زیک

مسافر
ابو کے پاس ہوتا تھا لیکن اب انہوں نے بھی لینا بند کر دیا ہے
دراصل کاغذی کارروائی بہت بڑھ گئی ہے۔

چار پانچ سال قبل آخری ٹوکن لینے کے لیے کاغذات جمع کروانے گیا تو پہلا سوال یہ ہوا کہ آپ تو سٹیٹ سے باہر رہائش پذیر ہیں ٹوکن کس لیے چاہیے۔ بتایا کہ بچے پڑھتے ہیں، تو جواباً کہا کہ اگر سرکاری سکول میں پڑھتے ہیں تو وہاں سے لیٹر لے کر آئیں اگر پرائیویٹ میں پڑھتے ہیں تو ویری سوری۔ کھڑکی چھوڑ سکول کی طرف نکل لیے، وہاں گئے تو اندر جانے کی اجازت نا ملے، پھر کسی طرح پیغام رسانی ہوئی تو حکم آیا درخواست لکھ کر شناختی کارڈ کی کاپی اور بچے کی جمع کروائی آخری فیس کی سلپ کی کاپی ساتھ لگا کر جمع کروا دیں، اور تین چار دن بعد لیٹر لے لیجے گا۔ تین چار دن گزر گئے۔ لیٹر ملا پھر کھڑکی تک پہنچے تو کاغذات چیک کرنے والے نے کہا کہ پاکستانی لائسنس اسی سال ایکسپائیر ہونے والا ہے۔ پہلا حکم یہ ہوا کہ جتنی مدت کا ٹوکن مطلوب ہے اتنی مدت کا لائسنس بھی باقی ہونا چاہیے۔ بہتیرا کہا کہ چار ماہ رہتے ہیں کروا لوں گا آپ پورے سال کا دے دیں لیکن اگلے چار ماہ سے زائد ٹوکن دینے پر راضی نا ہووے۔ خیر پھر کسی طریقے پر راضی کر لیا تو شناختی کارڈ پر لکھا ایڈریس دیکھ کر بولے کہ آپ کینٹ بورڈ سے کلئیرنس سرٹیفیکیٹ لے کر آئیں کہ آپ سٹیٹ کی حدود سے تو باہر ہیں لیکن کینٹ بورڈ میں آتے ہیں۔

کینٹ بورڈ کی طرف نکل لیے وہاں جا کر رابطہ کیا تو انھوں نے فوٹوسٹیٹ والی دکان سے کلئیرنس سرٹیفیکیٹ کی کاپی لانے کا کہا۔ لایا اور اسے پُر کر کے دیا تو بولے بس یہ جمع ہو گئی ہے آپ دو دن بعد چکر لگائیے تاکہ اس دوران ہم ریکارڈ چیک کر سکیں، گھر کو واپسی ہو گئی۔ دو دن بعد گئے تو صاحب بولے ہم نے ریکارڈ دیکھا ہے آپ نے کینٹ بورڈ کو فلاں فلاں ٹیکس جمع نہیں کروایا ہوا، میں تفصیل لکھ دیتا ہوں آپ اکاؤنٹ والوں سے واؤوچر بنوا لیں اور نیشنل بینک میں جمع کروا کے تین فوٹو کاپیاں کروائیں اور یہیں واپس جمع کروا دیں۔ کوئی 22، 25 سو کے لگ بھگ تھا۔ یہ کارروائی پوری کر کے واپس ہوا تو کاغذات جمع کر لیے اور پھر تین دن کا وقت دے دیا کہ اس دوران اکاؤنٹس والے بینک سے کنفرم کروا لیں گے اور ایسا اس لیے ضروری ہے کہ سال دو سال قبل کچھ ناہنجاروں نے واؤچر پر جعلی سٹیمپس لگا کر بھی کلئیرنس سرٹیفیکٹ لے لیے تھے۔ خیر تین دن اور سہی۔

تین کی بجائے ہفتہ لگ گیا کہ متعلقہ آفیسر کراچی گیا ہوا تھا اور، دفتر میں سرکاری ایمرجنسی ڈاک کے علاوہ کسی کے پاس دستخط کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ کلئیرنس ملا تو پھر ٹوکن آفس کی طرف ہو لیے۔ کاغذات کی نئے سرے سے جانچ پڑتال ہوئی، کوئی سقم نا پا کر ایک اور صاحب کے حوالے کر دیا کہ اب ٹوکن کی فیس کا واؤچر بنوائیں اور جمع کروائیں۔ ہر دو کھڑکیوں پر لمبی قطاریں تھیں۔ کوئی ایک بجے کے لگ بھگ واؤچر ملا اور پھر نیشنل بینک اور اور قطار میں لگ گیا۔ 1200 کے لگ بھگ جمع کروایا اور واپس ٹوکن آفس کی قطار میں۔ کاغذ جمع ہوئے تو ہفتے بعد آنے کا وقت مل گیا۔

