محبت۔۔۔۔۔۔۔۔نور سعدیہ شیخ

آپ سب بتا دیں ..کسی کا بھلا ہو جائے گا
یہ بہت طویل موضوعات ہیں۔ بہتر ہے آپ کو ایک مختصر اور جامع کتاب کا ربط دے دیا جائے جس کا آپ توجہ سے مطالعہ کر لیں۔ :)
اس مختصر کتاب کا مطالعہ کرلیں صرف 122 صفحات پر مشتمل ہے۔ :)
 

نور وجدان

لائبریرین
بہت شکریہ جناب محترم لئیق صاحب ..مومن کا۔کام۔بھلا کرنا ہے. شکریہ: ):) اس کام کی۔جزا آپ کا اللہ۔تعالیٰ دیں گے کہ۔میرے پاس " بہت دعائیں " ہے۔۔اللہ تعالی ہم سب کو اچھا کر دے :)
کتاب کا مطالعہ کرنے کے ضرور بتائیے گا
 

سلمان حمید

محفلین
ایک تو اتنی گہری تحریر لکھی، اوپر سے سمجھ کر لکھی، اور اس کے بھی اوپر سے اتنی اچھی لکھی۔ اور سب سے اوپر یہ کہ اس پر بات چیت بھی ایسے جاری ہے کہ مزید گہرائی میں جاتے جاتے میرے جیسا کنارے پر ہی ڈوب جانے والا بندہ آگے بڑھنے کی ہمت ہی نہ کرے۔

قسم لے لو، اگر ایسی کوئی تحریر میں نے خود بھی لکھی ہوتی اور اس پر اس طرح کی علمی بحث شروع ہو جاتی تو میں کچھ دیر میں ہی مکر جاتا اور کہتا کہ یہ تحریر میری ہے ہی نہیں، سعدیہ نامی لڑکی نے فیس بک پر لکھی تھی، وہاں سے چرائی ہے :rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 

نور وجدان

لائبریرین
ایک تو اتنی گہری تحریر لکھی، اوپر سے سمجھ کر لکھی، اور اس کے بھی اوپر سے اتنی اچھی لکھی۔ اور سب سے اوپر یہ کہ اس پر بات چیت بھی ایسے جاری ہے کہ مزید گہرائی میں جاتے جاتے میرے جیسا کنارے پر ہی ڈوب جانے والا بندہ آگے بڑھنے کی ہمت ہی نہ کرے۔

قسم لے لو، اگر ایسی کوئی تحریر میں نے خود بھی لکھی ہوتی اور اس پر اس طرح کی علمی بحث شروع ہو جاتی تو میں کچھ دیر میں ہی مکر جاتا اور کہتا کہ یہ تحریر میری ہے ہی نہیں، سعدیہ نامی لڑکی نے فیس بک پر لکھی تھی، وہاں سے چرائی ہے :rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:

یہ تحریر آپ کی حسِ مزاح کے نام ۔۔۔ اگر واقعی ہی پسند آئی تو اپنے نام کر لیں ۔۔۔۔ آپ جیسے کنارےپر ڈوبے، تو ہم ساحل پر کھڑے رہنے والوں میں سے ۔۔ہمیں سمندر سے ڈر لگتا ہے ۔۔۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
آخری تدوین:

متلاشی

محفلین
محبت کی حقیقت اور معنویت کیا ہے؟ میری زندگی میں نظریات کے تغیر نے محبت کو سمجھنے میں مدد دی ہے۔ نظریہ محبت روحوں کے تعلقات سے منبطق ہے. روح کے کششی سرے قربت اور مخالف سرے مخالفت میں جاتے ہیں. بنیادی طور پر درجہ بندی کشش اور مخالفت کی ہوتی ہے. اِن روحوں سے نکلتی ''نورانی شعاعیں'' ایک سپیکڑیم بناتی ہیں. ارواح کی کشش کا دائرہ بڑا یا چھوٹا ہوسکتا ہے.اور ان کی دوسری درجہ بندی دائروی وسعت کرتی ہے اور یوں انواع و اقسام کی ارواح تغیر کے ساتھ مرکز کے ساتھ مخالفت یا کشش کرتی ہیں. جن کا حلقہِ کشش بڑا ہوتا ہے وہی مرکز سے قریب ہوتی ہیں.

