ہادیہ
محفلین
سچی۔۔۔ارے بہنا زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں بس مذاق کررہا ہوں۔
میں ایویں اننی لمبی تقریر کر لی۔۔
سچی۔۔۔ارے بہنا زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں بس مذاق کررہا ہوں۔
یہ ایک الگ ٹاپک ہے بھائی صاحب اس پر بات پھر کبھی سہی۔۔ان شاء اللہ۔۔ویسے اگر طالب علم میں قابلیت اور علم حاصل کرنے کے تئیں لگن ہے تب ہی وہ اساتذہ سے استفادہ کرسکتا ہے۔
کچھ میرے جیسے بھی ہوسکتے ہیں جنہیں سمجھانا یا پڑھانا بالکل بےکار ہوتا ہے۔ کسی کے ماتھے پہ ہی اگر لکھا ہوگا "الارض" تو وہ زمین ہی جوت سکتا ہے۔ اساتذہ کی محنت تب رنگ لاتی ہے جب طالب علم بھی خوب محنت کرے۔ زرخیز زمین ہی فصل دیتی ہے ۔ بنجر پہ محنت کرنا بےکار ہوتا ہے۔
بھیا تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ سب اسٹوڈنٹس جو شاید دوسروں کی نسبت کم قابلیت کے مالک ہیں، ان پر محنت نہیں کرنی چاہیے۔۔۔ (جسٹ اے کوئسچن فور مائی انفو)ارے بہنا زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں بس مذاق کررہا ہوں۔
ویسے اگر طالب علم میں قابلیت اور علم حاصل کرنے کے تئیں لگن ہے تب ہی وہ اساتذہ سے استفادہ کرسکتا ہے۔
کچھ میرے جیسے بھی ہوسکتے ہیں جنہیں سمجھانا یا پڑھانا بالکل بےکار ہوتا ہے۔ کسی کے ماتھے پہ ہی اگر لکھا ہوگا "الارض" تو وہ زمین ہی جوت سکتا ہے۔ اساتذہ کی محنت تب رنگ لاتی ہے جب طالب علم بھی خوب محنت کرے۔ زرخیز زمین ہی فصل دیتی ہے ۔ بنجر پہ محنت کرنا بےکار ہوتا ہے۔
دو سالہ بیچلرز (بی ایس سی/بی اے) کے بعد دو سال کا ماسٹرز یعنی ایم ایس سی اور ایم اے ہوتا ہے. یہاں سولہ سالہ تعلیم کا اختتام ہو جاتا ہے. اور پھر اٹھارہ سالہ تعلیم کے لیے دو سال کا ایم فل.پھر دو سال کا کیا ہوتا ہے؟
بنجر زمین صرف ایک تشبیہ کیلئے استعمال کیا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ کم قابلیت والے طالب علموں پر محنت ہی نہ کی جائے۔ بقول ہادیہ وہ استاد کی توجہ کے زیادہ محتاج ہوتے ہیں ۔ (حقدار ہیں یا نہیں یہ میں نہیں کہہ سکتا ،پھر بحث طول پکڑے گی ) اور ان کو توجہ ملنی بھی چاہیئے ۔ بلکہ اکثر اساتذہ ان کو زیادہ توجہ دیتے بھی ہیں ۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ کچھ ایسے بچے ہوتے ہیں جن پر استاد کتنی بھی محنت کرے کوئی بات ان کے بھیجے میں گھستی نہیں ہے۔ میں کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو میرے ساتھ ہی سکول گئے لیکن بالآخر انکو پڑھائی ترک کرنی پڑی۔ اور کچھ ان میں سے ایسے ہیں جنہوں نے دوسرے کام اختیار کئے اور ان میں کامیاب بھی رہے۔بھیا تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ سب اسٹوڈنٹس جو شاید دوسروں کی نسبت کم قابلیت کے مالک ہیں، ان پر محنت نہیں کرنی چاہیے۔۔۔ (جسٹ اے کوئسچن فور مائی انفو)
کچھ ٹیچر یہ بات بہت جلد اور اچھی طرح بھانپ جاتے ہیں اور اس لیے طلباء میں خفیہ"پڑیا" بانٹنے والے ٹیچرز سے ہمارا ہر دور میں واسطہ پڑا ہے۔ راوی ان کے لیے،انتظامیہ کے لیے،ادارے کی ریپیوٹیشن کے لیے اور طلباء کے لیے،چین ہی چین لکھتا رہا ہے اور ہم... اپنی جان جلاتے رہے ہیں۔طلبہ کی assessment اصل میں استاد کی evaluation ہے۔
