو جہتی سطح پر وہ تمام معلومات کو رمز بند کر لیتا ہے جو سہ جہتی تصویر بنانے کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ ( ہولو گرام کو تجربہ گاہ میں لیزر کی روشنی ایک حساس عکاسانہ پلیٹ پر مار کر روشنی کو اصل مبدا سے آنے والی لیزر کی کرن کے ساتھ باہمی تعامل کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

کچھ طبیعیات دانوں کے خیال میں اس کو کائنات پر بھی لاگو کیا جا سکتا ہے - ممکن ہے کہ ہم کسی ہولو گرام میں رہ رہے ہوں۔ یہ پراسرار پیش بینی بلیک ہول کی طبیعیات سے نکلتی ہے۔ بیکن سٹین اور ہاکنگ کے خیال میں بلیک ہول میں اطلاعات کی کل مقدار واقعاتی افق (جو کرۂ ہے ) کی سطح سے متناسب ہوتا ہے۔ یہ عجیب نتیجہ ہے کیونکہ عام طور پر جسم میں موجود ذخیرہ شدہ معلومات اس کی مقدار کے تناسب سے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کتاب میں موجود معلومات اس کی جلد کے سطحی رقبے کے بجائے حجم کے تناسب سے ہوتی ہے۔ یہ بات ہم بے اختیار طور پر جانتے ہیں کیونکہ ہم کسی کتاب کی جلد کو دیکھ کر اس کے بارے میں رائے قائم نہیں کر سکتے۔ لیکن ہمارا یہ وجدان بلیک ہول کے لئے ناکام ہو جاتا ہے ۔ ہم بلیک ہول کا اندازہ باہر سے ہی دیکھ کر کرتے ہیں۔

ہم اس عجیب قیاس کو رد کر سکتے ہیں کیونکہ بلیک ہول بذات خود ہی عجیب و غریب چیز ہیں جہاں پر عمومی جبلت ختم ہو جاتی ہے۔ بہرحال ان نتائج کا اطلاق ایم نظرئیے پر بھی ہوتا ہے، جو ہمیں کائنات کی سب سے بہترین توجیہہ دے سکتی ہے۔ ١٩٩٧ء میں پرنسٹن میں واقع انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ اسٹڈی کے جوین ملڈاسینا نے اس وقت کافی سنسنی پھیلا دی جب انہوں نے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ اسٹرنگ نظریہ ایک نئی قسم کی ہولوگرافک کائنات کی جانب لے جاتا ہے۔

اس نے شروعات ایک پنچ جہتی "ضد ڈی سٹر کائنات " سے کی جو اکثر اسٹرنگ نظرئیے یا فوق قوّت ثقل نظرئیے میں نمودار ہوتی ہے۔ ایک ڈی سٹر کائنات وہ کائنات ہے جس میں کائناتی مستقل مثبت ہے جس کی وجہ سے کائنات میں اسراع ہے۔ (ہم یاد دلاتے چلیں کہ ہماری کائنات فی الوقت ڈی سٹر کائنات کی سب سے موزوں امید وار ہے، جہاں کائناتی مستقل مثبت ہے جو کہکشاؤں کو تیز سے تیز سمتی رفتار سے دور دھکیل رہا ہے۔ ایک ضد ڈی سٹر کائنات میں منفی کائناتی مستقل ہو سکتا ہے لہٰذا وہ پھٹ سکتی ہے۔) ملڈاسینا اس بات کو ثابت کیا کہ پانچ جہتی کائنات اور اس کے کنارے جو کہ چار جہتی کائنات ہے میں ثنویت موجود ہے۔ یہ کافی حیرانی کی بات ہے کہ کوئی بھی ہستی جو اس پنچ جہتی کائنات میں رہ رہی ہو گی وہ ریاضیاتی حساب سے چار جہتی مکان میں رہنے والی ہستی کے برابر ہی ہوگی۔ کوئی بھی ایسا طریقہ نہیں ہے جس میں یہ دونوں الگ ہوں۔

