مجھ سے میرا تعلق!

ماہی احمد

لائبریرین
اللہ پاک کے بعد ہم اپنے پہلے ساتھی ہیں۔۔۔ ہم اپنے پہلے دوست، پہلے دشمن، پہلے خیر خواہ اور پہلے نقاد ہیں۔۔۔۔ ہمارا ہم سے یہ تعلق کیسا ہونا چاہئیے؟؟؟
یہ موضوع کچھ وقت سے زیر غور تھا۔۔۔۔ مجھے ایسے لگتا ہے کہ ہم ساری دنیا کے ساتھ نیکی کرتے ہیں مگر اپنے ساتھ بھلائی کرنا بھول جاتے ہیں۔۔۔۔ ہم اپنے خود سے تعلق کو کبھی اس نظر سے نہیں دیکھتے کہ اسے بھی وقت کی ضرورت ہے۔۔۔ میں چاہتی ہوں محفلین اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔۔۔ آپ کا اپنے ساتھ کیسا تعلق ہے، اس کی بہتری کے لئیے آپ کیا کرتے ہیں؟ اور آپ کی نظر میں تعلق کی اس نوعیت کی کیا اہمیت ہے؟
(میں گزارش ہے کہ گفتگو کو عمومی انداز میں زیر بحث لایا جائے کیونکہ شاید یہاں ذاتیات میں دخل کے امکانات زیادہ ہیں۔۔۔۔)
 

شمشاد

لائبریرین
شکریہ ماہی۔ لیکن تم نے اپنے متعلق تو لکھا ہی نہیں کہ تمہارے ماہی کے ساتھ کیسے تعلقات ہیں۔

میرا تو مجھ سے گہرا تعلق ہے۔ میں خود ساختہ انسان ہوں۔ میں نے اللہ تعالٰی کے فضل سے خود کو بنایا ہے جسے انگریزی میں سیلف میڈ کہتے ہیں۔

ہاں تھوڑا بہت لاپرواہی بھی ہو جاتی ہے کہ اپنا خیال نہیں رکھتا۔ سونے جاگنے کا کوئی خاص وقت مقرر نہیں۔ کھانے میں بھی بے حد بد احتیاطی ہو جاتی ہے۔ جس پر خاتون خانہ کو سخت اعتراض ہوتا ہے۔ لیکن ان کی روک ٹوک کے باوجود میں باورچی خانے میں اپنی پسند کی خود ہی تخریب کاری کر لیتا ہوں۔

مزید دوسرے اراکین کے جواب پڑھ کر دیکھتا ہوں کہ یہ لڑی کس نہج پر جائے گی۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
شکریہ ماہی۔ لیکن تم نے اپنے متعلق تو لکھا ہی نہیں کہ تمہارے ماہی کے ساتھ کیسے تعلقات ہیں۔

میرا تو مجھ سے گہرا تعلق ہے۔ میں خود ساختہ انسان ہوں۔ میں نے اللہ تعالٰی کے فضل سے خود کو بنایا ہے جسے انگریزی میں سیلف میڈ کہتے ہیں۔

ہاں تھوڑا بہت لاپرواہی بھی ہو جاتی ہے کہ اپنا خیال نہیں رکھتا۔ سونے جاگنے کا کوئی خاص وقت مقرر نہیں۔ کھانے میں بھی بے حد بد احتیاطی ہو جاتی ہے۔ جس پر خاتون خانہ کو سخت اعتراض ہوتا ہے۔ لیکن ان کی روک ٹوک کے باوجود میں باورچی خانے میں اپنی پسند کی خود ہی تخریب کاری کر لیتا ہوں۔

