محترمہ مریم افتخار صاحبہ کے ساتھ ایک مصاحبہ!

ہادیہ

محفلین
ویسے اگر طالب علم میں قابلیت اور علم حاصل کرنے کے تئیں لگن ہے تب ہی وہ اساتذہ سے استفادہ کرسکتا ہے۔
کچھ میرے جیسے بھی ہوسکتے ہیں جنہیں سمجھانا یا پڑھانا بالکل بےکار ہوتا ہے۔ کسی کے ماتھے پہ ہی اگر لکھا ہوگا "الارض" تو وہ زمین ہی جوت سکتا ہے۔ اساتذہ کی محنت تب رنگ لاتی ہے جب طالب علم بھی خوب محنت کرے۔ زرخیز زمین ہی فصل دیتی ہے ۔ بنجر پہ محنت کرنا بےکار ہوتا ہے۔
یہ ایک الگ ٹاپک ہے بھائی صاحب:) اس پر بات پھر کبھی سہی۔۔ان شاء اللہ۔۔:)
 
آخری تدوین:

مقدس

لائبریرین
ارے بہنا زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں بس مذاق کررہا ہوں۔

ویسے اگر طالب علم میں قابلیت اور علم حاصل کرنے کے تئیں لگن ہے تب ہی وہ اساتذہ سے استفادہ کرسکتا ہے۔
کچھ میرے جیسے بھی ہوسکتے ہیں جنہیں سمجھانا یا پڑھانا بالکل بےکار ہوتا ہے۔ کسی کے ماتھے پہ ہی اگر لکھا ہوگا "الارض" تو وہ زمین ہی جوت سکتا ہے۔ اساتذہ کی محنت تب رنگ لاتی ہے جب طالب علم بھی خوب محنت کرے۔ زرخیز زمین ہی فصل دیتی ہے ۔ بنجر پہ محنت کرنا بےکار ہوتا ہے۔
بھیا تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ سب اسٹوڈنٹس جو شاید دوسروں کی نسبت کم قابلیت کے مالک ہیں، ان پر محنت نہیں کرنی چاہیے۔۔۔ (جسٹ اے کوئسچن فور مائی انفو)
 

ہادیہ

محفلین
محنت ہمیشہ "بنجر زمین" پہ ہی کرنی چاہیے ۔۔ جو آلریڈی زرخیز ہو ۔۔وہاں کم توجہ اور محنت سے بھی اچھا نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔۔ ہماری غلطی بھی یہی ہے ۔۔ ہم ذہین کو مزید ذہین بنانے کے چکر میں رہتے تاکہ وہ نمبروں کی اس دوڑ میں آگے نکل جائے۔۔ اور ہمارے ادارے کا نام روشن کرسکے۔۔ لیکن جو پیچھے ہوتے ہیں ان کی طرف دیکھتا کوئی نہیں یا ہم انہیں ہمیشہ "اگنور لسٹ" میں رکھ دیتے ہیں۔۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
پھر دو سال کا کیا ہوتا ہے؟
دو سالہ بیچلرز (بی ایس سی/بی اے) کے بعد دو سال کا ماسٹرز یعنی ایم ایس سی اور ایم اے ہوتا ہے. یہاں سولہ سالہ تعلیم کا اختتام ہو جاتا ہے. اور پھر اٹھارہ سالہ تعلیم کے لیے دو سال کا ایم فل.
تاہم پچھلے کچھ عرصے سے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی ترجیحات میں نمایاں تبدیلی آئی ہے اور ملکی نظامِ تعلیم کو بیرونی دنیا سے ہم آہنگ کرنے کے لیے بیچلرز اور ماسٹرز کی جگہ چار سالہ بیچلرز آنرز اور ایم فل کی جگہ دو سالہ ایم ایس متعارف کروایا گیا. صرف نظام تبدیل ہے تاہم ابھی بھی بہت سی تعلیمی اصلاحات کی ضرورت ہے بطورِ خاص نیچرل سائنسز کے میدان میں
 

