نایاب
لائبریرین
آخر ایسا کیوں ۔۔۔؟انسان اپنی فطرت کے خلاف زیادہ دیر تک چل نہیں پاتا
فطرت روح کا حصہ ہے یا جسم کا ؟ اور یہ کیسے جسم و جاں پر اپنا قبضہ جما اپنی مرضی پر چلنے کے لیئے نہ صرف مجبور کرتی ہے بلکہ کامیاب رہتی ہے ۔
بہت دعائیں
آخر ایسا کیوں ۔۔۔؟انسان اپنی فطرت کے خلاف زیادہ دیر تک چل نہیں پاتا
فطرت کوئی مادی چیز نہیں ہے اس لیے شاید روح کا حصہ ہی ہوتی ہو۔ شاید اس کا تعین کسی نہ کسی طور کاتب تقدیر نے کر رکھا ہو کہانی میں انسان کے کردار کے حساب سے۔ کیونکہ ہر طرح کا کردار ضروری ہے! تاہم انسان کے ہاتھ میں بھی کافی حد تک بہت کچھ بدلنے کو دیا گیا مگر جہاں اللہ چاہے!آخر ایسا کیوں ۔۔۔؟
فطرت روح کا حصہ ہے یا جسم کا ؟ اور یہ کیسے جسم و جاں پر اپنا قبضہ جما اپنی مرضی پر چلنے کے لیئے نہ صرف مجبور کرتی ہے بلکہ کامیاب رہتی ہے ۔
بہت دعائیں
کیا یہ ممکن ہے کہ آپ وقت نکال کرکچھ ایسے اقتباس بطور دلیل دے سکیں ۔ ؟ جن سے ان کے بیانئے میں عمل کی اہمیت ثابت ہو سکے ؟ہر لحاظ سے عمل بڑھانے کی اور عمل کی اہمیت سمجھانے کی کوشش کی ہے
فوری طور پر تو ایسا نہیں کر پاؤں گی کیونکہ نہ میرے پاس ان کی کتب ہیں اور نہ ہی یونیکوڈ میں انٹرنیٹ پر کہیں نظر آئی ہیں۔ پھر جتنا عرصہ ہو چکا ہے مجھے یہ بھی یاد نہ ہوگا کہ پوری کتاب میں کون کون سے اقتباسات کہاں کہاں ایسے تھے۔ اپنے حافظے کا ذکر بھی میں اوپر کر چکی ہوں کہ بس یہ ذہن میں رہتا ہے کہ 'کہنا کیا چاہتے ہو' اور بس باقی سب مبہم ۔ تاہم اگر کبھی میری نظر سے دوبارہ گزرے یا ایسی کوئی بھی صورت رہی تو یہ ادھار رہا چاہے جب بھی پورا ہو۔کیا یہ ممکن ہے کہ آپ وقت نکال کرکچھ ایسے اقتباس بطور دلیل دے سکیں ۔ ؟ جن سے ان کے بیانئے میں عمل کی اہمیت ثابت ہو سکے ؟
بہت دعائیں
پرائمری یا اس کے فورا بعد والی عمر میں بچے سے معاشی کام لینے کو بہت سے معاشروں میں ظلم ہی سمجھا جائے گا۔ ہاں اگر یہ ایک اضافی سرگرمی ہو جس کا بنیادی مقصد بچوں کو عملی زندگی کے لیے تیار کرنا ہے تو کہیں بھی اس کی مخالفت نہیں کی جاتی کہ عملی کام میں حصہ لینا سیکھنے کے عمل کو زیادہ بہتر بناتا ہے۔ضروری تو میٹرک اور اس سے اوپر والی کلاسز کے طلبا کے لیے قرار دوں گی تاہم پرائمری ایجوکیشن حاصل کر کے اس کے بعد بچے کو کوئی ہنر سکھانا یا اگر اس کے پاس کوئی ٹیلنٹ ہو تو اس کے حساب سے اسے کوئی معاشی کام لینا میرے نزدیک مستحسن ہے. تاہم ہمارے معاشرے کے لوگ اسے ظلم یا معاشرے کی روایات کے خلاف قرار دیں گے. بہر حال میں بہت سٹرانگلی ایگری کرتی ہوں اپنی اس تجویز سے اور بہت مشاہدے و تجربے کے بعد.
