محمد وارث
لائبریرین
سب اراکینِ محفل کی خدمت میں اس خاکسار کا سلام۔
پچھلے سال، اردو محفل کی سالگرہ کے دنوں میں، ایک سلام، دو قطعوں اور ایک رباعی کی صورت میں پیش کیا تھا، اُس وقت کچھ احباب نے ذکر کیا کہ اردو محفل کے اراکین کا ذکر بھی ہونا چاہیئے۔
سو حاضر ہوں ایک نئے سلام کے ساتھ محفل کی سالگرہ کے موقعے پر، واضح کر دوں کہ خاکسار کو شاعر ہونے کا کبھی دعویٰ نہیں رہا بس یونہی کبھی کچھ ہو جائے تو جائے اور وہ بھی مختصر مختصر، نظم کے میدان کا میں آدمی نہیں ہوں، غزل پسند ہے اس میں بھی پانچ اشعار بمشکل ہوتے ہیں اسلیئے رباعیاں زیادہ پسند ہیں کہ دو اشعار میں کام ختم
لیکن اس بار کچھ موضوع ہی ایسا تھا کہ اپنی طبیعت کے خلاف نظم میں طبع آزمائی کی، اور مجھے لگا کہ اس کام کیلیے 'مثنوی' بہتر رہے گی سو یہ 'مثنوی نما' چیز آپ کی خدمت بہ احترام و محبت و عقیدت پیش کر رہا ہوں، جانتا ہوں کہ اس میں کچھ خوبی نہیں لیکن محبت تو ہے
ایک بات یہ کہ یہ ہیچمدان انتہائی خواہش کے باوجود بہت سے احباب کا نام قلمبند نہیں کر سکا جس کیلیے معذرت خواہ ہوں، لیکن پھر کہوں گا کہ ان کا نام ہو نہ ہو، محبت تو ہے
مثنوی "اردو محفل"
(اردو محفل کی چوتھی سالگرہ کے موقعے پر)
اوّل حمد خدا کی کروں جو ہے رحمان
نیک اور بد کی دی جس نے ہم کو پہچان
اور درود اُن پر جو سب کے رسولِ کریم (ص)
ہر دل کی وہ دھڑکن، جانے خدائے علیم
اور اُن پر جو آپ کے اہلِ بیتِ پاک
اُن کے قدم چومے اے کاش کبھی مری خاک
سالگرہ کا موسم چھایا 'محفل' پر
آئی بہار ہے گویا میرے بھی دل پر
اس کی محبت میں ہاں مَیں بھی آیا ہوں
ایک سلام نیا اس سال بھی لایا ہوں
ٹوٹے پھوٹے سہی الفاظ مرے، کیا ڈر
رکن ہوں اسکا، فخر سے اونچا ہے یہ سر
گُن گاتا ہوں 'محفل' کے ہر پل، دن رات
ایماں کی کہنا جو کٹی اس کے بِن رات؟
اک خر کہتا ہے کہ یہ فورم بے مقصَد
جُھوٹا ہے وہ، کرتا ہے محفل سے حسَد
سب ہی بزرگ کہیں، حاسد کا منہ کالا
قافیہ تو سُوجھا، پہ لگا منہ کو تالا
روحِ رواں محفل کے ہیں زیک اور نبیل
لاکھ مگر ڈھونڈو، نہ ملے گا ایسا قبیل
فیضِ عام ہے جاری اُن کا، یہ ایسی سبیل
اپنے ہوں کہ پرائے ہوں سب اُن کے قتیل
بزمِ سُخن کے ٹھہرے امام اعجاز عبید
ہر کوئی تجھ کو جھک کے کرے ہے سلام، اعجاز عبید
کون رگوں میں لہو بن دوڑے، بجُز شمشاد
رکھے خدا یہ محبت اُن کی سدا آباد
خوشبو میں ہے بسی ظفری کی ہر اک بات
ہونٹوں کو دےہنسی ظفری کی ہر اک بات
یارِ جانی مرے فاتح الدّین بشیر
عصرِ حاضر کے مجھے لگتے ہیں وہ کبیر
ناممکن، ساتھ اُن کے نہ ہو ذکرِ فرّخ
وہ ہیں سخنور، واہ اوجِ فکرِ فرّخ
رہتے ہیں تاریخ میں گُم سے ابوشامِل
ہیں اپنے موضوع میں یعنی وہ کامِل
بیٹی، بٹیا، رانی، گُڑیا کہتے ہیں
ابنِ سعید انہی الفاظ میں رہتے ہیں
اور کچھ ذکر اُن کا جو سب کی سب ہیں عظیم
بات یہ مانے جو بھی رکھّے عقلِ سلیم
مُنہ پر مارے گی جوتی ایسی بُوچھی *
کج رو کی کر دے گی ایسی تیسی، بُوچھی
اور اک اُن کی سہیلی، نام ہے فرزانہ
کیا ہی خوب ہے اُن کا کلام جُداگانہ
کون قتیلِ غالب، بُلبُلِ محفل کون؟
کون، جیہ، ہاں، ان کے سوا دلِ محفل کون؟
فرحت کی ہے تلاش مجھے، ڈھونڈو تو سہی
بزمِ سخن ہے اُداس بہت، دیکھو تو سہی
ہر موضوع نیا اک لاتی ہیں تعبیر
صد الفاظ سے بہتر ہے اک ہی تصویر
سارہ خان، شگفتہ، ماورا اور جیا
اس محفل کو اک گھر سا منظر ہے دیا
اب دو اجازت یارو اپنے وارث کو
رکیے صاحب، اپنی مبارک باد تو لو
سالگرہ ہو مبارک 'اردو محفل' کو
سب اہلِ محفل کو اور میرے دل کو
---------