وہ آخری ٹوکن تھا، ختم ہوا تو نیا نہیں بنوایا، اپنی مجبوریات اور ضروریات کو سٹیٹ سے باہر منتقل کر لیا۔ ضرورت ہوئی تو پبلک ٹرانسپورٹ اور اشد ضرورت ہوئی تو موٹر سائیکل۔ جہاں گاڑی بِنا کام نہیں وہاں لائین میں لگ کر انٹری کروا لی۔اور اب تو دو سال سے یہ بھی نہیں کیا۔

اسلم مارکیٹ کے بینک میں ایک بچے کی فیس جمع کروانی ہوتی ہے تو دو ماہ میں ایک بار جمع کروانے جاتا ہوں۔ ایک ماہ لیٹ پر 50 روپے کا فائن پڑتا ہے جو باخوشی ادا کر دیتا ہوں کہ ایک پھیرا لگانے سے تو جان بچ گئی ہے۔ :)
 
دراصل کاغذی کارروائی بہت بڑھ گئی ہے۔

چار پانچ سال قبل آخری ٹوکن لینے کے لیے کاغذات جمع کروانے گیا تو پہلا سوال یہ ہوا کہ آپ تو سٹیٹ سے باہر رہائش پذیر ہیں ٹوکن کس لیے چاہیے۔ بتایا کہ بچے پڑھتے ہیں، تو جواباً کہا کہ اگر سرکاری سکول میں پڑھتے ہیں تو وہاں سے لیٹر لے کر آئیں اگر پرائیویٹ میں پڑھتے ہیں تو ویری سوری۔ کھڑکی چھوڑ سکول کی طرف نکل لیے، وہاں گئے تو اندر جانے کی اجازت نا ملے، پھر کسی طرح پیغام رسانی ہوئی تو حکم آیا درخواست لکھ کر شناختی کارڈ کی کاپی اور بچے کی جمع کروائی آخری فیس کی سلپ کی کاپی ساتھ لگا کر جمع کروا دیں، اور تین چار دن بعد لیٹر لے لیجے گا۔ تین چار دن گزر گئے۔ لیٹر ملا پھر کھڑکی تک پہنچے تو کاغذات چیک کرنے والے نے کہا کہ پاکستانی لائسنس اسی سال ایکسپائیر ہونے والا ہے۔ پہلا حکم یہ ہوا کہ جتنی مدت کا ٹوکن مطلوب ہے اتنی مدت کا لائسنس بھی باقی ہونا چاہیے۔ بہتیرا کہا کہ چار ماہ رہتے ہیں کروا لوں گا آپ پورے سال کا دے دیں لیکن اگلے چار ماہ سے زائد ٹوکن دینے پر راضی نا ہووے۔ خیر پھر کسی طریقے پر راضی کر لیا تو شناختی کارڈ پر لکھا ایڈریس دیکھ کر بولے کہ آپ کینٹ بورڈ سے کلئیرنس سرٹیفیکیٹ لے کر آئیں کہ آپ سٹیٹ کی حدود سے تو باہر ہیں لیکن کینٹ بورڈ میں آتے ہیں۔

کینٹ بورڈ کی طرف نکل لیے وہاں جا کر رابطہ کیا تو انھوں نے فوٹوسٹیٹ والی دکان سے کلئیرنس سرٹیفیکیٹ کی کاپی لانے کا کہا۔ لایا اور اسے پُر کر کے دیا تو بولے بس یہ جمع ہو گئی ہے آپ دو دن بعد چکر لگائیے تاکہ اس دوران ہم ریکارڈ چیک کر سکیں، گھر کو واپسی ہو گئی۔ دو دن بعد گئے تو صاحب بولے ہم نے ریکارڈ دیکھا ہے آپ نے کینٹ بورڈ کو فلاں فلاں ٹیکس جمع نہیں کروایا ہوا، میں تفصیل لکھ دیتا ہوں آپ اکاؤنٹ والوں سے واؤوچر بنوا لیں اور نیشنل بینک میں جمع کروا کے تین فوٹو کاپیاں کروائیں اور یہیں واپس جمع کروا دیں۔ کوئی 22، 25 سو کے لگ بھگ تھا۔ یہ کارروائی پوری کر کے واپس ہوا تو کاغذات جمع کر لیے اور پھر تین دن کا وقت دے دیا کہ اس دوران اکاؤنٹس والے بینک سے کنفرم کروا لیں گے اور ایسا اس لیے ضروری ہے کہ سال دو سال قبل کچھ ناہنجاروں نے واؤچر پر جعلی سٹیمپس لگا کر بھی کلئیرنس سرٹیفیکٹ لے لیے تھے۔ خیر تین دن اور سہی۔

تین کی بجائے ہفتہ لگ گیا کہ متعلقہ آفیسر کراچی گیا ہوا تھا اور، دفتر میں سرکاری ایمرجنسی ڈاک کے علاوہ کسی کے پاس دستخط کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ کلئیرنس ملا تو پھر ٹوکن آفس کی طرف ہو لیے۔ کاغذات کی نئے سرے سے جانچ پڑتال ہوئی، کوئی سقم نا پا کر ایک اور صاحب کے حوالے کر دیا کہ اب ٹوکن کی فیس کا واؤچر بنوائیں اور جمع کروائیں۔ ہر دو کھڑکیوں پر لمبی قطاریں تھیں۔ کوئی ایک بجے کے لگ بھگ واؤچر ملا اور پھر نیشنل بینک اور اور قطار میں لگ گیا۔ 1200 کے لگ بھگ جمع کروایا اور واپس ٹوکن آفس کی قطار میں۔ کاغذ جمع ہوئے تو ہفتے بعد آنے کا وقت مل گیا۔