یہ اچھی بات نہیں میں ذاتی تجربے کی بات کر رہی ہوں ۔اپنے حافظے کا ذکر بھی میں اوپر کر چکی ہوں کہ بس یہ ذہن میں رہتا ہے کہ 'کہنا کیا چاہتے ہو' اور بس باقی سب مبہم ۔
میں کوشش کروں گی بلکہ کرتی تو ہوں لیکن قابو نہیں پا سکی. ایسے لگتا ہے جیسے میں یہی ہوں اور یہ فطرت وغیرہ ہے!یہ اچھی بات نہیں میں ذاتی تجربے کی بات کر رہی ہوں ۔
اپنی اس خامی ، کمزوری یا جو بھی کچھ سمجھیں پر ابھی سے قابو پالیں ابھی طویل زندگی اور کامیابیاں سامنے ہیں (ان شاء الله )
اگر آپ کا تعلق شعبہ تعلیم سے ہے تو میرا،مشورہ ہو گا کہ آپ سرکاری ٹیکسٹ بک بورڈز اور پرائیویٹ پبلشرز کی کتابوں کا موازنہ کریں۔ یہ ایک دلچسپ ایکٹیویٹی ہو گی اور آپ کے بہت سے شکوک بھی دور ہو جائیں گے۔ لیکن اس کے لیے سب سے پہلے نیشنل کریکلم کے سٹینڈرڈز دیکھیں اور پھر موازنہ کریں۔اوکسفورڈ کا کورس اوور آل ہماری پی ٹی بی کی کتب سے بہتر ہے خصوصی طور پر سائنس. میں نے پی ٹی بی کا کورس پڑھا تھا لیکن میں اوکسفورڈ کا کورس پڑھا رہی ہوں بچوں کو. تاہم مجھے اسلامیات، اردو اور معاشرتی علوم کے ان کے کورس سے کوفت ہوتی ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ میں یہ چاہتی ہوں کہ یہ کتب ہم اپنے بچوں کو سکھائیں. میں صاف گوئی سے کہنا چاہوں گی کہ ابھی تک میرا خیال ہے کوئی کونٹروورشل بات اس ضمن میں نظر سے نہیں گزری مگر اس کے باوجود بہت زیادہ احساس ہوتا ہے کہ اپنے خصوصی ورثے، زبان، مذہب (اسلامیات کی بک میں دوبارہ دیکھوں گی کہ واقعی اوکسفورڈ کی ہے؟) کے متعلق بھی ہم اپنے بچوں کو خود بتانے اور کیا کیا بتانا ہے کس طرح کہ ان میں واقعی محبت پیدا ہو کے قابل نہیں ہوئے. سائنس میں وہ سپیشلائزڈ ہیں اس لیے ان کا کورس پڑھنا بہتر ہے پر اردو میں یا خود ہماری ہسٹری میں تو ہم زیادہ سپیشلائزڈ ہیں یا اگر نہیں ہیں تو کیوں نہیں ہیں؟ یہی تو وہ چیزیں ہیں جو ہماری ہیں. ان فیلڈز کے ہمارے بہترین لوگوں سے ایک کومپریہنسو کورس مرتب کروانا چاہوں گی اور محض کومپریہنسوو ہی نہیں بلکہ اس کی خوبی اور نیت بچوں میں بہت زیادہ تحریک پیدا کرنے کی ہو اپنے اسلاف اور اپنی اقدار کے متعلق. اکسفورڈ والے اچھا کاروبار چلا سکتے ہیں مگر ان کی نیت وہ نہیں ہوگی اور میرے نزدیک نیت کی بہت اہمیت ہے، یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ ایک بار میں نے یہاں سے ڈیپارٹمنٹ جانے کا سوچ لیا اور چلنا شروع کر دیا تو میں ہر قدم پر نہیں سوچوں گی کہ مجھے ڈیپارٹمنٹ جانا ہے، مجھے ڈیپارٹمنٹ جانا ہے، مجھے ڈیپارٹمنٹ جانا ہے بلکہ ایک بار چلنا شروع کر دیا تو جو بھی سوچتی رہوں آخر میں وہاں ہوؤں گی. میرے نَزدیک نیت کی حیثیت قبلے کی ہے.
اچھی بات ہے۔جس لیول کی سزا میں نے اس سوال کے جواب میں کہی تھی اس لیول کی کوئی سزا تو میرے ذہن میں ابھی نہیں ہے تاہم میں جسمانی تشدد کے سخت خلاف ہوں. میں بچوں کو سزا دیتی ہوں کہ آج کام نہیں کیا تو کل سو بار لکھ کر لانا، آئندہ وہ سوچتے ہیں کہ کام کر ہی لینا چاہئیے.