جس دن اساتذہ کو یہ بات سمجھ آ گئی کہ امتحان کا نتیجہ بچوں کی کارکردگی یا قابلیت کو ظاہر نہیں کرتا، بلکہ استاد کی اہلیت اور کارکردگی کا آئینہ دار ہے، assessment کا مقصد حاصل ہو جائے گا۔
بنجر زمین صرف ایک تشبیہ کیلئے استعمال کیا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ کم قابلیت والے طالب علموں پر محنت ہی نہ کی جائے۔ بقول ہادیہ وہ استاد کی توجہ کے زیادہ محتاج ہوتے ہیں ۔ (حقدار ہیں یا نہیں یہ میں نہیں کہہ سکتا ،پھر بحث طول پکڑے گی ) اور ان کو توجہ ملنی بھی چاہیئے ۔ بلکہ اکثر اساتذہ ان کو زیادہ توجہ دیتے بھی ہیں ۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ کچھ ایسے بچے ہوتے ہیں جن پر استاد کتنی بھی محنت کرے کوئی بات ان کے بھیجے میں گھستی نہیں ہے۔ میں کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو میرے ساتھ ہی سکول گئے لیکن بالآخر انکو پڑھائی ترک کرنی پڑی۔ اور کچھ ان میں سے ایسے ہیں جنہوں نے دوسرے کام اختیار کئے اور ان میں کامیاب بھی رہے۔
میں آپ کو اپنے ایک کزن اور بچپن کے ایک دوست کی مثال دیتا ہوں. دونوں مجھ سے 3 سال پہلے سکول میں داخل ہوئے۔ آٹھویں جماعت میں ہم اکٹھے ہوگئے۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ ہر استاد ان پر کتنی محنت کرتا تھا۔ لیکن نتیجہ صفر۔ میرا کزن ہمیشہ ایک سکریو ڈرائیور جیب میں لیکر مدرسہ آتا جاتا تھا جسے وہ دوسروں کے ساتھ لڑائی میں استعمال کرتا تھا۔ جسے میں نے دوست کہا ہے وہ اپنی کھیتی کی سبزی بلکہ دوسروں کی کھیتیوں کی سبزی بھی چراکر بیچنے لے جاتا تھا۔
مختصر یہ کہ دونوں کو نہ پڑھائی سے دلچسپی تھی اور نہ تعلیم حاصل کرنے کی قابلیت۔ مجبوراً اساتذہ کو ان کے گھر جاکر ان کے والدین کو صورت حال سے آگاہ کرنا پڑا۔ اسطرح ان کی پڑھائی چھوٹ گئی ۔
لیکن سکریوڈرائیور والا میرا کزن آج ایک کامیاب الیکٹریشن کم پلمبر ہے اور اس کے کئی شاگرد ہیں۔ میرا چور دوست کامیاب بزنس مین ہے۔ دونوں مزے کی زندگی گزار رہے ہیں۔
ہاں، میں یہ مانتا ہوں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے شائد ایسے طریقے بھی ایجاد یا دریافت ہوئے ہوں کہ کند ذہن آدمی کو بھی چلاک اور قابل بنایا جاسکے۔ کیونکہ آج کے زمانے میں بہت کچھ ممکن ہے جو 20 یا 25 سال پہلے ناممکن ہوا کرتا تھا۔
مجھے علم نہیں کہ عالمی دنیا میں اس کے معیارات کیا ہیں لیکن میرے ناقص رائے میں اس شرط کی خاص ضرورت بھی نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے، آج سے سو یا پچاس سال پہلے یہ ضرورت محسوس کی جا سکتی ہو مگر آج کے دور میں بطورِ خاص نیچرل سائنسز اور بطورِ عام انجینئرنگ کے مضامین جس حد تک ایک دوسرے سے مربوط ہو چکے ہیں، مضامین کے انتخاب میں اس طرح کی شرائط افرادی و تحقیقی قوت کم کرنے کے مترادف ہے۔فزکس آپ کا سب سے بڑا پلس پوائنٹ رہا ہو مگر وہ پری میڈیکل والوں کو فزکس میں ایڈمیشن نہیں دیں گے.
