قرآن کو سچمچ کی لوحِمحفوظ خیال کرتا ہو
تسخیرِ کائنات کے قرآنی بیان کے حوالے سے ایک غیر مسلم فرانسیسی سکالر Maurice Bucaille نے اپنی کتاب The Bible, the Qur'an and Science کے صفحہ نمبر167 تا 169 پر The Qur'an and Modern Science کے باب میں "The Conquest of Space" کے زیر عنوان لکھا ہے :
The Conquest of Space
From this point of view, three verses of the Qur'an should command our full attention. One expresses, without any trace of ambiguity, what man should and will achieve in this field. In the other two, God refers for the sake of the unbelievers in Makka to the surprise they would have if they were able to raise themselves up to the Heavens; He alludes to a hypothesis which will not be realized for the latter.
There can be no doubt that this verse indicates the possibility men will one day achieve what we today call (perhaps rather improperly) "the conquest of space." One must note that the text of the Heavens, but also the Earth, i.e. the exploration of its depths.
1. The first of these verses is sura 55, verse 33 : "O assembly of jinns and men, if you can penetrate regions of the heavens and the earth, then penetrate them! You will not penetrate them save with a power."
2. The other two verses are taken from sura 15, verses 14-15. God is speaking of the unbelievers in Makka as the context of this passage in the sura shows : "Even if We opened unto them a gate to Heaven and they were to continue ascending therein, they would say : our sight is confused as in drunkenness. Nay, we are people bewitched."
The above expresses astonishment at a remarkable spectacle, different from anything man could imagine.
When talking of the conquest of space, therefore, we have two passages in the text of the Qur'an : one of them refers to what will one day become a reality thanks to the powers of intelligence and ingenuity God will give to man, and the other describes an event that the unbelievers in Makka will never witness, hence its character of a condition never to be realized. The event will however, be seen by others as intimated in the first verse quoted above.
It describes the human reactions to the unexpected spectacle that travellers in space will see : their confused sight as in drunkenness the feeling of being bewitched . . . . . .
This is exactly how astronauts have experienced this remarkable adventure since the first human spaceflight around the world in 1961. It is a completely new spectacle therefore, that presents itself to men in space and the photographs of this spectacle are well known to present-day man.
چنانچہ یہ دعویٰ بجا طور پر حق ہے کہ کائنات کے اندر جو کچھ ہو چکا یا ہونے والا ہے اس کا ذکر قرآن کے اندر موجود ہے۔
الغرض دُنیا میں موجود ہر فن و صنعت جو اِنفرادی، اِجتماعی اور عالمی سطح پر اِنسانی زندگی کی بقا و دوام اور فروغ و اِرتقاء کے لئے ضروری ہے اَصلاً قرآن سے ثابت ہے۔ علوم و فنون کے حوالے سے قرآنِ مجید کی جامعیت کے بیان سے یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہو گئی کہ قرآن اپنے ماننے والوں کو محض ذکر و عبادت اور اَخلاق و رُوحانیت کا ہی درس نہیں دیتا بلکہ دنیا میں ہر قسم کی علمی، فنی، صنعتی، سائنسی اور فوجی ترقی کی راہیں بھی کشادہ کرتا ہے تاکہ ملتِ اسلامیہ ایک ہمہ گیر ترقی پسند اُمت کے طور پر اُبھرے اور آفاقی سطح پر اِنقلاب بپا کر کے عظیم مقام حاصل کر لے کیونکہ اُس کے بغیر عالمگیر غلبۂ حق کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ جس کی نشاندہی قرآن نے پیغمبرِ اِسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقصدِ بعثت کے حوالے سے فرما دِی ہے۔
اِرشادِ ربانی ہے :
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَO
(الصف، 61 : 9)
اللہ وہ ہے جس نے اپنے رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہدایت اور دینِ حق دے کر اِس لئے بھیجا کہ اُس نظامِ حق کو دُنیا کے تمام نظاموں پر غالب کر دے۔ خواہ مشرک (یعنی کفر و طاغوت کے علمبردار) اُس کی مخالفت کرتے رہیںo
گزشتہ اَنبیائے کرام کے زمانوں میں وحی کا سلسلہ جاری تھا اور ہر ایک الہامی کتاب کا بدل اگلے زمانے میں بنی نوع اِنسان کو کسی دوسری اِلہامی کتاب یا صحیفے کی صورت میں میسر آ رہا تھا۔ اِس لئے اُن کتابوں کو اِس قدر جامع بنانے کی ضرورت نہ تھی اور نہ ہی کسی کتاب کو ہمیشہ کے لئے اپنی اصلی حیثیت میں باقی رہنا تھا۔ اس کے برعکس خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نہ کوئی اور نبی یا رسول آ سکتا تھا اور نہ قران کے بعد کوئی آسمانی وحی۔ چنانچہ ضروری تھا کہ نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آفاقی، کائناتی، ابدی، کلی، حتمی، قطعی اور آخری بنانے کے لئے ہر اِعتبار سے کامل اور جامع بنایا جائے اور اِس طرح وہ کتاب جو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازِل ہوئی اُسے بھی عالمگیر اور ابدی بنانے کے لئے اِس قدر جامع کیا جائے کہ اِنسانیت کو سب کچھ اُس کتاب کے دامن سے میسر آ سکے اور کسی کو دُوسری سمت متوجہ ہونے کی کوئی ضرورت ہی نہ رہے۔
قرآن اپنی جامعیت کا ذِکر اِس انداز میں کرتا ہے :
رَسُولٌ مِّنَ اللَّهِ يَتْلُو صُحُفًا مُّطَهَّرَةًO فِيهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌO
(البينه، 98 : 2، 3)
وہ (اُن پر) پاکیزہ اَوراقِ (قرآن) کی تلاوت کرتے ہیںo جن میں درُست اور مستحکم اَحکام (درج) ہیںo
کوئی ضرورت کی چیز جس پر اِنسانی زندگی کا اِنحصار ہو قرآن سے خارج نہیں۔ باوُجود قلتِ حجم کے اُس میں وہ تمام علوم و معارِف بیان کر دیئے گئے ہیں، جن کا اِحصاء و اِستیفاء کوئی فرد نہیں کر سکتا تھا۔
خود قرآن اِعلان کرتا ہے :
وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِن شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِن بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌO
(لقمان، 31 : 27)
اور اگر زمین میں جتنے درخت ہیں سب قلم بن جائیں اور سمندر اُن کی سیاہی، اُس کے بعد سات سمندر اور ہوں تو بھی اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے (یعنی کلامِ اِلٰہی کی وُسعت و جامعیت کا اِحاطہ نہیں ہو سکے گا)، بیشک اللہ تعالی غالب حکمت والا ہےo
قرآنِ مجید کے اِسی اِعجازِ جامعیت اور ابدی فیضان کا ذِکر کرتے ہوئے اِمام جلالُ الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ یہ شعر نقل کرتے ہیں :
کالبدرِ من حيث التفت رأيته
کالشّمسِ في کبدِ السمآءِ و ضوئُها
يهدي إلي عينيک نورًا ثاقبًا
يغشي البلاد مشارقًا و مغاربًا
ترجمہ : ’’قرآن چودھویں رات کے چاند کی مانند ہے، تو اُسے جس طرف سے بھی دیکھے وہ تیری آنکھوں کو چمکتا ہوا نور عطا کرے گا۔ یہ قرآن آفتاب کی طرح آسمان کے وسط میں ہے لیکن اُس کی روشنی دُنیا کے مشارق و مغارب سب کو ڈھانپ رہی ہے‘‘۔