محفل چائے خانہ

محمد وارث

لائبریرین
محفل چائے خانہ

پروفیسر تنقید علی خان۔ "۔۔۔۔۔۔ تو جناب میں عرض کر رہا تھا کہ جب تک ہمارے ادبا و شعرا ناخالص دودھ کی بنی ہوئی چائے پیتے رہیں گے، انکی معروضی رویے انکے عروضی رویوں سے الجھتے ہی رہیں گے اور وہ کبھی بھی اس اعلیٰ قسم کی ادبیات تخلیق نہیں کر سکتے جسے تخلیق کہا جا سکے۔"

مولانا سبز وار۔ "قبلہ میرا تو ماننا ہے کہ جب تک گوالا باوضو ہو کر اور قبلہ رو ہو کر، اسمِ اعظم کا ورد کرتے ہوئے دودھ نہیں دوہے گا تب تک ایسا ہی ناخالص دودھ آتا رہے گا چاہے اس میں پانی ملایا جائے یا نہ ملایا جائے، کیا آپ نے نہیں سنا، علامہ فرما گئے ہیں، نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں سب دھاریں۔"

داد مقصود۔ "واہ واہ واہ، اجی واہ واہ واہ، کیا کہنے جناب، واہ واہ واہ۔"

مولانا سبزوار۔ "آداب۔"

لال خان احمر۔ "میرا کہنا یہ ہے کہ دودھ میں پانی اور پانی میں دودھ ملانے والے دونوں قسم کے گوالوں کو جب تک سولی پر نہیں لٹکایا جاتا اور جب تک انکی بھینسوں کو قومیایا نہیں جانتا تب تک نہ تو اس ملک کے حالات درست ہو سکتے ہیں اور نہ ہی اچھا شعر و ادب تخلیق ہو سکتا ہے، وہ شعر و ادب جو ترقی پسندی کی جان ہے، وہ شعر و ادب جس کی تعلیمات اعلیٰ حضرات لینن اور اسٹالن نے فرمائی ہیں، اپنے نصب العین تک پہنچنے اور ملک میں جدلیاتی مادیت کے نفاذ کے لیے از حد ضروری ہے کہ سب گوالوں کو پھانسی دے دی جائے، ہمارے قبلہ و کعبہ جنابِ فیض احمد فیض فرما گئے ہیں

اے چائے نوشو اٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب دودھ اُبالے جائیں گے، جب جیل گوالے جائیں گے۔"

داد مقصود۔ "واہ واہ واہ، اجی واہ واہ واہ، کیا کہنے جناب، واہ واہ واہ۔"

قاضی قدیر اللہ۔ "چھوڑیں آپ یہ باتیں، فیض احمد فیض کو چائے سے کیا تعلق، وہ تو کڑوے جوشاندے پیتے تھے، اور پھر ان کو گزرے ابھی جمہ جمہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے، کوئی ایک آدھ صدی گزرے گئی تو پھر دیکھیں گے کہ ان کی شاعری میں کوئی دم خم بھی تھا یا نہیں، جبکہ دوسری طرف ہمارے علامہ کی پیش بینی دیکھیئے، آج سے کئی دیائیاں پہلے، ایک ہی شعر میں ہمارے اور گوالوں کے متعلق ایسا کلام فرما گئے ہیں کہ صدیوں تک زندہ و جاوید ہو گیا ہے، کیا پیش بینی تھی یعنی کہ انہوں نے اپنی دُور رس نگاہوں سے دیکھ لیا تھا کہ قاضی قدیر فتویٰ دے گا جب کہ ابھی ہم تولد بھی نہیں ہوئے تھے۔"

لال خان احمر۔ "کونسا شعر'"

قاضی قدیر اللہ۔

"تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے دودھ ملاوٹ کی سزا مرگِ گوالات"

مولانا سبز وار۔ "جزاک اللہ۔"

داد مقصود۔ "واہ واہ واہ، اجی واہ واہ واہ، کیا کہنے جناب، واہ واہ واہ۔"


