محمد وارث

لائبریرین
مرزا غالب نے کہا ہے
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی۔
ابن مریم یعنی حضرت عیسیٰ ؑ ،کو ید بیضا کا معجزہ ملا تھا۔ نابینا ،کوڑھ اور فالج کا مریض کے جسم پر اپنا سفید ہاتھ پھیرتے تو وہ بیماربالکل ٹھیک ہوجاتا تھا۔
اس بنا پر کسی کی تکلیف دور کرنے والے کو ابن مریم کہا جاتا ہے۔
ویسے مرد اور عورت کیلیئے ابن آدم اور بنت آدم یا بنت حوا کے لفظ استعمال کیے جاتے ہیں۔
اگر میں غلط ہوں تو کوئی میری بھی اصلاح فرمائے۔
آپ کی باتیں درست ہیں۔ ایک چھوٹی سی تصحیح یہ کہ "یدِ بیضا" کا معجزہ حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کا نہیں بلکہ حضرت مُوسیٰ علیہ السلام کا ہے۔ ید بیضا یعنی سفید چمکدار ہاتھ، حضرت موسی علیہ السلام اپنے گربیان میں ہاتھ ڈال کر نکالتے تھے تو وہ انتہائی سفید چمکدار ہوتا تھا۔ حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کے بہت سے معجزوں میں سے ایک ہے اور قرآن پاک میں اس کا ذکر ہے۔حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کے معجزوں کے لیے "دمِ عیسیٰ" کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔
ید بیضا
 
آپ کی باتیں درست ہیں۔ ایک چھوٹی سی تصحیح یہ کہ "یدِ بیضا" کا معجزہ حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کا نہیں بلکہ حضرت مُوسیٰ علیہ السلام کا ہے۔ ید بیضا یعنی سفید چمکدار ہاتھ، حضرت موسی علیہ السلام اپنے گربیان میں ہاتھ ڈال کر نکالتے تھے تو وہ انتہائی سفید چمکدار ہوتا تھا۔ حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کے بہت سے معجزوں میں سے ایک ہے اور قرآن پاک میں اس کا ذکر ہے۔حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کے معجزوں کے لیے "دمِ عیسیٰ" کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔
ید بیضا
تصحیح کا بہت شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے لکھتے ہوئے تھوڑی سی کنفیوژن تھی،لگتا تھا کہ کچھ غلطی ہے،اس لیے میں نے اصلاح کے لیے بھی کہا۔
آپ کا بہت شکریہ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
علامہ اقبال کا شعریاد آگیا
نہ پُوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو تو دیکھ ان کو
یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
ایک شعر مولانا عبدالرحمٰن جامی سے منسوب ہے، اور انتہائی خوبصورت اور معروف ہے:

حسنِ یوسف، دمِ عیسٰی، یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رکھتے ہیں یوسف (ع) کا حسن، عیسٰی (ع) کا دم (وہ الفاظ جس سے وہ مردوں کو زندہ کرتے تھے) اور موسٰی (ع) کا سفید ہاتھ والا معجزہ یعنی کہ وہ تمام کمالات جو باقی سب حسینوں (نبیوں) کے پاس تھے وہ تنہا آپ (ص) کی ذات میں اللہ نے جمع کر دیئے۔
 
بہت عرصہ پہلے کا پڑھا ہوا ہے،اب تو بھول چکا تھا۔ایک بار پھر شکریہ۔
در اصل علم کی مثال بھی لوہے کی سی ہے جو ہے تو پختہ مگر اگر صفائی ستھرائی نہ کی جائے تو زنگ لگ جاتا ہے۔میں نے اپنی زندگی کے گزشتہ 25 سالون میں اپنی تعلیم کی جھاڑ پونچھ نہیں کی۔سب گرد آلود ہوگیا ہے۔
محمد وارث
 
Top