شمشاد نے کہا:وہی تکرار لفظوں کی
وہی اندیشے فرقت کے
وہی انجان سی دستک
وہی گمنام سے کسک
وہی ہر بات پر رنجش
رہی ہر بات پر لڑنا
وہی لکھنا ہمارے نام کو بے نام موجوں پر
ہمارے سامنے کچے گھروندے توڑ کر ہنسنا
وہی بے معنی باتوں میں ہمارا ذکر لے آنا
ہمیں پردے سے چھپ کر دیکھنا اور مسکرا دینا
وہی مسکان دھیمی سی
وہی کچھ بولتی آنکھیں
وہی چپ چاپ سا لہجہ
وہی بے چین سی ہلچل
وہی سکھیوں سے کترانا
وہی سائے سے گھبرانا
وہی کچھ کہنے سے ڈرنا
وہی بے وجہ اٹھلانا
سب ہی اسرار کہتے ہیں
اُسے مجھ سے محبت ہے
اُسے مجھ سے محبت ہے
اکبر سجاد نے کہا:آپ کی طرف سے امجد اسلام امجد صاحب کی نظم کا نظرانہ خوب! صرف اتنا کہوں گا کہ
" محبت ایک لازوال حقیقت ہے، یہاں تک کہ بعض جنگیں بھی صرف اور صرف محبت سے جیتی جا سکتی ہیں۔"