اس کے علاوہ اگر میرے کسی سوال کا انہوں نے ٹھیک جواب نہ دیا ہو تو ان کا کان ہاتھ سے پکڑتی ہوں اور پکڑے رکھتی ہوں جب تک ان کی یادداشت واپس نہ آ جائے.
ویسے میرے ہاں تو سزا کی بجائے جزا کا کانسیپٹ زیادہ ہے. بچوں کو بات بات پر انعام دیتی ہوئی اکثر پائی جاتی ہوں اور وہ انعام کی خاطر خود ہی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے پائے جاتے ہیں اور ایک دم کونشئیس ہو کر بیٹھتے ہیں.
زبردستامید ہے آپ کان بہت زور سے نہیں پکڑتی ہوں گی۔ میرا کان تو بہت حساس ہے۔ ذرا سا کھچے گا تو اندرونی کان تک درد ہو گا جو کئی دن نہیں جاتا اور کسی مستقل مسئلے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ بچوں کے کام نہ کرنے یا بدتمیزی کے لیے اگر جسمانی سزا کی بجائے ان سے ایک رویے کے logical consequences پر بات کی جائے تو دیرپا اثرات سامنے آتے ہیں۔
کس کی؟رسید حاضر ہے۔
مجھے حفیظ تائبؒ یاد آ رہے ہیںسبھی ممالک دیکھنے کی خواہش رکھتی ہوں اور جب بھی موقع ملے یا خود مالی طور پر مستحکم ہو جاؤں تو ان شاء اللہ میکسمم ممالک دیکھوں گی تاہم پسندیدہ ملک سعودی عرب ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شدت سے جی چاہتا ہے کعبہ جایا جائے اور پھر وہیں کے ہو کر رہ جایا جائے! (میں تصور میں محسوس کرتی ہوں کہ وہاں سکون کی انتہا ہے اور میں سکون کی متلاشی)
طلبہ کی assessment اصل میں استاد کی evaluation ہے۔ کسی بھی درجے پر اگر طلبہ میں کمی رہ جاتی ہے تو اس کا مطلب استاد کے سکھانے میں کمی رہ گئی ہے اب چاہے وہ اول جماعت کا بچہ ہے یا ماسٹرز کا۔ جس دن اساتذہ کو یہ بات سمجھ آ گئی کہ امتحان کا نتیجہ بچوں کی کارکردگی یا قابلیت کو ظاہر نہیں کرتا، بلکہ استاد کی اہلیت اور کارکردگی کا آئینہ دار ہے، assessment کا مقصد حاصل ہو جائے گا۔میں طلبا کی اویلوئیشن کے متعلق بالکل بھی مطمئن نہیں ہوں. اداروں اور اساتذہ میں بھی کمیاں ہوتی ہیں بلکہ موجود ہیں مگر طلبا میں سب سے زیادہ کمیاں میرے نزدیک اویلوئیشن سسٹم کی وجہ سے ہیں. میں اکثر کہتی ہوتی ہوں کہ امتحانات دیتے دیتے ہی بڑے ہوئے ہیں ہم اور گزشتہ برس تو پارٹ ٹائم جاب کے طور پر میں نے نویں دسویں کے بورڈ کے پیپرز چیک بھی کیے تھے شاید دو تین ماہ. پہلے بھی ایویلوئیشن سسٹم کے ناقص ہونے کا احساس تھا لیکن سسٹم میں رہ کر بہت ہی زیادہ ہوا (میں اس کا ذکر نہیں کرنا چاہوں گی کیونکہ ایک ادارے کو چھوڑ کر اس کے بارے میں کوئی بری بات کرنا نہیں چاہتی) میرے خیال میں اس طرح سے امتحانات ہونے ہی نہیں چاہئیں اور نمبروں اور رٹے کی بجائے کچھ اور چیزوں کو زیادہ پروموٹ کیا جانا چاہئیے. ہمارے ملک میں آج ہر کوئی ماسٹرز ہے، ماسٹرز ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ بندہ اس سبجیکٹ کا ماسٹر ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود ہم اپنے رویوں میں بھی اور اپنی پروڈکٹوٹی میں بھی اس قدر پیچھے کیوں ہیں اگر یہ امتحانی سسٹم ایک بندے کی ٹھیک قابلیت بتاتا ہے تو.