مزید دوسرے اراکین کے جواب پڑھ کر دیکھتا ہوں کہ یہ لڑی کس نہج پر جائے گی۔
پہلے مجھے اس متعلق کچھ بھی نہیں پتا تھا۔۔۔ کبھی سوچا ہی نہیں۔۔۔۔ یہ تعلق شروع میں بہت سختی کا تھا۔۔۔۔ مگر اس طرح میں نے دیکھا ماہی miserable ہوتی چلی گئی۔۔۔۔ یوں ہی جب خود سے بات کرنی شروع کی تو یہ تعلق بہتر ہوتا گیا۔۔۔یہ بات بہت دیر سے سمجھ آئی کہ اپنی ضروریات سب سے پہلے میں خود اپنے لئیے پوری کروں گی، جنہیں ایموشنل نیڈز کہا جاتا ہے۔۔۔ سو آہستہ آہستہ بہتری آنے لگی۔۔۔۔ اب میرا خود سے تعلق نرمی اور بھلائی کا ہے۔۔۔۔ مجھے کسی نے کہا تھا خود کو معاف کرنا سیکھیں۔۔۔ میں کوشش کرتی ہوں یہ پریکٹس کروں۔۔۔۔ اور چونکہ میں چاہتی ہوں کہ اس تعلق میں مزید بہتری آئے سو محفل میں یہ موضوع چھیڑا ہے تاکہ محفلین کی بہترین رائے اور طریقہ کار سامنے آئے اور اس کی روشنی میں اگر کوئی پوائنٹ آف ایکشن سامنے آئے تو میں اسے ترتیب دے سکوں۔۔۔:)
پس نوشت: نرمی اور بھلائی کا مطلب ہرگز خود کو spoil کرنا نہیں۔۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ہماری ذات کے ہم پر حقوق ہیں، ہمارے جسم کا حق ہے کہ اُس کی غذائی ضروریات پوری ہوں، اُس کے آرام کی ضرورت پوری ہو ۔ ساتھ ساتھ ہماری روح کی ضروریات پوری ہوں۔ ہمارے ذہن و دل کو سکون و طمانیت کی فراہمی ممکن بنائی جائے۔ ان میں سے کسی بھی معاملے میں لاپرواہی نہیں ہونی چاہیے۔

ہم دوسروں کے حقوق ادا کرنا چاہیں تو بھی پہلے اپنے حقوق ادا کرنے ہوں گے۔جب ہمارا مزاج ٹھیک ہوگا ہمارا جسم تر و تاز ہ ہوگا تب ہی ہم دوسروں سے اچھا برتاؤ کر سکیں گے اور دوسروں کے کام آ سکیں گے۔

جس طرح کسی کی تیمارداری کرنے والے کا صحت مند ہونا ضرور ی ہے۔ اسی طرح دنیا کی ، اپنے ارد گرد کے انسانوں کی بھلائی سوچنے سے پہلے ، ہمارا اپنا بھلا ہونا چاہیے۔

لیکن اپنی ذات کے حقوق کی ادائیگی اور خود غرضی میں ایک باریک سا فرق ہے اور اسے سمجھنا بے حد ضروری ہے۔

اسلام ہمیں یہ کہتا ہے کہ جو چیز انسان اپنے لئے پسند کرے وہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرے۔

بالفرض ہمارے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے اور ہمارے پاس بہت کچھ ہے ایسے میں اگر ہم اپنے لئے اچھی چیز پسند کریں اور دوسروں کے لئے گھٹیا، تو یہ بے ایمانی ہوگی۔

دوسری صورت میں کہ جب ہمارے پاس وسائل محدود ہوں تب بھی ایسا کرنا مناسب نہیں کہ ایک اچھی اور ایک بری چیز میں سے ہم اچھی چیز اپنے لئے چُن لیں۔
بلکہ اپنے بھائی کے لئے بھی وہی چیز پسند کرنے کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم محدود وسائل میں قربانی دیں اور بہتر چیز اپنے بھائی کے لئے رکھیں اور بچ رہنے والی چیز سے اپنا گزارا کریں۔