م حمزہ

محفلین
بھیا تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ سب اسٹوڈنٹس جو شاید دوسروں کی نسبت کم قابلیت کے مالک ہیں، ان پر محنت نہیں کرنی چاہیے۔۔۔ (جسٹ اے کوئسچن فور مائی انفو)
بنجر زمین صرف ایک تشبیہ کیلئے استعمال کیا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ کم قابلیت والے طالب علموں پر محنت ہی نہ کی جائے۔ بقول ہادیہ وہ استاد کی توجہ کے زیادہ محتاج ہوتے ہیں ۔ (حقدار ہیں یا نہیں یہ میں نہیں کہہ سکتا ،پھر بحث طول پکڑے گی ) اور ان کو توجہ ملنی بھی چاہیئے ۔ بلکہ اکثر اساتذہ ان کو زیادہ توجہ دیتے بھی ہیں ۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ کچھ ایسے بچے ہوتے ہیں جن پر استاد کتنی بھی محنت کرے کوئی بات ان کے بھیجے میں گھستی نہیں ہے۔ میں کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو میرے ساتھ ہی سکول گئے لیکن بالآخر انکو پڑھائی ترک کرنی پڑی۔ اور کچھ ان میں سے ایسے ہیں جنہوں نے دوسرے کام اختیار کئے اور ان میں کامیاب بھی رہے۔
میں آپ کو اپنے ایک کزن اور بچپن کے ایک دوست کی مثال دیتا ہوں. دونوں مجھ سے 3 سال پہلے سکول میں داخل ہوئے۔ آٹھویں جماعت میں ہم اکٹھے ہوگئے۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ ہر استاد ان پر کتنی محنت کرتا تھا۔ لیکن نتیجہ صفر۔ میرا کزن ہمیشہ ایک سکریو ڈرائیور جیب میں لیکر مدرسہ آتا جاتا تھا جسے وہ دوسروں کے ساتھ لڑائی میں استعمال کرتا تھا۔ جسے میں نے دوست کہا ہے وہ اپنی کھیتی کی سبزی بلکہ دوسروں کی کھیتیوں کی سبزی بھی چراکر بیچنے لے جاتا تھا۔
مختصر یہ کہ دونوں کو نہ پڑھائی سے دلچسپی تھی اور نہ تعلیم حاصل کرنے کی قابلیت۔ مجبوراً اساتذہ کو ان کے گھر جاکر ان کے والدین کو صورت حال سے آگاہ کرنا پڑا۔ اسطرح ان کی پڑھائی چھوٹ گئی ۔
لیکن سکریوڈرائیور والا میرا کزن آج ایک کامیاب الیکٹریشن کم پلمبر ہے اور اس کے کئی شاگرد ہیں۔ میرا چور دوست کامیاب بزنس مین ہے۔ دونوں مزے کی زندگی گزار رہے ہیں۔

ہاں، میں یہ مانتا ہوں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے شائد ایسے طریقے بھی ایجاد یا دریافت ہوئے ہوں کہ کند ذہن آدمی کو بھی چلاک اور قابل بنایا جاسکے۔ کیونکہ آج کے زمانے میں بہت کچھ ممکن ہے جو 20 یا 25 سال پہلے ناممکن ہوا کرتا تھا۔
 

شکیب

محفلین
طلبہ کی assessment اصل میں استاد کی evaluation ہے۔
جس دن اساتذہ کو یہ بات سمجھ آ گئی کہ امتحان کا نتیجہ بچوں کی کارکردگی یا قابلیت کو ظاہر نہیں کرتا، بلکہ استاد کی اہلیت اور کارکردگی کا آئینہ دار ہے، assessment کا مقصد حاصل ہو جائے گا۔
کچھ ٹیچر یہ بات بہت جلد اور اچھی طرح بھانپ جاتے ہیں اور اس لیے طلباء میں خفیہ"پڑیا" بانٹنے والے ٹیچرز سے ہمارا ہر دور میں واسطہ پڑا ہے۔ راوی ان کے لیے،انتظامیہ کے لیے،ادارے کی ریپیوٹیشن کے لیے اور طلباء کے لیے،چین ہی چین لکھتا رہا ہے اور ہم... اپنی جان جلاتے رہے ہیں۔:)
 

