محمد خرم یاسین بھائی کا انٹرویو

آپ کے بچے کون کون سی جماعت میں ہیں اور گھر میں اردو ادب سے لگاؤ پہلے اور اب کس کس کو تھا/ہے؟
بیٹا "محمد عارش" ابھی پری نرسری میں ہے اور بیٹی ابھی دو سال کی ہونے والی ہے اس لیے بس ہنستی کھیلتی رہتی ہے۔ گھر میں والدِ محترم بڑے ریگولر قاری تھے اور اخبارات و رسائل منگواتے تھے اس لیے دیگر بہن بھائی بھی پڑھنے لکھنے کے شوق میں گرفتار ہوئے۔ والدِمحترم کی ڈائریوں میں بہت کچھ ایسا ہے جسے الگ الگ نظم و نثر کے حصے میں رکھنا ہے، تدوین کرنی ہے اور شاید اشاعت بھی۔ وہ صحافت کے میدان سے منسلک رہے اور فیصل آباد سے نکلنے والے معروف اخبار روزنامہ عوام، ملت و دیگر کئی اخبارات میں لکھتے رہے۔شاید ان کے کالموں کی تعداد سینکڑوں میں ہو۔ مجھ سے بڑے بھائی بہت کمال کے غزل گو شاعرہیں لیکن اب کافی عرصے سے مصروفیات کے باعث انھوں نے کچھ نہیں لکھا جب سے مجھ سے چھوٹا بھائی بہت اعلیٰ مزاح نگار ہے لیکن وہ بھی کچھ پراجیکٹس میں پھنسا ہے اور لمبے عرصے سے میں نے اس کی کوئی تحریر نہیں پڑھی البتہ اس کی ایک کتاب اس حوالے سے بالکل تیار ہے دیکھیے کب اشاعت کی باری آتی ہے۔ بیگم کو پڑھنے کا شوق زیادہ ہے وہ کچھ لکھتی نہیں۔
 
زندگی اتنی خوشگوار نہ ہوتی اگر کیا نہ ہوتا؟
اگر بچے نہ ہوتے۔ بچے زندگی کا سرمایہ ہیں بلکہ اب تو جینا مرنا سب انھی کے لیے ہے۔ جب آپ باہر سے تھکے ہارے آتے ہیں اور آپ کی گاڑی کی آواز سن کر پھولوں جیسے بچے بابا کہتے ٹانگوں سے لپٹ جاتے ہیں، معصوم خواہشات منوانے کے لیے آپ سے پیار جتاتے ہیں اور آپ کے ڈیوٹی پر جاتے وقت دکھی ہو کر ہاتھ پکڑ لیتے ہیں یا دامن کھینچتے ہیں تو حقیقی معانی میں زندگی اور خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ والدین کی وفات کے بعد اگر اولاد بھی نہ ہوتی تو زندگی یقیناً اتنی خوش گوار نہ ہوتی۔
 
اردو محفل پر آپ کو کون سے محفلین پسند ہیں؟
ایک تو استادِمحترم اعجاز عبید صاحب ہیں۔ دوسرے نایاب بھائی جن کا جو بھی مراسلہ پڑھیں اتنی دعائیں ملتی ہیں کہ اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔پھر تابش بھائی اور سید ذیشان صاحب کو اس لیے پسند کرتا ہوں کہ انھوں نے اردو کو ڈیجیٹلائز کرنے میں بے مثال خدمات دی ہیں ۔ ان کے علاوہ ہر وقت ہنسی بکھیرتے دوستوں میں عدنان اکبر نقیبی بھائی ، یاز بھائی اور نیرنگ بھائی بھی پسند ہیں۔ زیک بھائی اور عارف کریم بھائی (نجانے انھیں کیا ہوا ہے عرصے سے ان کا کوئی مراسلہ نہیں پڑھا) اس لیے پسند ہیں کہ یہ محفل کے تنوع میں اضافہ کرتے ہیں (اگرچہ زیک بھائی کی بہت سی باتوں پر اعتراض بھی ہوتا ہے) ۔
اگر بیلنسڈ شخصیات کی بات کریں تو آپ جنابہ اور عرفان سعید بھائی پسند ہیں۔فلک شیر بھائی اس لیے پسند ہیں کہ بڑی خوبصورت نثم کہتے ہیں جب کہ فرقان بھائی بھی اپنے بے باکانہ اسلوب کی وجہ سے اچھے لگتے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح کردوں کہ جن بھی احباب کے نام لیے سب سے تعلق محض ان کے مراسلوں تک ہی ہے کسی کو بھی ذاتی طورپر نہیں جانتا نہ ہی ذاتی گفتگو ہوئی ہے۔ باقی محفلین کے مراسلے بھی بہت ہی کم پڑھے ہیں اور کبھی گفتگو تو تقریباً نہ ہونے کے برابر ہی رہی ہے۔
 