آپ کی اِس بات سے دو سوال ذہن میں آئے ہیں۔اب میرا مضمون بائیوٹیکنالوجی ہے. بائیولوجیکل سائنسز کی سب برانچز میں سے مجھے یہ پسند ہے. باٹنی پڑھ کر مجھے پودوں سے بہت محبت پیدا ہوئی اور قائم ہے مگر باٹنی سے محبت نہ ہوئی. بہت سی وجوہات کے علاوہ شاید یہ بھی ایک وجہ تھی کیونکہ اس میں سائینٹفک کام کرنے کا مارجن میرے خیال میں خاصا کم ہے. اسی لیے بائیوٹیکنالوجی پسند ہے کیونکہ اس میں سائینٹفک کام ہونے کا مارجن میرے نزدیک زیادہ ہے۔
مجھے بھی بالکل سمجھ نہیں آئی۔ نینو ٹیکنالوجی تک گزارا ہو گیا (گزارا اِس لئے کہ اطلاقی مضامین میری سمجھ میں آنے کے اتنے ہی چانسز ہیں، جتنے پاکستان کے اگلا فیفا ورلڈ کپ کھیلنے کے ) لیکن پلانٹ مائکروب انٹریکشنز سے آگے تو میری دنیا اندھیر ہے۔اگر یہ ٹاپک منظور کر لیا گیا تو نینوٹیکنالوجی کو پلانٹ مائکروب انٹریکشنز سے ملا کر کام کروں گی. اگر نہ ہوسکا کیونکہ میری بات سمجھنے والے لوگ کم ہی پیدا ہوئے ہیں تو پھر محض مؤخرالزکر پر کام کروں گی.
اس شرط کے پیچھے جو فلسفہ کارفرما ہے وہ غالباً یہ ہے کہ چونکہ بیچلرز لیول پر کیلکولس بیسڈ فزکس پڑھائی جاتی ہے اور پری میڈیکل کے طلبا نے کیلکولس سرے سے پڑھا ہی نہیں ہوتا اس لیے انھیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔لیکن میرے ناقص رائے میں اس شرط کی خاص ضرورت بھی نہیں ہے
یہ شاید کسی حد تک ایسے ہی ہے جیسے فزکس میں کاسمولوجی کا بگ بینگ ماڈل ہے، جس کے بغیر فزیکل کاسمولوجی کی جزئیات اور آغاز کو سمجھنا شاید بہت مشکل ہے۔ ایسے ہی کسی موڑ پہ آ کے کاسمولوجسٹ یہ کہنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں کہ بگ بینگ کائنات میں ہر جگہ وقوع پذیر ہوا تھا اور کسی بھی جگہ نہیں ہوا تھا۔ شاید یہی صورت حال ڈارون کے نظریۂ ارتقاء کے ساتھ بھی ہے۔بقول میرے ایک بیالوجسٹ دوست کے کہ بیالوجی میں بغیر ارتقا کی تھیوری کے کچھ بھی سمجھنا مشکل ہے۔
جی ایسا ہی تھا لیکن اب حالات قدرے تبدیل ہو چکے ہیں۔ چار سالہ بی ایس میں Calculus I-II اور Linear Algebra جیسے کورسز یہ کمی پوری کر دیتے ہیں۔اس شرط کے پیچھے جو فلسفہ کارفرما ہے وہ غالباً یہ ہے کہ چونکہ بیچلرز لیول پر کیلکولس بیسڈ فزکس پڑھائی جاتی ہے اور پری میڈیکل کے طلبا نے کیلکولس سرے سے پڑھا ہی نہیں ہوتا اس لیے انھیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
مجھے Carl Sagan یاد آ رہے ہیں، Cosmos میں کہتے ہیں:Ellis Silver ایک ایکولوجسٹ ہیں ان کی کتاب Humans are not from Earth میں کہیں لکھا تھا کہ انسان جس ایلین کا انتظار کر رہا ہے، وہ وہ خود ہے اور اس کا اوریجن زمین پر نہیں ہوا اور ایولیوشن کی بھی خاصی تردید وغیرہ. بہرحال جو بھی بات ہے، اس کی بھی تردید کر دی جاتی ہے کہ سائنس میں اس حوالے سے دو مکاتیب فکر ہیں.