نور وجدان

لائبریرین
بنجر زمین صرف ایک تشبیہ کیلئے استعمال کیا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ کم قابلیت والے طالب علموں پر محنت ہی نہ کی جائے۔ بقول ہادیہ وہ استاد کی توجہ کے زیادہ محتاج ہوتے ہیں ۔ (حقدار ہیں یا نہیں یہ میں نہیں کہہ سکتا ،پھر بحث طول پکڑے گی ) اور ان کو توجہ ملنی بھی چاہیئے ۔ بلکہ اکثر اساتذہ ان کو زیادہ توجہ دیتے بھی ہیں ۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ کچھ ایسے بچے ہوتے ہیں جن پر استاد کتنی بھی محنت کرے کوئی بات ان کے بھیجے میں گھستی نہیں ہے۔ میں کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو میرے ساتھ ہی سکول گئے لیکن بالآخر انکو پڑھائی ترک کرنی پڑی۔ اور کچھ ان میں سے ایسے ہیں جنہوں نے دوسرے کام اختیار کئے اور ان میں کامیاب بھی رہے۔
میں آپ کو اپنے ایک کزن اور بچپن کے ایک دوست کی مثال دیتا ہوں. دونوں مجھ سے 3 سال پہلے سکول میں داخل ہوئے۔ آٹھویں جماعت میں ہم اکٹھے ہوگئے۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ ہر استاد ان پر کتنی محنت کرتا تھا۔ لیکن نتیجہ صفر۔ میرا کزن ہمیشہ ایک سکریو ڈرائیور جیب میں لیکر مدرسہ آتا جاتا تھا جسے وہ دوسروں کے ساتھ لڑائی میں استعمال کرتا تھا۔ جسے میں نے دوست کہا ہے وہ اپنی کھیتی کی سبزی بلکہ دوسروں کی کھیتیوں کی سبزی بھی چراکر بیچنے لے جاتا تھا۔
مختصر یہ کہ دونوں کو نہ پڑھائی سے دلچسپی تھی اور نہ تعلیم حاصل کرنے کی قابلیت۔ مجبوراً اساتذہ کو ان کے گھر جاکر ان کے والدین کو صورت حال سے آگاہ کرنا پڑا۔ اسطرح ان کی پڑھائی چھوٹ گئی ۔
لیکن سکریوڈرائیور والا میرا کزن آج ایک کامیاب الیکٹریشن کم پلمبر ہے اور اس کے کئی شاگرد ہیں۔ میرا چور دوست کامیاب بزنس مین ہے۔ دونوں مزے کی زندگی گزار رہے ہیں۔

ہاں، میں یہ مانتا ہوں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے شائد ایسے طریقے بھی ایجاد یا دریافت ہوئے ہوں کہ کند ذہن آدمی کو بھی چلاک اور قابل بنایا جاسکے۔ کیونکہ آج کے زمانے میں بہت کچھ ممکن ہے جو 20 یا 25 سال پہلے ناممکن ہوا کرتا تھا۔