ساگر ندیم ساگر۔ "ہمیں مردہ پرستی کی سمندر سے نکلنا ہوگا، کب تک ہم اسی بحرِ ذخار کے غوطے کھاتے رہیں گے جبکہ آپ کے سامنے نئے عہد کے ساگر موجزن ہیں، لیکن کسی کا ہماری طرف دھیان ہی نہیں جاتا، سب پی آر کا شاخسانہ ہے، کسی نے ہماری نظم کا ذکر تک نہیں کیا جو ہم نے گوالوں کے موضوع پر لکھی تھی۔"

داد مقصود ۔"ارشاد"

ساگر ندیم ساگر۔


"کاش میں ایک گوالے کا ہی سجّن ہوتا
وہ بڑے پیار سے چاؤ سے بڑے مان کے ساتھ
تازہ خالص، کبھی تو، دودھ پلاتا مجھ کو"

داد مقصود۔ "واہ واہ واہ، اجی واہ واہ واہ، کیا کہنے جناب، واہ واہ واہ۔"

آتش قربان آتش۔ "سرقہ"


ساگر ندیم ساگر۔ "کیا کہا؟"


آتش قربان آتش۔ "سرقہ"


ساگر ندیم ساگر۔ "تم ہوتے کون ہو میری نظم کو سرقہ کہنے والے، تم آج تک خود تو ایک بھی کام کا مصرع کہہ نہیں سکے اور میری تخلیق کو تم سرقہ کہتے ہو۔"


آتش قربان آتش۔ "تمہیں کیا علم شاعری کیا ہے؟ اور میری شاعری کیا ہے، تم، تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔"


مولانا سبزوار۔ "صبر، بھائیو صبر، میرا خیال ہے، قاضی قدیراللہ صاحب سے فتویٰ لے لیتے ہیں۔"


قاضی قدیراللہ۔ "اتنے چھوٹے سے مسئلے پر ہمارا فتویٰ، یہ فیصلہ تو پروفیسر تنقید علی خان صاحب ہی کر دیں گے۔ لیکن یہ فیصلہ تو ہوتا رہے گا لیکن چائے کدھر ہے؟ کیا نام ہے اس چائے والے کا؟"


داد مقصود۔ "اسد اللہ"


قاضی قدیر اللہ۔ "اسد، او اسد۔"

پروفیسر تنقید علی خان۔ "جی جی بلائیے اس کو، چائے نہیں ملی تو سر میں درد شروع ہو گیا۔"

مولانا سبزوار۔ "بھئی ہم پر تو اللہ کی رحمت ہے، کوئی نشہ نہیں لگایا خود کو، چائے، لسی، دودھ، دہی، سب پر الحمدللہ کہتے ہیں، بقولِ شاعر

چاء ہے یا دہی ہے تو
میری زندگی ہے تو"

داد مقصود۔ "واہ واہ واہ، اجی واہ واہ واہ، کیا کہنے جناب، واہ واہ واہ۔"

قاضی قدیراللہ۔ "اسد، اوئے اسد کے بچے'"

اسداللہ۔ "جی جی، حضور حاضر ہو گیا۔"

پروفیسر تنقید علی خان۔ "چائے کدھر ہے بھئی۔"

اسداللہ۔ "کیا بتاؤں حضور، پہلے تو خالص دودھ نہیں مل رہا تھا، وہ ملا تو چینی غائب، وہ لایا تو اب گیس نہیں آ رہی، چائے کیسے بناتا۔"

قاضی قدیراللہ۔ "تو کیا چائے نہیں ملے گی؟"

اسداللہ۔ "ملے گئی کیوں نہیں حضور، ایسی چائے پلاؤں گا کہ کیا یاد کریں گے آپ۔"

مولانا سبزوار۔ "لیکن بناؤ گے کیسے، گیس تو آ نہیں رہی۔"

اسداللہ۔ "حضور، اس کا حل میں نے ڈھونڈ لیا تھا، وہ جو لائبریری سے دیوانِ غالب لایا تھا اس کو جلایا ہے چائے بنانے کیلیے، لیکن وہ تھا ہی کتنا، چند تو صفحےتھے، دودھ تک گرم نہیں ہوا اس سے، اب کلیاتِ میر جلا رہا ہوں، ابھی لاتا ہوں چائے۔"

پروفیسر تنقید علی خان۔ "خوب بدلہ لیا ہے بھئی غالب سے، غالب نے اپنا تخلص اسد چھوڑا اور اس اسد نے غالب کا دیوان ہی جلا دیا، اسے کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو مدوری دور میں دہراتی ہے۔"

داد مقصود۔ "واہ واہ واہ، اجی واہ واہ واہ، کیا کہنے جناب، واہ واہ واہ۔"

اسداللہ۔ "لیجیئے حضور چائے حاضر ہے، ایسی چائے آپ نے کبھی نہیں پی ہوگی جس کے بنانے میں دیوانِ غالب اور کلیاتِ میر کو جلایا گیا ہے بلکہ غالب اور میر کا خون کیا گیا ہے۔"

قاضی قدیراللہ۔ "ہاں بھئی چائے تو واقعی بہت اچھی ہے، پہلی چسکی میں ہی لطف آگیا۔"

مولانا سبزوار۔

"تیری چائے کی کیا کریں تعریف
اسداللہ خاں قیامت ہے"

داد مقصود۔ "واہ واہ واہ، اجی واہ واہ واہ، کیا کہنے جناب، واہ واہ واہ۔"


اسداللہ۔ "بہت شکریہ جناب، آپ چائے سے لطف اندوز ہوں، میں ابھی بِل بنوا کر آیا۔"

----
اسداللہ۔ "ہائیں، یہ سب کدھر گئے، بھاگ گئے؟ واہ بے شاعرو، بِل دیے بغیر ہی بھاگ گئے، اور جاتے ہوئے گلاس اور کپ بھی توڑ گئے، اب لائبریری والوں کو کیا جواب دونگا جن سے دیوانِ غالب اور کلیاتِ میر مانگ کر لایا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں لیکن کیا بھی ہو جائے گا، فضول ہی کتابیں ہونگی جو انہوں نے مجھے دے دی تھیں۔"
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ واہ! کیا ابتدائیہ ہے وارث صاحب۔ جی خوش ہو گیا۔ قبلہ آپ تو اچھے خاصے فکاہیہ مضامین لکھ سکتے ہیں۔ اگلی قسط کا انتظار رہے گا۔ تب تک میں اپنی چائے بنانے کے لئے چینی ڈھونڈ لاؤں۔ :)
 

جیہ

لائبریرین
آداب ۔ فرخ جی۔ میں بفضل خدا۔ٹھیک ہوں۔ آپ سنائیں کیسی گزر رہی ہے؟ کافی ہی پلا دیں بغیر شکر کے مگر ایک شرط ہے بل میں دوں گی۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
آداب ۔ فرخ جی۔ میں بفضل خدا۔ٹھیک ہوں۔ آپ سنائیں کیسی گزر رہی ہے؟ کافی ہی پلا دیں بغیر شکر کے مگر ایک شرط ہے بل میں دوں گی۔

تسلیمات جویریہ۔ بل کی آپ فکر نہ کریں ہمارا ادھار چلتا ہے اس چائے خانے میں۔ مگر یہ اسداللہ کہاں غائب ہے۔ چینی لینے گیا ہے اور ابھی تک نہیں لوٹا۔ شاید کسی گنے کے رس سے کشید کر رہا ہوگا۔ :)
 

مغزل

محفلین
منشا یاد بھی آنے والے ہیں ، خالداحمد صاحب میرے ہمراہ ہیں ، فی الحال ہم قصہ گوالات کا سن رہے ہیں ، موقع ملا تو ادبی چشمکیں شروع کی جائیں‌گی ۔۔
( سپ پ پ۔۔ خالد صاحب نے چائے کا طویل گھونٹ بھرتے ہوئے فرمایا )
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ واہ۔ خالد احمد صاحب آئے ہیں۔ کیا خوب شاعر ہیں۔ خالد صاحب آپ کے اشعار آپ ہی کی نذر کرتا ہوں۔

ترکِ تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں
لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں

حالات کے طلسم نے پتھرا دیا مگر
بیتے سموں کی یاد میں کھویا نہ تو نہ میں

ہر چند اختلاف کے پہلو ہزار تھے
وا کر سکا مگر لبِ گویا نہ تو نہ میں
 

مغزل

محفلین
خالد صاحب ناگواری سے ناک بھنوں چڑھاتے ہوئے ۔۔۔۔
شعر میرے سنائے خود بہ خود
میرے ہوتے مجال کس کی ہے
۔۔۔۔ ( ہم نے بڑی مشکل سے غصہ ٹھنڈا کیا۔ ارے جانے دیجے حضور ،،
( بچہ ہے ہوگئی غلطی ۔۔اب کیا جان لیجے گا):rollingonthefloor:

بڑی مشکل سے موڈ ٹھیک ہوا ۔
اور لب ہائے خالد یہ شعر جاری ہوا ( کمال شفقت کے ساتھ معافی کا اعلان کرتے ہوئے )

’’کسی دروازے پہ رہ جاتی ہیں خالی آنکھیں
کسی دہلیز پہ سر چھوڑ دیا جاتا ہے ‘‘
( خالد احمد )
لیجیے منشا یاد بھی آگئے ، حمید شاھد بھی ہمراہ ہیں۔
 

مغزل

محفلین
فرخ بھائی ، خدا کے لیے یہ سڑی ہوئی چائے واپس کر وا کے میرے لیے اچھی سی فروتھ کافی منگوالیں ، مٹھائی ادھار رہی ، اور سنائیں کیا ادبی مصروفیات ہیں ۔، الحمرا ء میں کوئی تازہ کانفرنس ہورہی ہے کیا ؟؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
فرخ بھائی ، خدا کے لیے یہ سڑی ہوئی چائے واپس کر وا کے میرے لیے اچھی سی فروتھ کافی منگوالیں ، مٹھائی ادھار رہی ، اور سنائیں کیا ادبی مصروفیات ہیں ۔، الحمرا ء میں کوئی تازہ کانفرنس ہورہی ہے کیا ؟؟

قبلہ آپ کا تو پورے چائے خانے پر کنٹرول ہے، جو چاہے کیجیے۔ مصروفیات بہت زیادہ ہیں آج کل حلقۂ اربابِ ذوق نہیں جاتا۔ اور الحمرا کا پتہ نہیں۔
 

مغزل

محفلین
لیجے صاحب، چائے خانہ کی برکت سے ایک ’’ ادبی خبر ‘‘ --
( کراچی میں ہوتے ہوئے لہور کی خبر رکھتے ہیں‌ہم )
’’ اسد رضوی کے ساتھ ایک شام ‘‘
:: صراحت ::
صدارت : شہزاد احمد
مہمانِ خاص ::عطا الحق قاسمی
بتاریخ :: 18 جنوری بروز پیر
الحمراء ھال 3، لاہور ‘‘
(تشریف لائیں‌اور احباب کو بھی دعوت دیجے )
 

مغزل

محفلین
گوالا جات سن کر خالد صاحب نے بڑی قہر آلود نظروں سے بابا جانی کی اوٹ میں چھپتے ہوئے وارث صاحب کو دیکھا
اور سر کھجانے لگے ۔، جبکہ منشا ء یاد اور حمید شاہد کے فلک شگاف قہقہے نے چائے خانے کی فضا اتھل پتھل کردی ۔
خالد علیم اور نوید صادق بھی دوڑے دوڑ ے میز کی طرف چلے آئے ۔ بات سن کر ان کی بھی ہنسی نان اسٹاپ ٹرین ہوگئی ۔
خالد صاحب نے جزبز ہوکے دائیں بائیں دیکھااور زور سے ہنکار بھری ۔۔ پھر خاصے نرم لہجے میں گویا ہوئے ۔
وارث میاں آپ کو سو خون معاف ۔:rollingonthefloor:
 
Top