لوگ کہتے ہیں محبت کا سرچشمہ بدن ہے. انصال سے انتقال ہوتا ہے اور انتقال حواسِ خمسہ کا محتاج ہوتا ہے. اور یہی محبت اصل محبت ہے کہ محبت روپ بدلتی ہے یا کہ لیں لباس بدلتی ہے. محبت پھر خود ملبوس ہے جس کو میں اوڑھ لوں اور زمانے کے رواج کے مطابق اوڑھنی اتار پھینک دوں . دوسری صورت میں انصال کے بعد اتصال اور انتقال میں اس قدر موافقت ہو کہ یہ روح اور خاک دونوں کا ملزوم ٹھہرتی ہیں. محبت ملبوس کی طرح نہیں ہوتی مگر اس میں خاک ایک ملاوٹ کی طرح ہوتی ہے. دل نہ ہو میلا، بدن میلا اور رنگ کچیلا ..۔۔۔

محبت کی پہلی سیڑھی خاک سے چلتی روح کو بھنگ پلاتی ہے اور افیون کے دھونی میں 'من نشیلا ' تن بھلا ' بیٹھے لوگ ''دائروی رقص'' شروع کرتے نظر آتے ہیں اس رقص میں روح کے ساتھ ساتھ جسم بھی گھومتا ہے ۔اس پہیے (جسم)کو روح تحریک دیتی رہتی ہے یہاں تک کا تن اور من کا ہوش جاتا رہتا ہے. تب ایک روح تقسیم در تقسیم کے بعد تن کی نفی کا کلمہ پڑھ لیتی ہے اور مقام عین پالیتی ہے.

روحانی انتقال بجسمانی کے فوقیت رکھتا ہے. یہ درجہ آگہی کے دروازے پر لاکھڑا کرتا ہے. آگہی جنون بھی ہے اور عذاب بھی۔۔۔۔. یہ فہم بھی ہے اور ادراک بھی ۔۔۔۔۔ یہ راز بھی ہے اور انکشاف بھی ۔۔۔۔!!!

دروازے تک پہنچنے کے لیے لمحوں کی تپسا بھی اہمیت رکھتی ہے کہ پل بھر میں صدی بھر کا درد دے دیا جاتا ہے.اور پل پل درد کا انجیکشن ہوش سے ماورا کیے رکھتا ہے اور عاشق عین دروازے پر پہنچا دیا جاتا ہے. ''

کیا دروازے کھٹکھٹاؤ گے؟ شرم و آداب کے تمام التزامات کو بھول جاؤ گے؟''

یہاں روح سے موسیقی کے سُر نکلتے ہیں ان کی تال پر رقص جنوں کرتے کرتے دروازہ کھل جاتا ہے.۔۔ موسیقی کی تال پر ناچنے والے ایک دروازے سے دوسرے دروازے تک پہنچا دیے جاتے ہیں کہ اس جہاں میں ہوش و عقل ناکام و نامراد پلٹتے ہیں ۔ یہ سرشاری و مستی ، یہ عالمِ بے خبری انکشاف کے دروازے ہی نہاں کو عیاں کرتی ہے ۔ کہنے کو مد ہوشی بھی ایک نعمت ہے
بہت زبردست لکھا آپ نے ۔۔۔۔ اس قدر عمیق تحریر کے پیچھے یقینا سچے جذبے کارفرما رہے ہوں گے ۔۔۔۔
اسی موضوع پر کسی زمانے میں ہم نے بھی آشنائے محبت کے نام سے ایک افسانے کی صورت خامہ فرسائی کی تھی ۔۔۔۔۔ :)
 

