آپ سب بتا دیں ..کسی کا بھلا ہو جائے گا
اس مختصر کتاب کا مطالعہ کرلیں صرف 122 صفحات پر مشتمل ہے۔یہ بہت طویل موضوعات ہیں۔ بہتر ہے آپ کو ایک مختصر اور جامع کتاب کا ربط دے دیا جائے جس کا آپ توجہ سے مطالعہ کر لیں۔
آپ سب بتا دیں ..کسی کا بھلا ہو جائے گا
اس مختصر کتاب کا مطالعہ کرلیں صرف 122 صفحات پر مشتمل ہے۔یہ بہت طویل موضوعات ہیں۔ بہتر ہے آپ کو ایک مختصر اور جامع کتاب کا ربط دے دیا جائے جس کا آپ توجہ سے مطالعہ کر لیں۔
بہت شکریہ جناب محترم لئیق صاحب ..مومن کا۔کام۔بھلا کرنا ہے. شکریہ: ) اس کام کی۔جزا آپ کا اللہ۔تعالیٰ دیں گے کہ۔میرے پاس " بہت دعائیں " ہے۔۔اللہ تعالی ہم سب کو اچھا کر دےاس مختصر کتاب کا مطالعہ کرلیں صرف 122 صفحات پر مشتمل ہے۔
کتاب کا مطالعہ کرنے کے ضرور بتائیے گابہت شکریہ جناب محترم لئیق صاحب ..مومن کا۔کام۔بھلا کرنا ہے. شکریہ: ) اس کام کی۔جزا آپ کا اللہ۔تعالیٰ دیں گے کہ۔میرے پاس " بہت دعائیں " ہے۔۔اللہ تعالی ہم سب کو اچھا کر دے
ایک تو اتنی گہری تحریر لکھی، اوپر سے سمجھ کر لکھی، اور اس کے بھی اوپر سے اتنی اچھی لکھی۔ اور سب سے اوپر یہ کہ اس پر بات چیت بھی ایسے جاری ہے کہ مزید گہرائی میں جاتے جاتے میرے جیسا کنارے پر ہی ڈوب جانے والا بندہ آگے بڑھنے کی ہمت ہی نہ کرے۔
قسم لے لو، اگر ایسی کوئی تحریر میں نے خود بھی لکھی ہوتی اور اس پر اس طرح کی علمی بحث شروع ہو جاتی تو میں کچھ دیر میں ہی مکر جاتا اور کہتا کہ یہ تحریر میری ہے ہی نہیں، سعدیہ نامی لڑکی نے فیس بک پر لکھی تھی، وہاں سے چرائی ہے
آپ نے احسان کیا ۔۔ انشاء اللہ کے حکم سے اس کو پڑھ کر بتاؤں گی آپ جیسے لوگوں سے ہم جیسوں کا بھلا ہوجاتا ہے ،،، اللہ تعالیٰ آپ کو ترقی دے ۔۔آمینکتاب کا مطالعہ کرنے کے ضرور بتائیے گا
بہت زبردست لکھا آپ نے ۔۔۔۔ اس قدر عمیق تحریر کے پیچھے یقینا سچے جذبے کارفرما رہے ہوں گے ۔۔۔۔محبت کی حقیقت اور معنویت کیا ہے؟ میری زندگی میں نظریات کے تغیر نے محبت کو سمجھنے میں مدد دی ہے۔ نظریہ محبت روحوں کے تعلقات سے منبطق ہے. روح کے کششی سرے قربت اور مخالف سرے مخالفت میں جاتے ہیں. بنیادی طور پر درجہ بندی کشش اور مخالفت کی ہوتی ہے. اِن روحوں سے نکلتی ''نورانی شعاعیں'' ایک سپیکڑیم بناتی ہیں. ارواح کی کشش کا دائرہ بڑا یا چھوٹا ہوسکتا ہے.اور ان کی دوسری درجہ بندی دائروی وسعت کرتی ہے اور یوں انواع و اقسام کی ارواح تغیر کے ساتھ مرکز کے ساتھ مخالفت یا کشش کرتی ہیں. جن کا حلقہِ کشش بڑا ہوتا ہے وہی مرکز سے قریب ہوتی ہیں.