آپ کے دوست عملی میدان میں آپ سے کہیں آگے تھے. ہم آج تک یہ سمجھ نہیں سکے ہیں کتاب عمل کرنے کے لیے پہلے پڑھنے کے لیے بعد میں ہے.بچوں کو تو مڈل کے بعد یا مڈل سے ترجیحی بنیاد پر پریکٹیکلز کراکے اسکل لیول بڑھانا چاہیے. وہ اساتذہ بچوں کے شوق نہیں سمجھ سکے تو بچے کیوں استاد کی سمجھیں گے. ہمارا تعلیمی نظام بچوں کے ٹیلنٹ کو اگر اگنور کرتا ہے تو بچے اساتذہ کو ..
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
فزکس آپ کا سب سے بڑا پلس پوائنٹ رہا ہو مگر وہ پری میڈیکل والوں کو فزکس میں ایڈمیشن نہیں دیں گے.
مجھے علم نہیں کہ عالمی دنیا میں اس کے معیارات کیا ہیں لیکن میرے ناقص رائے میں اس شرط کی خاص ضرورت بھی نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے، آج سے سو یا پچاس سال پہلے یہ ضرورت محسوس کی جا سکتی ہو مگر آج کے دور میں بطورِ خاص نیچرل سائنسز اور بطورِ عام انجینئرنگ کے مضامین جس حد تک ایک دوسرے سے مربوط ہو چکے ہیں، مضامین کے انتخاب میں اس طرح کی شرائط افرادی و تحقیقی قوت کم کرنے کے مترادف ہے۔
انجینئرنگ کے متعلق مجھے اتنا علم نہیں، نمرہ صاحبہ اس پہ بہتر رہنمائی کر سکیں گی تاہم نیچرل سائنسز میں کوانٹم مکینکس اور کمپیوٹیشن جیسے نئے مضامین نے سائنسز کو بہت قریب کر دیا ہے۔ باقی اداروں کا مجھے علم نہیں لیکن ہمارے ہاں LUMS میں major اور minor ڈگری کے تصور نے تحقیقی معیارات کو بیحد بلند کیا ہے۔ اس نظام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض ذہین طلباء ڈبل میجر کر لیتے ہیں۔ دو سال قبل بزنس اینڈ مینجمینٹ کے ایک طالبعلم نے فزکس میں ڈبل میجر کیا اور تمام گریجویٹ لیول کے مضامین میں A گریڈ لیا۔ حتیٰ کہ اب تو ماسٹرز میں بھی آپ یہاں کسی اور ڈیپارٹمنٹ سے سپروائزر رکھ سکتے ہیں۔ (اس کے کچھ فوائد میں سے ایک یہ کہ کیمسٹری اور ڈبل ای جیسے ڈیپارٹمنٹس میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے فنڈڈ پراجیکٹس کی فراوانی ہے جب کہ ہم جیسے، بنیادی نظریاتی طبیعات کا راگ الاپنے والے، طبیعات میں ایک نوبیل انعام کے باوجود اس نظرِ کرم سے محروم ہیں۔ ان RA-ships کے باعث بہت سے لوگ اپنی فیلڈ کو وسعت دے پاتے ہیں اور ہر دو طرح سے فائدے میں رہتے ہیں۔)
کچھ عرصہ قبل آئن اسٹائن کے عمومی نظریۂ اضافیت اور کاسمولوجی پہ اپنے سپروائزر سے کچھ پوچھنے گیا تو دورانِ گفتگو انھوں نے تبصرہ کیا کہ اب یہ میدان بھی اس قدر وسیع ہو چکا ہے کہ کاسمولوجی میں ایسے ایسے لوگ بھی پوسٹ ڈوکس اور ریسرچ جابز کر رہے ہیں، جنھیں عمومی نظریۂ اضافیت کا سرے سے علم ہی نہیں۔ وجہ کمپیوٹیشن کا موجودہ دور میں بڑھتا ہوا رجحان اور استعمال ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اب میرا مضمون بائیوٹیکنالوجی ہے. بائیولوجیکل سائنسز کی سب برانچز میں سے مجھے یہ پسند ہے. باٹنی پڑھ کر مجھے پودوں سے بہت محبت پیدا ہوئی اور قائم ہے مگر باٹنی سے محبت نہ ہوئی. بہت سی وجوہات کے علاوہ شاید یہ بھی ایک وجہ تھی کیونکہ اس میں سائینٹفک کام کرنے کا مارجن میرے خیال میں خاصا کم ہے. اسی لیے بائیوٹیکنالوجی پسند ہے کیونکہ اس میں سائینٹفک کام ہونے کا مارجن میرے نزدیک زیادہ ہے۔
آپ کی اِس بات سے دو سوال ذہن میں آئے ہیں۔

1) عموماً سائنسی تحقیق کو دو طرح سے منقسم کیا جاتا ہے: نظریاتی اور اطلاقی۔ آپ کا رجحان کس جانب زیادہ ہے اور کیوں؟
(میرا خیال ہے کہ شاید آپ کسی سوال میں کسی تناظر میں اس کا جواب دے چکی ہیں۔ مگر خود کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے سوال پوچھ رہا ہوں۔)