ہم اس بات کو ایک خام تشبیہ سے بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایک مچھلی کو سنہری مچھلی کی بوتل میں تیرتا ہوا تصوّر کریں۔ یہ مچھلیاں سمجھتی ہیں کہ ان کی بوتل حقیقت سے قریب تر ہے۔ اب ایک دو جہتی ہولوگرافک تصویر کا تصوّر کریں جس کو مچھلی کی بوتل پر ڈالا جا رہا ہے۔ یہ تصویر اصل مچھلی کی بالکل اصل نقل ہے بجز اس کے کہ یہ چپٹی ہے۔ کوئی بھی حرکت جو مچھلی بوتل میں کرے گی وہ بوتل کی سطح پر موجود چپٹی تصویر بھی کرے گی۔ وہ مچھلی جو بوتل کے اندر تیر رہی ہے اور وہ مچھلی جو چپٹی ہو کر بوتل کی سطح پر رہ رہی ہے دونوں سمجھیں گی کہ وہ اصلی مچھلی ہیں اور دوسری مچھلی ایک سراب ہے۔ دونوں مچھلیاں زندہ ہیں اور ایسا برتاؤ کر رہی ہیں کہ جیسا کہ وہ اصلی ہوں۔ کون سی چیز درست ہے؟ اصل میں دونوں ہی سچی ہیں کیونکہ ریاضیاتی طور پر دونوں ایک جیسی اور ناقابل شناخت ہیں۔

جو بات اسٹرنگ نظریاتیوں کو پرجوش کر دیتی ہے وہ یہ کہ پانچ جہتی ضد ڈی سٹر مکان کا حساب لگانا آسان ہے جبکہ چار جہتی میدانی نظریات سے کام لینا انتہائی مشکل بات ہے۔ (آج بھی عشروں کی سخت محنت کے بعد ہمارے سب سے طاقتور کمپیوٹر بھی چار جہتی کوارک کے نمونے کو نہ تو حل کر سکتے ہیں اور نہ ہی پروٹون اور نیوٹران کی کمیت کو نکال سکتے ہیں۔ کوارک کی مساوات کو خود سے کافی اچھی طرح سمجھا جا چکا ہے لیکن ان کو چار جہت میں حل کرکے پروٹون اور نیوٹران کی خصوصیات کو حاصل کرنا اس سے زیادہ مشکل ہے جتنا پہلے سمجھا جاتا تھا۔ ) عجیب ثنویت کا استعمال کرتے ہوئے ایک مقصد تو نیوٹران اور پروٹون کی خصوصیات کو معلوم کرنا ہے۔

اس ہولوگرافک خاصیت کے عملی اطلاقیات ہو سکتے ہیں مثلاً بلیک ہول کی طبیعیات میں اطلاعاتی تناقض کو حل کرنا ۔ چار جہت میں اس بات کو ثابت کرنا انتہائی مشکل کام ہے کہ اطلاع اس وقت کہیں غائب ہو گئی ہے جب ہم نے اسے بلیک ہول میں پھینکا ہے ۔ لیکن ایسا کوئی بھی مکان پنج جہتی مکان میں جڑواں ہوگا لہٰذا وہاں شاید اطلاع کبھی بھی غائب نہیں ہوگی۔ امید یہ ہے کہ وہ مسئلہ جو بے چار جہتی دنیا میں بے لگام ہے (مثلاً اطلاعاتی مسئلہ ، کوارک کے نمونوں میں کمیت کا حساب لگانا وغیرہ وغیرہ) بالآخر پانچ جہت میں بھی حل ہو جائے گا جہاں پر ریاضی کافی آسان ہے۔ اور یہ ہمیشہ سے ممکن رہا ہے کہ یہ تشبیہ اصل میں حقیقی دنیا کا ہی عکس ہے – یعنی کہ اصل میں ہم ایک ہولوگرام دنیا میں رہ رہے ہوں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
کیا کائنات ایک کمپیوٹر پروگرام کی طرح ہے؟



جیسا کہ ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں کہ جان وہیلر اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تمام طبیعی حقیقتوں کو خالص اطلاع تک کم کیا جا سکتا ہے۔ بینک سٹین بلیک ہول کے تصوّر کو ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے ان چھوئی سرحدوں کی طرف لے جاتے ہیں وہ سوال کرتے ہیں کیا کائنات کوئی کمپیوٹر کا پروگرام ہے؟ کیا ہم کائناتی سی ڈی میں محفوظ صرف اطلاع ہیں؟

یہ سوال کہ آیا کیا ہم کمپیوٹر پروگرام کے اندر رہ رہے ہیں بہت ہی اچھی طرح سے فلم میٹرکس کا موضوع بنایا گیا ہے جہاں خلائی مخلوق نے تمام طبیعی حقیقتوں کو کم کرکے ایک کمپیوٹر پروگرام میں ڈال دیا تھا۔ ارب ہا انسان سمجھتے ہیں کہ وہ روز مرہ کی زندگی گزار رہے ہیں، اس بات سے بے خبر کہ یہ صرف کمپیوٹر کی پیدا کردہ دنیا ہے جبکہ ان کے اصل جسم خول میں سو رہے ہیں جہاں خلائی مخلوق ان کو بطور توانائی کے مبدا کے طور پر استعمال کرتی ہے۔

