متفق محترم سید بادشاہجانب عالی اب اتنے بھی بزرگ نہیں ہم؟
47 سال تو کڑیل جوانی کی عمر ہوتی ہے
کونساسید بھیا کان ادھر لائیں بات کرنی ہے چھپ کے۔
آپ بھی بابا والا حربہ استعمال کریں
جان برادر بڑھاپے کا تعلق عمر سے نہیںمتفق محترم سید بادشاہ
اب اگر 47 والے بزرگوارم ہوئے تو پھر
ہم جیسے 50 والے تو بڈھے کھوسٹ کہلائیں گے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
بچپن میں پچپن کو بھگت چکا سید بادشاہجان برادر بڑھاپے کا تعلق عمر سے نہیں
بڑھاپا اک سوچ کا نام ہے ولولے جوان ہوں تو عمر کوئی معنی نہیں رکھتی
ولولے سرد پڑ جائیں تو جوانی میں ہی بڑھاپا طاری ہو جاتا ہے
برادرم کہہ لیتے ہیں۔۔۔ لیکن بزرگی کو عمر سے کیا علاقہ؟ بزرگ تو محترم، مکرم وغیرہ کے معنوں میں آتا ہےجانب عالی اب اتنے بھی بزرگ نہیں ہم؟
47 سال تو کڑیل جوانی کی عمر ہوتی ہے
اصل ظلم اسے کہتے ہیں بیٹا کہ شاعر سے اس کے شعر کا مطلب پوچھنا (جو اکثر اوقات اسے خود بھی علم نہیں ہوتا )واہ واہ بہت خوب فاتح بھیا!
اب مجھے اس شعر کا مطلب بھی سمجھائیں جس کی وجہ سے سارے لوگ آپ کو ظالم کہہ رہے ہیں۔
بھیاااصل ظلم اسے کہتے ہیں بیٹا کہ شاعر سے اس کے شعر کا مطلب پوچھنا (جو اکثر اوقات اسے خود بھی علم نہیں ہوتا )
اچھا اچھا بتاتا ہوںبھیاا
ایسے کہیں نہیں بتانا بس ٹھیک ہے آئندہ کچھ نہیں پوچھا کروں گی
اچھا ہوا یہ بھی پتہ لگ گیا کہ شاعر پر اصل ظلم کیا ہوتا ہے۔ اب کبھی آپ کو تنگ کرنے کا موڈ ہوا تو آپ کی سب سے لمبی غزل نکال کر اسکا مطلب پوچھ لوں گا۔اصل ظلم اسے کہتے ہیں بیٹا کہ شاعر سے اس کے شعر کا مطلب پوچھنا (جو اکثر اوقات اسے خود بھی علم نہیں ہوتا )
پذیرائی پر تہ دل سے ممنون ہوں۔
ارے! آپ پر تو ایک ہی دھمکی اثر کر گئی بھیا۔۔ واہ بھئی شاباش ہے مجھےاچھا اچھا بتاتا ہوں
جیو بھائی جی جیوبچپن میں پچپن کو بھگت چکا سید بادشاہ
اب پچپن میں بچپن گزارنا ہے ۔۔۔ ۔۔
اس لیئے " ابھی تو میں جوان ہوں " غزل روز سنتا ہوں ۔
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرےبرادرم کہہ لیتے ہیں۔۔۔ لیکن بزرگی کو عمر سے کیا علاقہ؟ بزرگ تو محترم، مکرم وغیرہ کے معنوں میں آتا ہے
اہا اہا اہابلا شبہ بہت گہری ہم جہت سفر کراتی غزل ہے ۔
قاری کے سامنے یہ غزل " مجاز و حقیقت " کے باہمی ربط کے کئی در وا کردیتی ہے ۔
کل سے کئی بار کوشش کی مگر ہر بار کسی نہ کسی شعر نے ایسا مسحور کیا ۔
کہ سحرزدہ معذور رہ گیا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
پہلے دو شعر تو پڑھتے ہی میری " غزل نایاب " میری بٹیا جانی سامنے آجاتی ہے ۔
اور سب کچھ بھول جاتا ہے
آفاق سے میرے گھر قندیل اتر آئی
گو نورِ مجسّم کی تمثیل اتر آئی
اک چہرۂ ابر آسا اترا مرے صحرا پر
ہاتھوں کے کٹورے میں اک جھیل اتر آئی
اگلا شعر یکلخت " مستور حقیقی " کے روبرو لے گیا ۔ اور پھر سدھ بدھ کہاں کیسے رہ پا سکتی ہے ۔۔۔ ۔۔
کہ جستجوئے حق رکھنے والے ہی حق کو پاتے ہیں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ جو تقدیس کے لبادوں میں لپٹے بتوں کو گراتے ہیں ۔
ان ہی کے دلوں پر حق کا نزول ہوتا ہے ۔ اور زمانے کی نگاہ میں گمراہوں کے دل نور حقیقی کا ٹھکانہ بن جاتے ہیں ۔
وہ صورتِ مریم تھی، میں منحرفِ تقدیس
ابلیس کے سینے میں انجیل اتر آئی
۳۰ نمبر والا لگائیں