(*) مضروبانِ بوچھی سے معذرت کے ساتھ
پچھلے سال، اردو محفل کی سالگرہ کے دنوں میں، ایک سلام، دو قطعوں اور ایک رباعی کی صورت میں پیش کیا تھا، اُس وقت کچھ احباب نے ذکر کیا کہ اردو محفل کے اراکین کا ذکر بھی ہونا چاہیئے۔
سو حاضر ہوں ایک نئے سلام کے ساتھ محفل کی سالگرہ کے موقعے پر، واضح کر دوں کہ خاکسار کو شاعر ہونے کا کبھی دعویٰ نہیں رہا بس یونہی کبھی کچھ ہو جائے تو جائے اور وہ بھی مختصر مختصر، نظم کے میدان کا میں آدمی نہیں ہوں، غزل پسند ہے اس میں بھی پانچ اشعار بمشکل ہوتے ہیں اسلیئے رباعیاں زیادہ پسند ہیں کہ دو اشعار میں کام ختم
لیکن اس بار کچھ موضوع ہی ایسا تھا کہ اپنی طبیعت کے خلاف نظم میں طبع آزمائی کی، اور مجھے لگا کہ اس کام کیلیے 'مثنوی' بہتر رہے گی سو یہ 'مثنوی نما' چیز آپ کی خدمت بہ احترام و محبت و عقیدت پیش کر رہا ہوں، جانتا ہوں کہ اس میں کچھ خوبی نہیں لیکن محبت تو ہے
ایک بات یہ کہ یہ ہیچمدان انتہائی خواہش کے باوجود بہت سے احباب کا نام قلمبند نہیں کر سکا جس کیلیے معذرت خواہ ہوں، لیکن پھر کہوں گا کہ ان کا نام ہو نہ ہو، محبت تو ہے
مثنوی "اردو محفل"
(اردو محفل کی چوتھی سالگرہ کے موقعے پر)
اوّل حمد خدا کی کروں جو ہے رحمان
نیک اور بد کی دی جس نے ہم کو پہچان
اور درود اُن پر جو سب کے رسولِ کریم (ص)
ہر دل کی وہ دھڑکن، جانے خدائے علیم
اور اُن پر جو آپ کے اہلِ بیتِ پاک
اُن کے قدم چومے اے کاش کبھی مری خاک
سالگرہ کا موسم چھایا 'محفل' پر
آئی بہار ہے گویا میرے بھی دل پر
اس کی محبت میں ہاں مَیں بھی آیا ہوں
ایک سلام نیا اس سال بھی لایا ہوں
ٹوٹے پھوٹے سہی الفاظ مرے، کیا ڈر
رکن ہوں اسکا، فخر سے اونچا ہے یہ سر
گُن گاتا ہوں 'محفل' کے ہر پل، دن رات
ایماں کی کہنا جو کٹی اس کے بِن رات؟
اک خر کہتا ہے کہ یہ فورم بے مقصَد
جُھوٹا ہے وہ، کرتا ہے محفل سے حسَد
سب ہی بزرگ کہیں، حاسد کا منہ کالا
قافیہ تو سُوجھا، پہ لگا منہ کو تالا
روحِ رواں محفل کے ہیں زیک اور نبیل
لاکھ مگر ڈھونڈو، نہ ملے گا ایسا قبیل
فیضِ عام ہے جاری اُن کا، یہ ایسی سبیل
اپنے ہوں کہ پرائے ہوں سب اُن کے قتیل
بزمِ سُخن کے ٹھہرے امام اعجاز عبید
ہر کوئی تجھ کو جھک کے کرے ہے سلام، اعجاز عبید
کون رگوں میں لہو بن دوڑے، بجُز شمشاد
رکھے خدا یہ محبت اُن کی سدا آباد
خوشبو میں ہے بسی ظفری کی ہر اک بات
ہونٹوں کو دےہنسی ظفری کی ہر اک بات
یارِ جانی مرے فاتح الدّین بشیر
عصرِ حاضر کے مجھے لگتے ہیں وہ کبیر
ناممکن، ساتھ اُن کے نہ ہو ذکرِ فرّخ
وہ ہیں سخنور، واہ اوجِ فکرِ فرّخ
رہتے ہیں تاریخ میں گُم سے ابوشامِل
ہیں اپنے موضوع میں یعنی وہ کامِل
بیٹی، بٹیا، رانی، گُڑیا کہتے ہیں
ابنِ سعید انہی الفاظ میں رہتے ہیں
اور کچھ ذکر اُن کا جو سب کی سب ہیں عظیم
بات یہ مانے جو بھی رکھّے عقلِ سلیم
مُنہ پر مارے گی جوتی ایسی بُوچھی *
کج رو کی کر دے گی ایسی تیسی، بُوچھی
اور اک اُن کی سہیلی، نام ہے فرزانہ
کیا ہی خوب ہے اُن کا کلام جُداگانہ
کون قتیلِ غالب، بُلبُلِ محفل کون؟
کون، جیہ، ہاں، ان کے سوا دلِ محفل کون؟
فرحت کی ہے تلاش مجھے، ڈھونڈو تو سہی
بزمِ سخن ہے اُداس بہت، دیکھو تو سہی
ہر موضوع نیا اک لاتی ہیں تعبیر
صد الفاظ سے بہتر ہے اک ہی تصویر
سارہ خان، شگفتہ، ماورا اور جیا
اس محفل کو اک گھر سا منظر ہے دیا
اب دو اجازت یارو اپنے وارث کو
رکیے صاحب، اپنی مبارک باد تو لو
سالگرہ ہو مبارک 'اردو محفل' کو
سب اہلِ محفل کو اور میرے دل کو
---------
(*) مضروبانِ بوچھی سے معذرت کے ساتھ