آخری تدوین:
مایوسی طاری ہونے لگے تو کس طرح قابو پاتے ہیں؟
مایوسی طاری ہونے لگے تو بس یہی سوچتا ہوں کہ یہ میری بد اعمالیوں کا نتیجہ ہے اور مجھے کم از کم لازمی عبادات پر ضرور دھیان دینا چاہیے۔ لازم عبادات کا پورا نہ کر پانا میرے لیے سب سے بڑی مایوسی ہے اس لیے دیگر مایوسیاں اگر کبھی ہوں بھی تو اس کے نیچے دب جاتی ہیں۔
 
کیا دس سال قبل دیکھا تھا کہ آج یہاں کھڑے ہوں گے؟ زندگی کے نہایت غمگین لمحوں میں کون سی شے ہمیشہ سہارا رہی؟
ہر گز نہیں، مجھے تو ایک سال قبل بھی معلوم نہیں تھا کہ میں کہاں کھڑا ہوں گا اور نہ ہی اب معلوم ہے کہ اگلے سال کہاں کھڑا ہوں گا۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں مثلاً ایک تو یہ کہ تعلیم کی امپرومنٹ کا سلسلہ مسلسل جاری ہے اور دوسرا یہ کہ مختلف قسم کی جابز بھی ساتھ ساتھ چلتی رہی ہیں جن سے مستقبل اور حال دونوں میں بڑی مختلف قسم کی تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں۔زندگی کے نہایت غمگین لمحے والدین کے بچھڑنے سے ہی منسلک رہے اور ان میں دعا نے سب سے زیادہ سہارا دیا۔ میرے خیال میں دعا ایک ایسی نعمت ہے جو قبول ہو یا نہ ہو دل کو اطمینان ضرور ہوجاتا ہے کہ ہم نے اپنی پریشانیاں اور مصائب ایسی ہستی کے سپرد کیے جس کے سوا کوئی بھی ان کا مداوا نہیں کرسکتا۔ علامہ محمد اقبال کا تیسرا خطبہ بھی دعا کے بارے میں ہی ہے لیکن یہ خطبہ تو اب پڑھا، دعا پر یقین پرا نا ہے۔
 
اقبال؟
کرشن چندر؟
منٹو؟
افتخار عارف؟
ممتاز مفتی؟
کشور ناہید؟
محمد خرم یاسین؟

اقبال: تحریک
کرشن چندر: صاف گو
منٹو:"محض" افسانہ نگار
افتخار عارف:باکمال اردوگو
ممتاز مفتی: بولڈ لکھاری
کشور ناہید: بولڈ شاعرہ
محمد خرم یاسین:راہیء منزل
 
آپ شاید اس لیے بھی یہ کہہ رہے ہیں کیونکہ آپ ایک خاتون کو انٹرویو دے رہے ہیں مگر شاید آپ کو یہ معلوم نہیں کہ خاتون یہی جاننا چاہتی ہیں کہ انہیں کیا کیا نہیں کرنا ہے!


آپ کا مشاہدہ یقینا معاملے کا ایک بہت اہم رخ ہے اور اس کریہہ رخ پر مجھے افسوس ہی نہیں بلکہ بعض جگہوں پر حیرت بھی ہے کیونکہ خواتین مردوں سے زیادہ pure ہوتی ہیں، اتنی بڑی ارادی contamination کرنے کا سوچتی کیسے ہیں!

مزید یہ کہ فیصل آباد میں ادبی نشستیں کہاں ہوتی ہیں اور ان میں خواتین کے لیے مناسب ماحول ہے؟
فیصل آباد میں بہت سی مستقل ادبی نشستیں ہوتی ہیں جن میں ہر جمعے کو شام 7 بجے اور بعض اوقات یہ وقت بدل بھی جاتا ہے جیسے مغرب کے بعد حلقہ اربابِ ذوق کا اجلاس پریس کلب میں ہوتا ہے۔
ایک مستقل نشست اتوار کے روز حلقہ ارباِبِ قلم کے تحت ہوتی تھی اب اسے سردار آصف نے سنبھال لیا ہے ۔ یہ نشست آرٹس کونسل کی بیٹھک میں ہوتی ہے اور وقت عصرکے بعد کا ہے لیکن تجربے میں ہے کہ مغرب ہوہی جاتی ہے
اس کے علاوہ بزمِ منصور، تمثیل گر، انجم سلیمی حلقہ وغیرہ کی جانب سے آئے روز نشستوں کا اہتمام ہوتا رہتا ہے۔ مستقل نشستوں میں سے کچھ کا نام میں بھول رہا ہوں۔ جب میں ریڈیو پاکستان پر تھا تو ادبی پروگرام "دبستان" کی صورت میں بھی ایک نشست ہوتی تھی۔ یہ ریکارڈڈ پروگرام ہر جمعے کے روز شام 7 بجے ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتا تھا ۔ اب بھی یقیناً ہوتا ہوگا۔ میں رمضان شریف میں بطور مہمان گیا تھا اور اس وقت تک وقت یہی شام 7 بجے کا تھا۔
 