فلم میں یہ بات ممکن ہوتی ہے کہ چھوٹے کمپیوٹر پروگراموں کو چلایا جائے جو مصنوعی چھوٹی حقیقتیں پیدا کر دیتا ہے ۔ اگر کوئی کنگ فو ماسٹر یا ہیلی کاپٹر کا پائلٹ بننا چاہتا ہے تو صرف کمپیوٹر میں سی ڈی لگاؤ اس میں موجود پروگرام آپ کے دماغ میں منتقل ہو جائے گا اور یہ لیں! آپ نے فوری طور پر ان پیچیدہ ہنر مندیوں کو سیکھ لیا ہے۔ جب سی ڈی چل رہی ہوتی ہے تو ایک مکمل نئی حقیقت پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ ایک پیچیدہ سوال پیدا کرتا ہے کیا تمام حقیقتوں کو ایک سی ڈی میں رکھا جا سکتا ہے؟

ارب ہا سوتے ہوئے لوگوں کو نقلی حالت حقیقی میں لانے کے لئے جو کمپیوٹر کو توانائی درکار ہوگی وہ ناقابل تصوّر ہے۔ لیکن کیا نظری طور پر مکمل کائنات ایک محدود کمپیوٹر کے پروگرام میں ذخیرہ کی جا سکتی ہے؟ اس سوال کی جڑیں نیوٹن کے قانون حرکت اور بہت ہی تجارت اور ہماری روزمرہ زندگی کے عملی اطلاقیوں تک جاتی ہیں۔ مارک ٹوئن اس بات کو کہنے کے بہت ہی زیادہ شوقین تھے، "ہر کوئی موسم کے شکایت کرتا ہے، لیکن کوئی بھی اس کے لئے کچھ نہیں کرتا ۔ "جدید تہذیب ایک خالی طوفان کو نہیں بدل سکتی لیکن طبیعیات دان ایک اور سوال کرتے ہیں آیا ہم موسم کی پیش گوئی کر سکتے ہیں؟ کیا کمپیوٹر پروگرام اس طرح سے بنایا جا سکتا ہے جو زمین کے پیچیدہ موسموں کے نمونوں کی پیشن گوئی کر سکے ۔ اس پیش گوئی کے کافی عملی اطلاق ان لوگوں کے لئے موجود ہیں جو موسم کو جاننا چاہتے ہیں ، کھیتوں میں کام کرنے والے اس کسان سے لے کر جو یہ جاننا چاہتا ہے کہ کب اپنی فصل کو لگائے ماہر موسمیات تک جو اس صدی میں ہونے والی عالمگیر حرارت کے بارے میں جاننا چاہتا ہے۔

اصولی طور پر کمپیوٹر نیوٹن کے قانون حرکت کا استعمال کرتے ہوئے لگ بھگ خودمختاری کے ساتھ درست طور ان سالمات کو بیان کر سکتے ہیں جو موسموں کو بناتے ہیں۔ لیکن عملی طور پر کمپیوٹر پروگرام کافی خام ہیں اور وہ موسم کے بارے میں ایک یا چند دن سے زیادہ دور کی پیش گوئی نہیں کر سکتے۔ موسم کی پیش بینی کے لئے ہوا کے ہر سالمہ کی حرکت کا تعین کرنا پڑے گا۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو ہمارے موجودہ سب سے زیادہ طاقتور کمپیوٹر کی پہنچ سے بھی باہر ہے۔ ایک مسئلہ انتشاری نظرئیے اور "تتلی کے اثر" کا بھی ہے، جہاں ہلکی سی تتلی کے پر سے ہونے والی تھرتھراہٹ بھی لہریں پیدا کر دیتی ہے جو اس قدر اثر رکھتی ہے کہ سینکڑوں کلومیٹر دور موسم کو فیصلہ کن طور پر تبدیل کر دیتی ہے۔