2) ذاتی شوق اور پسند کو ایک جانب رکھتے ہوئے، آپ نظریاتی اور اطلاقی سائنس میں کسے زیادہ سود مند سمجھتی ہیں؟
(گو کہ کسی ایک کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں مگر حالیہ کچھ عرصے میں بنیادی نظریاتی سائنسز میں رجحان کم دیکھنے میں آیا ہے طلباء کا۔)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اگر یہ ٹاپک منظور کر لیا گیا تو نینوٹیکنالوجی کو پلانٹ مائکروب انٹریکشنز سے ملا کر کام کروں گی. اگر نہ ہوسکا کیونکہ میری بات سمجھنے والے لوگ کم ہی پیدا ہوئے ہیں تو پھر محض مؤخرالزکر پر کام کروں گی. :)
مجھے بھی بالکل سمجھ نہیں آئی۔ :p نینو ٹیکنالوجی تک گزارا ہو گیا (گزارا اِس لئے کہ اطلاقی مضامین میری سمجھ میں آنے کے اتنے ہی چانسز ہیں، جتنے پاکستان کے اگلا فیفا ورلڈ کپ کھیلنے کے :ROFLMAO:) لیکن پلانٹ مائکروب انٹریکشنز سے آگے تو میری دنیا اندھیر ہے۔ :p:D
 
لیکن میرے ناقص رائے میں اس شرط کی خاص ضرورت بھی نہیں ہے
اس شرط کے پیچھے جو فلسفہ کارفرما ہے وہ غالباً یہ ہے کہ چونکہ بیچلرز لیول پر کیلکولس بیسڈ فزکس پڑھائی جاتی ہے اور پری میڈیکل کے طلبا نے کیلکولس سرے سے پڑھا ہی نہیں ہوتا اس لیے انھیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بقول میرے ایک بیالوجسٹ دوست کے کہ بیالوجی میں بغیر ارتقا کی تھیوری کے کچھ بھی سمجھنا مشکل ہے۔
یہ شاید کسی حد تک ایسے ہی ہے جیسے فزکس میں کاسمولوجی کا بگ بینگ ماڈل ہے، جس کے بغیر فزیکل کاسمولوجی کی جزئیات اور آغاز کو سمجھنا شاید بہت مشکل ہے۔ ایسے ہی کسی موڑ پہ آ کے کاسمولوجسٹ یہ کہنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں کہ بگ بینگ کائنات میں ہر جگہ وقوع پذیر ہوا تھا اور کسی بھی جگہ نہیں ہوا تھا۔ شاید یہی صورت حال ڈارون کے نظریۂ ارتقاء کے ساتھ بھی ہے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اس شرط کے پیچھے جو فلسفہ کارفرما ہے وہ غالباً یہ ہے کہ چونکہ بیچلرز لیول پر کیلکولس بیسڈ فزکس پڑھائی جاتی ہے اور پری میڈیکل کے طلبا نے کیلکولس سرے سے پڑھا ہی نہیں ہوتا اس لیے انھیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
جی ایسا ہی تھا لیکن اب حالات قدرے تبدیل ہو چکے ہیں۔ چار سالہ بی ایس میں Calculus I-II اور Linear Algebra جیسے کورسز یہ کمی پوری کر دیتے ہیں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
Ellis Silver ایک ایکولوجسٹ ہیں ان کی کتاب Humans are not from Earth میں کہیں لکھا تھا کہ انسان جس ایلین کا انتظار کر رہا ہے، وہ وہ خود ہے اور اس کا اوریجن زمین پر نہیں ہوا اور ایولیوشن کی بھی خاصی تردید وغیرہ. بہرحال جو بھی بات ہے، اس کی بھی تردید کر دی جاتی ہے کہ سائنس میں اس حوالے سے دو مکاتیب فکر ہیں.
مجھے Carl Sagan یاد آ رہے ہیں، Cosmos میں کہتے ہیں:
کوڈ:
"The cosmos is within us. We are made of star-stuff. We are a way for the universe to know itself."
 
