مجھے پتا ہے تمہارا موزہ کہاں ہے
09/03/2019 ظفر عمران
انسانی حقوق پر جزوی اختلاف ہیں کہ انسان کے بنیادی حقوق کیا ہیں، لیکن اکثریت تسلیم کرتی ہے، کہ تمام انسانوں کے حقوق یک ساں ہیں؛ انسانی حقوق و شہری حقوق، مثلا؛ ان میں سے چند کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔ آزادی، اظہار رائے کی آزادی، انسان کے جسمانی تحفظ کی یقین دہانی، معاشی خود مختاری، ووٹ کا حق، جنسی استحصال سے تحفظ، حکومتی اور سماجی اداروں میں برابری کی بنیاد پر ملازمتیں، برابری کی بنیاد پر معاوضہ، پسند کی شادی کا حق، اولاد پیدا کرنے کا حق، جائداد رکھنے کا حق، اور تعلیم کا حق، وغیرہ۔ انسانوں میں مرد عورت کی تخصیص نہیں؛ گویا انسانی حقوق ہی نسوانی حقوق ہیں، اس میں کچھ تخصیص ہے، تو ایسے ہی جیسے بچوں کے حقوق، مریضوں کے حقوق، بزرگوں کے حقوق۔
عورت اور مرد کی تقسیم کرتے ہمارے یہاں دو انتہائیں ہیں۔ ایک طرف وہ انتہا پسند ہیں، جو عورت اور مرد کی تقسیم کرتے، عورتوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ مقدس کتابوں سے حوالے لے آتے ہیں، اور دوسری طرف وہ انتہا پسند ہیں جو مغرب سے مثالیں لاتے ہیں، اور اصرار کرتے ہیں کہ بس انھی کو حتمی تسلیم کیا جائے۔ ان دو انتہاوں کے بیچ میں پاکستانی معاشرہ ہے، جو نہ مذہبی معاشرے کی تعریف پر پورا اترتا ہے، نہ مغربی معاشرے کی طرح کا ہے (اگر مغرب کو مذہب اور پاکستان کے متضاد رکھ کے سمجھا جائے)۔
اسلامی فقہہ میں عورت وراثت میں حصے دار ہے، حق مہر، نان نفقے کی حق دار ہے، بچے کی دودھ پلائی کا معاوضہ طلب کر سکتی ہے، لیکن ہمارے یہاں علما نے کبھی اس پیغام کو عام نہیں کیا، نا ہی مسلمانان ہند و پاک ان فرائض کی ادائی میں مستعد ہیں۔ عورت نا فرمانی کرے تو اسے ہلکی مار دینی ہے، یا زیادہ اس کا بیان سننے میں آتا ہے۔ (نا ہی مرد، عورت پر ہاتھ اٹھانے کے لیے قران کی آیت کے حوالے کا محتاج پاتا ہے)۔ عورت کی قران سے شادی کر دی جائے، اس کی رضا مندی کے بنا بیاہ دیا جائے، وراثت سے بے دخل کر دیا جائے، تو اسلام خطرے میں پڑتا دکھائی نہیں دیتا، لیکن حقوق نسواں بل کی منظوری کا معاملہ ہو، تو علما کو یاد آ جاتا ہے، کہ یہ غیر اسلامی قانون ہے۔ ان کی طرف سے کہنے کو کہا جا سکتا ہے، پاکستان میں عورت کو وراثت سے بے دخل کرنے کا قانون بھی تو نہیں ہے، لہاذا اس پر بات کرنے کے کیا معنی۔ ایسا ہی ہے تو گویا انھیں قانون سے مطلب ہے، عمل ہو نہ ہو، پروا نہیں۔
اب اُس دوسری انتہا کی خبر لیجیے؛ مغربی معاشروں میں women’s right movement اور feminist movement ان کے حالات کے تناظر میں ابھریں اور انھی کے سماجی و اخلاقی حالات کے تناظر میں حقوق نسواں کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ میں مغربی معاشرے کی خوبیوں کا معترف ہوں۔ مغرب سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے، لیکن ان کے قوانین ’جیسا ہے‘ کی بنیاد پر یہاں لاگو نہیں ہوتے اور اگر کر بھی دیے جائیں، تو پہلے وہ حالات پیدا کرنے ہوں گے۔
بد قسمتی سے ہمارے یہاں فیمن ازم کے زیادہ تر وکیل وہ ہیں، جو فیمنسٹ کم اور مذہب مخالف زیادہ ہیں۔ ان کی تان مذہب مخالفت پر ٹوٹتی ہے (سب نہیں، اکثر کا احوال یہی ہے)۔ مثالیں یہ دیں گے کہ پاکستان میں عورت کا وراثتی حصہ دبا لیا جاتا ہے، یا یہ کہ اسلام میں عورت کا وراثت میں نصف حصہ کیوں ہے۔ وہ یہ بات جانتے نہیں یا جاننا نہیں چاہتے کہ feminism movement کے مطالبوں میں عورت کا وراثت میں حق شامل نہیں ہے، کیوں کہ مغرب میں وراثت وصیت کے مطابق منتقل ہوتی ہے، وصی جس کا حصہ جتنا مقرر کر جائے، اتنا ملتا ہے؛ چاہے تو کچھ بھی مقرر نہ کرے۔ مذہب اسلام نے تو پھر عورت کو نصف حصے کا حق دار ٹھیرایا ہے۔