وہ آخری ٹوکن تھا، ختم ہوا تو نیا نہیں بنوایا، اپنی مجبوریات اور ضروریات کو سٹیٹ سے باہر منتقل کر لیا۔ ضرورت ہوئی تو پبلک ٹرانسپورٹ اور اشد ضرورت ہوئی تو موٹر سائیکل۔ جہاں گاڑی بِنا کام نہیں وہاں لائین میں لگ کر انٹری کروا لی۔اور اب تو دو سال سے یہ بھی نہیں کیا۔

اسلم مارکیٹ کے بینک میں ایک بچے کی فیس جمع کروانی ہوتی ہے تو دو ماہ میں ایک بار جمع کروانے جاتا ہوں۔ ایک ماہ لیٹ پر 50 روپے کا فائن پڑتا ہے جو باخوشی ادا کر دیتا ہوں کہ ایک پھیرا لگانے سے تو جان بچ گئی ہے۔ :)
ہم ایک آزاد اور خود مختار قوم ہیں۔ :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ٹوکن ۔ لائیسنس۔سرٹیفکیٹ ۔کلیرنس ۔واوچر۔۔فیس۔۔۔۔۔۔۔۔
یا اللہ یہ آخر کس کفر کی فیکٹری ھے ؟
اب تو یہ کفر مجھ پر بھی واجب ہوتا جارہا ہے۔
 

ابن توقیر

محفلین
دراصل کاغذی کارروائی بہت بڑھ گئی ہے۔

چار پانچ سال قبل آخری ٹوکن لینے کے لیے کاغذات جمع کروانے گیا تو پہلا سوال یہ ہوا کہ آپ تو سٹیٹ سے باہر رہائش پذیر ہیں ٹوکن کس لیے چاہیے۔ بتایا کہ بچے پڑھتے ہیں، تو جواباً کہا کہ اگر سرکاری سکول میں پڑھتے ہیں تو وہاں سے لیٹر لے کر آئیں اگر پرائیویٹ میں پڑھتے ہیں تو ویری سوری۔ کھڑکی چھوڑ سکول کی طرف نکل لیے، وہاں گئے تو اندر جانے کی اجازت نا ملے، پھر کسی طرح پیغام رسانی ہوئی تو حکم آیا درخواست لکھ کر شناختی کارڈ کی کاپی اور بچے کی جمع کروائی آخری فیس کی سلپ کی کاپی ساتھ لگا کر جمع کروا دیں، اور تین چار دن بعد لیٹر لے لیجے گا۔ تین چار دن گزر گئے۔ لیٹر ملا پھر کھڑکی تک پہنچے تو کاغذات چیک کرنے والے نے کہا کہ پاکستانی لائسنس اسی سال ایکسپائیر ہونے والا ہے۔ پہلا حکم یہ ہوا کہ جتنی مدت کا ٹوکن مطلوب ہے اتنی مدت کا لائسنس بھی باقی ہونا چاہیے۔ بہتیرا کہا کہ چار ماہ رہتے ہیں کروا لوں گا آپ پورے سال کا دے دیں لیکن اگلے چار ماہ سے زائد ٹوکن دینے پر راضی نا ہووے۔ خیر پھر کسی طریقے پر راضی کر لیا تو شناختی کارڈ پر لکھا ایڈریس دیکھ کر بولے کہ آپ کینٹ بورڈ سے کلئیرنس سرٹیفیکیٹ لے کر آئیں کہ آپ سٹیٹ کی حدود سے تو باہر ہیں لیکن کینٹ بورڈ میں آتے ہیں۔

کینٹ بورڈ کی طرف نکل لیے وہاں جا کر رابطہ کیا تو انھوں نے فوٹوسٹیٹ والی دکان سے کلئیرنس سرٹیفیکیٹ کی کاپی لانے کا کہا۔ لایا اور اسے پُر کر کے دیا تو بولے بس یہ جمع ہو گئی ہے آپ دو دن بعد چکر لگائیے تاکہ اس دوران ہم ریکارڈ چیک کر سکیں، گھر کو واپسی ہو گئی۔ دو دن بعد گئے تو صاحب بولے ہم نے ریکارڈ دیکھا ہے آپ نے کینٹ بورڈ کو فلاں فلاں ٹیکس جمع نہیں کروایا ہوا، میں تفصیل لکھ دیتا ہوں آپ اکاؤنٹ والوں سے واؤوچر بنوا لیں اور نیشنل بینک میں جمع کروا کے تین فوٹو کاپیاں کروائیں اور یہیں واپس جمع کروا دیں۔ کوئی 22، 25 سو کے لگ بھگ تھا۔ یہ کارروائی پوری کر کے واپس ہوا تو کاغذات جمع کر لیے اور پھر تین دن کا وقت دے دیا کہ اس دوران اکاؤنٹس والے بینک سے کنفرم کروا لیں گے اور ایسا اس لیے ضروری ہے کہ سال دو سال قبل کچھ ناہنجاروں نے واؤچر پر جعلی سٹیمپس لگا کر بھی کلئیرنس سرٹیفیکٹ لے لیے تھے۔ خیر تین دن اور سہی۔