ویسے یہ معاملہ کچھ اتنا سیدھ نہیں ہے اس لئے جو کچھ سمجھ آیا لکھ دیا۔ گاہے گاہے کچھ اور بھی لکھوں گا اگر کچھ سمجھ آیا تو۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
abdul.rouf620 صاحب، محض ریٹنگ سے کام نہیں چلے گا۔۔۔۔ آپ کو اپنی رائے کا اظہار بھی کرنا ہو گا۔
پیاری بہنا میں نے جس وقت آپ کا مراسلہ دیکھا میرا ذہن بالکل تھکا تھکا سا تھا ویسے میں تو خود بھی اس موضوع سے اپنے لیے قابلِ قدر دوستوں کی قیمتی قیمتی باتوں سے کچھ نکات چننے کے لیے اس لڑی میں آیا:)
مجھے جب خود ہی سمجھ میں نہیں آتا کہ میرا خود سے کیسا تعلق ہے تو پھر میں کیسے بیان کر سکتا ہوں:thinking:
ویسے تو میں تضادات کا ملغوبہ ہوں لیکن آپ کے فرمان پر اپنے تئیں بیان کیے دیتا ہوں کہ میرا خود سے انتہائی غافلانہ مزاج ہے مگر اس کے باوجود کسی رشتے یا تعلق سے بے اعتنائی برتنا شاید میری سرشت میں نہیں اسی مزاج کی وجہ سے بہت سے مواقع پر مجھے نقصان بھی اُٹھانا پڑا ہے(لیکن اللہ پاک کا صد شکر کہ مجھے اس پر کبھی پچھتاوا بھی نہیں کیونکہ میرا ضمیر مطمئن رہتا ہے کہ کچھ بھی غلطی میری طرف سے نہیں ہوئی ہے) کیونکہ میرا ماننا ہے کہ حقوق سے زیادہ فرائض کی فکر کرنا چاہیے۔
ثانیاً میرے مزاج میں ہمت کا فقدان ہے ایک مرتبہ میں کسی انتہائی معمولی سی بات پر ایک دوست سے ناراض ہوا تو تقریباً چار سال میں نے بات نہیں کی کیونکہ ایک بار میں ترکِ تعلق کر لوں اس کے بعد تعلق کو از سرِ نو شروع کرنے کی بالکل ہمت ہی نہیں پڑتی۔ مگر اس مدت میں مَیں اپنے دوست سے ہر آن با خبر بھی رہا
ثالثاً مجھ پر اللہ عزوجل کا خاص کرم ہے مجھے ہر رحمت و خوشی سے نوازا، مجھے اچھی سی پیار کرنے والی بیوی عطاء کی مجھے بچوں سے نوازا، مجھ پر رزق کی کشادگی فرمائی اور بے انتہا کوتاہیوں کے باوجود مجھے تا حال نواز رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میری ہر خامی پر اللہ پاک نے یا پھر میری ماں کی دعاؤں نے پردہ ڈالا ہوا ہے میری ہر خامی کے باوجود مجھے نوازتا ہی جاتا ہے مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے کبھی صدقِ دل یعنی دل کی مکمل حضوری کے ساتھ دعا کی ہو اور وہ رد ہوئی ہو اور میں نے خود بھی ایسے مشاہدے کر رکھے ہیں کہ کچھ لوگوں کی ماں جب تک زندہ رہی ہے اُن کی کوتاہیوں پر اُن کی والدہ کی دعاؤں نے پردہ ڈالے رکھا اور والدہ کی وفات ہوتے ہی وہ لوگ مسائل و مصائب سے دوچار ہو گئے۔
(اے اللہ میری والدہ کو تا دیر سلامتی و عافیت کے ساتھ میرے لیے سائبان بنائے رکھ جس کے بغیر میں شاید کچھ بھی نہیں ہوں)
خلاصہ کلام میں شاید کچھ نہیں تمام تر میرے اللہ کا کرم ہے میری دعا ہے کہ اللہ پاک کی مہربانیاں اس دنیا، قبر، محشر اور جنت میں بھی مجھے اور امت مسلمہ کے ہر مرد و زن کو مئیسر آئیں۔ آمین
 
آخری تدوین:

ماہی احمد

لائبریرین
ہماری ذات کے ہم پر حقوق ہیں، ہمارے جسم کا حق ہے کہ اُس کی غذائی ضروریات پوری ہوں، اُس کے آرام کی ضرورت پوری ہو ۔ ساتھ ساتھ ہماری روح کی ضروریات پوری ہوں۔ ہمارے ذہن و دل کو سکون و طمانیت کی فراہمی ممکن بنائی جائے۔ ان میں سے کسی بھی معاملے میں لاپرواہی نہیں ہونی چاہیے۔

ہم دوسروں کے حقوق ادا کرنا چاہیں تو بھی پہلے اپنے حقوق ادا کرنے ہوں گے۔جب ہمارا مزاج ٹھیک ہوگا ہمارا جسم تر و تاز ہ ہوگا تب ہی ہم دوسروں سے اچھا برتاؤ کر سکیں گے اور دوسروں کے کام آ سکیں گے۔

جس طرح کسی کی تیمارداری کرنے والے کا صحت مند ہونا ضرور ی ہے۔ اسی طرح دنیا کی ، اپنے ارد گرد کے انسانوں کی بھلائی سوچنے سے پہلے ، ہمارا اپنا بھلا ہونا چاہیے۔

