مدیحہ گیلانی
محفلین
فاتح الدین بشیر صاحب کی ایک اور خوبصورت غزل
آفاق سے میرے گھر قندیل اتر آئی
گو نورِ مجسّم کی تمثیل اتر آئی
اک چہرۂ ابر آسا اترا مرے صحرا پر
ہاتھوں کے کٹورے میں اک جھیل اتر آئی
وہ صورتِ مریم تھی، میں منحرفِ تقدیس
ابلیس کے سینے میں انجیل اتر آئی
پڑھتا چلا جاتا تھا وہ اسم دُرُشتی سے
پھر مجھ پہ اچانک ہی ترتیل اتر آئی
اس نظمِ تمنّا کے ہونٹوں نے چھُوا جس دم
مجھ مصرعِ ناقص میں تکمیل اتر آئی
بس ترکِ تعلق کے موضوع پہ بحثیں تھیں
تنزیلِ مراسم میں تطویل اتر آئی
ٹھکرائی گئی جس دم قربانیِ جان و دل
پھر دل میں تمنائے قابیل اتر آئی
کشکول میں عزت کی خیرات تو ڈالی تھی
لہجے میں مگر اس کے تذلیل اتر آئی
امکان پذیری کی تجسیم تھی خوابوں میں
یوں کُن کی صداؤں میں تشکیل اتر آئی
(فاتح الدین بشیرؔ)
آفاق سے میرے گھر قندیل اتر آئی
گو نورِ مجسّم کی تمثیل اتر آئی
اک چہرۂ ابر آسا اترا مرے صحرا پر
ہاتھوں کے کٹورے میں اک جھیل اتر آئی
وہ صورتِ مریم تھی، میں منحرفِ تقدیس
ابلیس کے سینے میں انجیل اتر آئی
پڑھتا چلا جاتا تھا وہ اسم دُرُشتی سے
پھر مجھ پہ اچانک ہی ترتیل اتر آئی
اس نظمِ تمنّا کے ہونٹوں نے چھُوا جس دم
مجھ مصرعِ ناقص میں تکمیل اتر آئی
بس ترکِ تعلق کے موضوع پہ بحثیں تھیں
تنزیلِ مراسم میں تطویل اتر آئی
ٹھکرائی گئی جس دم قربانیِ جان و دل
پھر دل میں تمنائے قابیل اتر آئی
کشکول میں عزت کی خیرات تو ڈالی تھی
لہجے میں مگر اس کے تذلیل اتر آئی
امکان پذیری کی تجسیم تھی خوابوں میں
یوں کُن کی صداؤں میں تشکیل اتر آئی
(فاتح الدین بشیرؔ)