تین کی بجائے ہفتہ لگ گیا کہ متعلقہ آفیسر کراچی گیا ہوا تھا اور، دفتر میں سرکاری ایمرجنسی ڈاک کے علاوہ کسی کے پاس دستخط کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ کلئیرنس ملا تو پھر ٹوکن آفس کی طرف ہو لیے۔ کاغذات کی نئے سرے سے جانچ پڑتال ہوئی، کوئی سقم نا پا کر ایک اور صاحب کے حوالے کر دیا کہ اب ٹوکن کی فیس کا واؤچر بنوائیں اور جمع کروائیں۔ ہر دو کھڑکیوں پر لمبی قطاریں تھیں۔ کوئی ایک بجے کے لگ بھگ واؤچر ملا اور پھر نیشنل بینک اور اور قطار میں لگ گیا۔ 1200 کے لگ بھگ جمع کروایا اور واپس ٹوکن آفس کی قطار میں۔ کاغذ جمع ہوئے تو ہفتے بعد آنے کا وقت مل گیا۔

وہ آخری ٹوکن تھا، ختم ہوا تو نیا نہیں بنوایا، اپنی مجبوریات اور ضروریات کو سٹیٹ سے باہر منتقل کر لیا۔ ضرورت ہوئی تو پبلک ٹرانسپورٹ اور اشد ضرورت ہوئی تو موٹر سائیکل۔ جہاں گاڑی بِنا کام نہیں وہاں لائین میں لگ کر انٹری کروا لی۔اور اب تو دو سال سے یہ بھی نہیں کیا۔

اسلم مارکیٹ کے بینک میں ایک بچے کی فیس جمع کروانی ہوتی ہے تو دو ماہ میں ایک بار جمع کروانے جاتا ہوں۔ ایک ماہ لیٹ پر 50 روپے کا فائن پڑتا ہے جو باخوشی ادا کر دیتا ہوں کہ ایک پھیرا لگانے سے تو جان بچ گئی ہے۔ :)
واہ کے ایک کیری ڈبے کی فرنٹ سکرین پر ڈیکوریشن کررہے تھے۔انہوں نے کہا سابقہ شیشہ صاف کرکے نیا ڈیزائن بنادیں۔ جانبازوں نے مکمل صاف کردیا جس میں ان کا ٹوکن بھی رگڑا گیا۔ حضرت اندر بیٹھے تھے نیا کام دیکھنے گاڑی کے پاس آئے تو جیسے تڑپ ہی اٹھے۔زمین پر بکھرے ٹوکن کو عقیدت کے ساتھ زمین سے اٹھا کر جوڑنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کبھی غصہ ہوجاتے اور کبھی یوں لگتا جیسے ابھی رو پڑیں گے۔ہم نے بڑا سمجھایا کہ بھائی معمولی کیس ہے۔کونسا نیا ٹوکن لینا ہے جا کر ریکارڈ دکھائیے گا اور اپنا ٹوکن لے لیجئے گا سمپل۔
خیر انہیں تو جیسے تیسے راضی کیا مگر آج اس "سمپل" کام اور ان کے دکھ کا اصل اندازہ ہورہا ہے۔
خیر اتنا مشکل پراسس ہے تو ٹوکن کم سے کم دو سال کا تو کردیں اگر پانچ کا نہیں کرتے تو۔یہاں کامرہ میں مقامیوں کے لیے انٹری پاس بنوانا اتنا مشکل تو نہیں ہے مگر یہ سال والا رولا ضرور ہے کہ پلک جھپکتے ہی ایکسپائر ہو جاتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دراصل کاغذی کارروائی بہت بڑھ گئی ہے۔