عباس اعوان

محفلین
اکثر لوگ ایسا کہتے آئے کہ عشق کے درجے اس طرح ترقی کی جانب چلتے ہیں :
1۔ ادب
2۔ پسنددیدگی
3۔ محبت
4۔ عشق
کچھ غیر متفق ہوں
محبت تو بس ہو جاتی ہے،، ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں بھی، اتنا ہی کافی ہوتا ہے کسی کو پہچاننے کے لیے۔ لوگ تو شاید اتنی سی دیر میں یہ بھی پہچا ن لیتے ہیں کہ یہ تو وہی ہے جس کے ساتھ میں " یوم الست " میں تھا۔۔۔ اس کے لیے پسندیدگی کے مرحلے سے گزرنا ہر گز ضروری نہیں ہوتا۔
ادب درجہ نہیں ہے، اد ب محبت کا ایک لا ینفک جزو ہے۔
بقول اقبال: ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
جس طرح دیگر اجزا مثلاً ، وفا، خلوص اور بے غرضی کے بغیر محبت، محبت نہیں رہتی، اسی طرح ادب کے بغیر بھی محبت کا وجود باقی نہیں رہتا۔
میں نے یہاں تک دیکھا ہے کہ محب، محبوب کی طرف پیٹھ کر کے نہیں چلتے، تا کہ بے ادبی نہ ہو جائے۔ منہ پھاڑ کر محبوب کا نام نہیں لیتے کہ ایسے بے ادبی ہوتی ہے، بس اشارتاً کہتے ہیں کہ "وہ"،"جناب"، "اُن" وغیرہ۔۔ عمر، رُتبے وغیرہ میں کم بھی ہوں تو اپنے سے بڑا سمجھتے ہیں، آپ جی کہہ کر پکارتے ہیں، اور جب بھی یاد یا خیال آئے، واری واری جاتے ہیں۔ اور اپنے آپ سے بہتر سمجھتے ہیں محبوب کو۔اور پھر آگے چل کر اپنی ڈور محبوب کو پکڑا دیتے ہیں، کہ جہاں مرضی چاہے ہے چل۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے، جب کہتا ہے کہ " جو مزاجِ یار میں آئے"۔
 

عباس اعوان

محفلین
اور کہتے ہیں کہ محبت "ہو جاتی ہے"۔ بلا ارادہ و بلا نیت و بلامحنت۔۔۔ محنت تو بعد میں کرنی پڑتی ہے، جب کچھ معاملوں میں اختیار ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو روکنا پڑتا ہے۔
اور عشق
کہتے ہیں کہ عشق ہوتا نہیں، عشق عطا کیا جاتا ہے۔
 

عباس اعوان

محفلین
"یہاں روح سے موسیقی کے سر نکلتے ہیں ۔ ان کی تال پر رقص جنوں کرتے کرتے دروازہ کھل جاتا ہے"
اس لائن نے تو مار ڈالا ۔ بہت خوب سسٹر !
محبت کی تعریف آج تک کوئی نہیں کر پایا ۔ نہ ہی کوئی۔بیان کر پائےگا ۔ میں بس یہ کہا کرتی ہوں "جس تن لاگے ، وہ تن جانے"
سخت متفق
:)
 

نور وجدان

لائبریرین
بہت زبردست لکھا آپ نے ۔۔۔۔ اس قدر عمیق تحریر کے پیچھے یقینا سچے جذبے کارفرما رہے ہوں گے ۔۔۔۔
اسی موضوع پر کسی زمانے میں ہم نے بھی آشنائے محبت کے نام سے ایک افسانے کی صورت خامہ فرسائی کی تھی ۔۔۔۔۔ :)
بہت شکریہ جناب! آپ کی حوصلہ افزائی پر مشکور ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ آپ کی اس تحریر کو پڑھتی ہوں ۔۔ اور بتاتی ہوں ۔۔ ماشاءاللہ آپ کی ایک تحریر نے مجھے نئی تحریر لکھنے میں تحریک دی ہے سو اس کو پڑھنا تو بنتا ہے ۔
 

