محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
اللہ کرے بھوک کا زور اور زیادہ
آج حاضر ہے یاسر شاہ بھائی کی خوبصورت نظم کی پیروڈی
یہ ہے شوہروں کی جنّت ،یہاں چپقلِش بھی ہوگی
کبھی سوکنوں کی صورت یہ بڑی خلِش بھی ہوگی
کبھی وہ پکارہی ہے ، کبھی ہم پکا رہے ہیں
کبھی اُس کی ڈِش بھی ہوگی ،کبھی اپنی ڈِش بھی ہوگی
کبھی منہ لپیٹ سوؤں تو کبھی میں گُل بداماں
’’کبھی یہ چلن بھی ہوگا ،کبھی وہ روِش بھی ہوگی‘‘
’’نہیں ہوتی ہے بہاراں ،کبھی پورا سال جاناں!
کبھی ٹھنڈ بھی لگے گی ،تو کبھی تپِش بھی ہوگی‘‘
مری گفتگو بھی یکساں نہیں پاؤ گےہمیشہ
کبھی پیار سے ملوں گی، کبھی سر زنِش بھی ہوگی
میں اگر ہوں گل تمھاری،مرے خار بھی تو چاہو
’’جو مہک سے حظ اٹھاؤ ،تو چبھن کو بھی سراہو‘‘
خلیل بھائی یہاں آپ نے ایک منطقی سقم چھوڑ دیا وہ یوں کہ جب پہلے شعر میں آپ سوکن کا ذکر کر ہی چکے تو دوسرے شعر کو یوں ہونا چاہیے تھا :
کبھی یہ پکا رہی ہے کبھی وہ پکا رہی ہے
کبھی اِس کی ڈش بھی ہوگی کبھی اُس کی ڈش بھی ہوگی
کیا خیال ہے ؟
ارے یہ تو سامنے کی بات تھی-میں نے ہی نہیں غور کیاحضرت یہ بھی تو دیکھیے کہ پوری نظم بھابی صاحبہ کی جانب سے مکالمہ ہے۔
ایک اور کاوش استادِ محترم اور احباب کے ذوق کی نذر:
اگر وہ ترس ہم پر کھا رہے ہیں
تو پھر ملنے سے کیوں کترا رہے ہیں
جو کہتے تھے ہمیں گمراہِ منزل
ہمارے پیچھے پیچھے آرہے ہیں
کہا تھا تم نے پچھتاؤ گے اک دن
ذرا دیکھو تو، ہم پچھتا رہے ہیں
تمہارا ذکر ہے، ہم ہیں، قلم ہے
کئی دیوان لکھے جا رہے ہیں
جو ہیں ناواقفِ آدابِ محفل
سبب یہ ہے کہ ہم تنہا رہے ہیں
ہمیں ماضی کے طعنے دینے والو
ہمیں معلوم ہے، ہم کیا رہے ہیں
کسی کا مان رکھنا مدّعا ہے
سو ہم خوش ہیں، سو ہم مسکا رہے ہیں
نصیحت کیلیے کیا کم ہے عاطفؔ؟
جو تھے ساتھی، بچھڑتے جا رہے ہیں
عاطفؔ ملک
اکتوبر ۲۰۱۹
بہت عمدہ،اب پیشِ خدمت ہے جناب عاطف ملک بھائی کی خوبصورت غزل کی پیروڈی
یقیناً چھپ کے وہ کچھ کھارہے ہیں
تبھی ملنے سے وہ کترا رہے ہیں
جو کہتے تھے ہمیں کھانے کا بھوکا
ہمارے پیچھے خود بھی کھارہے ہیں
کہا تھا تم نے کچھ کھاؤ گے اک دن
ذرا دیکھو تو، یہ ہم کھارہے ہیں؟
تمہارا ذکر ہے، ہم ہیں، کچن ہے
کئی پکوان چکھے جا رہے ہیں
بہت کچھ کھا چکے ہیں پیٹ بھر کر
مگر ہم , جو ابھی تک کھارہے ہیں
ہمیں کھانے کے طعنے دینے والو
ہمیں معلوم ہے کیا کھا رہے ہیں
جو تازہ تھے وہ ہم سب کھا چکے ہیں
جو تھے باسی وہ بچتے جا رہے ہیں
عاطف ملک کی غزل کی پیروڈی از محمد خلیل الرحمٰن
ایک ڈاکٹر شاعر یہاں بھی نصیب ہو تو یقینا ہماری خوش مذاقی سے فیس بھی معاف ہوجاتی۔۔۔ لیکن کجا ڈاکٹری اور کجا پوئٹریبہت عمدہ،
ہم نے بھی کھاتے پیتے(ناشتے کے دوران) پڑھی ہے یہ ہزل
اور ڈاکٹر چھپ کے ہی ناشتہ کرتے ہیں کیونکہ مریض دیکھ لیں تو رولا ڈال دیتے ہیں
یہ محض خوش فہمی قرار دی جا سکتی ہے۔ اگر ڈاکٹر شاعر نے آپ کو رقیب سمجھ لیا، یا کسی رقیب سے تازہ تازہ زخم کھا کر بیٹھا ہو، تو آپ کی خیر نہیں۔ایک ڈاکٹر شاعر یہاں بھی نصیب ہو تو یقینا ہماری خوش مذاقی سے فیس بھی معاف ہوجاتی۔۔۔ لیکن کجا ڈاکٹری اور کجا پوئٹری
