انٹرویو محترمہ سیما علی سے مصاحبہ

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
مجھ کسی استاد کے شعر یاد آگئے ہیں آپ احباب کی نذر اگر شاعر کا نام یاد ہوا تو بتائیے گا۔

قتل کر ڈالو ہمیں یا جرم الفت بخش دو
لو کھڑے ہیں ہاتھ باندھے ہم تمہارے سامنے

اور عراقی فارسی کا بکمال شعر لکھتا ہے کہ
نہ شود نصیب دشمن کہ شود ہلاک تیغت
سر دوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی
یعنی تیرے دوستوں کا سر حاضر ہے تیری تلوار کے لیے یہ شرف دشمنوں کے لیے نہیں ہے بلکہ دوستوں کہ لیے ہے۔
ہاں تو بیوی دوست ہی ہوتی ہے دشمن نہیں۔
کسی دن انھیں اس شعر کا مطلب سمجھا کر گنڈاسہ ان کے ہاتھ میں دیجئے گا۔ بچت ہو گئی تو حالت زار سے آگاہ کیجئے گا۔
اس لڑی میں ہمارا وقت ختم ہوا۔
ہم چلے۔
 

سیما علی

لائبریرین
صاحبہ آپ کے ہاں جو چیز مجھے نظر آئی ہے وہ ہے ایک عظیم ماں، ایک ایسی بیٹی جو ادب و اخلاق کا مجسمہ ہے اور ایک پرمودت اور صدق دل رہنما۔
سب سے پہلے تو معذرت چاہوں گا کہ اگر کوئی بات یا لفظ برا لگ جائے تو لاعلم و بے عقل سمجھ کر معاف کیجیے گا۔
سب سے پہلے وہ کتاب جس کاآپ نے ذکر کیا تھا آپ کی دوست کی کیا مجھے پڑھنے کے لیے مل سکتی ہے؟
اصل سوال یہ ہے کہ آپ کے نزدیک رشتہ یا تعلق خونی ہو ہا ازدواجی ہو یا پھرمعاشی و سماجی کی اہمیت کیا ہے اور اس کو قائم رکھنے کےلیے خواہ کیسے ہی حالات درپیش ہو انسان کے اندر کن صفات و خصائل کا ہونا ضروری ہے؟
میرے نزدیک عمر کوئی اہمیت نہیں رکھتی بلکہ بقول سعدی شیرازی ع۔
بزرگی بہ عقل است نہ بسال
ہاں تجربہ جس کا تعلق عمر کے ساتھ تو ہے لیکن حالات و واقعات زیادہ کارآمد ہیں۔ لہذا سوال یہ ہے کہ تجربہ اور عمر کے متعلق آپ کا نکتہ نظر کیا ہے؟
بہت شکریہ
سلامت رہیں۔
عظیم تو خیر کیا بس تما م عمر اسی کوشش میں بسر ہوئی کے اپنے سے منسلک رشتوں کو مطمین رکھیں باقی تو یہ وہی بتا سکتے ہیں کیونکہ یہ تو اہل معاملہ بتا سکتے ہیں۔۔کہ کس حد تک کامیاب ہوئے۔۔۔ابھی اپنے حالیہ بیٹے سے ملاقات کی روداد سناتے ہیں ...ایک دن ہم میکائیل کے ساتھ
لا ڈ کررہے تھے وہ کہہ رہے تھے ہم سبزی نہیں کھائیں گے تو ہم نے کہا پھر کیا بنائیں ۔۔۔تو فوراً رضابولے ۔۔
Nova was a terror Ammi when we were smal
اب میکائیل کو بھلا کہاں یقین آنا تھا کہ یہ نوا تو ہر دم اسکی ہر بات مانتی ہیں ۔۔۔۔بس ہمیں اب لگتا ہے ۔کہ ہم اپنے بچوں کے لئے سخت ماں تھے ۔۔کیونکہ ہیرا تراشنا سب سے مشکل کام ہے۔۔۔
ہمارے ابا جان کہا کرتے تھے ؀
سو سال گلے تو ایک لال پلے ۔ اس وقت تو یہ سمجھ نہیں آتا تھا لیکن جب ایک لال پالنا پڑا تو لگ پتہ گیا ۔۔۔۔ سب سے زیادہ انکی ایک بات کو گرہ میں باندھا کہ اپنے بچے ایسے پالو کہ وہ معاشرے کا ایک فعال شخص ہو ۔۔صرف تمھیں پیارے نہ ہوں بلکہ سب کے لئے بہتر ہوں ۔۔اسی کوشش میں تن من دھن سے لگے رہے۔۔۔۔
 
