فرحت کیانی
لائبریرین
کل اور آج
ایک یہ دن کہ اپنوں نے بھی ہم سے رشتہ توڑ لیا
اک وہ دن جب پیڑ کی شاخیں بوجھ ہمارا سہتی تھیں
اک یہ دن کہ جب لاکھوں غم اور کال پڑا ہے آنسو کا
اک وہ دن جب اک ذرا سی بات پر ندیاں بہتی تھیں
اک یہ دن جب ساری سڑکیں روٹھی روٹھی لگتی ہیں
اک وہ دن جب “آؤ کھیلیں“، ساری گلیاں کہتی تھیں
اک یہ دن جب ذہن میں ساری عیاری کی باتیں ہیں
اک وہ دن جب دل میں ساری بھولی باتیں رہتی تھیں
اک یہ گھر جس میں میرا سازوساماں رہتا ہے
اک وہ گھر جس میں میری بوڑھی نانی رہتی تھیں
ایک یہ دن کہ اپنوں نے بھی ہم سے رشتہ توڑ لیا
اک وہ دن جب پیڑ کی شاخیں بوجھ ہمارا سہتی تھیں
اک یہ دن کہ جب لاکھوں غم اور کال پڑا ہے آنسو کا
اک وہ دن جب اک ذرا سی بات پر ندیاں بہتی تھیں
اک یہ دن جب ساری سڑکیں روٹھی روٹھی لگتی ہیں
اک وہ دن جب “آؤ کھیلیں“، ساری گلیاں کہتی تھیں
اک یہ دن جب ذہن میں ساری عیاری کی باتیں ہیں
اک وہ دن جب دل میں ساری بھولی باتیں رہتی تھیں
اک یہ گھر جس میں میرا سازوساماں رہتا ہے
اک وہ گھر جس میں میری بوڑھی نانی رہتی تھیں