لوگ کہتے ہیں محبت کا سرچشمہ بدن ہے. انصال سے انتقال ہوتا ہے اور انتقال حواسِ خمسہ کا محتاج ہوتا ہے. اور یہی محبت اصل محبت ہے کہ محبت روپ بدلتی ہے یا کہ لیں لباس بدلتی ہے. محبت پھر خود ملبوس ہے جس کو میں اوڑھ لوں اور زمانے کے رواج کے مطابق اوڑھنی اتار پھینک دوں . دوسری صورت میں انصال کے بعد اتصال اور انتقال میں اس قدر موافقت ہو کہ یہ روح اور خاک دونوں کا ملزوم ٹھہرتی ہیں. محبت ملبوس کی طرح نہیں ہوتی مگر اس میں خاک ایک ملاوٹ کی طرح ہوتی ہے. دل نہ ہو میلا، بدن میلا اور رنگ کچیلا ..۔۔۔
محبت کی پہلی سیڑھی خاک سے چلتی روح کو بھنگ پلاتی ہے اور افیون کے دھونی میں 'من نشیلا ' تن بھلا ' بیٹھے لوگ ''دائروی رقص'' شروع کرتے نظر آتے ہیں اس رقص میں روح کے ساتھ ساتھ جسم بھی گھومتا ہے ۔اس پہیے (جسم)کو روح تحریک دیتی رہتی ہے یہاں تک کا تن اور من کا ہوش جاتا رہتا ہے. تب ایک روح تقسیم در تقسیم کے بعد تن کی نفی کا کلمہ پڑھ لیتی ہے اور مقام عین پالیتی ہے.
روحانی انتقال بجسمانی کے فوقیت رکھتا ہے. یہ درجہ آگہی کے دروازے پر لاکھڑا کرتا ہے. آگہی جنون بھی ہے اور عذاب بھی۔۔۔۔. یہ فہم بھی ہے اور ادراک بھی ۔۔۔۔۔ یہ راز بھی ہے اور انکشاف بھی ۔۔۔۔!!!
دروازے تک پہنچنے کے لیے لمحوں کی تپسا بھی اہمیت رکھتی ہے کہ پل بھر میں صدی بھر کا درد دے دیا جاتا ہے.اور پل پل درد کا انجیکشن ہوش سے ماورا کیے رکھتا ہے اور عاشق عین دروازے پر پہنچا دیا جاتا ہے. ''
کیا دروازے کھٹکھٹاؤ گے؟ شرم و آداب کے تمام التزامات کو بھول جاؤ گے؟''
یہاں روح سے موسیقی کے سُر نکلتے ہیں ان کی تال پر رقص جنوں کرتے کرتے دروازہ کھل جاتا ہے.۔۔ موسیقی کی تال پر ناچنے والے ایک دروازے سے دوسرے دروازے تک پہنچا دیے جاتے ہیں کہ اس جہاں میں ہوش و عقل ناکام و نامراد پلٹتے ہیں ۔ یہ سرشاری و مستی ، یہ عالمِ بے خبری انکشاف کے دروازے ہی نہاں کو عیاں کرتی ہے ۔ کہنے کو مد ہوشی بھی ایک نعمت ہے
کچھ غیر متفق ہوںاکثر لوگ ایسا کہتے آئے کہ عشق کے درجے اس طرح ترقی کی جانب چلتے ہیں :
1۔ ادب
2۔ پسنددیدگی
3۔ محبت
4۔ عشق
سخت متفق"یہاں روح سے موسیقی کے سر نکلتے ہیں ۔ ان کی تال پر رقص جنوں کرتے کرتے دروازہ کھل جاتا ہے"
اس لائن نے تو مار ڈالا ۔ بہت خوب سسٹر !