لیکن اپنی ذات کے حقوق کی ادائیگی اور خود غرضی میں ایک باریک سا فرق ہے اور اسے سمجھنا بے حد ضروری ہے۔

اسلام ہمیں یہ کہتا ہے کہ جو چیز انسان اپنے لئے پسند کرے وہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرے۔

بالفرض ہمارے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے اور ہمارے پاس بہت کچھ ہے ایسے میں اگر ہم اپنے لئے اچھی چیز پسند کریں اور دوسروں کے لئے گھٹیا، تو یہ بے ایمانی ہوگی۔

دوسری صورت میں کہ جب ہمارے پاس وسائل محدود ہوں تب بھی ایسا کرنا مناسب نہیں کہ ایک اچھی اور ایک بری چیز میں سے ہم اچھی چیز اپنے لئے چُن لیں۔
بلکہ اپنے بھائی کے لئے بھی وہی چیز پسند کرنے کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم محدود وسائل میں قربانی دیں اور بہتر چیز اپنے بھائی کے لئے رکھیں اور بچ رہنے والی چیز سے اپنا گزارا کریں۔

ویسے یہ معاملہ کچھ اتنا سیدھ نہیں ہے اس لئے جو کچھ سمجھ آیا لکھ دیا۔ گاہے گاہے کچھ اور بھی لکھوں گا اگر کچھ سمجھ آیا تو۔
یہ تو ہو گیا ابتدائیہ۔۔۔۔ آگے کی باتوں کا انتظار رہے گا:)
 

ماہی احمد

لائبریرین
پیاری بہنا میں نے جس وقت آپ کا مراسلہ دیکھا میرا ذہن بالکل تھکا تھکا سا تھا ویسے میں تو خود بھی اس موضوع سے اپنے لیے قابلِ قدر دوستوں کی قیمتی قیمتی باتوں سے کچھ نکات چننے کے لیے اس لڑی میں آیا:)
مجھے جب خود ہی سمجھ میں نہیں آتا کہ میرا خود سے کیسا تعلق ہے تو پھر میں کیسے بیان کر سکتا ہوں:thinking:
ویسے تو میں تضادات کا ملغوبہ ہوں لیکن آپ کے فرمان پر اپنے تئیں بیان کیے دیتا ہوں کہ میرا خود سے انتہائی غافلانہ مزاج ہے مگر اس کے باوجود کسی رشتے یا تعلق سے بے اعتنائی برتنا شاید میری سرشت میں نہیں اسی مزاج کی وجہ سے بہت سے مواقع پر مجھے نقصان بھی اُٹھانا پڑا ہے(لیکن اللہ پاک کا صد شکر کہ مجھے اس پر کبھی پچھتاوا بھی نہیں کیونکہ میرا ضمیر مطمئن رہتا ہے کہ کچھ بھی غلطی میری طرف سے نہیں ہوئی ہے) کیونکہ میرا ماننا ہے کہ حقوق سے زیادہ فرائض کی فکر کرنا چاہیے۔
ثانیاً میرے مزاج میں ہمت کا فقدان ہے ایک مرتبہ میں کسی انتہائی معمولی سی بات پر ایک دوست سے ناراض ہوا تو تقریباً چار سال میں نے بات نہیں کی کیونکہ ایک بار میں ترکِ تعلق کر لوں اس کے بعد تعلق کو از سرِ نو شروع کرنے کی بالکل ہمت ہی نہیں پڑتی۔ مگر اس مدت میں مَیں اپنے دوست سے ہر آن با خبر بھی رہا
ثالثاً مجھ پر اللہ عزوجل کا خاص کرم ہے مجھے ہر رحمت و خوشی سے نوازا، مجھے اچھی سی پیار کرنے والی بیوی عطاء کی مجھے بچوں سے نوازا، مجھ پر رزق کی کشادگی فرمائی اور بے انتہا کوتاہیوں کے باوجود مجھے تا حال نواز رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میری ہر خامی پر اللہ پاک نے یا پھر میری ماں کی دعاؤں نے پردہ ڈالا ہوا ہے میری ہر خامی کے باوجود مجھے نوازتا ہی جاتا ہے مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے کبھی صدقِ دل یعنی دل کی مکمل حضوری کے ساتھ دعا کی ہو اور وہ رد ہوئی ہو اور میں نے خود بھی ایسے مشاہدے کر رکھے ہیں کہ کچھ لوگوں کی ماں جب تک زندہ رہی ہے اُن کی کوتاہیوں پر اُن کی والدہ کی دعاؤں نے پردہ ڈالے رکھا اور والدہ کی وفات ہوتے ہی وہ لوگ مسائل و مصائب سے دوچار ہو گئے۔
(اے اللہ میری والدہ کو تا دیر سلامتی و عافیت کے ساتھ میرے لیے سائبان بنائے رکھ جس کے بغیر میں شاید کچھ بھی نہیں ہوں)
خلاصہ کلام میں شاید کچھ نہیں تمام تر میرے اللہ کا کرم ہے میری دعا ہے کہ اللہ پاک کی مہربانیاں اس دنیا، قبر، محشر اور جنت میں بھی مجھے اور امت مسلمہ کے ہر مرد و زن کو مئیسر آئیں۔ آمین
اللہ پاک آپ پر اور آپ کے گھر والوں پر اپنی رحمت بنائے رکھے۔۔۔ آمین:)
 