غزل
موسموں کا مزاج اچھا ہے
کل سے بہتر ہے آج، اچھا ہے
فرد بہتر، معاشرہ بہتر
آپ اچھے، سماج اچھا ہے
روٹھ کر بھی وہ مسکراتے ہیں
یہ چلن، یہ رواج اچھا ہے
رستگاری غموں سے ہوتی ہے
بیٹھے سے کام کاج اچھا ہے
وہ تفنن جو دل پہ بار نہ ہو
اے مرے خوش مزاج !اچھا ہے
احمدؔ اچھی ہے تیری گمنامی
تیرے سر پر یہ تاج اچھا ہے
محمد احمدؔ
اتنے دھیمے مزاج کی غزل ہے کہ پیروڈی بھی کاٹ دار نہ ہو سکی۔اب حاضر ہے جناب محمداحمد کی خوبصورت غزل کی پیروڈی
آج اُن کا مزاج اچھا ہے
بلکہ بہتر ہے آج، اچھا ہے
آج تو منہ سے پھول جھڑتے ہیں
ہم بھی اچھے، سماج اچھا ہے
بات پر آج مسکراتے ہیں
چلیے یه بھی رواج اچھا ہے
آج ہم ان پہ واری جاتے ہیں
نذر دیں یا خراج، اچھا ہے
آج تو یه ترا نیا انداز
اے مرے "خوش مزاج!" اچھا ہے
کیا ہی اچھی ہے تیری چپ اے دوست
تیرا کم گو مزاج، اچھا ہے
کم از کم اتنی تو کوشش کی ہے ہم نے کہ اچھی خاصی غزل کو محبوب کے قصیدے میں تبدیل کردیا ہے۔اتنے دھیمے مزاج کی غزل ہے کہ پیروڈی بھی کاٹ دار نہ ہو سکی۔
اب حاضر ہے جناب محمداحمد کی خوبصورت غزل کی پیروڈی
آج اُن کا مزاج اچھا ہے
بلکہ بہتر ہے آج، اچھا ہے
آج تو منہ سے پھول جھڑتے ہیں
ہم بھی اچھے، سماج اچھا ہے
بات پر آج مسکراتے ہیں
چلیے یه بھی رواج اچھا ہے
آج ہم ان پہ واری جاتے ہیں
نذر دیں یا خراج، اچھا ہے
آج تو یه ترا نیا انداز
اے مرے "خوش مزاج!" اچھا ہے
کیا ہی اچھی ہے تیری چپ اے دوست
تیرا کم گو مزاج، اچھا ہے
اتنے دھیمے مزاج کی غزل ہے کہ پیروڈی بھی کاٹ دار نہ ہو سکی۔
احمد بھائی کو اپنا تخلص دھیماؔ رکھنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئے ۔اتنے دھیمے مزاج کی غزل ہے کہ پیروڈی بھی کاٹ دار نہ ہو سکی۔
اس مشاہدہ کے بعد زوجہ نے جھمیلوں سے کہاں نکلنے دینا تھا دوبارہمجھ سے بنوا کے چائے پی اُس نے
دھر لیا زوجہ نے اکیلے
اب نہیں رابطہ جمیلہ سے
پھنس گئے زیست کے جھمیلے میں
بہت خوب۔
اس مشاہدہ کے بعد زوجہ نے جھمیلوں سے کہاں نکلنے دینا تھا دوبارہ
اب نہیں رابطہ جمیلہ سے
پھنس گئے زیست کے جھمیلے میں
کھائی قلفی تو ہو گیا نزلہ
"بہہ گئے خواہشوں کے ریلے میں"
میٹھا میٹھا طعنہاحمد بھائی کو اپنا تخلص دھیماؔ رکھنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئے ۔
جوابِ طعنہتابش بھائی کی خوبصورت غزل پر ہماری مشقِ ستم ظریف:
گھومنے وہ گئے ہیں میلے میں
خوار ہوتا ہوں میں اکیلے میں
کتنی گائے کٹیں کمیلے میں
دال روٹی کے اس جھمیلے میں
کھائی قلفی تو ہو گیا نزلہ
"بہہ گئے خواہشوں کے ریلے میں"
مجھ سے بنوا کے چائے پی اُس نے
دھر لیا زوجہ نے اکیلے میں
اب نہیں رابطہ جمیلہ سے
پھنس گئے زیست کے جھمیلے میں
ہم نے دی "سِیرنی" "مُساہد" کو
آ کے "رجوان" بولا "پیلے" "میں"*
زندگی میں خوشی ہے کچھ ایسے
جیسے قیمہ ہو کچھ کریلے میں
محمد احمدؔ
*شیرنی * مُشاہد *رضوان *پہلے *میں
واہ واہ کیا کہنے بہت بہترینزندگی میں خوشی ہے کچھ ایسے
جیسے قیمہ ہو کچھ کریلے میں