"The cosmos is within us. We are made of star-stuff. We are a way for the universe to know itself."
اس شرط کے پیچھے جو فلسفہ کارفرما ہے وہ غالباً یہ ہے کہ چونکہ بیچلرز لیول پر کیلکولس بیسڈ فزکس پڑھائی جاتی ہے اور پری میڈیکل کے طلبا نے کیلکولس سرے سے پڑھا ہی نہیں ہوتا اس لیے انھیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
میکسویل کی ایکویشنز اور کیلکولس کے بغیر؟ کیا پڑھتے رہے ہیں آپ لوگ؟جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے فزکس کے بیچلرز کے دونوں کورس الیکٹرو میگنٹزم کے حوالے سے تھے جن میں کیلکولس شاید ہی پڑھایا جاتا ہے۔
جہاں تک مجھے یاد ہے وہ میں نے بتایا ہے ، کیلکولس کے علیحدہ دو مضامین ضرور پڑھے تھے مگر فزکس میں مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کیلکولس پڑھایا تھا۔میکسویل کی ایکویشنز اور کیلکولس کے بغیر؟ کیا پڑھتے رہے ہیں آپ لوگ؟
یقینا ایسا ہی ہوتا ہو گا۔ یہ اکاونٹیبیلیٹی کا ویسا ہی خوف ہے جو طلبہ کو سزا اور خصوصا جسمانی سزا سے ہوتا ہے۔ ایسا استاد بہت اچھی طرح سے جانتا ہے کہ اس کے پڑھانے/سکھانے کا معیار کیسا ہے اور کیا نتیجہ سامنے آئے گا سو وہ ایسے طریقے استعمال کرتا ہے۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ تدریس ہر کسی کے بس کی بات نہیں لیکن یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ہمارے علاقوں میں عموما معلمین اس شعبے میں by choice نہیں بلکہ by chance آتے ہیں۔کچھ ٹیچر یہ بات بہت جلد اور اچھی طرح بھانپ جاتے ہیں اور اس لیے طلباء میں خفیہ"پڑیا" بانٹنے والے ٹیچرز سے ہمارا ہر دور میں واسطہ پڑا ہے۔ راوی ان کے لیے،انتظامیہ کے لیے،ادارے کی ریپیوٹیشن کے لیے اور طلباء کے لیے،چین ہی چین لکھتا رہا ہے اور ہم... اپنی جان جلاتے رہے ہیں۔
ہمارے ایک استاد کہتے ہیں ؛اچھی بات ہے۔
سو بار لکھنا بھی ویسے کسی حد تک جسمانی سزا میں ہی آتا ہے۔ اور اگر تو اس سزا کا مثبت نتیجہ ہے تو ٹھیک ورنہ اس بات سے ڈر کر کام کرنا کہ پھر سو بار لکھنا پڑے گا ، وقتی اثر ہے۔ آپ اگلی جماعت میں ان کو نہیں پڑھائیں گی تو وہ واپس اپنے معمول پر آ جائیں گے۔
امید ہے آپ کان بہت زور سے نہیں پکڑتی ہوں گی۔ میرا کان تو بہت حساس ہے۔ ذرا سا کھچے گا تو اندرونی کان تک درد ہو گا جو کئی دن نہیں جاتا اور کسی مستقل مسئلے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ بچوں کے کام نہ کرنے یا بدتمیزی کے لیے اگر جسمانی سزا کی بجائے ان سے ایک رویے کے logical consequences پر بات کی جائے تو دیرپا اثرات سامنے آتے ہیں۔