اس شرط کے پیچھے جو فلسفہ کارفرما ہے وہ غالباً یہ ہے کہ چونکہ بیچلرز لیول پر کیلکولس بیسڈ فزکس پڑھائی جاتی ہے اور پری میڈیکل کے طلبا نے کیلکولس سرے سے پڑھا ہی نہیں ہوتا اس لیے انھیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے فزکس کے بیچلرز کے دونوں کورس الیکٹرو میگنٹزم کے حوالے سے تھے جن میں کیلکولس شاید ہی پڑھایا جاتا ہے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
کچھ ٹیچر یہ بات بہت جلد اور اچھی طرح بھانپ جاتے ہیں اور اس لیے طلباء میں خفیہ"پڑیا" بانٹنے والے ٹیچرز سے ہمارا ہر دور میں واسطہ پڑا ہے۔ راوی ان کے لیے،انتظامیہ کے لیے،ادارے کی ریپیوٹیشن کے لیے اور طلباء کے لیے،چین ہی چین لکھتا رہا ہے اور ہم... اپنی جان جلاتے رہے ہیں۔:)
یقینا ایسا ہی ہوتا ہو گا۔ یہ اکاونٹیبیلیٹی کا ویسا ہی خوف ہے جو طلبہ کو سزا اور خصوصا جسمانی سزا سے ہوتا ہے۔ ایسا استاد بہت اچھی طرح سے جانتا ہے کہ اس کے پڑھانے/سکھانے کا معیار کیسا ہے اور کیا نتیجہ سامنے آئے گا سو وہ ایسے طریقے استعمال کرتا ہے۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ تدریس ہر کسی کے بس کی بات نہیں لیکن یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ہمارے علاقوں میں عموما معلمین اس شعبے میں by choice نہیں بلکہ by chance آتے ہیں۔
 
اچھی بات ہے۔
سو بار لکھنا بھی ویسے کسی حد تک جسمانی سزا میں ہی آتا ہے۔ اور اگر تو اس سزا کا مثبت نتیجہ ہے تو ٹھیک ورنہ اس بات سے ڈر کر کام کرنا کہ پھر سو بار لکھنا پڑے گا ، وقتی اثر ہے۔ آپ اگلی جماعت میں ان کو نہیں پڑھائیں گی تو وہ واپس اپنے معمول پر آ جائیں گے۔
امید ہے آپ کان بہت زور سے نہیں پکڑتی ہوں گی۔ میرا کان تو بہت حساس ہے۔ ذرا سا کھچے گا تو اندرونی کان تک درد ہو گا جو کئی دن نہیں جاتا اور کسی مستقل مسئلے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ بچوں کے کام نہ کرنے یا بدتمیزی کے لیے اگر جسمانی سزا کی بجائے ان سے ایک رویے کے logical consequences پر بات کی جائے تو دیرپا اثرات سامنے آتے ہیں۔
ہمارے ایک استاد کہتے ہیں ؛
میں نے جتنی کتب کھنگالی ہیں. مجھے بچے کو مارنے کا جواز نہیں مل سکا. اگر ہم. بچپن سے مناسب تربیت رکھیں تو کبھی اس کی نوبت ہی نہیں آتی.
پچھلے آٹھ ماہ سے تدریس سے وابستہ ہوا. بچوں سے لیکر ساٹھ سال سے اوپر عمر رسیدہ کو پڑھانے کا اتفاق ہوا. کبھی نوبت نہیں ڈانٹنے کی بھی. اگر کبھی کوئی کام. نہیں کر کے آیا تو ہلکے پھلکے لطیفوں میں اسے احساس دلانے کی کوشش کی. ہم کام کروانا چاہتے ہیں سیلف رئیلائزیشن پر زور نہیں دیتے. حالت یہ تھی ایک دن ایک بچے نے سبق غلط سنا دیا میں نے صرف اتنا کہا مجھے ایک بات یاد آ گئی. بچے کہنے لگے سر ہم سبق یاد کر کے آئیں گے. آپ بات نہ سنائیں. حالانکہ وہ محض لطیفہ ہوتا.
اس سے ہر گز مراد تعریف نہیں محض یہ گزارش کرنا کہ ہمارے ہاں جو ایک تصور ہے استاذ جلّادی شخصیت کا روپ کیوں پیش کرتا ہے وہ ایک مشفق دوست کی طرح اپنائیت سے پڑھائے بچے شوق سے پڑھتے ہیں. اپنے مختصر تجربے کی بنیاد پر گزارش کی.
 
آخری تدوین:
Top