محمد وارث
لائبریرین
یہ مثنوی 'ہفتۂ شعر و ادب' 22 تا 28 جولائی 2009ء کے سلسلے کیلیے خاص طور پر منتخب کی گئی ہے۔
-----------
ویب کی دنیا میں غالب کے اردو کلام کا شاید ہی کوئی حصہ ہوگا جو موجود نہ ہو لیکن جو مثنوی میں آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں وہ ویب کی دنیا میں پہلی بار پیش ہو رہی ہے، میرے لیے یہ سعادت تو ہے ہی لیکن حیرت بھی ہے کہ ابھی تک کسی کی نظر اس پر کیوں نہیں پڑی۔
مثنوی قادر نامہ کا تعارف
غالب کے سات بچے تھے لیکن افسوس ان میں سے کوئی بھی پندرہ ماہ سے زائد تک نہ جیا اور غالب لاولد ہی مرے۔ اپنی اسی تنہائی اور بعض دیگر وجوہات کی بنا پر غالب نے زین العابدین خاں عارف کو متبنیٰ بنا لیا تھا جو انکی بیوی کے بھانجے تھے۔ عارف خوش ذوق شاعر تھے اور انہوں نے غالب کی شاگردی بھی اختیار کر لی تھی لیکن وائے رے قسمت کہ عین شباب کے عالم، پینتیس سال کی عمر میں، عارف بھی وفات پا گئے، اور عارف کی جواں مرگ پر غالب کی ایک رثائی غزل انکے دیوان میں موجود ہے۔
ہاں اے فلکِ پیر، جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑتا، جو نہ مرتا کوئی دن اور
اور انہی عارف مرحوم کے چھوٹے چھوٹے یتیم بچوں کیلیے غالب نے 'مثنوی قادر نامہ' لکھی تھی۔ دراصل یہ مثنوی ایک طرح کی لغت نامہ ہے جس میں غالب نے عام استعمال کے فارسی اور عربی الفاظ کے ہندی یا اردو مترادف بیان کیے ہیں تا کہ پڑھنے والوں کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ ہو سکے، بقولِ غالب
جس نے قادر نامہ سارا پڑھ لیا
اُس کو آمد نامہ کچھ مشکل نہیں
اس مثنوی کے محاسن تو اہلِ نظر ہی دیکھیں گے میں تو یہ دیکھ رہا ہوں کہ اولاد کی طرف سے انتہائی بدقسمت غالب، اپنے لے پالک کے یتیم بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں تو اس میں کیا کیا محبت اور کیسی کیسی شفقت شامل نہیں ہوگی اور غالب کا دل کسطرح کے جذبات سے لبریز ہوگا جب انہوں نے یہ مثنوی کہی ہوگی۔
یہ مثنوی مولانا غلام رسول مہر نے اپنے مرتب کردہ 'دیوانِ غالب' میں تیسرے ضمیمے کے طور پر شامل کی ہے، لیکن دیوانِ غالب کی مشہور و معروف شرح 'نوائے سروش' میں اسے شامل نہیں کیا۔ میں یہ مثنوی اسی مذکورہ دیوان سے لکھ رہا ہوں۔ پہلی بار یہ مثنوی 1856ء میں شائع ہوئی تھی۔
گو یہ مثنوی غالب نے بچوں کیلیے لکھی تھی لیکن ہے بڑوں کے بڑے کام کی چیز، یقین نہ آئے تو پڑھ کے دیکھیئے
-----------
ویب کی دنیا میں غالب کے اردو کلام کا شاید ہی کوئی حصہ ہوگا جو موجود نہ ہو لیکن جو مثنوی میں آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں وہ ویب کی دنیا میں پہلی بار پیش ہو رہی ہے، میرے لیے یہ سعادت تو ہے ہی لیکن حیرت بھی ہے کہ ابھی تک کسی کی نظر اس پر کیوں نہیں پڑی۔
مثنوی قادر نامہ کا تعارف
غالب کے سات بچے تھے لیکن افسوس ان میں سے کوئی بھی پندرہ ماہ سے زائد تک نہ جیا اور غالب لاولد ہی مرے۔ اپنی اسی تنہائی اور بعض دیگر وجوہات کی بنا پر غالب نے زین العابدین خاں عارف کو متبنیٰ بنا لیا تھا جو انکی بیوی کے بھانجے تھے۔ عارف خوش ذوق شاعر تھے اور انہوں نے غالب کی شاگردی بھی اختیار کر لی تھی لیکن وائے رے قسمت کہ عین شباب کے عالم، پینتیس سال کی عمر میں، عارف بھی وفات پا گئے، اور عارف کی جواں مرگ پر غالب کی ایک رثائی غزل انکے دیوان میں موجود ہے۔
ہاں اے فلکِ پیر، جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑتا، جو نہ مرتا کوئی دن اور
اور انہی عارف مرحوم کے چھوٹے چھوٹے یتیم بچوں کیلیے غالب نے 'مثنوی قادر نامہ' لکھی تھی۔ دراصل یہ مثنوی ایک طرح کی لغت نامہ ہے جس میں غالب نے عام استعمال کے فارسی اور عربی الفاظ کے ہندی یا اردو مترادف بیان کیے ہیں تا کہ پڑھنے والوں کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ ہو سکے، بقولِ غالب
جس نے قادر نامہ سارا پڑھ لیا
اُس کو آمد نامہ کچھ مشکل نہیں
اس مثنوی کے محاسن تو اہلِ نظر ہی دیکھیں گے میں تو یہ دیکھ رہا ہوں کہ اولاد کی طرف سے انتہائی بدقسمت غالب، اپنے لے پالک کے یتیم بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں تو اس میں کیا کیا محبت اور کیسی کیسی شفقت شامل نہیں ہوگی اور غالب کا دل کسطرح کے جذبات سے لبریز ہوگا جب انہوں نے یہ مثنوی کہی ہوگی۔
یہ مثنوی مولانا غلام رسول مہر نے اپنے مرتب کردہ 'دیوانِ غالب' میں تیسرے ضمیمے کے طور پر شامل کی ہے، لیکن دیوانِ غالب کی مشہور و معروف شرح 'نوائے سروش' میں اسے شامل نہیں کیا۔ میں یہ مثنوی اسی مذکورہ دیوان سے لکھ رہا ہوں۔ پہلی بار یہ مثنوی 1856ء میں شائع ہوئی تھی۔
گو یہ مثنوی غالب نے بچوں کیلیے لکھی تھی لیکن ہے بڑوں کے بڑے کام کی چیز، یقین نہ آئے تو پڑھ کے دیکھیئے