ریاضی دان اس صورتحال کو اس طرح سے بیان کرتے ہیں کہ چھوٹے سے چھوٹا نمونہ جو موسم کو درستگی کے ساتھ بیان کر سکے وہ خود موسم ہی ہے۔ بجائے ہر سالمہ کی صغیر پیمانے پر جانچ کی جائے ، سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم آنے والے کل کے موسم کے بارے میں تخمینہ جات کے ساتھ ساتھ نمونے اور رجحان کو دیکھیں(مثلاً گرین ہاؤس اثر)۔

لہٰذا نیوٹنی دنیا کو کمپیوٹر پروگرام کی حد تک محدود کرنا حد درجہ مشکل کام ہے، کیونکہ کافی سارے متغیر اور کافی ساری تتلیاں موجود ہیں۔ لیکن کوانٹم کے جہاں میں عجیب و غریب چیزیں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ بیکن سٹین نے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ بلیک ہول کی کل اطلاع اس کے واقعاتی افق کی سطح کے رقبے کی نسبت ہوتی ہے۔ لہٰذا اس بات کو دیکھنے کا ایک بہت ہی انوکھا طریقہ موجود ہے۔ کافی طبیعیات دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سب سے ممکنہ چھوٹا پلانک فاصلہ10-33 سینٹی میٹر ہے۔ کیونکہ یہ ناقابل تصوّر طور پر چھوٹا فاصلہ ہے، مکان و زمان یہاں پر ہموار نہیں ہوتے بلکہ جھاگ کی صورت میں ہوتے ہیں جن کو ہم بلبلوں سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ ہم افقی کرۂ کے رقبے کو چھوٹے مربعوں میں تقسیم کر سکتے ہیں جس میں ہر مربع کی لمبائی پلانک حجم کی ہوگی۔ اگر ہر مربع ایک اطلاع کا ٹکڑا اپنے اندر رکھتا ہوگا اور ہم تمام مربعوں کو جمع کر لیں تو ہمیں لگ بھگ بلیک ہول میں موجود تمام اطلاعاتی جز مل جائیں گے۔ یہ دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان میں سے ہر پلانک مربع اطلاع کا سب سے چھوٹا ٹکڑا ہے۔ اگر یہ بات درست ہوئی تو بیکن سٹین دعویٰ کرتا ہے کہ شاید میدانی نظرئیے کے بجائے اطلاع ہی طبیعیات کی اصل زبان ہو ۔ جیسا کہ وہ کہتا ہے،" میدانی نظریہ، اپنی لا محدودیت کے ساتھ حتمی کہانی نہیں ہو سکتا۔"

انیسویں صدی میں جب سے مائیکل فیراڈے نے اپنا کام پیش کیا ہے اس وقت سے طبیعیات کو میدانی زبان میں پیش کیا گیا ہے جو ہموار اور مسلسل ہوتا ہے اور جو مقناطیسی قوّت، برق اور قوّت ثقل وغیرہ کو مکان و زمان کے کسی بھی نقطے پر موجود ان کی طاقت کو ناپتی ہے۔ لیکن میدانی نظریہ ٹکڑوں کے بجائے ہموار اور مسلسل ہوتا ہے۔ ایک میدان کسی بھی قسم کی قدر کو رکھ سکتا ہے جبکہ ڈیجیٹل نمبر صرف مجرد اطلاع رکھتا ہے جو صفر اور ایک پر مشتمل ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر آئن سٹائن کے نظرئیے میں پائی جانے والی ہموار ربڑ کی چادر اور الجھے ہوئے تار کا فرق یہی ہے۔ ربڑ کی چادر کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے لامحدود چھوٹے ذرّوں میں توڑا جا سکتا ہے ، جبکہ جال کے تار میں چھوٹے فاصلے جس کو جال کا فاصلہ کہتے ہیں۔ بیکن سٹین تجویز کرتا ہے کہ " ایک حتمی نظرئیے کا میدان سے بلکہ مکان و زمان سے تعلق ہونے کے بجائے ان اطلاعات سے ہوگا جو طبیعی عمل کے دوران آپس میں تبادلہ کرتی ہیں۔"

اگر کائنات کو ڈیجیٹل کرکے صفر اور ایک میں محدود کر دیا جائے تو کائنات کی کل اطلاع کا حجم کیا ہوگا؟ بیکن سٹین کے تخمینے کے مطابق ایک سینٹی میٹر جتنے بلیک ہول میں 1066 اطلاع کے ٹکڑے ہو سکتے ہیں۔ لیکن جب ایک سینٹی میٹر جتنا جسم اس قدر اطلاع کو اپنے اندر رکھ سکتا ہے تو اس کے اندازے کے مطابق قابل مشاہدہ کائنات کم از کم 10100 اطلاع رکھتی ہوگی(جس کو اصولی طور پر دبا کر ایک ایسے کُرّے تک محدود کیا جا سکتا ہے جو ایک نوری برس کا دسواں حصّہ ہو۔ یہ دیوہیکل نمبر جو ایک کے بعد سو صفر رکھتا ہے گوگل کہلاتا ہے۔)