پہلے بھی دشمنوں کے آگے اس طرح کے اوٹ پٹانگ شعر پڑھ کر اپنی جان خطرہ میں ڈال چکے تھے اب پھر وہی شعر!!!
معذرت جناب اب عراقی کے پاس جانا پڑے گا پوچھنے کہ اس نے ایسا شعر کہا ہی کیوں کہ جو ہمارے لیے وبال جان ہے۔😉🙃
 

سیما علی

لائبریرین
اصل سوال یہ ہے کہ آپ کے نزدیک رشتہ یا تعلق خونی ہو ہا ازدواجی ہو یا پھرمعاشی و سماجی کی اہمیت کیا ہے اور اس کو قائم رکھنے کےلیے خواہ کیسے ہی حالات درپیش ہو انسان کے اندر کن صفات و خصائل کا ہونا ضروری ہے؟
ہمارے نزدیک رشتے خون کے ہوں ،ازدواجی ہوں،سماجی ہوں اور معاشرتی ہوں یا معاشی ہعں ان میں ہر رشتہ احساس کا ہے اگر احساس نکال دیں تو باقی کچھ نہیں بچتا ۔۔۔!
گزر جا منزل احساس کی حد سے بھی اے افقرؔ
کمال بے خودی ہے بے نیاز ہوش ہو جانا
ہمارے بچپن میں پہلے دور کے رشتوں میں ملاوٹ اور خودغرضی نہیں ہوتی تھی۔ لوگ اتنے خالص ہوتے تھے کہ ایک دوسرے کی خوشی غمی کو اپنی خوشی یا دکھ تکلیف سمجھتے تھے۔۔۔لیکن اب نیا دور ہے رشتے بھی ویسے نہیں رہے ۔۔ملاوٹ سے بھرے دور میں بھی اشرف المخلوقات ہے ۔۔۔وا حیرت ۔۔اگر انسان کے اندر احساس ہی مر جائے تو ان ٹوٹتے، بکھرتے رشتوں کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے۔۔۔انسان کبھی نہ کبھی نہ چاہتے ہوئے بھی غلطی کر جاتا ہے۔ اگر وہ کوئی غلطی نہ کرے تو یقیناً اس کا شمار بھی فرشتوں میں ہو لیکن ہم اس کی غلطی کو نظر انداز کرنے کی بجائے اس سے اکتانے لگتے ہیں اور اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ آہستہ آہستہ یہ رشتہ دیمک ذدہ چیزوں کی طرح ختم ہو جاتا ہے اور ایک دن ایسا ضرور آتا ہے کہ ہمیں اس رشتے کا پچھتاوا ضرور ہوتا ہے۔رشتے نبھانا جتنا ضروری ہے۔ وہاں ان میں کہیں زیادہ توازن برقرار رکھنا ضروری ہے۔ رشتوں سے منہ موڑنا ناصرف اپنے ساتھ زیادتی ہے بلکہ دوسروں کے ساتھ بھی زیادتی سے کم نہیں ہے ۔۔۔|رشتے ایک دوسرے کی بات برداشت کرنے میں ہی قائم رہتے ہیں۔ خونی رشتوں میں کوئی رشتہ کسی دوسرے کی جگہ نہیں لے سکتا ۔۔رشتے ضرورت کے نہیں توجہ کے محتاج ہوتے ہیں ۔۔۔البتہ بعض اوقات آپ اپنی سر دھڑ کی بازی لگا کر بھی اپنے ازداجی رشتے نہیں بچا پاتے ۔۔۔۔
حضرت امام زین العابدین ؑ نے فرماتے ہیں:
” تم پر عورت کا یہ حق ہے کہ اُس کے ساتھ مہربانی سے پیش آؤ کیونکہ وہ تمھاری دست نگر ہے، اُس کے کھانے پینے کا، کپڑے کا انتظام کرو اور اُس کی نادانیوں کو معاف کردو۔
