اصل سوال یہ ہے کہ آپ کے نزدیک رشتہ یا تعلق خونی ہو ہا ازدواجی ہو یا پھرمعاشی و سماجی کی اہمیت کیا ہے اور اس کو قائم رکھنے کےلیے خواہ کیسے ہی حالات درپیش ہو انسان کے اندر کن صفات و خصائل کا ہونا ضروری ہے؟
ہمارے نزدیک رشتے خون کے ہوں ،ازدواجی ہوں،سماجی ہوں اور معاشرتی ہوں یا معاشی ہعں ان میں ہر رشتہ احساس کا ہے اگر احساس نکال دیں تو باقی کچھ نہیں بچتا ۔۔۔!
گزر جا منزل احساس کی حد سے بھی اے افقرؔ
کمال بے خودی ہے بے نیاز ہوش ہو جانا
ہمارے بچپن میں پہلے دور کے رشتوں میں ملاوٹ اور خودغرضی نہیں ہوتی تھی۔ لوگ اتنے خالص ہوتے تھے کہ ایک دوسرے کی خوشی غمی کو اپنی خوشی یا دکھ تکلیف سمجھتے تھے۔۔۔لیکن اب نیا دور ہے رشتے بھی ویسے نہیں رہے ۔۔ملاوٹ سے بھرے دور میں بھی اشرف المخلوقات ہے ۔۔۔وا حیرت ۔۔اگر انسان کے اندر احساس ہی مر جائے تو ان ٹوٹتے، بکھرتے رشتوں کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے۔۔۔انسان کبھی نہ کبھی نہ چاہتے ہوئے بھی غلطی کر جاتا ہے۔ اگر وہ کوئی غلطی نہ کرے تو یقیناً اس کا شمار بھی فرشتوں میں ہو لیکن ہم اس کی غلطی کو نظر انداز کرنے کی بجائے اس سے اکتانے لگتے ہیں اور اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ آہستہ آہستہ یہ رشتہ دیمک ذدہ چیزوں کی طرح ختم ہو جاتا ہے اور ایک دن ایسا ضرور آتا ہے کہ ہمیں اس رشتے کا پچھتاوا ضرور ہوتا ہے۔رشتے نبھانا جتنا ضروری ہے۔ وہاں ان میں کہیں زیادہ توازن برقرار رکھنا ضروری ہے۔ رشتوں سے منہ موڑنا ناصرف اپنے ساتھ زیادتی ہے بلکہ دوسروں کے ساتھ بھی زیادتی سے کم نہیں ہے ۔۔۔|رشتے ایک دوسرے کی بات برداشت کرنے میں ہی قائم رہتے ہیں۔ خونی رشتوں میں کوئی رشتہ کسی دوسرے کی جگہ نہیں لے سکتا ۔۔رشتے ضرورت کے نہیں توجہ کے محتاج ہوتے ہیں ۔۔۔البتہ بعض اوقات آپ اپنی سر دھڑ کی بازی لگا کر بھی اپنے ازداجی رشتے نہیں بچا پاتے ۔۔۔۔
حضرت امام زین العابدین ؑ نے فرماتے ہیں:
” تم پر عورت کا یہ حق ہے کہ اُس کے ساتھ مہربانی سے پیش آؤ کیونکہ وہ تمھاری دست نگر ہے، اُس کے کھانے پینے کا، کپڑے کا انتظام کرو اور اُس کی نادانیوں کو معاف کردو۔
لیکن اگر کوئی آپ کے کھانے پینے اور کپڑے کا انتظام تو درکنار ۔۔آپکی مد د اور اور ہاتھ بٹانے کو بھی نادانی جانے تو بند ی کدھر جائے ۔۔۔۔
کہتے ہیں کہ شادی کے بعد عورت کا چہرہ اور جسمانی حالت بتاتی ہے کہ اُس کے شوہر نے اُسے کس حال میں رکھا ہوا ہے۔
ڈاکٹر علی شریعتی کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔
ﻋﻮﺭﺕ ﺍگر ﭘﺭﻧﺪﮮ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ میں ﺧﻠﻖ ہوتی ﺗﻮ ﺿﺮﻭﺭ ”ﻣﻮﺭ“ ہوتی۔ ﺍگر چوپائے ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ میں ﺧﻠﻖ ﮐﯽ ﺟﺎتی ﺗﻮ ﺿﺮﻭﺭ ”ہرﻥ“ ہوتی۔ ﺍگر ﮐﯿﮍﮮ مکوﮌﮮ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ میں ﺧﻠﻖ ﮐﯽ ﺟﺎتی ﺗﻮ ﺿﺮﻭﺭ ”تتلی“ ہوتی۔ لیکن ﻭﮦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺧﻠﻖ ہوئی ﺗﺎﮐﮧ ﻣﺎﮞ، بہن ﺍﻭﺭ ﻋﺸﻖ(بیوی) بنے۔۔۔
ﻋﻮﺭﺕ ﺍتنی بڑی ﮨﮯ۔ ﺍﺷﺮﻑ ﺍﻟﻤﺨﻠﻮﻗﺎﺕ ﺧﺪﺍ میں سے ﮨﮯ۔۔۔۔ ﺍِﺱ ﺣﺪ تک ﻧﺎﺯﮎ ﻣﺰﺍﺝ ﮐﮧ ﺍﮎ پھوﻝ ﺍُسے ﺭﺍضی ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺵ ﮐﺭ ﺩیتا ﮨﮯ۔۔ ﺍﻭﺭ ﺍِﮎ ﻟﻔﻆ ﺍُسے ﻣﺎﺭ ﺩیتا ﮨﮯ۔!
ﺗﻮ ﺑﺲ ﺍﮮ ﻣﺮﺩﻭﮞ خیاﻝ ﺭکھو ﻋﻮﺭﺕ تمھاﺭﮮ ﺩﻝ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺑﻨﺎئی گئی ﮨﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﺗﻢ ﺍپنے ﺩﻝ میں ﺍُس کو جگہ ﺩﻭ۔
ﺗﻌﺠﺐ ﺁﻭﺭ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺍپنے بچپن ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﺮکت ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﮭﻮلتی ﮨﮯ۔ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﻮﺍنی ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮہر کا ﺍیماﻥ کاﻣﻞ کرتی ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﻣﺎﮞ بنتی ﮨﮯ ﺗﻮ ﺟﻨﺖ ﺍﺱ کے ﻗﺪﻣﻮﮞ تلے ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔
بس اس خیال کئ ض
ضرورت ہے ۔۔۔۔پر ہمارے یہاں معاملہ برعکس ہے ۔۔۔