شکریہ شمشاد صاحب آپ نے یاد کیا۔ماہی احمد آپ نے کافی مشکل ٹاپک چنا ہے۔ میں نے اس پر بسا اوقات غور بھی کیا ہے مگر کچھ زیادہ نہیں جان پائی۔میرا خود سے جو تعلق ہے اس میں بہت سارے تعلق حائل ہیں جو میرے مجھ تک پہنچنے میں عبور کرنے ہوتے ہیں۔ ایک بیٹی،ایک بیوی ،ایک ماں اور ایک انسان کا تعلق زیادہ مضبوط رہا ۔وقت کی دوڑ میں شامل ہونے کی کوشش میں ،میں نےکچھ پامال کیا خود کو۔
مگر اب میں نے خود کو معاف کرنے کی مشق شروع کر دی ہے۔کچھ کچھ خود کو پہچان لیا ہے۔اب میرے اور خود کے بیچ اللہ کی ذات ہے،جو مجھے تھامے رکھتی ہے۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
شکریہ شمشاد صاحب آپ نے یاد کیا۔ماہی احمد آپ نے کافی مشکل ٹاپک چنا ہے۔ میں نے اس پر بسا اوقات غور بھی کیا ہے مگر کچھ زیادہ نہیں جان پائی۔میرا خود سے جو تعلق ہے اس میں بہت سارے تعلق حائل ہیں جو میرے مجھ تک پہنچنے میں عبور کرنے ہوتے ہیں۔ ایک بیٹی،ایک بیوی ،ایک ماں اور ایک انسان کا تعلق زیادہ مضبوط رہا ۔وقت کی دوڑ میں شامل ہونے کی کوشش میں ،میں نےکچھ پامال کیا خود کو۔
مگر اب میں نے خود کو معاف کرنے کی مشق شروع کر دی ہے۔کچھ کچھ خود کو پہچان لیا ہے۔اب میرے اور خود کے بیچ اللہ کی ذات ہے،جو مجھے تھامے رکھتی ہے۔
کیا آپ اس بات کو ذرا تفصیلاً بیان کر سکتی ہیں کہ دوسرے بہت سے تعلق یا رشتے آپ کے آپ سے تعلق کے درمیان کیسے حائل ہیں؟؟؟
(سوال کا مقصد یہ تھا کہ میں بھی ایک ماں، ایک بیوی، ایک بیٹی ہوں۔۔۔ ہو سکتا ہے یہ دیوار میری نظر سے اوجھل ہو یا یہ گتھی ہم میں سے کسی کے کے مسئلہ کا حل بنے :))
 
بحیثیت بیٹی بیوی اور ماں تو اپنے فرائض بہت اچھی طرح نبھانے کی کوشش کی۔ان فرائض کی ادائیگی میں اتنا ڈوب گئی کہ اپنا خیال ہی نہ رہا۔ اب مجھے احساس ہوا کہ خود کو بھی وقت دینا چاہیئے۔
جب عورت صرف بہن یا بیٹی ہے تو بہت بےپرواہ اور غیر ذمہ دار ہوتی ہے مطلب یہ کہ اس پر ذمہ داریاں نہیں ہوتی ۔بس اپنی تعلیم اور اپنی ذات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر جونہی ماں بنتی ہے تو ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں،جب تین چار بچے ہوجاتے ہیں تو خود کی پرواہ نہیں کرتی،شوہر ،بچے اور گھر کی دیکھ بھال کرتے کرتے خود کو بھول جاتی ہے۔
اب تو ماشاء اللہ میرے بچے بھی میری کیئر کرتے ہیں۔ اللہ سے تعلق انسان کو بہت سکون دیتا ہے۔جو خوشی انسان کو کسی دوسرے انسان کے کام آکر ہوتی ہے، وہ اپنی ذات میں جم رہنے سے نہیں ملتی۔
اپنا،اپنے بچوں کا،اپنے گھر اور شوہر کا اور کسی اور دوسرے جس کا بھی خیال رکھیں ،تو نیت یہ رکھیں کہ یہ اللہ کیلیئے کر ہی ہوں۔تو سکینت بھی رہے گی اور اپنے لئے وقت بھی ضرور ملے گا۔
 