اگر تصویر کا یہ رخ درست ہوا، تو ہمارے پاس ایک عجیب و غریب صورتحال موجود ہوگی۔ اس کا مطلب ہو سکتا ہے کہ اگرچہ نیوٹنی دنیا کو کمپیوٹر کی مدد سے نقل نہیں کیا جا سکتا( یا اس کو صرف ایک ایسے نظام کی مدد سے نقل کیا جا سکتا ہے جو خود اس نظام جتنا ہی بڑا ہو) لیکن کوانٹم کی دنیا میں شاید کائنات کو بذات خود ایک سی ڈی رکھا جا سکتا ہے! نظری طور پر اگر ہم 10100 اطلاع کے ٹکڑوں کو سی ڈی پر رکھ سکیں تو ہم کائنات میں ہونے والے کسی بھی واقعہ کو اپنے کمرے میں بیٹھے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ اصولی طور پر کوئی بھی سی ڈی میں موجود اطلاعات کو از سر نو ترتیب دے سکتا ہے اور اس طرح سے طبیعی حقیقت ایک مختلف انداز سے آگے بڑھ سکتی ہے۔ ایک طرح سے جو کوئی ایسا کر سکتا ہوگا اس کے پاس مقدر کو لکھنے کی دیو مالائی طاقت موجود ہوگی۔

(بیکن سٹین اس بات کو بھی تسلیم کرتا ہے کہ کائنات کی کل اطلاعات کا حجم اس سے کہیں زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔ اصل میں تو سب سے چھوٹی مقدار جو کائنات کی کل اطلاعات کو اپنے اندر سما سکے ممکن ہے کہ کائنات کے حجم ہی کی ہو۔ اگر یہ بات درست ہوئی تو ہم وہیں پہنچ جائیں گے جہاں سے شروع کیا ہے۔ وہ سب سے چھوٹا نظام جو کائنات کے نمونے کو نقل کر سکتا ہے وہ کائنات خود سے ہے۔)

اسٹرنگ نظریہ بہرحال چھوٹے فاصلے کی اور اس چیز کی کہ آیا ہم کائنات کو ڈیجیٹل کرکے ایک سی ڈی پر سمو سکتے ہیں یا نہیں کی ایک مختلف تشریح پیش کرتا ہے۔ ایم نظریہ ایک ٹی ثنویت رکھتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ یونانی فلاسفر زینو سمجھتا تھا کہ ایک خط کو بغیر کسی حد کے لامحدود نقاط میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ آج کوانٹم طبیعیات دان مثلاً بیکن سٹین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ چھوٹے سے چھوٹا فاصلہ پلانک فاصلہ ہو سکتا ہے جو 10-33 سینٹی میٹر ہوتا ہے جہاں مکان و زمان کی ساخت جھاگ اور بلبلوں جیسی بن جاتی ہے۔ لیکن ایم نظریہ ہمیں اس میں ایک نیا موڑ دیتا ہے۔ فرض کریں کہ ہم ایک اسٹرنگ نظرئیے کو لیتے ہیں اور اس کی ایک جہت کو موڑ کر ایک دائرے میں تبدیل کر دیتے ہیں جس کا نصف قطر Rہو ۔ اس کے بعد ہم ایک اور اسٹرنگ کو لے کر اس کی ایک جہت کو ایک دائرے جس کا نصف قطر 1/R ہے اس میں موڑ دیتے ہیں ۔ ان دونوں مختلف نظریات کا موازنہ کرنے کے بعد ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ دونوں ایک ہی جیسی ہیں۔ اب فرض کریں کہ R ناقابل تصوّر حد تک چھوٹا ہو گیا ہے ، پلانک لمبائی سے بھی چھوٹا ۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ طبیعیات پلانک لمبائی پر بھی اس طبیعیات جیسی ہی ہوگی جیسا کہ وہ پلانک لمبائی سے باہر ہے۔ پلانک لمبائی پر مکان و زمان غیر ہموار اور جھاگ والا ہوگا، لیکن پلانک لمبائی کے اندر کی طبیعیات اور بڑے فاصلوں پر طبیعیات ہموار اور اصل میں تو بالکل ایک جیسی ہی ہوگی۔

