شکریہبہت خوب بہنا
اچھی کوشش ہے
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
اس بحر کا یہ نام میری سمجھ میں ہی نہیں آیا
اوہو۔ اب سمجھا میں!میں نے بھی شک کے عالم میں ہی لکھا ہے۔ درست کی نشاندہی فرما دیجیے براہ کرم!
اوہو۔ اب سمجھا میں!
ایک تو مخبون مجنون لکھ دیا!! دوسرے یہ مخبون ہے بھی نہیں شاید۔ لیکن مقطوع میں کیا شکال ہے؟
جزاکم اللہ خیرا۔
اس بحر کا نام بحرِ متدارک مثمن مضاعف مخبون مسکن ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ:
مثمن مضاعف یعنی مثمن دوگنی،
مخبون خبن سے ہے یعنی رکن کے پہلے سبب خفیف کے ساکن کو گرادینا۔ فاعلن سے الف گر گیا۔ فعِلُن بچا۔
مسکن تسکین اوسط سے ہے۔ یعنی فعلن کے تین مسلسل متحرک حروف سے درمیان والا یعنی عین ساکن ہوا۔
مقطوع قطع سے ہے۔ یعنی رکن کے آخر میں اگر وتدِ مجموع ہو تو اسکے ساکن کو گرا کر اس سے پچھلے متحرک کو ساکن کردینا۔ جیسے فاعلن کو فاعل بروزن فعلن (عین ساکن) اور مستفعلن کو مستفعل بر وزن مفعولن بنانا۔ مگر اس کے استعمال کی پہلے شرط یہ ہے کہ رکن مصرع کے درمیان نہ ہو آخری رکن یعنی عروض و ضرب میں اس کا استعمال جائز ہے۔ اس لئے اس بحر میں ہم تسکینِ اوسط کو تو استعمال کرسکے ہیں مگر بحر الفصاحت کے طریقے پر درمیان میں استعمال محققین کے یہاں جائز نہیں۔
بہت شکریہ جناب وضاحت کے لیے۔
اس بحر کا نام بحرِ متدارک مثمن مضاعف مخبون مسکن ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ:
مثمن مضاعف یعنی مثمن دوگنی،
مخبون خبن سے ہے یعنی رکن کے پہلے سبب خفیف کے ساکن کو گرادینا۔ فاعلن سے الف گر گیا۔ فعِلُن بچا۔
مسکن تسکین اوسط سے ہے۔ یعنی فعلن کے تین مسلسل متحرک حروف سے درمیان والا یعنی عین ساکن ہوا۔
مقطوع قطع سے ہے۔ یعنی رکن کے آخر میں اگر وتدِ مجموع ہو تو اسکے ساکن کو گرا کر اس سے پچھلے متحرک کو ساکن کردینا۔ جیسے فاعلن کو فاعل بروزن فعلن (عین ساکن) اور مستفعلن کو مستفعل بر وزن مفعولن بنانا۔ مگر اس کے استعمال کی پہلے شرط یہ ہے کہ رکن مصرع کے درمیان نہ ہو آخری رکن یعنی عروض و ضرب میں اس کا استعمال جائز ہے۔ اس لئے اس بحر میں ہم تسکینِ اوسط کو تو استعمال کرسکے ہیں مگر بحر الفصاحت کے طریقے پر درمیان میں استعمال محققین کے یہاں جائز نہیں۔
مقصد یہ ہے کہنے کا پریم کی کہانیاں جیسی چلی آرہی ہیں اور ہر شخص کے پاس ہی ایسا کوئی نہ کوئی نہ قصہ ضرور ہے جسے وہ ہر نفس کو پکڑ پکڑ کر سُناتا ہے (مالا جپنا )اور اپنے درد کو الفاظ میں ڈھال کر بیتی پر روتا ہے تو میرے پاس ایسا کوئی قصہ کہانی نہیں سنانے کو۔مجھے عشق نہیں، مجھے پیار نہیں، میرا لفظوں کا بیوپار نہیں
یہ جو پریم کی روگ کہانی ہے، میرے گلے میں اس کا ہار نہیں
÷÷جیسا کہ لکھ چکا ہوں کہ گلے کا ہار مصیبت کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن یہاں اس کا استعمال عجیب سا ہے۔
مجھے عشق نہیں، مجھے پیار نہیں، مرا لفظوں کا بیوپار نہیں
یہ جو پریم کی۔۔۔ ۔۔۔ ۔دوسرا مصرع کچھ اور کہا جائے۔
میں سمجھ نہیں پائی۔پر لفظ تو لفظ ہی ہوتے ہیں، نہ ہنستے ہیں نہ روتےہیں
نہ سونا ہیں نہ چاندی ہیں، نہ دشمن ہیں نہ یار، نہیں
÷÷‘نہ‘ کو دو حرفی استعمال کرنے میں میرے تحفظات کا میں اکثر ذکر کرتا رہتا ہوں۔ لیکن لگتا ہے کہ اب مجھے yield کرنا ہی پڑے گا!!! بہتر شکل شاید یوں ہو سکتی ہے۔
گوشبد تو شبد ہی ہوتے ہیں، جو نہ ہنستے ہیں جو نہ روتےہیں
نہ یہ سونا ہیں نہ یہ چاندی ہیں، دشمن بھی نہیں اور یار نہیں