چار پانچ سال قبل آخری ٹوکن لینے کے لیے کاغذات جمع کروانے گیا تو پہلا سوال یہ ہوا کہ آپ تو سٹیٹ سے باہر رہائش پذیر ہیں ٹوکن کس لیے چاہیے۔ بتایا کہ بچے پڑھتے ہیں، تو جواباً کہا کہ اگر سرکاری سکول میں پڑھتے ہیں تو وہاں سے لیٹر لے کر آئیں اگر پرائیویٹ میں پڑھتے ہیں تو ویری سوری۔ کھڑکی چھوڑ سکول کی طرف نکل لیے، وہاں گئے تو اندر جانے کی اجازت نا ملے، پھر کسی طرح پیغام رسانی ہوئی تو حکم آیا درخواست لکھ کر شناختی کارڈ کی کاپی اور بچے کی جمع کروائی آخری فیس کی سلپ کی کاپی ساتھ لگا کر جمع کروا دیں، اور تین چار دن بعد لیٹر لے لیجے گا۔ تین چار دن گزر گئے۔ لیٹر ملا پھر کھڑکی تک پہنچے تو کاغذات چیک کرنے والے نے کہا کہ پاکستانی لائسنس اسی سال ایکسپائیر ہونے والا ہے۔ پہلا حکم یہ ہوا کہ جتنی مدت کا ٹوکن مطلوب ہے اتنی مدت کا لائسنس بھی باقی ہونا چاہیے۔ بہتیرا کہا کہ چار ماہ رہتے ہیں کروا لوں گا آپ پورے سال کا دے دیں لیکن اگلے چار ماہ سے زائد ٹوکن دینے پر راضی نا ہووے۔ خیر پھر کسی طریقے پر راضی کر لیا تو شناختی کارڈ پر لکھا ایڈریس دیکھ کر بولے کہ آپ کینٹ بورڈ سے کلئیرنس سرٹیفیکیٹ لے کر آئیں کہ آپ سٹیٹ کی حدود سے تو باہر ہیں لیکن کینٹ بورڈ میں آتے ہیں۔

کینٹ بورڈ کی طرف نکل لیے وہاں جا کر رابطہ کیا تو انھوں نے فوٹوسٹیٹ والی دکان سے کلئیرنس سرٹیفیکیٹ کی کاپی لانے کا کہا۔ لایا اور اسے پُر کر کے دیا تو بولے بس یہ جمع ہو گئی ہے آپ دو دن بعد چکر لگائیے تاکہ اس دوران ہم ریکارڈ چیک کر سکیں، گھر کو واپسی ہو گئی۔ دو دن بعد گئے تو صاحب بولے ہم نے ریکارڈ دیکھا ہے آپ نے کینٹ بورڈ کو فلاں فلاں ٹیکس جمع نہیں کروایا ہوا، میں تفصیل لکھ دیتا ہوں آپ اکاؤنٹ والوں سے واؤوچر بنوا لیں اور نیشنل بینک میں جمع کروا کے تین فوٹو کاپیاں کروائیں اور یہیں واپس جمع کروا دیں۔ کوئی 22، 25 سو کے لگ بھگ تھا۔ یہ کارروائی پوری کر کے واپس ہوا تو کاغذات جمع کر لیے اور پھر تین دن کا وقت دے دیا کہ اس دوران اکاؤنٹس والے بینک سے کنفرم کروا لیں گے اور ایسا اس لیے ضروری ہے کہ سال دو سال قبل کچھ ناہنجاروں نے واؤچر پر جعلی سٹیمپس لگا کر بھی کلئیرنس سرٹیفیکٹ لے لیے تھے۔ خیر تین دن اور سہی۔

تین کی بجائے ہفتہ لگ گیا کہ متعلقہ آفیسر کراچی گیا ہوا تھا اور، دفتر میں سرکاری ایمرجنسی ڈاک کے علاوہ کسی کے پاس دستخط کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ کلئیرنس ملا تو پھر ٹوکن آفس کی طرف ہو لیے۔ کاغذات کی نئے سرے سے جانچ پڑتال ہوئی، کوئی سقم نا پا کر ایک اور صاحب کے حوالے کر دیا کہ اب ٹوکن کی فیس کا واؤچر بنوائیں اور جمع کروائیں۔ ہر دو کھڑکیوں پر لمبی قطاریں تھیں۔ کوئی ایک بجے کے لگ بھگ واؤچر ملا اور پھر نیشنل بینک اور اور قطار میں لگ گیا۔ 1200 کے لگ بھگ جمع کروایا اور واپس ٹوکن آفس کی قطار میں۔ کاغذ جمع ہوئے تو ہفتے بعد آنے کا وقت مل گیا۔

وہ آخری ٹوکن تھا، ختم ہوا تو نیا نہیں بنوایا، اپنی مجبوریات اور ضروریات کو سٹیٹ سے باہر منتقل کر لیا۔ ضرورت ہوئی تو پبلک ٹرانسپورٹ اور اشد ضرورت ہوئی تو موٹر سائیکل۔ جہاں گاڑی بِنا کام نہیں وہاں لائین میں لگ کر انٹری کروا لی۔اور اب تو دو سال سے یہ بھی نہیں کیا۔

اسلم مارکیٹ کے بینک میں ایک بچے کی فیس جمع کروانی ہوتی ہے تو دو ماہ میں ایک بار جمع کروانے جاتا ہوں۔ ایک ماہ لیٹ پر 50 روپے کا فائن پڑتا ہے جو باخوشی ادا کر دیتا ہوں کہ ایک پھیرا لگانے سے تو جان بچ گئی ہے۔ :)
سیالکوٹ کینٹ میں مجھے بھی داخل ہونا پڑتا ہے، بچوں کے اسکول کے لیے بھی اور فیکٹری جانے کے لیے بھی۔ ٹوکن کا چکر یہاں بھی ہے، لیکن اللہ نے کچھ کرم کر دیا ہے کہ بھاگ دوڑ سے بچا لیا ہے۔ چونکہ نہ صرف مالکان و مینجر حضرات نے کینٹ سے گزرنا ہوتا ہے بلکہ سارا سال ہمارے جو غیر ملکی کسٹمر آتے ہیں ان کے کینٹ پاسز بھی بنانے ہوتے ہیں سو فیکٹری مالکان نے ایک ریٹائرڈ فوجی ملازم رکھا ہوا ہے جو عام طور پر صوبیدار یا اسی قبیل کا کوئی اور فوجی ہوتا ہے۔ گاڑیوں، موٹر سائیکلوں کے کینٹ ٹوکن اور کسٹمر کے پاسز، وہ صاحب یہی کرتے ہیں اور فوجی ہونے کی وجہ سے کام بھی جلدی کروا لیتے ہیں۔

