ہمہ یاراں ہوٹل
اس موضوع پر کچھ لکھنے کا ارادہ نہیں تھا، لیکن جب اکمل بھائی نے لڑی بنائی تو ارادہ بن گیا۔۔۔
تقریباً ڈیڑھ دو ماہ قبل عدنان بھائی نے محفلینِ کراچی کو دوبارہ اکٹھا کرنے کی مہم چلائی۔۔۔
فہیم بھائی نے رات کے کھانے پر جمع ہونا اور کہاں جمع ہونا چاہیے اس کی بھی تجویز پیش کردی۔۔۔
لیکن اکثر حضرات نے پٹھے پر ہاتھ دھرنے نہیں دیا۔۔۔
کسی کی دلچسپی تھی تو کسی کی عدم دلچسپی۔۔۔
اسی ہاں ہاں ناں ناں میں نا ہی ہوگئی۔۔۔
معاملہ ٹھنڈا ہوگیا اور محاذ خاموش!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند دن قبل ہمیں جوش اٹھا۔۔۔
ذاتی مکالمہ اور واٹس ایپ پر لوگوں کی رائے لینی شروع کی۔۔۔
فہیم بھائی،
محمد امین صدیق بھائی اور
خالد محمود چوہدری بھائی نے کبھی ناں نہیں کی، چناں چہ یہ لوگ راضی ہوگئے۔۔۔
عدنان بھائی ہمیشہ گومگو کے عالم میں رہتے ہیں،اس بار بھی متذبذب رہے۔۔۔
احمد بھائی اور سر خلیل پراسرار طور پر خاموش تھے، نہ ہاں کی نہ ناں۔۔۔
اکمل بھائی نے بتایا میری مصروفیات چل رہی ہیں۔۔۔
ہم نے کہا جب مصروفیات ختم ہوجائیں اس وقت کا وقت طے کرلیتے ہیں۔۔۔
اکمل بھائی نے رضامندی ظاہر کردی اور وقت طے ہوگیا!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نئے سرے سے اس وقت کے مطابق مہم چلائی گئی۔۔۔
فہیم بھائی نے جگہ کا تعیین کیا اور ہم نے وقت کا۔۔۔
ہفتہ کو آٹھ بجے شب سپر سلاطین ریسٹورینٹ۔۔۔
سر خلیل اور احمد بھائی کے سوا سب نے ہامی بھر لی۔۔۔
احمد بھائی شادی کی کسی تقریب میں مدعو تھے، اس لیے معذرت کرلی۔۔۔
سر خلیل اب بھی خاموش تھے!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہفتہ کے روز دل کھٹ کھٹ کھٹکنے اور دھڑ دھڑ دھڑکنے لگا۔۔۔
کسی اندیشے کے پیش نظر واٹس ایپ اور ذاتی مکالمے میں سب کو یاد دہانی کرائی ۔۔۔
اچانک ذاتی مکالمے میں عدنان بھائی کی تحریر جگمگانے لگی۔۔۔
ہم نہیں آرہے، ہمارے آستانے سے اس مستانے کو مدعو کرنے کا فون آیا ہے۔۔۔
اسے پڑھ کر پہلے تو ہمارا دماغ گھوما پھر ہم نے فون گھمایا۔۔۔
یہ کیا عدنان بھائی، پہلے ہم سے وعدہ کیا تھا، ان سے معذرت کرنی چاہیے تھی، وعدے کی پاسداری نہ کرنے کا گناہ کس کے سر جائے گا؟؟؟
بڑی مشکل سے عدنان بھائی راضی ہوئے۔۔۔
یہ تو بعد میں پتا چلا کہ یہ رضامندی دوسری بار وعدہ خلافی کرنے کے لیے تھی!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’نازک صورتِ حال‘‘ کے پیش نظر ہم نے سب کو براہ راست فون کرنے شروع کردئیے۔۔۔
سر خلیل نے کمال تجاہل عارفانہ سے مسکراتے ہوئے ارشاد فرمایا اچھا آج آنا ہے، میری گاڑی خراب ہے، مکینک کے پاس سے شام تک آگئی تو آجاؤں گا۔۔۔
ہم نے کہا نہ بھی آئی تو بھی آئیے گا، کریم کی ٹیکسی زندہ باد، انہوں نے دل میں کہا خیرباد، لیکن لبوں سےکہا کوشش کروں گا!!!
