عمار ابن ضیا
محفلین
اب تک آپ نے انہی لوگوں سے ملاقات کے تذکرے پڑھے ہوں گے جو ایک دوسرے کو آپس میں جانتے تھے یا ملاقات کے بعد ان کی جان پہچان ہوگئی۔ لیکن آج کا قصہ کچھ دل چسپ اور منفرد ہے۔
تعلیمی درسگاہوں اور جامعات میں نابینا طلبا و طالبات کو دورانِ امتحان یہ سہولت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے ساتھ کسی کو بطور لکھاری بٹھالیں تاکہ وہ بندہ انہیں امتحانی پرچہ انہیں پڑھ کر سنائے اور وہ جوابات لکھواتے جائیں اور لکھاری انہیں لکھتا جائے۔ جامعہ کراچی میں، میری جماعت میں تین نابینا طالبات ہیں۔ ان میں سے دو طالبات کا آج "اسلامی تاریخ" کا پرچا تھا۔ جب وہ اپنے لیے کسی لکھاری کی تلاش کررہی تھیں تو سب نے مجھے کہا کہ تم چلے جاؤ ایک کے ساتھ تو۔۔۔ میں اپنے کل کے پرچے کی تیاری کررہا تھا لیکن بہرحال ان کے ساتھ جانے کو تیار ہوگیا۔ دوسری طالبہ کے ساتھ ہماری کلاس کی دوسری لڑکی جارہی تھی۔
قصہ مختصر، جب ہم کمرہ امتحان میں پہنچے اور پرچہ میرے ہاتھ آیا تو خوشگوار حیرت ہوئی۔ جانتے ہیں کیوں؟ امتحانی پرچہ کی کمپوزنگ جمیل نوری نستعلیق میں ہوئی تھی۔ اور "شعبہ اسلامی تاریخ" غالباً "کلک" کے خط نسخ میں لکھا تھا۔
پرچہ بہت مختصر تھا۔ آدھ گھنٹہ میں ہوگیا۔ مجھے حیرانی تھی کہ کیا واقعی اتنا مختصر پرچا ہے؟ میں نے کمرے میں موجود استاد صاحب سے دریافت کیا۔ وہ میرے پاس آئے اور انہوں نے تصدیق کی کہ ہاں، اتنا ہی ہے۔ پھر میں اپنے مطلب کی بات پر آیا۔
میں نے ان سے پوچھا کہ "یہ پرچا کس نے بنایا ہے؟
بولے، "میں نے۔"
میں نے کہا، "یہ فونٹ تووووو۔۔۔۔ جمیل۔۔۔۔۔"
بولے، "جمیل نوری نستعلیق ہے۔"
میں حیران۔۔۔ پوچھا، "آپ کو کیسے ملا؟"
اب وہ مجھے گھوریں۔۔۔ پوچھنے لگے، "آپ۔۔۔۔ عمار۔۔۔؟؟؟"
میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ میں نے کہا، "جی۔۔۔ آپ؟"
بولے، "میں فیصل۔۔۔!"
میرا پہلا تکا تھا کہ فیصل قریشی؟؟؟ بولے، "نہیں۔۔۔ فیصل قریشی نہیں۔ میں محفل پر اس نام سے نہیں ہوتا۔"
اب میں نے پوچھا بھی کہ پھر کس نام سے ہوتے ہیں تو مسکراکر یہ کہتے ہوئے چل دیے کہ "یہ رہنے دیں کہ کس نام سے ہوتا ہوں۔"
میں کمرے سے باہر چلا آیا۔
تعلیمی درسگاہوں اور جامعات میں نابینا طلبا و طالبات کو دورانِ امتحان یہ سہولت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے ساتھ کسی کو بطور لکھاری بٹھالیں تاکہ وہ بندہ انہیں امتحانی پرچہ انہیں پڑھ کر سنائے اور وہ جوابات لکھواتے جائیں اور لکھاری انہیں لکھتا جائے۔ جامعہ کراچی میں، میری جماعت میں تین نابینا طالبات ہیں۔ ان میں سے دو طالبات کا آج "اسلامی تاریخ" کا پرچا تھا۔ جب وہ اپنے لیے کسی لکھاری کی تلاش کررہی تھیں تو سب نے مجھے کہا کہ تم چلے جاؤ ایک کے ساتھ تو۔۔۔ میں اپنے کل کے پرچے کی تیاری کررہا تھا لیکن بہرحال ان کے ساتھ جانے کو تیار ہوگیا۔ دوسری طالبہ کے ساتھ ہماری کلاس کی دوسری لڑکی جارہی تھی۔
قصہ مختصر، جب ہم کمرہ امتحان میں پہنچے اور پرچہ میرے ہاتھ آیا تو خوشگوار حیرت ہوئی۔ جانتے ہیں کیوں؟ امتحانی پرچہ کی کمپوزنگ جمیل نوری نستعلیق میں ہوئی تھی۔ اور "شعبہ اسلامی تاریخ" غالباً "کلک" کے خط نسخ میں لکھا تھا۔
پرچہ بہت مختصر تھا۔ آدھ گھنٹہ میں ہوگیا۔ مجھے حیرانی تھی کہ کیا واقعی اتنا مختصر پرچا ہے؟ میں نے کمرے میں موجود استاد صاحب سے دریافت کیا۔ وہ میرے پاس آئے اور انہوں نے تصدیق کی کہ ہاں، اتنا ہی ہے۔ پھر میں اپنے مطلب کی بات پر آیا۔
میں نے ان سے پوچھا کہ "یہ پرچا کس نے بنایا ہے؟
بولے، "میں نے۔"
میں نے کہا، "یہ فونٹ تووووو۔۔۔۔ جمیل۔۔۔۔۔"
بولے، "جمیل نوری نستعلیق ہے۔"
میں حیران۔۔۔ پوچھا، "آپ کو کیسے ملا؟"
اب وہ مجھے گھوریں۔۔۔ پوچھنے لگے، "آپ۔۔۔۔ عمار۔۔۔؟؟؟"
میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ میں نے کہا، "جی۔۔۔ آپ؟"
بولے، "میں فیصل۔۔۔!"
میرا پہلا تکا تھا کہ فیصل قریشی؟؟؟ بولے، "نہیں۔۔۔ فیصل قریشی نہیں۔ میں محفل پر اس نام سے نہیں ہوتا۔"
اب میں نے پوچھا بھی کہ پھر کس نام سے ہوتے ہیں تو مسکراکر یہ کہتے ہوئے چل دیے کہ "یہ رہنے دیں کہ کس نام سے ہوتا ہوں۔"
میں کمرے سے باہر چلا آیا۔