متلاشی

محفلین
بہت شکریہ جناب! آپ کی حوصلہ افزائی پر مشکور ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ آپ کی اس تحریر کو پڑھتی ہوں ۔۔ اور بتاتی ہوں ۔۔ ماشاءاللہ آپ کی ایک تحریر نے مجھے نئی تحریر لکھنے میں تحریک دی ہے سو اس کو پڑھنا تو بنتا ہے ۔
آپ کی قدر دانی پر بندہ آپ کا شکر گذار ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
کچھ غیر متفق ہوں
محبت تو بس ہو جاتی ہے،، ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں بھی، اتنا ہی کافی ہوتا ہے کسی کو پہچاننے کے لیے۔ لوگ تو شاید اتنی سی دیر میں یہ بھی پہچا ن لیتے ہیں کہ یہ تو وہی ہے جس کے ساتھ میں " یوم الست " میں تھا۔۔۔ اس کے لیے پسندیدگی کے مرحلے سے گزرنا ہر گز ضروری نہیں ہوتا۔
ادب درجہ نہیں ہے، اد ب محبت کا ایک لا ینفک جزو ہے۔
بقول اقبال: ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
جس طرح دیگر اجزا مثلاً ، وفا، خلوص اور بے غرضی کے بغیر محبت، محبت نہیں رہتی، اسی طرح ادب کے بغیر بھی محبت کا وجود باقی نہیں رہتا۔
میں نے یہاں تک دیکھا ہے کہ محب، محبوب کی طرف پیٹھ کر کے نہیں چلتے، تا کہ بے ادبی نہ ہو جائے۔ منہ پھاڑ کر محبوب کا نام نہیں لیتے کہ ایسے بے ادبی ہوتی ہے، بس اشارتاً کہتے ہیں کہ "وہ"،"جناب"، "اُن" وغیرہ۔۔ عمر، رُتبے وغیرہ میں کم بھی ہوں تو اپنے سے بڑا سمجھتے ہیں، آپ جی کہہ کر پکارتے ہیں، اور جب بھی یاد یا خیال آئے، واری واری جاتے ہیں۔ اور اپنے آپ سے بہتر سمجھتے ہیں محبوب کو۔اور پھر آگے چل کر اپنی ڈور محبوب کو پکڑا دیتے ہیں، کہ جہاں مرضی چاہے ہے چل۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے، جب کہتا ہے کہ " جو مزاجِ یار میں آئے"۔
اگر محبت کو عقل و شعور کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو اس کو کہا جاسکتا ہے کہ ادب پہلا قرینہ ہے۔
محبت کا احساس اگر ایک نظر میں ہو ------- تو احساس مٹتا بھی جھاگ کی طرح یا بلبلے کی طرح ہے مگر وہ احساس جو آہستہ آہستہ سرائیت کرتا ہے اس کی منزلیں ہوتی ہیں ۔۔میں نے محبت کی یہ تحریر مجاز کے لیے لکھی بھی نہیں تھی ۔۔۔۔۔ سب نے اس کو مجاز پر لیا ہے۔۔۔۔میں نے مجاز کو سیڑھی سمجھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجاز سے ادب کی پہلی سیڑھی اللہ کی طرف لے جاتی ہے ۔۔۔۔۔ اور اگر اس فلسفے کو دیکھیں تو شاید ۔۔۔ شاید میرے ذہن تک اپروچ ہوجائے کہ یہ چھوٹی سی تحریر ہے مگر اس کی تشریحات مجاز و حقیقی دونوں پر کی جاسکتی ہے۔۔
جہاں تک لفظوں کی بات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دور تو گزر گیا۔۔،جب سنیے ،آپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ کا چکر ہوتا ہے۔۔ اور سچ بتاؤں ہر انسان کی زندگی کا فلسفہ الگ ہوتا ہے کیونکہ ہر انسان اپنی زندگی جیتا ہے اس کے نظریات ہی اس کا فلسفہ ہوتے ہیں ۔۔۔ اس لیے میں پہلی نظر کی محبت کو پاگل پن سمجھتی ہوں ۔۔۔۔۔ اور اس پر یقین نہیں کرتی کہ پہلی نظر میں محبت ہوسکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ! اگر پہلی نظر کے تجربات کی بات کریں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت سے خاندان ایسی '' نظر'' کے پیچھے برباد ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو محبت عقل سے گزر کر ہوتی ہے وہ تباہی نہیں لاتی بلکہ اور سمجھدار کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
اور کہتے ہیں کہ محبت "ہو جاتی ہے"۔ بلا ارادہ و بلا نیت و بلامحنت۔۔۔ محنت تو بعد میں کرنی پڑتی ہے، جب کچھ معاملوں میں اختیار ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو روکنا پڑتا ہے۔
اور عشق
کہتے ہیں کہ عشق ہوتا نہیں، عشق عطا کیا جاتا ہے۔
میں جس کو محبت کہتی ہوں اس کو آپ عشق کہتے ہیں ۔۔۔ بس یہی فرق ہے۔۔ اور کچھ نہیں
 

فاتح

لائبریرین
ایڈے ڈھیر سارے فلسفے وہ بھی اکٹھے ایک ہی جگہ۔۔۔ سقراط، افلاطون اور ارسطو وغیرہ پہلے ہی پھڑک گئے ورنہ یہ دھاگا پڑھ کر پھڑک جاتے۔
 
Top