دوپہر کو فاخر بھائی نے واٹس ایپ کیا کہ میں نہیں آسکتا، آڈٹ کا کچھ ضروری کام آگیا ہے۔۔۔
یہ صورت حال دیکھ کر فہیم بھائی نے لکھا یہ دعوت کسی اور دن پر اٹھا رکھتے ہیں۔۔۔
ابھی ہم جواب دینا ہی چاہ رہے تھے کہ احمد بھائی نے لکھا کہ آپ سب لوگ جمع ہوجائیں، میں آرہا ہوں۔۔۔
ہم نے لکھا فہیم بھائی، جن کو آنا ہے وہ آجائیں ورنہ قیامت تک سب جمع نہ ہوں گے۔۔۔
آنے والوں نے کہا او کے!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات پونے آٹھ بجے ہم گھر سے نکلنے ہی والے تھے کہ خالد بھائی کی کال آئی۔۔۔
سلاطین پر بلڈوزر پھر گئے، میں اس کے ملبہ پہ کھڑا ہوں۔۔۔
واہ بھئی شیر جوان ، وقت سے پہلے پہنچ گیا۔۔۔
زندہ قوموں کی یہی نشانیاں ہوا کرتی ہیں، ہر کام وقت سے پہلے تیار۔۔۔
ہم نے کہا کہ آپ ملینیم مال آجائیں ہم بھی وہیں پہنچ رہے ہیں۔۔۔
پھر فہیم بھائی کو فون کھڑکایا کہ جس نشیمن پہ پھروسہ تھا باغباں وہی لے اڑے۔۔۔
سب کو دوبارہ فون کرکے ملینیم مال پر جمع ہونے کا سندیسہ دیا۔۔۔
احتیاطاً سر خلیل کو بھی فون کیا کہ سر آپ کہاں تک پہنچے؟؟؟ فرمایا ہم پہلے ہی بہت پہنچے ہوئے ہیں، اس لیے وہاں تک پہنچے جہاں تک آپ نہ پہنچ سکیں گے، دوسرے الفاظ میں گاڑی کی سہولیت میسر نہ ہونے پر معذرت کرلی۔۔۔
اکمل بھائی کو فون کیا تو ان کی بیٹی نے اٹھایا۔۔۔
بابا کہاں ہیں؟؟؟ ہم نے پوچھا۔۔۔
بابا کون؟؟؟ اکمل صاحب؟؟؟ بٹیا نے پوچھا۔۔۔
واہ رے ’’صاحب‘‘ تیرے ٹَشَن۔۔۔
جی جی وہی، اکمل ’’صاحب‘‘کہاں ہیں؟؟؟ ہم نے بھی صاحب پر خوب زور دیا۔۔۔
جی وہ تو نکل چکے ہیں۔۔۔
کیا!!!!!!
یعنی فون گھر بھول گئے، ہم نے سر پکڑ لیا، اب کیسے بتائیں گے کہ سلطنتِ سلاطین کے ملبے پر نوحہ خوانی کے بعد کہاں آنا ہے!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہم ملینیم مال پہنچے تو خالد بھائی نے ہمارا استقبال کیا۔۔۔
تھوڑی دیر بعد ہم دونوں نے امین بھائی کا اور پھر سب نے مل کر فہیم بھائی کا استقبال کیا۔۔۔
وہیں کھڑے کھڑے خالد بھائی کو ان کی صاحبزادی کی شادی کی مبارک باد دی جو چند روز قبل بخیر و عافیت انجام پذیر ہوئی تھی۔۔۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت میرے چاروں داماد گھر پر جمع ہیں، لیکن ہم پھر بھی چلے آئے۔۔۔
ہم ان کی اس عظیم قربانی پر سو جان سے فریفتہ ہونے ہی والے تھے کہ فہیم بھائی نے کہا شاہین شنواری ریسٹورینٹ چلتے ہیں،باقی لوگوں کو فون کرکے وہیں بلائیں۔۔۔
خالد بھائی نے کہا کہ میں اپنی گاڑی میں سر خلیل کو خود لینے جاتا ہوں، ہم نے کہا پوچھ لیں، اِنہوں نے پوچھا ، اُنہوں نے منع کردیا، اِنہوں نے دل مسوس کر فون بند کردیا۔۔۔
اب خالد بھائی نے کہا کہ میں عدنان بھائی کو بھی فون کروں گا، ہم نے کہا یہ ارمان بھی پورا کرلیں، آج دل کی کوئی حسرت دل میں نہ رہنے دیں۔۔۔
انہوں نے پوچھا تو بتایا گیا کہ کسی کام سے گھر سے باہر گئے ہیں۔۔۔
خالد بھائی نے پیغام چھوڑا کہ جب وہ آئیں تو ان سے کہیے گا کہ فون کرلیں۔۔۔
عدنان بھائی تو گھر آگئے لیکن ان کا فون نہ آیا۔۔۔
خالد بھائی نے احمد بھائی کو بھی فون کیا، انہوں نے کہا میں نہیں آرہا، ہم نے کہا تھوڑی دیر پہلے تو کہا تھا میں آرہا، اب یہ نالہ کس طرف کو جارہا؟؟؟