ممتاز مفتی منٹو سے بھی زیادہ"بولڈ" ہیں؟:)
شاید ہوں لیکن مجھے نہیں لگتے۔آ پ کا مطالعہ یقینا ً زیادہ ہوگا اس لیے آپ کی رائے کا احترام ہے۔ ویسے ممتاز مفتی کو جو بولڈ کہا جاتاہے میرے خیال میں اس کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے خانہ کعبہ کو "کالا کوٹھا" کہنا۔ میرے نزدیک ان کے بولڈ ہونے کی اور بھی بہت سے وجوہ ہیں جن میں سے ایک تو یہ ہے کہ وہ لگی لپٹی نہیں رکھتے، جو انھیں سچ لگے کہہ دیتے ہیں۔ اب صحیح طرح یاد نہیں لیکن میں نے خود کے انٹرویو میں پڑھا تھا (یہ انٹرویو شایدجاوید چودھری نے لیا تھا) کہ انھوں نے بانو قدسیہ کو کالی بلی کہا اور قدرت اللہ شہاب کے بارے میں رائے دی کہ ان کے شہاب نامے کا وہ سارا حصہ جھوٹ ہے جس میں کبھی کھوپڑیاں ان کے صحن میں رقص کرتی ہیں اور کبھی بلاوں سے سامنا ہوتا ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے نظریات کے ابلاغ میں بولڈ رہے ہیں۔ البتہ ممتاز مفتی نے "کالا کوٹھا" ایک ادبی تکنیک کے تحت استعمال کیا ہے جس پر لمبی گفتگو ہوسکتی ہے۔ میں اس لفظ کی ہر گز حمایت نہیں کرتا لیکن اس ادبی تکنیک کے حوالے سے ضرور بات کرتا ہوں۔
 
آخری تدوین:
شاید ہوں لیکن مجھے نہیں لگتے۔میں نے ممتاز مفتی کو مکمل پڑھا ہے اور منٹو جو جزوی لیکن اس جزوی مطالعے میں بھی زیادہ بولڈ لگے۔ آپ کا مطالعے یقینا ً اس معاملے میں وسیع ہوگا۔
میرا مطالعہ قطعا وسیع نہیں۔ البتہ میں نے آپ کے برعکس منٹو کو کافی حد تک پڑھا ہے (لگ بھگ سوا سو افسانے) اور ممتاز مفتی کو بہت تھوڑا۔ :)
 
السلام علیکم بھیا !
ہماری جانب سے چند سوالات کے جوابات آپ سے مطلوب ہیں ،

01 : آپ کی نظر میں علم تصوف کی کیا تعریف ہے اور کیا آپ سمجھتے ہیں کہ شاعری علم تصوف کی شاخ ہے ؟
02 : شاعری کرنے کا فن کیا قدرت کی جانب سے بندے کو عطا کی جاتا ہے یا یہ خود اختیاری عمل ہے جو ہر انسان با آسانی کرسکتا ہے ؟
03 : کیا دنیاوی آسائش کے بغیر انسان اپنی زندگی پرسکون گزارسکتا ہے ؟
04 : ہٹلر کے بارے میں آپ کیا رائے رکھتے ہیں کیا اس کےاصول انسانیت کے لیے فائدہ مند ہیں ؟
05 : کیا ہومیو پیتھک کا علاج انسان کے لیے فائدہ مند ہے اور کیا آپ نے کبھی ہیومیو پیتھک کے کسی معالج سے علاج کے لیے رجوع کیا ہے ؟
06 : اگر پیدل چلنا انسان کے لیے صحت مندی کی نشانی ہےتو موٹر انجن کی ایجاد کس ضرورت کے تحت کی گئی ،آپ اس موضوع پر کیا رائے رکھتے ہیں ؟
07 : اگر اردو محفل کا پلیٹ فورم حادثی طور پر بندہو جائے تو آپ اس حادثی نقصان کو کون سے درجے کا سانحہ قرار دیں گے ؟
08 : کیا مرد کے لیے شادی کا بندہن ضروری ہے ؟
09 : موبائل فون کے بےجا استعمال سے انسانی رشتے متاثر ہوئے ہیں آپ کے نزدیک اس بات کی کیا حقیقت ہے ؟
10 : کوئی ایسی بات یا کوئی ایسا راز جو کہ آپ کے ذاتی زندگی میں بہت اہمت رکھتا ہو اس پر سے پردہ اٹھتے ہوئے اس کو محفل میں آشکار کریں ؟
 