جاسمن

لائبریرین
ہائے ماہی! :)
جلدی جلدی میں آتی ہوں۔۔۔۔
یہ موضوع تو ایسا ہے کہ سکون سے ہی کچھ سوچا اور لکھا جا سکتا ہے۔:)
 

جاسمن

لائبریرین
فی الحال تو بس یہی شعر ذہن میں آ رہا ہے۔
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا تو نہ بن،اپنا تو بن
 

ماہی احمد

لائبریرین
بحیثیت بیٹی بیوی اور ماں تو اپنے فرائض بہت اچھی طرح نبھانے کی کوشش کی۔ان فرائض کی ادائیگی میں اتنا ڈوب گئی کہ اپنا خیال ہی نہ رہا۔ اب مجھے احساس ہوا کہ خود کو بھی وقت دینا چاہیئے۔
جب عورت صرف بہن یا بیٹی ہے تو بہت بےپرواہ اور غیر ذمہ دار ہوتی ہے مطلب یہ کہ اس پر ذمہ داریاں نہیں ہوتی ۔بس اپنی تعلیم اور اپنی ذات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر جونہی ماں بنتی ہے تو ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں،جب تین چار بچے ہوجاتے ہیں تو خود کی پرواہ نہیں کرتی،شوہر ،بچے اور گھر کی دیکھ بھال کرتے کرتے خود کو بھول جاتی ہے۔
اب تو ماشاء اللہ میرے بچے بھی میری کیئر کرتے ہیں۔ اللہ سے تعلق انسان کو بہت سکون دیتا ہے۔جو خوشی انسان کو کسی دوسرے انسان کے کام آکر ہوتی ہے، وہ اپنی ذات میں جم رہنے سے نہیں ملتی۔
اپنا،اپنے بچوں کا،اپنے گھر اور شوہر کا اور کسی اور دوسرے جس کا بھی خیال رکھیں ،تو نیت یہ رکھیں کہ یہ اللہ کیلیئے کر ہی ہوں۔تو سکینت بھی رہے گی اور اپنے لئے وقت بھی ضرور ملے گا۔
یہ تو آپ نے بجا فرمایا۔۔۔۔ میرا اس متعلق اندازِ فکر یہ ہے کہ جو شخص خود اپنا خیال نہیں رکھ سکتا (کہ یہ ایک انتہائی بنیادی بات ہے) وہ پھر کسی دوسرے کا خیال بھی اس طرح نہیں رکھ سکتا جیسا کہ اس دوسرے شخص کا حق ہے (ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ یہاں ہم کسی مخصوص رشتے کی بات کر رہے ہیں، جیسے کہ ماں۔۔۔۔ ایک ماں اپنے بچوں کو اپنی ذات کی اہمیت کیسے سیکھائے گی جب وہ خود اپنی ذات کو اہمیت نہ دیتی ہو گی)۔۔۔۔ اپنی ذات کا حق ادا کرنا، مجھے لگتا ہے، پہلی اور بنیادی بات ہے۔۔۔۔ مگر یہ خودغرضی سے ہٹ کر ایک بات کر رہی ہوں، خود غرضی ایک الگ چیز ہے:)
 

ماہی احمد

لائبریرین
ہائے ماہی! :)
جلدی جلدی میں آتی ہوں۔۔۔۔
یہ موضوع تو ایسا ہے کہ سکون سے ہی کچھ سوچا اور لکھا جا سکتا ہے۔:)
آپی میں سمجھ سکتی ہوں۔۔۔۔ آپ آرام سے سوچیے اور تسلی سے لکھیے گا۔۔۔۔ کوئی جلدی نہیں۔۔۔ لیکن، ماہی انتظار کرے گی:)
 
Top