اس ثنویت کو پہلی مرتبہ ١٩٨٤ء میں میرے پرانے رفیق اور اوساکا یونیورسٹی کے کیجی کیکاوا اور ان کے شاگرد مسامی یاما ساکی نے دریافت کیا تھا۔ بہرکیف اسٹرنگ نظریہ بظاہر اس بات کا نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ انتہائی چھوٹے پلانک فاصلے پر طبیعیات یکایک ختم نہیں ہو جاتی۔ اصل بات تو یہ ہے کہ پلانک لمبائی کی طبیعیات اور پلانک لمبائی سے بڑی جگہ کی طبیعیات میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اگر یہ آشفتہ تاویل درست ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ اسٹرنگ نظرئیے کے چھوٹے فاصلے کے اندر بھی ایک مکمل کائنات وجود رکھ سکتی ہے۔ بالفاظ دیگر ہم میدانی نظرئیے کو بجائے ٹکروں کے اس کی مسلسل ساخت کے ساتھ کائنات کو بیان کرنے کے لئے پلانک توانائی کے اندر موجود رہتے ہوئے اب بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ لہٰذا شاید کسی بھی صورت کائنات کمپیوٹر کا کوئی پروگرام تو بالکل نہیں ہے۔ کیونکہ یہ ایک اچھی طرح سے بیان کردہ مسئلہ ہے لہٰذا کسی بھی واقعہ کو صرف وقت ہی بتائے گا۔

(یہ ٹی ثنویت بگ بینگ سے پہلے وینیزیانو منظر نامے کا جواز ہے جس کو میں نے پہلے بیان کیا تھا۔ اس نمونے میں بلیک ہول منہدم ہو کر پلانک لمبائی کا ہو جاتا ہے اور پھر واپس بگ بینگ کی صورت میں پھٹتا ہے۔ یہ دوبارہ پھٹنے کا عمل کوئی بے ربط نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک ہموار ٹی ثنویت پلانک لمبائی سے چھوٹے بلیک ہول اور پلانک لمبائی سے بڑی پھیلتی ہوئی کائنات کے درمیان ہوتی ہے۔)​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ساتواں باب - 23

ایم نظریئے کا انجام؟




اگر ایم نظریہ کامیاب ہوا تو یہ اصل میں ہر شئے کا نظریہ ہوگا تو کیا یہ طبیعیات جس کو ہم جانتے ہیں اس کا خاتمہ ہوگا؟

اس کا جواب نفی میں ہے۔ چلیں ایک مثال دیتے ہیں۔ اگر ہمیں شطرنج کے اصول معلوم ہوں تو صرف ان اصولوں کو جاننے سے ہی ہم شطرنج کے بہترین کھلاڑی نہیں بن سکتے۔ اسی طرح کائنات کے اصولوں کو جاننے کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ ہم کو سمجھ بوجھ کی زبان میں حل کی متنوع فیہ اقسام کے چیمپئن بن گئے ہیں۔

ذاتی طور پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایم نظریہ کا اطلاق کائنات پر کرنا کافی جلد بازی ہوگا۔ ہر چند یہ ایک ایسی کائنات کی نئی تصویر پیش کرتی ہے جس میں کائنات بالکل نئے طریقے سے شروع ہوئی ہے۔ میرے مطابق اصل مسئلہ یہ ہے کہ حتمی نمونہ اپنی آخری شکل میں نہیں ہے۔ ایم نظریہ بہت اچھے سے ہر شئے کا نظریہ ہو سکتا ہے لیکن میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ابھی اسے مکمل ہونے میں کافی وقت لگے گا۔

یہ نظریہ ١٩٦٨ء سے پیچھے کی طرف ارتقا پذیر ہے اور اس کی حتمی مساوات اب تک نہیں ڈھونڈی جا سکی ہے۔ (مثال کے طور پر اسٹرنگ نظریہ کو اسٹرنگ میدانی نظریہ سے بنایا جا سکتا ہے جیسا کہ میں نے اور کیکاوا نے برسوں پہلے کیا تھا۔ ایم نظریہ کا اس کا ساتھی ابھی تک نامعلوم ہے ۔) ایم نظریہ کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں سے ایک پی برین میں ماہرین طبیعیات غلطاں ہیں۔ مقالات کے سلسلے لکھے جا رہے ہیں تاکہ جھلیوں کی پریشان کر دینے والی متنوع فیہ اقسام کی فہرست تیار کی جائے۔ ڈونٹ کی شکل کی جھلیاں بھی موجود ہیں جن میں ایک سوراخ ہے، ایک ڈونٹ کافی سارے سوراخوں کے ساتھ بھی موجود ہے آپس میں ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی جھلیاں بھی ہیں اور اس طرح کی کئی دوسری ۔