لیکن اگر کوئی آپ کے کھانے پینے اور کپڑے کا انتظام تو درکنار ۔۔آپکی مد د اور اور ہاتھ بٹانے کو بھی نادانی جانے تو بند ی کدھر جائے ۔۔۔۔
کہتے ہیں کہ شادی کے بعد عورت کا چہرہ اور جسمانی حالت بتاتی ہے کہ اُس کے شوہر نے اُسے کس حال میں رکھا ہوا ہے۔
ڈاکٹر علی شریعتی کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔
ﻋﻮﺭﺕ ﺍگر ﭘﺭﻧﺪﮮ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ میں ﺧﻠﻖ ہوتی ﺗﻮ ﺿﺮﻭﺭ ”ﻣﻮﺭ“ ہوتی۔ ﺍگر چوپائے ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ میں ﺧﻠﻖ ﮐﯽ ﺟﺎتی ﺗﻮ ﺿﺮﻭﺭ ”ہرﻥ“ ہوتی۔ ﺍگر ﮐﯿﮍﮮ مکوﮌﮮ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ میں ﺧﻠﻖ ﮐﯽ ﺟﺎتی ﺗﻮ ﺿﺮﻭﺭ ”تتلی“ ہوتی۔ لیکن ﻭﮦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺧﻠﻖ ہوئی ﺗﺎﮐﮧ ﻣﺎﮞ، بہن ﺍﻭﺭ ﻋﺸﻖ(بیوی) بنے۔۔۔
ﻋﻮﺭﺕ ﺍتنی بڑی ﮨﮯ۔ ﺍﺷﺮﻑ ﺍﻟﻤﺨﻠﻮﻗﺎﺕ ﺧﺪﺍ میں سے ﮨﮯ۔۔۔۔ ﺍِﺱ ﺣﺪ تک ﻧﺎﺯﮎ ﻣﺰﺍﺝ ﮐﮧ ﺍﮎ پھوﻝ ﺍُسے ﺭﺍضی ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺵ ﮐﺭ ﺩیتا ﮨﮯ۔۔ ﺍﻭﺭ ﺍِﮎ ﻟﻔﻆ ﺍُسے ﻣﺎﺭ ﺩیتا ﮨﮯ۔!
ﺗﻮ ﺑﺲ ﺍﮮ ﻣﺮﺩﻭﮞ خیاﻝ ﺭکھو ﻋﻮﺭﺕ تمھاﺭﮮ ﺩﻝ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺑﻨﺎئی گئی ﮨﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﺗﻢ ﺍپنے ﺩﻝ میں ﺍُس کو جگہ ﺩﻭ۔
ﺗﻌﺠﺐ ﺁﻭﺭ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺍپنے بچپن ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﺮکت ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﮭﻮلتی ﮨﮯ۔ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﻮﺍنی ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮہر کا ﺍیماﻥ کاﻣﻞ کرتی ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﻣﺎﮞ بنتی ﮨﮯ ﺗﻮ ﺟﻨﺖ ﺍﺱ کے ﻗﺪﻣﻮﮞ تلے ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔
بس اس خیال کئ ض
ضرورت ہے ۔۔۔۔پر ہمارے یہاں معاملہ برعکس ہے ۔۔۔
 
ہر رشتہ احساس کا ہے

رشتے نبھانا جتنا ضروری ہے۔ وہاں ان میں کہیں زیادہ توازن برقرار رکھنا ضروری ہے
بہت اعلی
میں سمجھتا ہوں کہ اگر عصر حاضر میں ہم ان دو جملوں کو سمجھ کر اپنا لیں تو ہم کبھی بھی اپنوں سے دور ہو کر اپنی دنیا و آخرت خراب نہ کریں۔
 
Top