محبت کا ثمر ملتا نہیں ہے
یہ سکّہ اب کہیں چلتا نہیں ہے
ہمیں کیا جو سخن دُنیا میں گُونجا
جسے سُنتا تھا وہ سُنتا نہیں ہے
ہم اہلِ دل، سرِ بازار دُنیا
کھڑے ہیں، راستہ ملتا نہیں
سفر جاری اگر ہے رہنماؤ!
تو پھر کیوں فاصلہ گھٹتا نہیں ہے؟
تم اپنے باد باں کھولو نہ کھولو
سمندر تو کبھی رُکتا نہیں ہے!
ہَری رہتی ہے کشتِ دل ہمیشہ
کِسی رُت میں اِسے چِنتا نہیں ہے
سحرسے شام ہونے آگئی ہے
کوئی درد آشنا ملتا نہیں ہے
ہمارا دل ہے یوں قصرِ جہاں میں
وہ پتّھر، جو کہیں لگتا نہیں ہے
ہوائے شامِ غم بو جھل ہے اِتنی
چراغِ آرزو جلتا نہیں ہے
زمانہ آپ ہی بدلے تو بدلے
کِسی کا زور تو چلتا نہیں ہے
نہیں امجد کوئی قیمت وفا کی
یہ سودا اَب یہاں بِکتا نہیں ہے
امجد اسلام امجد