سنجوگ یہاں کسی گہری دوستی، میل ملاپ، اتفاقات غرض اپنے تمام تر معنوں کے ساتھ یہاں استعمال ہو رہا ہے، اس نظر سے دیکھیں شعر کو۔یہ دنیا جھوٹ فریب بہت، یاں پیت سنجوگ کے ڈھونگ بہت
جو بازیِ الفت کھیلے گا اسے جیت نہیں اسے ہار نہیں
÷÷سنجوگ کی بات ہو چکی ہے، اگر اسے اتفاقیہ ملن بھی مانا جائے تو سنجوگ کے ڈھونگ سمجھ میں نہیں آتے۔
یہ شعر یوں کی جا سکتا ہے
یہ دنیا جھوٹ کی دنیا ہے( پُڑیا ہے)، یہاں پیت کے ، عشق کےڈھونگ بہت
جو پریم کی بازی کھیلے گا اسے جیت نہیں اسے ہار نہیں
اک پھول سجایا بالوں میں، اک نام ہے لکھا ہاتھوں میں
تیری چاہت کا میرے کاندھوں پر اب اور تو کوئی بار نہیں؟
÷÷
اک پھول سجا تھا بالوں میں، اک نام لکھا تھا ہاتھوں میں
اب شاید میرے کاندھوں پر تری چاہت کا کوئی بار نہیں؟
"یہ" لکھنے والی کو ہی کہا ہے، لیکن اگر "دل" بن کر دیکھا جائے تو "یہ" ہی ہو گا کیونکہ جہاں تک میرا خیا ل ہے دل اپنے ہی مالک کا نام لیتا نہیں سنا گیا کبھیغلطی کی، دل بے مول دیا، اور دل نے عقدہ کھول دیا
یہ جھوٹی ہے جو کہتی ہے مجھے پیار نہیں مجھے پیار نہیں
÷÷یہ بحر ایسی ہے کہ غَلَطی (غ اور ل پر زبر) کی غلطی بھی چل سکتی ہے، لیکن بہتر ہے کہ اسے بھول کر دیا جائے۔ ’یہ جھوٹی‘ میں ’یہ‘ کون؟ ماہی لا کر مقطع بنا دو اگر اپنے بارے میں ہی کہنا چاہتی ہو تو۔۔۔ !!
یہ بھول تھی، دل بن مول دیا ، اور بھید اسی نے کھول دیا
جھوٹی ہے ماہی، کہتی ہے ’۔۔۔ ۔۔۔
÷÷یہ دل کی زبانی کہا ں کہا گیا ہے؟آپ نے وقت نکالا بہت شکریہ، کچھ باتیں تھیں جن کی مزید وضاحت ہو جائے تو شکرگزار ہوں گی
مقصد یہ ہے کہنے کا پریم کی کہانیاں جیسی چلی آرہی ہیں اور ہر شخص کے پاس ہی ایسا کوئی نہ کوئی نہ قصہ ضرور ہے جسے وہ ہر نفس کو پکڑ پکڑ کر سُناتا ہے (مالا جپنا )اور اپنے درد کو الفاظ میں ڈھال کر بیتی پر روتا ہے تو میرے پاس ایسا کوئی قصہ کہانی نہیں سنانے کو۔
÷÷مالا جپنا اور گلے کا ہار دو الگ الگ محاورے ہیں۔ ان کو خلط ملط مت کرو۔ جو مفہوم تم نے لکھا ہے، وہ شعر سے برامد نہیں ہو تا۔ اسی لئے دوسرے ٹکڑے کو دوبارہ کہنے کی ضرورت ہے
میں سمجھ نہیں پائی۔
÷÷’نا‘ بر وزن فع، دوحرفی ، غلط سمجھتا ہوں۔ درست طریقہ محض ’ن‘ کی طرح باندگنا ہے، یعنی’ہ‘ کا اسقاط
سنجوگ یہاں کسی گہری دوستی، میل ملاپ، اتفاقات غرض اپنے تمام تر معنوں کے ساتھ یہاں استعمال ہو رہا ہے، اس نظر سے دیکھیں شعر کو۔
پریم لفظ کی تکرار کچھ جچے گی نہیں۔
اگر آپ کی بات مانوں تو دوسرا مصرع پوچھنے کی بجائے بتانے کی طرز پر چلا جائے گا، جو کہ مقصد نہیں۔
÷÷پریم لفظ کہاں استعمال ہو رہا ہے اس مصرع میں؟ ویسے ’دل کی بازی‘ بھی لا سکتی ہو۔
"یہ" لکھنے والی کو ہی کہا ہے، لیکن اگر "دل" بن کر دیکھا جائے تو "یہ" ہی ہو گا کیونکہ جہاں تک میرا خیا ل ہے دل اپنے ہی مالک کا نام لیتا نہیں سنا گیا کبھی
جی چاچو آپ کی بات بالکل درست ہے۔ گلے پڑنا یا گلے کا ہار ہونا ان معنوں میں مستعمل ہے۔چھ صفحات پڑھ گیا تو معلوم ہوا کہ پہلے صفحے پر ہی اصل غزل ہے، اب واپس وہاں جاتا ہوں۔ ابن سعید کی بات درست ہے۔ گلے کا ہار والا استعمال مجھے بھی غلط ہی لگ رہا ہے، چاہے پریم روگ کی کہانی ہو یا بپتا۔ ویسے ابن سعید ، گلے کا ہار کسی بلا یا مصیبت کو بھی کہتے ہیں جو پیچھے پڑ گئی ہو، اور جس سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو۔ ان معانی میں تو درست مانا جا سکتا ہے۔ سنجوگ کے درست معنی تو اتفاق ہی ہیں، اگرچہ ملن کے لئے بھی استعمل ہوتا ہے، لیکن کسی اتفاقی ملن کے لئے!!
آخری مصرع÷÷یہ دل کی زبانی کہا ں کہا گیا ہے؟
جھوٹی ہے ماہی، کہتی ہے۔۔۔۔آخری مصرع