لیکن آپ نے درست کہا، سیالکوٹ کینٹ میں بھی عوام کو بہت زیادہ خوار کرتے ہیں۔ سیالکوٹ چھاؤنی کبھی شہر سے باہر تھی اب عین شہر کے بیچوں بیچ ہے اور کینٹ کے چاروں اطراف میں لاکھوں لوگ رہتے ہیں اور کچھ علاقے تو ایسے ہیں کہ کینٹ سے گزرے بنا وہاں جایا ہی نہیں جا سکتا اور اوپر سے یہ ٹوکن سسٹم، الامان۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بر سبیلِ تذکرہ، عوام اصل ذلیل و خوار اس وقت ہوتی ہے جب کسی وجہ سے کینٹ کو بند کرتے ہیں اور اکثر کرتے ہیں، الامان و الحفیظ۔ کیا ٹوکن والے اور کیا بغیر ٹوکن کے۔ کچھ سال پہلے کی بات ہے جنرل راحیل شریف صاحب سیالکوٹ تشریف لائے تھے، صبح اسکول بچوں کو چھوڑ تو آیا لیکن دوپہر کو ڈیڑھ بجے چھٹی تھی اور میں کوئی چار بجے کے قریب اسکول پہنچا، اس دن کو یاد کر کے میں اور میرے بچے ابھی تک کانپ جاتے ہیں۔
 
بر سبیلِ تذکرہ، عوام اصل ذلیل و خوار اس وقت ہوتی ہے جب کسی وجہ سے کینٹ کو بند کرتے ہیں اور اکثر کرتے ہیں، الامان و الحفیظ۔ کیا ٹوکن والے اور کیا بغیر ٹوکن کے۔ کچھ سال پہلے کی بات ہے جنرل راحیل شریف صاحب سیالکوٹ تشریف لائے تھے، صبح اسکول بچوں کو چھوڑ تو آیا لیکن دوپہر کو ڈیڑھ بجے چھٹی تھی اور میں کوئی چار بجے کے قریب اسکول پہنچا، اس دن کو یاد کر کے میں اور میرے بچے ابھی تک کانپ جاتے ہیں۔
قبلہ کینٹ ایریا میں اتنی سختی شاید سانحہ پشاور کے بعد سے کی گئی ہے ۔
 
آخری تدوین:
ہم ایک آزاد اور خود مختار قوم ہیں۔ :)
2008 میں سپیڈی جنت کے طلبگاروں نے کام دکھایا تھا، وہ اور شہیدان تو چلے گئے، پر ہم باقیوں کے لیے ہمیشہ کی سردردی چھوڑ گئے۔

اس کے بعد پورے واہ سٹیٹ ایریا کے گرد لگ بھگ 14 سے 16 کلومیٹر لمبی اور 12 فٹ اونچی دیوار بنائی گئی، جس پر خاردار تاریں بھی لگائی گئیں۔ پیدل، سائیکل اور موٹر سائیکل کا داخلہ بھی 5 انٹری گیٹس کے علاوہ مکمل بند کر دیا گیا۔ ہزاروں لوگ روزانہ اپنے کام کاج کے لیے سٹیٹ ایریا میں جاتے رہتے تھے، سو وقت و فیول کا ضیاع، لمبی قطاروں کی تکلیف اور روزانہ ہی لیٹ ہونے سے جڑی چخ چخ شروع ہوگئیں تو مارکیٹ و عوام والوں نے احتجاج اور ہڑتالیں شروع کر دیں۔ لیکن خاکیان ٹس سے مس نا ہوئے۔ آخر بلدیاتی نمائندوں اور سول ایڈمینسٹریشن نے خاکیان کو سمجھایا بجھایا تو دیوار واہ کینٹ میں مختلف آبادیوں کے پاس کہیں ایک اور کہیں دو وکٹ گیٹ بنانے کی اجازت ملی جن کے کھلنے بند ہونےکے اوقات مقرر ہوئے اور سیکورٹی گارڈز کی تعیناتی بھی۔ 6 سے لیکر 10 بجے تک۔ کوئی بڑا آ جائے یا بڑا دن آ جائے تو تقریبات کے دورانیے میں پھر بند۔

ہم 21 کروڑ 90 لاکھ یرغمالی ہیں۔
 
آخری تدوین:

عثمان

محفلین
میں اکثر ایسے حالات میں اپنے کولیگز کو کہتا ہوں کہ ہم سیالکوٹ کینٹ میں نہیں بلکہ جموں کینٹ میں داخل ہو رہے ہیں۔ :)
کیا ایک سادہ آئی ڈی رجسٹر کرنا کافی نہیں چھاؤنی میں داخل ہونے کے لیئے؟
اور چھاؤنی کے رہائشی علاقے میں داخلے کے لئے اجازت کیوں چاہیے؟
 

زیک

مسافر
ویسے، آپ کا فوکس آئی ڈی دیکھانے /جمع کروانے پر ہے یا وہاں رکنے اور وقت ضائع ہونے پر ۔۔ !
میں اصل میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ اگر پاکستانی شناختی کارڈ نہ ہو تو کیا امریکی ڈرائیور لائسنس سے کام چلے گا؟

خیر آج حسن ابدال والی طرف سے زیادہ دیر نہیں لگی اور آسانی سے کام ہو گیا
 
سیالکوٹ کینٹ میں مجھے بھی داخل ہونا پڑتا ہے، بچوں کے اسکول کے لیے بھی اور فیکٹری جانے کے لیے بھی۔ ٹوکن کا چکر یہاں بھی ہے، لیکن اللہ نے کچھ کرم کر دیا ہے کہ بھاگ دوڑ سے بچا لیا ہے۔ چونکہ نہ صرف مالکان و مینجر حضرات نے کینٹ سے گزرنا ہوتا ہے بلکہ سارا سال ہمارے جو غیر ملکی کسٹمر آتے ہیں ان کے کینٹ پاسز بھی بنانے ہوتے ہیں سو فیکٹری مالکان نے ایک ریٹائرڈ فوجی ملازم رکھا ہوا ہے جو عام طور پر صوبیدار یا اسی قبیل کا کوئی اور فوجی ہوتا ہے۔ گاڑیوں، موٹر سائیکلوں کے کینٹ ٹوکن اور کسٹمر کے پاسز، وہ صاحب یہی کرتے ہیں اور فوجی ہونے کی وجہ سے کام بھی جلدی کروا لیتے ہیں۔

لیکن آپ نے درست کہا، سیالکوٹ کینٹ میں بھی عوام کو بہت زیادہ خوار کرتے ہیں۔ سیالکوٹ چھاؤنی کبھی شہر سے باہر تھی اب عین شہر کے بیچوں بیچ ہے اور کینٹ کے چاروں اطراف میں لاکھوں لوگ رہتے ہیں اور کچھ علاقے تو ایسے ہیں کہ کینٹ سے گزرے بنا وہاں جایا ہی نہیں جا سکتا اور اوپر سے یہ ٹوکن سسٹم، الامان۔
میاں جی، لطف کی بات یہ ہے کہ واہ کینٹ میں صرف چار یونٹس ہیں (تفصیل میں نہیں جا سکتا)۔ ان میں سے دو کی لوکیشن رہائشی علاقوں سے کافی دور اور سٹیٹ ایریا کے اختتام پر ہے۔ ایک ہسپتال کی دیکھ بھال والے ہیں اور صرف ایک یونٹ زیک کے گھر کے آس پاس تھی اور اب بھی ہے۔ لیکن اس طرف عوام کے مطلب کی کوئی شے بھی نہیں ہے، صرف ایک گالف کلب ہے جو یقیناً یرغمالیوں کے لیے کبھی نہیں رہا۔ :)
 
میں اصل میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ اگر پاکستانی شناختی کارڈ نہ ہو تو کیا امریکی ڈرائیور لائسنس سے کام چلے گا؟
ویسے کچھ کہہ نہیں سکتا لیکن اگر آپ کے ساتھ کوئی پاکستانی موجود ہو تو شاید اتنا مشکل نا ہو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
کیا ایک سادہ آئی ڈی رجسٹر کرنا کافی نہیں چھاؤنی میں داخل ہونے کے لیئے؟
اور چھاؤنی کے رہائشی علاقے میں داخلے کے لئے اجازت کیوں چاہیے؟
چھاؤنی اگر شہر سے باہر ہو تو فوجی جیسے چاہے سلوک کریں کہ وہاں وہی جائے گا جس کو چھاؤنی میں کام ہوگا۔ سیالکوٹ چھاؤنی جب 1852ء میں بنی تھی تو یہ بھی اصل شہر سے بہت دُور تھی، لیکن اب ڈیڑھ سو سال بعد یہ عین شہر کے وسط میں ہے اور اس کے چاروں طرف لاکھوں کی آبادی ہے اور لوگ چھاؤنی کو ایک راستے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور اگر نہ کریں یا فوجی نہ کرنے دیں تو وہی راستہ چار پانچ گنا زیادہ ہو جاتا ہے۔ دوسرا ساری چھاؤنیوں کو تو انہوں نے خود کمرشل کر دیا ہوا ہے، نہ صرف بڑے بڑے کاروباری مراکز اوردکانیں چھاؤنیوں میں ہیں بلکہ ان کے اپنے اسکولوں کے ساتھ ساتھ پرائیوٹ اسکول اور پھر شادی ہال اور ہسپتال وغیرہ بھی، سو حد سے زیادہ ٹریفک چھاؤنی میں سے گزرتی ہے۔