محبت کی تعریف آج تک کوئی نہیں کر پایا ۔ نہ ہی کوئی۔بیان کر پائےگا ۔ میں بس یہ کہا کرتی ہوں "جس تن لاگے ، وہ تن جانے"
بہت شکریہ جناب! آپ کی حوصلہ افزائی پر مشکور ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ آپ کی اس تحریر کو پڑھتی ہوں ۔۔ اور بتاتی ہوں ۔۔ ماشاءاللہ آپ کی ایک تحریر نے مجھے نئی تحریر لکھنے میں تحریک دی ہے سو اس کو پڑھنا تو بنتا ہے ۔بہت زبردست لکھا آپ نے ۔۔۔۔ اس قدر عمیق تحریر کے پیچھے یقینا سچے جذبے کارفرما رہے ہوں گے ۔۔۔۔
اسی موضوع پر کسی زمانے میں ہم نے بھی آشنائے محبت کے نام سے ایک افسانے کی صورت خامہ فرسائی کی تھی ۔۔۔۔۔
محبت کی تعریف موجود ہےمحبت کی تعریف آج تک کوئی نہیں کر پایا ۔ نہ ہی کوئی۔بیان کر پائےگا
آپ کی قدر دانی پر بندہ آپ کا شکر گذار ہےبہت شکریہ جناب! آپ کی حوصلہ افزائی پر مشکور ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ آپ کی اس تحریر کو پڑھتی ہوں ۔۔ اور بتاتی ہوں ۔۔ ماشاءاللہ آپ کی ایک تحریر نے مجھے نئی تحریر لکھنے میں تحریک دی ہے سو اس کو پڑھنا تو بنتا ہے ۔
پیش کی جائے ۔محبت کی تعریف موجود ہے
محبت کی تعریف : دل کا کسی چیز کی طرف مائل ہونا۔ اور جب اس جذبے میں شدت پیدا ہوجائے تو اسے عشق کہتے ہیں۔پیش کی جائے ۔
اگر محبت کو عقل و شعور کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو اس کو کہا جاسکتا ہے کہ ادب پہلا قرینہ ہے۔کچھ غیر متفق ہوں
محبت تو بس ہو جاتی ہے،، ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں بھی، اتنا ہی کافی ہوتا ہے کسی کو پہچاننے کے لیے۔ لوگ تو شاید اتنی سی دیر میں یہ بھی پہچا ن لیتے ہیں کہ یہ تو وہی ہے جس کے ساتھ میں " یوم الست " میں تھا۔۔۔ اس کے لیے پسندیدگی کے مرحلے سے گزرنا ہر گز ضروری نہیں ہوتا۔
ادب درجہ نہیں ہے، اد ب محبت کا ایک لا ینفک جزو ہے۔
بقول اقبال: ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
جس طرح دیگر اجزا مثلاً ، وفا، خلوص اور بے غرضی کے بغیر محبت، محبت نہیں رہتی، اسی طرح ادب کے بغیر بھی محبت کا وجود باقی نہیں رہتا۔
میں نے یہاں تک دیکھا ہے کہ محب، محبوب کی طرف پیٹھ کر کے نہیں چلتے، تا کہ بے ادبی نہ ہو جائے۔ منہ پھاڑ کر محبوب کا نام نہیں لیتے کہ ایسے بے ادبی ہوتی ہے، بس اشارتاً کہتے ہیں کہ "وہ"،"جناب"، "اُن" وغیرہ۔۔ عمر، رُتبے وغیرہ میں کم بھی ہوں تو اپنے سے بڑا سمجھتے ہیں، آپ جی کہہ کر پکارتے ہیں، اور جب بھی یاد یا خیال آئے، واری واری جاتے ہیں۔ اور اپنے آپ سے بہتر سمجھتے ہیں محبوب کو۔اور پھر آگے چل کر اپنی ڈور محبوب کو پکڑا دیتے ہیں، کہ جہاں مرضی چاہے ہے چل۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے، جب کہتا ہے کہ " جو مزاجِ یار میں آئے"۔
میں جس کو محبت کہتی ہوں اس کو آپ عشق کہتے ہیں ۔۔۔ بس یہی فرق ہے۔۔ اور کچھ نہیںاور کہتے ہیں کہ محبت "ہو جاتی ہے"۔ بلا ارادہ و بلا نیت و بلامحنت۔۔۔ محنت تو بعد میں کرنی پڑتی ہے، جب کچھ معاملوں میں اختیار ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو روکنا پڑتا ہے۔
اور عشق
کہتے ہیں کہ عشق ہوتا نہیں، عشق عطا کیا جاتا ہے۔
قدر دان نے ''قدر دانی'' کرکے شکریہ ادا کیا۔۔مجھ پر واجب ''جوابَ شکریہ''آپ کی قدر دانی پر بندہ آپ کا شکر گذار ہے
ایسا پھڑکتا فقرہ تو صرف فاتح بھائی کے قلم سے ہی ادا ہو سکتا ہے۔ایڈے ڈھیر سارے فلسفے وہ بھی اکٹھے ایک ہی جگہ۔۔۔ سقراط، افلاطون اور ارسطو وغیرہ پہلے ہی پھڑک گئے ورنہ یہ دھاگا پڑھ کر پھڑک جاتے۔