فرحت کیانی
لائبریرین
جب پڑھنے یا سیکھنے کا مطلب اپنے لیے درست راہ کا چناو ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس چیز پر بالکل توجہ نہیں دی جاتی۔ کوئی بھی انسان ہر چیز میں بہترین یا کم ترین نہیں ہوتا۔ ہماری صلاحیتیں ہر میدان میں مختلف ہوتی ہیں۔ میں ایک چیز میں بہت اچھی لیکن دوسری میں بالکل صفر بھی ہو سکتی ہوں۔ اب کرنا یہ ہے کہ اس صلاحیت کو پرکھا جائے اور مجھے درست راہ دکھائی جائے۔ جو مثال آپ نے دی وہ multiple intelligence تھیوری کی بہترین مثال ہے۔ آپ یا آپ کے دوست بنجر زمین نہیں تھے بلکہ ان کا رجحان عام بچوں سے مختلف تھا۔ بنیادی تعلیم کا مقصد اسی رحجان کو دیکھنا ہوتا ہے لیکن بد قسمتی سے ہم بطور والدین یا اساتذہ اس بات سے بے خبر ہی رہتے ہیں۔ سو لائق و نا لائق کا لیبل لگ جاتا ہے۔بنجر زمین صرف ایک تشبیہ کیلئے استعمال کیا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ کم قابلیت والے طالب علموں پر محنت ہی نہ کی جائے۔ بقول ہادیہ وہ استاد کی توجہ کے زیادہ محتاج ہوتے ہیں ۔ (حقدار ہیں یا نہیں یہ میں نہیں کہہ سکتا ،پھر بحث طول پکڑے گی ) اور ان کو توجہ ملنی بھی چاہیئے ۔ بلکہ اکثر اساتذہ ان کو زیادہ توجہ دیتے بھی ہیں ۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ کچھ ایسے بچے ہوتے ہیں جن پر استاد کتنی بھی محنت کرے کوئی بات ان کے بھیجے میں گھستی نہیں ہے۔ میں کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو میرے ساتھ ہی سکول گئے لیکن بالآخر انکو پڑھائی ترک کرنی پڑی۔ اور کچھ ان میں سے ایسے ہیں جنہوں نے دوسرے کام اختیار کئے اور ان میں کامیاب بھی رہے۔
میں آپ کو اپنے ایک کزن اور بچپن کے ایک دوست کی مثال دیتا ہوں. دونوں مجھ سے 3 سال پہلے سکول میں داخل ہوئے۔ آٹھویں جماعت میں ہم اکٹھے ہوگئے۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ ہر استاد ان پر کتنی محنت کرتا تھا۔ لیکن نتیجہ صفر۔ میرا کزن ہمیشہ ایک سکریو ڈرائیور جیب میں لیکر مدرسہ آتا جاتا تھا جسے وہ دوسروں کے ساتھ لڑائی میں استعمال کرتا تھا۔ جسے میں نے دوست کہا ہے وہ اپنی کھیتی کی سبزی بلکہ دوسروں کی کھیتیوں کی سبزی بھی چراکر بیچنے لے جاتا تھا۔
مختصر یہ کہ دونوں کو نہ پڑھائی سے دلچسپی تھی اور نہ تعلیم حاصل کرنے کی قابلیت۔ مجبوراً اساتذہ کو ان کے گھر جاکر ان کے والدین کو صورت حال سے آگاہ کرنا پڑا۔ اسطرح ان کی پڑھائی چھوٹ گئی ۔
لیکن سکریوڈرائیور والا میرا کزن آج ایک کامیاب الیکٹریشن کم پلمبر ہے اور اس کے کئی شاگرد ہیں۔ میرا چور دوست کامیاب بزنس مین ہے۔ دونوں مزے کی زندگی گزار رہے ہیں۔
ہاں، میں یہ مانتا ہوں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے شائد ایسے طریقے بھی ایجاد یا دریافت ہوئے ہوں کہ کند ذہن آدمی کو بھی چلاک اور قابل بنایا جاسکے۔ کیونکہ آج کے زمانے میں بہت کچھ ممکن ہے جو 20 یا 25 سال پہلے ناممکن ہوا کرتا تھا۔
استاد کا بالکل یہی کام ہے کہ وہ عمومی پڑھائی میں کم کاکردگی دکھانے والے بچوں پر زیادہ توجہ دے، وجہ تلاش کرے اور پھر اس کی درست رہنمائی کے لیے درست قدم اٹھائے۔ پڑھائی برائے اچھا گریڈ اور پڑھائی برائے اچھی نوکری (ڈاکٹر و انجینئر) کی دوڑ نے ہمیں پڑھنے لکھنے کے اصل مقصد سے ہٹا دیا ہے۔