یہ بات وہ قصّہ یاد دلاتی ہے جس میں اندھے آدمی ایک ہاتھی سے ملتے ہیں ۔ جب وہ ہاتھی کے جسم کے مختلف حصّوں کو چھوتے ہیں تو ہر ایک اس کو اپنی سمجھ بوجھ کے حساب سے سمجھتا ہے۔ ایک آدمی جس نے دم کو چھوا ہوتا ہے کہتا ہے کہ ہاتھی ایک دھاگے کی طرح ہے۔ ایک دوسرا عقلمند آدمی کہتا ہے جس نے اس کے کانوں کو چھوا تھا کہ ہاتھی ایک جھلی کی طرح ہے۔ آخر میں بچا ہوا اندھا عقلمند کہتا ہے کہ پہلے دونوں غلط ہیں۔ وہ ہاتھی کے پیروں کو چھوتا ہے جو سونڈ کی طرح لگتے ہیں تو اس کے مطابق ہاتھی اصل میں تین برین کا ہوتا ہے ۔ کیونکہ وہ اندھے تھے لہٰذا وہ ایک اجتماعی تصویر کو نہیں دیکھ سکے، تمام برین کو اگر ہم جمع کریں تو وہ ایک ہی ہاتھی کو بیان کریں گی۔

اسی طرح سے اس بات پر یقین کرنا کافی مشکل ہے کہ سینکڑوں جھلیاں جو ایم نظریے میں پائی جاتی ہیں وہ بنیادی سطح پر موجود ہیں۔ فی الوقت ہمارے پاس ایم نظرئیے کی مکمل سمجھ بوجھ نہیں ہے۔ میرا اپنا نقطۂ نظر جس نے مجھے میری حالیہ تحقیق کی طرف رہنمائی کی ہے وہ یہ ہے کہ یہ جھلیاں اور دھاگے اصل میں مکان کی "تکثیف شدہ " حالت ہیں۔ آئن سٹائن نے کوشش کی کہ مادّے کو خالص جیومیٹری کی شکل میں بیان کرے ، مکان و زمان کی ساخت میں موجود کسی طرح کے پیچ کی طرح۔ مثال کے طور پر اگر ہمارے پاس بستر کی چادر موجود ہے اور اس میں کوئی پیچ بن جاتا ہے ، تو وہ پیچ ایسا برتاؤ کرے گا جیسے کہ اس کی اپنی خود کی زندگی علیحدہ سے موجود ہے۔

آئن سٹائن نے الیکٹران اور دوسرے بنیادی ذرّات کو مکان و زمان کی جیومیٹری میں کسی قسم کا نقص بیان کیا ہے. ہر چند کہ وہ ناکام ہوا لیکن اس کا یہ خیال پہلے سے بھی بڑھ کر ایم نظریئے میں زندہ ہو گیا۔

میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ آئن سٹائن صحیح راستے پر تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ذیلی جوہری طبیعیات کو بذریعہ جیومیٹری کے بنایا جائے۔ بجائے نقاطی ذرّات کے مماثل کے لئے جیومیٹرک تلاش کرنے کے بجائے جو آئن سٹائن کا طریقہ تھا ، اس بات کی کوشش کی جا سکتی ہے کہ تاروں اور جھلیوں کے جیومیٹرک مماثل کو بنایا جائے جو خالص مکان و زمان سے بنے ہوئے ہوں۔

