I think its about time when we stop thinking about society, ur children matters most so think whts right for them at tht young age. When they grow up, they will be able to make their own decisions
I think its about time when we stop thinking about society, ur children matters most so think whts right for them at tht young age. When they grow up, they will be able to make their own decisions
انتہائی غلط نارمز ہیں آپ کی سوسائٹی کی
بات سمجھنے کی اور اپنے اپنے ماحول کی ہے
 
کیا باپ کی بات کر رہے ہیں؟ اگر وہ بہترین پرورش نہیں کر سکتا تھا تو بچے کیوں پیدا کئے؟ ہر باپ تو ایسا نکما نہیں ہوتا۔
بات ماحول اور حالات کی ہوتی ہے
اور ہر کوئی اپنے بچوں کے متعلق جہاں تک ممکن ہو بہتر ہی سوچتا ہے
 

زیک

مسافر
بات ماحول اور حالات کی ہوتی ہے
آپ کی پروفائل کے مطابق آپ میرے تقریباً ہم عمر ہیں، ڈاکٹر ہیں اور اسلام آباد سے ہیں۔ آپ نے تعارف نہیں کرایا اس لئے ممکن ہے میں آپ کے بیک گراؤنڈ میں بہت کچھ مس کر رہا ہوں۔ اسلام آباد گئے کئی سال ہوئے لیکن ماحول میں اتنا فرق نہیں ہونا چاہیئے جتنا یہاں گفتگو میں لگ رہا ہے
 
How can u be so assure that a fath
آپ کی پروفائل کے مطابق آپ میرے تقریباً ہم عمر ہیں، ڈاکٹر ہیں اور اسلام آباد سے ہیں۔ آپ نے تعارف نہیں کرایا اس لئے ممکن ہے میں آپ کے بیک گراؤنڈ میں بہت کچھ مس کر رہا ہوں۔ اسلام آباد گئے کئی سال ہوئے لیکن ماحول میں اتنا فرق نہیں ہونا چاہیئے جتنا یہاں گفتگو میں لگ رہا ہے
مجھے بھی امریکہ ، کینیڈا اور یورپ جانے کا اتفاق ہوتا رہتا ہے مگر وہاں بھی میں نےپاکستانی خاندانوں میں ایسی صورتحال نہیں دیکھی جو آپ بیان کر رہے ہیں
 
آپ نے اسلام آباد کی بات کی تو میں نے آ پکو بتایا ہے کہ وہاں بھی پاکستانی فیملیز کا رہن سہن تقریباؑ یہی ہے۔ اب بحث لمبی اور لا حاصل ہوتی جا رہی ہے جو کہ وقت کا ضیاع لگ رہا ہے
 

امان زرگر

محفلین
ہر معاشرے کے اپنے رسوم و رواج ہوتے ہیں جو والد صبح 5 سے رات 9 تک کھیتوں میں کام کرے تاکہ اس کا بیٹا سکول یا کالج کی فیس ادا کرے اس والد اور بیٹے کی محبت اور انداز تربیت کا اندازہ مغربی معاشرے کی عینک پہن کر نہیں کیا جا سکتا. ہاں شاید کچھ جدید معاشرے میں اقدار کچھ اور ہوں تو وہ مجموعی معاشرے کی نمائندگی نہیں کر سکتے
 
مہد سے لحد تک علم حاصل کرنے کا کہا گیا لیکن میرا کم علم بتاتا ہے کہ اس بابت کوئی حدیث یا قرآنی آیت نہیں کہ پہلی درسگاہ فقط ماں ہی ہے. یا وہ کوئی خاتون ہو گی. ماں کو عزت زیادہ دی گئی ہے. لیکن حقوق اولاد میں دونوں برابر ہیں. اگر اپنی مثال لوں تو ہمارے ہاں یہ معاملہ بالکل برابری کی سطح پر رہا. بچے کو سنبھالنے کا معاملہ الگ ہے. سر پہ پڑے تو مرد بھی کرتا ہے اور آج کل برضا و خوشی کر رہے ہیں. اس میں کوئی حرج نہیں. بلکہ شریعت نے پالنے کی ساری ذمہ داری والد پر رکھی ہے جیسے اگر ماں بچے کو دودھ نہیں پلاتی تو اس پر پوچھ نہیں لیکن والد کا فرض ہے کہ اجرت پر رکھے یا جیسے ممکن بچے کے دودھ کا بندوبست کرے. جہاں تک تعلیم و تربیت کا معاملہ ہے اس میں دونوں برابر کے حصے دار ہوتے ہیں. ہمیں بہت کچھ کتابی علم والدہ اور والد دونوں سے ملا. اخلاقیات، گفتگو، کھانا پینا، بیٹھنا یہانتک کے سونا اور قضائے حاجت کا طریقہ بھی والد صاحب نے سکھایا اور بتایا.
والدین کی خدمت ایک انتہائی الگ معاملہ اور بالغ ہونے کے بعد اولاد کی زندگی میں اثر رسوخ رکھنا ایک الگ معاملہ ہے. بہت سی چیزیں ہمارے ہاں کلچرل ہیں. جن کا شریعت اور قانون سے تعلق نہیں.
 

عثمان

محفلین
ہر معاشرے کے اپنے رسوم و رواج ہوتے ہیں جو والد صبح 5 سے رات 9 تک کھیتوں میں کام کرے تاکہ اس کا بیٹا سکول یا کالج کی فیس ادا کرے اس والد اور بیٹے کی محبت اور انداز تربیت کا اندازہ مغربی معاشرے کی عینک پہن کر نہیں کیا جا سکتا. ہاں شاید کچھ جدید معاشرے میں اقدار کچھ اور ہوں تو وہ مجموعی معاشرے کی نمائندگی نہیں کر سکتے
صرف پاکستانی کسان ہی صبح سے شام تک محنت نہیں کرتا، بلکہ دوسرے ممالک اور دوسری تہذیبوں کے لوگ بھی ایسی محنت اور مشقتوں سے گذرتے ہیں۔ اس لیے اس قسم کے موضوعات پر بات کرتے وقت دوسری تہذیبوں کے خلاف تعصب کی عینک اتار لینی چاہیے۔
 

امان زرگر

محفلین
قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں اولاد کی تربیت کے بارے میں واضح ارشادات موجود ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
” قُوْا أَنْفُسَکُمْ وَأَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ“․(التحریم:۶)
ترجمہ:”اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں“۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تفسیر وتشریح میں فرمایا کہ:
”علموھم وأدِّبوھم“․
ترجمہ:”ان (اپنی ولاد )کو تعلیم دو اور ان کو ادب سکھاؤ“۔
فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ ہر شخص پر فرض ہے کہ اپنے بیوی بچوں کو فرائض شرعیہ اور حلال وحرام کے احکام کی تعلیم دے اور اس پر عمل کرانے کے لیے کوشش کرے۔
اولاد کی تربیت کی اہمیت کا اندازہ ان احادیث سے بھی ہوتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
۱- ”مَانَحَلَ والدٌ أفضلَ مِنْ أدبٍ حسنٍ“․ (بخاری، جلد:۱،ص:۴۲۲)
ترجمہ:”کوئی باپ اپنی اولاد کو اس سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا کہ اس کو اچھے آداب سکھادے“۔
یعنی اچھی تربیت کرنا اور اچھے آداب سکھانا اولاد کے لیے سب سے بہترین عطیہ ہے۔
۲- ”عن ابن عباس․․․․․․قالوا: یارسول اللّٰہ! قد علمنا ما حق الوالد فماحق الولد؟ قال: أن یحسن اسمہ ویحسن أدبہ“․ (سنن بیہقی)
ترجمہ:”حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! والدین کے حقوق تو ہم نے جان لیے، اولاد کے کیا حقوق ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ یہ ہے کہ اس کا نام اچھا رکھے اور اس کی اچھی تربیت کرے “۔
پیارومحبت سے بچوں کی تربیت واصلاح کا ایک واقعہ حضرت عمر بن ابی سلمہ سے منقول ہے، فرماتے ہیں کہ میں بچپن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیرتربیت اور زیرکفالت تھا، میرا ہاتھ کھانے کے برتن میں اِدھر اُدھر گھوم رہا تھا، یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”یا غلامُ سَمِّ اللّٰہ! وکل بیمینک وکل ممایلیک“ ․․․․”اے لڑکے! اللہ کا نام لے کر کھانا شروع کرو اور دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنی طرف سے کھاؤ۔“
ابوداؤد شریف میں حضرت نعمان بن بشیر  سے روایت ہے:
”قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اعدلوا بین أبنائکم اعدلوا بین أبنائکم اعدلوا بین أبنائکم“․(ابوداؤد،جلد:۲،ص:۱۴۴)
ترجمہ:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو، اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو،اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو“۔
اللہ تعالیٰ تمام مسلمان والدین کو اپنی اولاد سے متعلق ذمہ داریاں احسن طریقہ سے نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
 
آخری تدوین:

امان زرگر

محفلین
والد ین کے حق کو اللہ رب العزت نے قرآنِ کریم میں اپنی بندگی اورا طا عت کے فوراً بعد ذکر فرمایا ، یہ اس بات کی طرف اشا رہ ہے کہ رشتوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے ۔
اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: ﴿وَقَضَی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَاناً إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلاَہُمَا فَلاَ تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ وَلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْما وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً رَّبُّکُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِیْ نُفُوسِکُمْ إِن تَکُونُواْ صَالِحِیْنَ فَإِنَّہُ کَانَ لِلأَوَّابِیْنَ غَفُوراً﴾․(۱)
ترجمہ : اور تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سواہ کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آو ، اگر وہ یعنی ماں باپ تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں ، چاہے ان میں ایک پہنچے یا دونوں (اور ن کی کوئی بات تجھے ناگوار گزرے تو ) ان سے کبھی ”ہوں “ بھی مت کہنا اور نہ انھیں جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے با ت کر نا ، اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کر تے رہنا :اے ہمارے پروردگار ! تو ان پر رحمت فرما، جیسا کہ انھوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے(صرف ظاہر داری نہیں، دل سے ان کا احترام کرنا ) تمھارا رب تمھارے دل کی بات خوب جا نتا ہے اور اگر تم سعادت مند ہو تو وہ توبہ کرنے والے کی خطائیں کثرت سے معاف کرنے والا ہے۔
والدین اپنی راحت و آرام کو بچوں کی خاطر قربان کر تے ہیں؛اس لیے اللہ تعالی نے جہاں اپنا شکر ادا کر نے کا حکم دیا ہے وہیں والدین کی شکرگزاری کا بھی حکم ارشاد فر مایا ہے ،سو رة لقمان میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:﴿أَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْْکَ، إِلَیَّ الْمَصِیْرُ﴾(۳) ترجمہ :کہ میرا شکر یہ ادا کرو اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرو، میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔
سورئہ عنکبوت میں اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:﴿وَوَصَّیْْنَا الإِنسَانَ بِوَالِدَیْْہِ حُسْناً وَإِن جَاہَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا﴾(۴) تر جمہ : ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کر نے کا حکم دیا ہے اور ساتھ یہ بھی بتادیا ہے کہ اگر وہ تجھ پر اس با ت کا ذور ڈالیں کہ تو ایسی چیز کو میرے شریک ٹھہرائے جس کے معبود ہونے کی کوئی دلیل تیرے پاس نہ ہو تو ان کا کہنا مت ما ننا ۔
حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ، وہ فر ما تی ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی بھی تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ بوڑھا کون ہے؟ اس شخص نے جواب میں کہا کہ یہ میرا باپ ہے، آپ علیہ السلام نے فرمایا: لا تَمْشِ أمامَہ، وَلَاتَقْعُدْ قَبْلَہ، وَلاَتَدْعُہْ بِاسْمِہ، وَلَاتَسْتَبَّ لَہ․(۸) یعنی ان کے آگے مت چلنا ، مجلس میں ان سے پہلے مت بیٹھنا ، ان کا نام لے کر مت پکارنا، ان کو گا لی مت دینا ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر ورضی اللہ عنہ فر ما تے کہ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر ما یا :ر ضا اللّٰہ مع رضا الوالدین و سخطُ اللّٰٰہِ مع سخطِ الوالدین․(۱۳) یعنی اللہ کی رضا مندی والدین کی رضا مندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی ماں باپ کی ناراضگی میں ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فر ماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : مَنْ أَصْبَحَ مُطِیْعًا فِی وَالِدَیْہِ أَصْبَحَ لَہ بَابَانِ مَفْتُوْحَانِ مِنَ الْجَنَّةِ، وَانْ کَانَ وَاحِدًا فَوَاحِدًا، وَمَنْ أمسیٰ عَاصِیًا للّٰہ فی وَالِدَیْہِ أَصْبَحَ لَہ بَابَانِ مَفْتُوْحَانِ مِنَ النَّارِ، وَانْ کَانَ وَاحِدًا فَوَاحِدًا، قال الرجلُ: وانْ ظَلَمَاہُ؟ قال: وانْ ظَلَمَاہُ، وان ظَلَمَاہُ، وان ظلماہ․(۱۴)
یعنی جس شخص نے اس حال میں صبح کی کہ وہ اپنے والدین کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں اللہ کا فر ما نبر دار رہا تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہو تے ہیں اوراگر والدین میں سے ایک زندہ ہو اور اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرے تو جنت کا ایک دروازہ کھلا رہتا ہے ۔اور جس نے اپنے والدین کے حقوق کی ادائیگی میں اللہ کی نا فر ما نی کی، اس کے بتائے ہوے احکا ما ت کے مطا بق حسنِ سلوک نہ کیا تو اس کے لیے جہنم کے دو دروازے کھلے رہتے ہیں اوراگر والدین میں ایک زندہ ہواوراس کے ساتھ بد سلوکی کر ے تو جہنم کا ایک دروازہ کھلا رہتا ہے۔کسی نے پوچھا کہ اے اللہ کے نبی! اگر چہ ماں باپ نے اس پر ظلم کیا ہو ؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ فر ما یا: اگرچہ والدین نے ظلم کیا ہو۔
ایک حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : بَرُّوْا آبَاءَ کُمْ تَبُرَّکُمْ أَبْنَاوٴُکُمْ․(۲۰) یعنی تم اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو تمہا ری اولاد تمھارے ساتھ حسن سلوک کرے گی۔
حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ جب مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ان سے ملنے کے لیے آئے اور پوچھا تمہیں معلوم ہے کہ میں تمھارے پاس کیوں آیاہوں ؟ انھوں نے کہا کہ نہیں، تو فرمایا: میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے: مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَصِلَ أبَاہُ فِی قَبْرِہ فَلْیَصِلْ اخْوَانَ أبِیْہِ بَعْدَہ․(۲۲) یعنی جو یہ چاہتا ہے کہ اپنے باپ کے ساتھ قبر میں صلہ رحمی کرے تو اس کو چاہیے کہ ان کے بعد ان کے دوستو ں کے ساتھ اچھا سلوک کرے، میرے والد عمر رضی اللہ عنہ اور تمھارے والد کے درمیان دوستی تھی میں نے چاہا کہ میں ا سے نبھاوں (اس لیے تم سے ملنے آیا ہوں)۔
(۱) الاسراء : ۲۳۔۲۵
(۳) لقمان:۴۱
(۴) العنکبوت :۸
(۸) معجم الأوسط، للطبراني:۴/۲۶۷، رقم الحدیث: ۴۱۶۹
(۱۳) شعب الإیمان: ۶/۱۷۷، رقم الحدیث: ۷۸۲۹،۷۸۳۰
(۱۴) شعب الإیمان: ۶/۲۰۶، رقم الحدیث: ۷۹۱۶
(۲۰)المعجم الأوسط:۱/۲۹۹، رقم الحدیث: ۱۰۰۲
(۲۲)صحیح ابن حبان:۲/۱۷۵، رقم الحدیث:۴۳۲
اللہ تعالیٰ تمام اہلِ ایمان کو اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی توفیق سے نوازے، آمین، ثم آمین۔
 
آخری تدوین:
Top