جو سمجھو پیار محبت کا اتنا افسانہ ہوتا ہے
کچھ آنکھیں پاگل ہوتی ہیں کچھ دل دیوانہ ہوتا ہے
کیوں آنکھیں چوکھٹ پر رکھ کر تم دنیا بھول کے بیٹھے ہو
کب چھوڑ کے جانے والے کو پھر واپس آنا ہوتا ہے
جب پیار کسی سے کرتے ہو کیوں واعظ سے گھبراتے ہو
یہ بات ہی ایسی ہوتی ہے سب نے سمجھانا ہوتا ہے
یہ آنسو‘ شکوے‘ آہیں سب بے معنی سی زنجیریں ہیں
کب اِن کے باندھے رکتا ہے وہ جس کو جانا ہوتا ہے
میں تجھ کو کیسے بھولوں گا؟ تو مجھ کو کیسے بھولے گی؟
اک داغ سا باقی رہتا ہے جب زخم پرانا ہوتا ہے
کچھ لوگ تمہاری محفل میں چپ چاپ اکیلے بیٹھے ہیں
اُن کے چہرے پہ لکھا ہے جو پیار نبھانا ہوتا ہے
ہم اہلِ محبت کیا جانیں دنیا کی سیاست کو عاطف
کب ہاتھ ملانا ہوتا ہے کب ہاتھ چھڑانا ہوتا ہے
(عاطف سعید)