اب بھی عام حالات میں وہ صرف قومی شناختی کارڈ چیک کرتے ہیں ، اس کے بغیر تو کسی کو گزرنے نہیں دیتے۔ کچھ سختی ہو تو کارڈ کے ساتھ گاڑی اور موٹر سائیکل کا ٹوکن بھی ، زیادہ سختی ہو تو اندراج بھی کرتے ہیں اور کینٹ بند ہو تو کوئی سویلین نہیں گزر سکتا چاہے وہ مر رہا ہو۔ مسئلہ شناخت کا نہیں بلکہ انٹری پوائنٹس پر لگی ہوئی بڑی بڑی لائنوں اور وقت کے ضیاع کا ہے۔ ایک ہی وقت میں سینکڑوں لوگوں کو ایک یا دو فوجی اجازت دے رہے ہوتے ہیں۔ میں نے اکثر وہاں تلخ کلامیاں ہوتی بھی دیکھی ہیں اور شہریوں کے احتجاج بھی۔ ان مسائل کا حل ضروری ہے۔
 

عثمان

محفلین
چھاؤنی اگر شہر سے باہر ہو تو فوجی جیسے چاہے سلوک کریں کہ وہاں وہی جائے گا جس کو چھاؤنی میں کام ہوگا۔ سیالکوٹ چھاؤنی جب 1852ء میں بنی تھی تو یہ بھی اصل شہر سے بہت دُور تھی، لیکن اب ڈیڑھ سو سال بعد یہ عین شہر کے وسط میں ہے اور اس کے چاروں طرف لاکھوں کی آبادی ہے اور لوگ چھاؤنی کو ایک راستے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور اگر نہ کریں یا فوجی نہ کرنے دیں تو وہی راستہ چار پانچ گنا زیادہ ہو جاتا ہے۔ دوسرا ساری چھاؤنیوں کو تو انہوں نے خود کمرشل کر دیا ہوا ہے، نہ صرف بڑے بڑے کاروباری مراکز اوردکانیں چھاؤنیوں میں ہیں بلکہ ان کے اپنے اسکولوں کے ساتھ ساتھ پرائیوٹ اسکول اور پھر شادی ہال اور ہسپتال وغیرہ بھی، سو حد سے زیادہ ٹریفک چھاؤنی میں سے گزرتی ہے۔

اب بھی عام حالات میں وہ صرف قومی شناختی کارڈ چیک کرتے ہیں ، اس کے بغیر تو کسی کو گزرنے نہیں دیتے۔ کچھ سختی ہو تو کارڈ کے ساتھ گاڑی اور موٹر سائیکل کا ٹوکن بھی ، زیادہ سختی ہو تو اندراج بھی کرتے ہیں اور کینٹ بند ہو تو کوئی سویلین نہیں گزر سکتا چاہے وہ مر رہا ہو۔ مسئلہ شناخت کا نہیں بلکہ انٹری پوائنٹس پر لگی ہوئی بڑی بڑی لائنوں اور وقت کے ضیاع کا ہے۔ ایک ہی وقت میں سینکڑوں لوگوں کو ایک یا دو فوجی اجازت دے رہے ہوتے ہیں۔ میں نے اکثر وہاں تلخ کلامیاں ہوتی بھی دیکھی ہیں اور شہریوں کے احتجاج بھی۔ ان مسائل کا حل ضروری ہے۔
میرا کہنے کا مطلب تھا کہ چھاؤنی کے رہائشی علاقوں کے لیے کسی شناخت وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ جبکہ دیگر کئی حساس علاقوں کے لیے ایک مخصوص آئی ڈی اور اس سے وابستہ سکیورٹی کلیئرنس کافی ہونا چاہیے۔
نیٹو کی جن نیول بیس سے میرا واستہ رہا ہے وہاں داخلے کے لیے میرا خیال ہے متعلقہ سوئلینز کو بھی کوئی ایسی دشواری نہیں ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہم 21 کروڑ 90 لاکھ یرغمالی ہیں۔
خیر جیسا کہ مختلف شہروں سے مراسلات بتا رہے ہیں۔ یرغمالیوں کیلئے یہ تمام قید و بند دہشت گردوں کی کرامات ہیں۔
آرمی پبلک سکول پشاور سانحہ کے وقت پاکستان میں موجود تھا۔ اور چند دن قبل ہی چکلالہ کینٹ سے ہو کر آیا تھا۔
سانحہ کے بعد دوبارہ گیا تواسی چیک پوسٹ پر نفری ڈبل اور کاروں کی لمبی قطاریں۔ اکثر لوگ جو پہلے با آسانی آ جا سکتے تھے اب گاڑیاں گھما کر واپس جا رہے تھے۔
اس لئے میرے خیال میں فوج یرغمالیوں کے ساتھ جو سلوک کر رہی ہے وہ ان کی سیکورٹی مجبوری ہے۔ اکا دکا سویلین دہشت گرد جو کرتے ہیں اس کی سزا باقی سب یرغمالیوں کو ادا کرنی پڑتی ہے۔
 
Top