کہا شادی میں شرکت کا معاملہ تذبذب میں تھا، اب یقینی ہوگیا، اس لیے معذرت۔۔۔
یہ ساری یقینی صورتِ حال ہماری مخالفت میں کیوں یقینی ہورہی ہے ؟؟؟ ہم نے ٹھنڈی سانس بھری۔۔۔
چوں کہ اس وقت ٹھنڈی سانس والا شتونگڑا دستیاب نہیں تھا اس لیے اس کے بغیر ہی کام چلایا۔۔۔
آج ہمارے پاس معذرتوں کا کافی اسٹاک جمع ہوچکا تھا۔۔۔
شاہد بھائی عرف ٹرومین کو فون کرکے پوچھا تو معلوم ہوا کہ ان کی بائیک کا ٹائر پنکچر ہوگیا ہے، انہیں آنے میں دیر لگے گی۔۔۔
سب شنواری کی طرف روانہ ہوئے۔۔۔
راستے میں پھر اکمل بھائی کو فون کیا تو انہوں نے اٹھا لیا، بتایا کہ سلاطین کے ملبے سے ابھی ابھی گھر پہنچا ہوں ۔۔۔
ہم نے کہا اگرچہ زحمت تو بہت ہوگی لیکن تجھ کو آنا ہوگا، وعدہ نبھانا ہوگا۔۔۔
وہ کچھ دیر تو متذبذب رہے لیکن پھر کہنے لگے اچھا آتا ہوں۔۔۔
اور اکمل بھائی آگئے، اپنا قول نبھا گئے!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شنواری ریسٹورینٹ پہنچ کر نشست سنبھالی اور پھر جو گفتگو شروع ہوئی تو کسی کو کھانا منگوانے کا خیال ہی نہ آیا۔۔۔
یہ ہم ہی تھے کہ کچھ دیر بعد شور کیا کاش باتوں سے پیٹ بھر سکتا تو کھانے کا بل بچ سکتا، فہیم بھائی نے کہا یہ نہیں ہوسکتا۔۔۔
سب کی مشترکہ رائے سے آرڈر دے دیا گیا۔۔۔
اتنی دیر میں اکمل بھائی کی کال آگئی ، میں باہر کھڑا ہوں۔۔۔
ہم اور فہیم بھائی انہیں لینے گئے، ساتھ ہی کھانا آگیا۔۔۔
چکن وائٹ کڑاہی، چکن تکہ، بہاری بوٹی، چکن ملائی بوٹی اور نرم گرم تل لگے کلچے، مزہ ہی آگیا!!!
کھانے ختم ہی ہونے والے تھا کہ اچانک ایک صاحب نے آکر مصافحہ کرنا شروع کردیا۔۔۔
ہم انہیں ’’معاف کرو بابا‘‘ کہنے ہی والے تھے کہ انہوں نے آہستگی سے کہا، شاہد۔۔۔
ارے ٹرومین صاحب آپ ہمیں ڈھونڈ نکالنے میں کیسے کامیاب ہوگئے؟؟؟
اس پر انہوں نے کافی تفصیلات بتائیں جو وہ خود ہی بتائیں تو بہتر ہوگا!!!
یہ کیا ہمارے خلاف کوئی منظم سازش ہوتی ہے کہ ہمیشہ ایسی جگہ بٹھایا جاتا ہے جہاں بیرے کا ہمارے سر پہ سوار ہونا یقینی ہو۔۔۔
بیرا آیا بل لایا، جو ہم نے اکیلے بھگتایا، اگرچہ بعد میں سب نے جمع کرکےہمیں لوٹایا!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھانے کے بعد چائے کے ہوٹل پہنچے۔۔۔
ایک میز کے گرد نشستیں سنبھالیں اور مشترکہ باہمی امور سے متعلق گفت و شنید کا آغاز ہوا جو تقریباً ایک گھنٹے بعد اختتام کو پہنچا۔۔۔
یہیں پر امین بھائی نے اپنے گلے کے سُر بکھیرے جن سے لطف اندوز ہونے ہوٹل کے ملازم تک اپنا کام دھندا چھوڑ کرسننے آکھڑے ہوئے۔۔۔
چائے مزے دار تھی اور محفل جان دار۔۔۔
سب سے پہلے فہیم بھائی بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوتے ہوئے رخصت ہوئے۔۔۔
ان کے گھر سے کال آگئی تھی کہ بہت اڑالی عیاشیاں، اب سیدھے گھر آؤ اور اپنے کام دھندے سے لگ جاؤ، اور ہاں واپسی پر جو فلاں چیز منگوائی تھی وہ ضرور لیتے آنا۔۔۔
فہیم بھائی حسب رواج سعادت مندی سے اچھے مشرقی شوہر کا کردار نبھاتے ہوئے اٹھے، مصافحہ کیا اور رخصت ہوگئے۔۔۔
ان کے جاتے ہی سب اٹھ کھڑےہوئے اور تقریباً ایک بجے شب اپنے اپنے گھر پہنچے اور ہنسی خوشی رہنے لگے!!!