دیکھا یہ گیا ہے، کہ جوش خطابت میں فیمن ازم کے وکیل عورت کے مساوی حقوق کا نعرہ بلند کرتے، مرد کے حقوق کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں، بعض اوقات تو یہ لگتا ہے، کہ ہمارے یہاں فیمن ازم کا مطلب مرد کے حقوق کم کرنے کی تحریک ہے، یا مرد کے کوئی حقوق ہی نہیں ہیں۔ ایسے میں کسی قضیے کے دوران کوئی ”مرد“ کا ذکر چھیڑ دے، تو اس ’ذاکر‘ کو ”عورت کا دشمن“ قرار دیا جاتا ہے۔ کوڑے برسائے جاتے ہیں (محاورتاً)۔ یہ بھی انتہا پسندی کی ایک قسم ہے۔
اب مذہب کو بھی ایک طرف رکھیے اور مغرب کی خوبیوں خامیوں کو بھی۔ عورت اپنی کفیل خود ہو، مرد کی محتاج نہ رہے، تو کَہ سکتی ہے، میں اپنا کماتی ہوں، تم اپنا کماتے ہو، اس لیے اپنے اپنے کام خود کرو (ایسے خواتین ایسا کہنے میں حق بجانب ہوں گی)۔ اور دوسری مثال یہ دیکھیں، شوہر کما کر لاتا ہے، اپنی کمائی سے گھر میں راشن ڈالتا ہے، یوٹیلٹی بل ادا کرتا ہے، بیوی گھر کی دیکھ بھال کرتی ہے، وہ شوہر سے کہے، ’اپنا کھانا خود گرم کرو‘، تو؟۔۔ جواب میں فیمن ازم کئ وکیل یہ کہتے ہیں، ’’عورت آپ کی ملازمہ تو نہیں‘‘، ان سے پوچھا جانا چاہیے، ’’مرد، عورت کا خادم کیسے ہو گیا، کہ کمائے، لائے اور آپ کھائیں؟ کیا یہی انصاف ہے؟‘‘ ان نیک نام فیمنسٹ سے جب ایسا پوچھیے، جنھیں میں نے انتہا پسندوں کی فہرست میں رکھا ہے، تو وہ کہیں گے، ’’ہاں! تو اور کیا؛ یہی تو مطلوب ہے۔‘‘ یہ انتہا پسند ’بقلم خود‘ فیمن ازم کا ٹھٹھا اُڑاتے ہیں۔
ہمارے یہاں کتنی عورتیں ہیں جو خود کما کر لاتی ہیں، اور باپ، بھائی، یا شوہر کی محتاج نہ ہوں؟ (باپ کما کر لائے، تو کھانا گرم کر دیں، شوہر کما کے نہیں لائے تو کھانا گرم نہیں کرو)۔ تو کیا یہ معاملہ بحث طلب ہے، کِہ ’’مرد‘‘ سے کیا مراد ہے؟ سمجھ یہ آتا ہے، کِہ باپ، بھائی، چچا، ماموں، تایا، مرد نہیں ہوتا، یہاں ’شوہر‘ کو ’مرد‘ کہا جا رہا ہے۔ شوہر اپنا کھانا خود گرم کرے۔
شوہر کی کمائی پر بھروسا کرنے والی ایسی عورت ”ایسی فیمن ازم“ کا حوالہ دے، تو اسے خود کمانے پر غور کرنا ہو گا، ناقدین کی نظر میں نسائیت کی تحریک کا ایک یہ محرک بتایا گیا ہے، کہ صنعت کار کو مزدور کی صورت میں، مرد کے ساتھ ساتھ عورت کی بھی ضرورت ہے؛ اس لیے وہ عورت کو چار دیواری سے باہر نکالنے کے لیے فیمن ازم پر انویسٹ منٹ کرتا ہے۔ (اگر یہی محرک ہے تو بھی میرا اعتراض نہیں ہے)۔
ہر سماج کی کئی پرتیں ہوتی ہیں، ہر سماج کا ایک مخصوص تانا بانا ہوتا ہے، کہیں سے کوئی بھی دھاگا یونھی یا ایک دم سے نہیں کھینچ لیا جاتا۔ ’’مجھے کیا پتا تمھارا موزہ کہاں ہے‘‘، ’’کھانا میں گرم کر دوں گی، اپنا بستر خود گرم کرو‘‘، جیسے لا یعنی نعرے بجائے خود سود مند ہونے کے، ان حقیقی مسائل پر پردہ ڈالتے ہیں، جنھیں واقعی ہمارے یہاں کی عورت کو سامنا ہے۔ کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا کے مصداق، اپنا مضحکہ خود نہ اڑائیں۔ مغرب مغرب ہے اور مشرق مشرق؛ بنتے بنتے یہ مشرقی سماج ایسا بن جائے، جہاں ’مغرب‘ کی طرح کے حالات ہوں، وہی سماجی و اخلاقی قدریں ہوں، تو مغربی قوانین کو اسی طرح نافذ کر دیں، جیسا کہ مغرب کا چلن ہے۔
فی الحال ہمیں موزہ تلاش کرنے میں عار نہیں محسوس ہونا چاہیے، خاص طور پہ اسے، جس نے گھر داری، یعنی کھانا پکانا، کپڑے دھونے، موزہ تلاش کرنے کے علاوہ کوئی اور کام ہی نہ چنا ہو؛ اسے تو یہی کہنا ہے، ’’مجھے پتا ہے تمھارا موزہ کہاں ہے‘‘۔ اور ایسے میں اگر کسی نے ٹائر بدلنا سیکھ لیا ہے، تو اپنے پارٹنر کو زندگی کی گاڑی میں بیٹھنے کی جگہ دینے میں کوئی حرج بھی نہیں؛ بھلے ڈرائیونگ سیٹ پر خود بیٹھی ہو۔