مطلب کہ میں یہ دھاگہ دیکھ چکا ہوں، بس ذرا فراغت ملتے ہی پڑھنا ہے۔ یہ بھی محفل کا ایک "ٹرینڈ" رہا ہے۔
متفق۔طلبہ کی assessment اصل میں استاد کی evaluation ہے۔ کسی بھی درجے پر اگر طلبہ میں کمی رہ جاتی ہے تو اس کا مطلب استاد کے سکھانے میں کمی رہ گئی ہے اب چاہے وہ اول جماعت کا بچہ ہے یا ماسٹرز کا۔ جس دن اساتذہ کو یہ بات سمجھ آ گئی کہ امتحان کا نتیجہ بچوں کی کارکردگی یا قابلیت کو ظاہر نہیں کرتا، بلکہ استاد کی اہلیت اور کارکردگی کا آئینہ دار ہے، assessment کا مقصد حاصل ہو جائے گا۔
باقی رہی اداروں کی بات تو پڑھی لکھی حکومت آ گئی ہے۔ امید ہے وہ لوکل بورڈز کو بھی مزید بہتری کی طرف لے کر جائیں گے۔
یس سر؟
مریم! آپ، فضیلہ اور اسریٰ کے متعلق ان چیزوں کی گواہی تو میں بھی دے سکتا ہوں. بارہا یہ ذکر ہوا ہے.جی میں بھی ڈاکٹر افتخار شفیع صاحب کو جانتی ہوں اور شاید ان کو میں یاد ہوؤں (شاید نہ ہوؤں). مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک دفعہ کالج کی ایک ادبی نشست میں افسانہ پڑھا اور ایک دفعہ کالج کے لیے ڈویژن لیول کے مشاعرے (کمپیٹیشن) میں اول انعام لائی. اردو ڈیپارٹمنٹ کی ایک دوست نے آ کر بتایا کہ ان کے استاد نے کچھ کہا جس کا مفہوم یہ تھا کہ آپ کو ہم یہ سب پڑھاتے ہیں مگر آپ لوگ اس میدان میں کچھ کرتے نہیں ہو جبکہ وہ باٹنی ڈیپارٹمنٹ میں رہتے ہوئے ہمارا سر فخر سے بلند. کرتی ہے.
ارے بہنا زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں بس مذاق کررہا ہوں۔میں اس موضوع پہ اس لیے بات نہیں کروں گی ۔ کیونکہ جمعہ جمعہ آٹھ دن میں انسان نا تو پرفیکٹ ٹیچر بن سکتا نا ہی ایسے موضوعات پہ کوئی بحث و مباحثہ کر سکتا۔۔ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ٹریننگز کے ذریعے اس کمی بیشی کو پورا کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔۔ میں نے ٹریننگ کے دوران بہت بہت کچھ سیکھا ہے ۔۔ اور جس گاؤں پڑھانے جاتی ہوں وہاں کچھ حد تک اس کو امپلیمنٹ کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔۔ جیسے رٹا سسٹم کو ختم کرنے کے لیے مختلف ایکٹیویٹیز کے ذریعے سیکھانا، گیمز، مختلف ٹاپکس پہ برین سٹارمنگ وغیرہ۔ سٹوڈنٹس کے ساتھ ساتھ ٹیچرز کی evaluation ہونا زیادہ ضروری ہے۔۔ کیونکہ بچہ اسی طریقے سے سیکھے گا جیسا اسے سیکھایا جائے گا ۔۔ اگر ٹیچرز سٹوڈنٹس کی assessment بہتر طریقے سے کریں گے تو یقینا وہ ٹیچرز کی evaluation کی جانب ایک اچھا قدم ہوگا۔ ابھی آغاز ہے ۔سالوں سے جو نظام چلا آرہا ۔۔ اس کو بدلنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔۔ اس لیے مجھے تو فی الحال سیکھنا ہے۔ فرحت آپی یقینا تجربہ کار ہیں ۔ کمی تو یقینا ہے اساتذہ کے وے آف ٹیچنگ میں۔۔ اسی لیے میں یہی کہتی ہوں میں استاد نہیں ہوں بلکہ ابھی بھی سٹوڈنٹ ہوں۔۔ اور مجھے ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔۔