مہد سے لحد تک علم حاصل کرنے کا کہا گیا لیکن میرا کم علم بتاتا ہے کہ اس بابت کوئی حدیث یا قرآنی آیت نہیں کہ پہلی درسگاہ فقط ماں ہی ہے. یا وہ کوئی خاتون ہو گی. ماں کو عزت زیادہ دی گئی ہے. لیکن حقوق اولاد میں دونوں برابر ہیں. اگر اپنی مثال لوں تو ہمارے ہاں یہ معاملہ بالکل برابری کی سطح پر رہا. بچے کو سنبھالنے کا معاملہ الگ ہے. سر پہ پڑے تو مرد بھی کرتا ہے اور آج کل برضا و خوشی کر رہے ہیں. اس میں کوئی حرج نہیں. بلکہ شریعت نے پالنے کی ساری ذمہ داری والد پر رکھی ہے جیسے اگر ماں بچے کو دودھ نہیں پلاتی تو اس پر پوچھ نہیں لیکن والد کا فرض ہے کہ اجرت پر رکھے یا جیسے ممکن بچے کے دودھ کا بندوبست کرے. جہاں تک تعلیم و تربیت کا معاملہ ہے اس میں دونوں برابر کے حصے دار ہوتے ہیں. ہمیں بہت کچھ کتابی علم والدہ اور والد دونوں سے ملا. اخلاقیات، گفتگو، کھانا پینا، بیٹھنا یہانتک کے سونا اور قضائے حاجت کا طریقہ بھی والد صاحب نے سکھایا اور بتایا.
والدین کی خدمت ایک انتہائی الگ معاملہ اور بالغ ہونے کے بعد اولاد کی زندگی میں اثر رسوخ رکھنا ایک الگ معاملہ ہے. بہت سی چیزیں ہمارے ہاں کلچرل ہیں. جن کا شریعت اور قانون سے تعلق نہیں.
اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف بچے کا خرچہ ہی نہیں بلکہ بیوی کا نان نفقہ بھی مرد کے ذمہ ہی ہے اور اسلام میں یہ ذمہ داری بھی ماں کی بیالوجیکل (جسمانی) کیفیات اور ذمہ داریوں کی تقسیم اورترجیحات کے پیش نظر ہی رکھی ہے۔ دودھ پلانے والی بات بھی مرد کی خرچے کی ذمہ داری کے زمرے میں ہی آتی ہے کہ دودھ پلانے والی ماں کا خرچہ مرد کے ذمہ ہے لہذا ساتھ کہا گیا کہ اگر وہ دودھ نہ پلائے تو اس پر فرض نہیں اور مرد سے کہا گیا خرچہ دے کر اس کے لئے دودھ پلانے والی کا بندو بست کرے نہ کہ فیٖڈر لے کر پلائے (مگر جدیدیت اورخواتین کے حقوق کے نام نہاد علمبردار تو شریعت کے اس اصول کی بھی عملی طور پر حمائت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں)اور جدید سائنس اس کی بھی گواہ ہے کہ ماں کے دودھ کی متبادل کوئی خوراک نہیں بلکہ کولسٹرینم پلانے پر زور دیا جاتا ہے۔ اور بچوں کی تربیت اور والدین کے حقوق اور زمہ داریوں کا پورا باب نہ صحیح دو سال تک بچے کو دودھ پلانے والی یونٹ کا ظاہری اور اس کی روح کے ساتھ مطالعہ ضرور کیجئے گا ۔ اور یہ بھی بات درست ہو سکتی ہے کہ صریح الفاظ میں ماں کی گود کو پہلی درسگاہ نہ کہا گیا ہو (باپ کو بھی ماں کے ہوتے ہوئے اس کی ابتدائی تربیت کے لئے کوئی حکم نہیں دیا گیا) لیکن ہر بچے کی ابتدائی تربیت والدہ ہی کرتی ہے ، ہاں مجبوری کی حالت میں اور بات ہے ، اور اگر ماں پیدائش کے بعد مر سکتی ہے تو باپ تو پیدائش سے پہلے بھی مر سکتا ہے تو پھر پہلی تربیت کہاں سے حاصل ہو گی۔ انتہائی قلیل وہ بھی کسی حادثہ کی صورت میں ہو سکتا ہے کہ ماں کی وفات کے چند لمحے بعد معالجین کی مدد سے بچے کو بچا لیا گیا ہو ورنہ ہمیشہ آپکو باپ کے بچے کی پیدائش سے پہلے مرنے کے واقعات تو ملیں گے مگر ماں کے نہیں حتیٰ کہ نبی آخرالزماں کی مثال بھی یہاں پر حوالہ دی جاسکتی ہے۔ لہذا میں اور آپ سمیت ہر بچے کی پہلی تربیت بلا شک وشبہ ماں ہی نے کی ہے۔ اور مفکرین نے جو باتیں کہیں ہیں وہ حقائق اور علم کی روشنی میں ہی کہی ہیں۔
شریعت اور جدید میٖذیکل سائنس اور ماہرین تعلیم اور سوشیالوجسٹ بھی اس بات پر متفق ہیں کہ بہتریں ابتدائی تربیت ماں ہی کر سکتی ہے بلکہ وہ تو کہتے ہیں کتابی علم بھی عورت ہی بہتر دے سکتی ہے۔
اور میں نے کہیں بھی کتابی علم کی بات نہیں کی بلکہ درسگاہ کہا ہے اور درسگاہیں فقط کتابی علم کے حصول کے اداروں کو ہی نہیں کہتے اس طرح ہر بچے کو تقریباؑ خوراک لینے کی پہلی تربیت ماں ہی کرتی ہے۔ اگر ماں اور باپ کے درمیان کفالت کا مقدمہ بھی ہو تو شریعت اور جدید قوانین بھی ماں کو ہی فوقیت دی جاتی ہے۔
اور شریعت میں فضیلت (احسان) کا درجہ چوتھا بنتا ہے اس کی بنیاد وہ حدیث ہے جب صحابی کے سوال کے جواب میں اللہ کے نبی نے تین دفعہ کہا کہ تمھاری ماں کے احسانات ہیں اور چوتھی دفعہ کہا تمھارے باپ کا۔
کیوں؟
جب محبت اور شفقت کی بات چلے تو ماں کی مثال دی جاتی ہے
کہ خدا اپنے بندے سے ستر ماوؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے۔
کسی مفکر نے کہا تھا کہ دنیا میں ہر رشتہ مفاد کے گرد گھومتا ہے سوائے ماں کے
جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔۔
یہ شان کیوں بیان کی گئی یقیناؑ اس کے احسانات کی خاطر اور یہ احسانات پرورش اور تربیت ہی تو ہیں۔
آخری بات پر یہ تسلسل روکتا ہوں کہ جب والدین کا ذکر آتا ہے تو ماں باپ کہا جاتا ہے نہ کہ باپ ماں اور اسی طرح جدید معاشرت والوں کی فوڈ فار تھاٹ کے طور پہ کہوں گا کہ تمھارے معاشرے میں کسی کا باپ پر تو نا معلوم ہو سکتا ہےمگر ماں نہیں۔
رکتے رکتے ایک بات اور
میں نے جینڈر اور ویمن سٹڈیز میں بھی ماسٹر کیا ہوا ہے اور دعوے سے یہ کہ سکتا ہوں کہ معاشرت کے اصولوں پر عقلی گھوڑے دوڑانے والے کبھی قیامت تک بھی اسلامی معاشرتی نظام کے مقابلے کا نظام نہیں لا سکتے کیونکہ اس کے خالق کا دعوی ہے کہ وہ ازل سے ابد تک تمام علوم کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
 
آخری تدوین:
انسان کا اصل مقام اس کا علم ہے جو خالق نے اسے بخشا اور یہ اللہ کا فضل ہے جسے جاہے عطاء کرتا ہے۔
انسان کو غور و فکر کی تلقین کی گئی اور فضل کو تلاش کرنے کی ترغیب دی گئی
فضل یہ ہے کہ اس کی آنکھیں دیکھنا شروع کر دیں اور کان سننا شروع کردیں اور دل محسوس کرنا شروع کر دے دماغ غور فکر کرنے لگ جائے
اس جہان میں ایک سے بڑھ کر ایک علم والا ہے۔جب اہل علم می بیٹھیں یا واسطہ پڑے تو احساس ہوتا یے
غوروفکر سے انسان نے انسانوں سے ہی نہیں پرندوں اور دوسری مخلوقوں سے بھی سیکھا ہہے۔
انسان کا علم جتنا بھی وسیع ہو ، گمان اور تدبیر تک ہی اس کی پہنج ہے
پھر توکل ، صبر ، شکر اور دعا ہی سب سے بڑی طاقت ہے
پتا یہی چلا کہ عشق عقل سے بازی لے گیا
 
السلام علیکم! احباب کی خدمت میں ایک اور سوال کے ساتھ حاضر ہیں.
بندہ اگر غیر مستقل مزاج ہو تو کیا اسے ایسے ہی رہنا چاہیے یا مستقل مزاج ہونا چاہیے؟؟
 

عثمان

محفلین
السلام علیکم! احباب کی خدمت میں ایک اور سوال کے ساتھ حاضر ہیں.
بندہ اگر غیر مستقل مزاج ہو تو کیا اسے ایسے ہی رہنا چاہیے یا مستقل مزاج ہونا چاہیے؟؟
میرا تو خیال ہے کہ غیر مستقل مزاج کی کوشش ہوتی ہے اپنے مزاج کو مستقل کرنے کی۔ :)
 

ابن توقیر

محفلین
السلام علیکم!
کیسے ہیں سب؟
مستقل مزاجی اور غیرمستقل مزاجی کو آسان الفاظ میں کیسے بیان کیا جائےگا؟ میں نے اپنے موجودہ کام سے قبل چند کاروبار کیے مگر زیادہ عرصہ نہ کرسکا۔لوگوں کے سامنے میرا کام کافی اچھا تھا مگر میں،اس میں موجود کچھ مسائل اور اندرونی نقصانات کی وجہ سے،ان سے بھاگ گیا۔اب تو عرصہ ہوا میں سیٹ ہوگیا ہوں مگر جب یہ کام شروع کررہا تھا تب لوگ کہتے تھے کہ تم کوئی ایک کام نہیں کرسکتے،غیرمستقل مزاج ہو۔
 
Top