اس طریقہ کی منطق کو دیکھنے کے لئے طبیعیات کی تاریخ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ماضی میں طبیعیات دانوں کو جب بھی اجسام کے طیف کا سامنا کرنا پڑا، تو انھیں اس بات کا احساس ہوا کہ جڑوں میں مزید بنیادی چیزیں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر جب ہم نے ہائیڈروجن گیس سے نکلنے والے طیفی خطوط کو دریافت کیا تو بالآخر ہمیں احساس ہوا کہ یہ خط جوہروں سے نکل رہے ہیں ، یہ الیکٹران کے کوانٹم چھلانگیں لگانے کی وجہ سے ہیں جب وہ مرکزے کے گرد چکر کھاتے ہوئے لگاتے ہیں۔ اسی طرح سے جب ١٩٥٠ء میں جب مضبوط ذرّات کا غلغلہ اٹھا تھا تب طبیعیات دانوں نے بالآخر اس بات کو سمجھ لیا کہ یہ سوائے کوارک کی بندھی ہوئی حالتوں کے اور کچھ نہیں ہیں۔ اور جب ان کا سامنا معیاری نمونے کے کوارک اور دوسرے بنیادی ذرّات سے ہوا تو طبیعیات دانوں کی اکثریت اس بات پر یقین رکھنے لگی کہ یہ اسٹرنگ کی تھرتھراہٹ کے اور کچھ نہیں ہیں۔

ایم نظریئے کے ساتھ ہمارا سامنا پی برین کی تمام اقسام اور بوقلومونی کے غلغلے سے ہے۔ اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ بنیادی ہو سکتے ہیں کیونکہ اتنے سرے پی برین موجود ہیں اور کیونکہ وہ بنیادی طور پر غیر متوازن اور مختلف ہیں۔ ایک سادہ حل جو تاریخی طریقے سے میل کھاتا ہے وہ یہ بات فرض کرتا ہے کہ ایم نظریہ ایک اور سادے اصول سے پیدا ہوا ہے یعنی شاید جیومیٹری سے ۔

اس بنیادی سوال کو حل کرنے کے لئے ہمیں اس بات کو جاننا ہوگا کہ طبیعیات کے اصول جو نظریہ کی بنیاد ہیں کوئی غیر واضح ریاضی نہیں ہے۔ جیسا کہ طبیعیات دان برائن گرین کہتے ہیں، "فی الوقت اسٹرنگ نظری اس جگہ پر ہیں جہاں پر آئن سٹائن "اصول مساوات" سے محروم تھا۔ جب سے ١٩٦٨ء میں وینیزیانو نے دوراندیشیانہ اندازہ لگایا ہے تب سے نظریئے کو ایک دریافت کے بعد دوسری دریافت اور ایک انقلاب کے بعد دوسرے انقلاب سے حاصل ہونے والی معلومات کی صورت میں ایک جگہ جمع کیا گیا ہے۔ لیکن ایک بنیادی منظم اصول جو ان دریافتوں اور نظریئے کے دوسرے تمام خصائص، تمام تر اثرات اور نظامی ساخت کو ہاتھوں ہاتھ لیتا ہے۔ ایک ایسی ساخت جو ہر انفرادی جز کی موجودگی کو مطلق طور پر لامحالہ بناتی ہے وہ اب بھی غائب ہے۔ اس اصول کی دریافت اسٹرنگ نظریئے کی پیش رفت میں ایک اہم سنگ میل ایک تاریخی لمحہ ہوگا۔ کیونکہ اس سے ہمیں نظریئے کے اندرونی طور پر کام کرنے کے انداز کو غیر معمولی طور پر شفافیت کے ساتھ دیکھنے کو ملے گا۔"

یہ ان کروڑوں حل کے متعلق فہم فراہم کرتا ہے جو اب تک اسٹرنگ نظریئے میں پائے گئے ہیں جس میں سے ہر ایک خود مختار کائنات کو بیان کرتا ہے۔ ماضی میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ ان حل کے جنگلوں میں سے صرف ایک ہی اسٹرنگ نظریئے کا اصلی حل ہوگا۔ آج ہماری سوچ میں تبدیلی آ رہی ہے۔ ابھی تک کوئی بھی ایسا طریقہ نہیں مل سکا کہ ان کروڑوں کائناتوں میں سے کوئی ایک کائنات کو پسند کیا جا سکے۔ اس بات کا احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ اگر اسٹرنگ نظریئے کا ہم کوئی منفرد حل نہیں تلاش کر سکے تو اس کا مطلب ہوگا کہ شاید ایسا کوئی اکلوتا حل موجود ہی نہیں ہے۔ تمام حل برابر ہیں۔ کثیر کائناتیں موجود ہیں، جس میں سے ہر ایک طبیعیات کے تمام قوانین سے میل کھاتی ہے۔ یہی بات ہمیں اس طرف لے جاتی ہے جو ناکارگی کا اصول یا بشری اصول کہلاتا ہے اور ہمیں خلق کی ہوئی کائنات کی طرف لے جاتا ہے۔​
 
Top