آپ کی نظر میں علم تصوف کی کیا تعریف ہے اور کیا آپ سمجھتے ہیں کہ شاعری علم تصوف کی شاخ ہے ؟
علمِ تصوف کے بارے میں علامہ محمد اقبا ل ہی کے خیالات سے آغاز کروں گا۔ علمِ تصوف روحانی تجربہ ہے اور یہ تجربہ آپ کو وہ علم بخشتا ہے جو فلسفہ اور شاعری نہیں بخشتی ۔ یہ آپ کو وجدان سے دوچار کرتا ہے اور وجدان علمِ حیرت کی اگلی شاخ ہے جہاں آپ محض متحیر رہ کر دیوانگی کی جانب نہیں بڑھتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے کرم سے وجدانی کیفیت میں آپ پر انکشافِ ذات ہوتاہے۔ہمارے ہاں بہت سی معروف امثال ایسے لوگوں کی ہیں جنھوں نے ساری زندگی فلسفے میں سر کھپایا لیکن وہاں اپنے سوالات کا جواب نہ پا کر تصوف کی جانب مائل ہوئے اور اطمینانِ قلب پایا ۔ ان میں سب سے بڑی مثال امام غزالی کی ہے۔ دوسری مثال خود علامہ محمد اقبال کی ہے۔ علامہ محمد اقبال لکھتےہیں کہ جس طرز پر ہمارے صوفی اور تصوف کام کرتے تھے آج اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ آج صوفیا کا بگڑا ہوا حال ہی عالمِ اسلام کو ذہنی پسماندگی میں مبتلا کرنے کا سب سے بڑا سبب ہے اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پانچ سو سالوں سے فکرِ اسلامی پر جمود کی کیفیت طاری ہے۔ یہ الفاظ علامہ صاحب کے ہیں اور میں ان سے متفق ہوں کہ ہماری علمی پستی میں عصرِ حاضر کے نام نہاد بے عمل صوفیا کا بڑا کردار ہے واللہ اعلم۔ بقول اقبال: نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رشمِ شبیری
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ تصوف کوئی بیانیہ نہیں ہے اسی لیے صوفیا کرام کی بہت کم کتب ایسی ملیں گی جن میں ان کی ذات کا مکمل اظہار ہو یا تصوف کے تجربے کی جزئیات وغیرہ شامل ہوں۔ اس بارے میں بھی علامہ محمد اقبال نے اپنے خطبہ اول میں اس تجربے کے چار اجزا بیان کیے ہیں جن میں اول تو یہ ہے کہ اس کو من و عن بیان ہی نہیں کیا جاسکتا ، پھر حضوری کی کیفیات ہیں، پھر اس تجربے کو اس کے اجزا میں تقسیم کرنے کی بات ہے۔ اب ان سب باتوں سے تو یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شاعری جو کہ آپ کے جذبات و تخیلات کا بیان ہے، اس میں تصوف کا بیان تو آسکتا ہے، اسے تصوف کی شاخ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
 
شاعری کرنے کا فن کیا قدرت کی جانب سے بندے کو عطا کی جاتا ہے یا یہ خود اختیاری عمل ہے جو ہر انسان با آسانی کرسکتا ہے ؟
آپ نے "فن" کی بات کی ہے تو کسی بھی فن میں کمال حاصل کرنے کے لیے محنت کی ضرورت ہوتی ہے البتہ ساری اردو شاعری میں مجھے محض ایک مثال ایسی ملی ہے جس میں ایک شخص بنا استاد کے نہ صرف نعت کا عظیم ترین شاعر بنا بلکہ اس میں ایسے ایسے کمالات بھی کیے کہ حقیقتاً عقل دنگ رہ جائے مثلاً ایک نعت میں حسنِ مطلع کے سو سے زائد اشعار (جب کہ پوری اردو دنیا میں تا حال کوئی بھی شاعر گیارہ سے زیادہ اشعار حسنِ مطلع کے نہیں لکھ سکا)، مشکل ترین صنائع کا نہایت خوبصورتی سے استعمال (محض صنعتِ ترصیع ہی استادی ثابت کرنے کے لیے کافی ہے)، منظر نگاری کا ایسا کمال کہ میرانیس سے کسی بھی مقام پر موازنہ کیا جاسکے، اردو، فارسی، عربی اورہندی کے الفاظ کی مصرعوں میں ایسی نقاشی کہ پڑھنے والا عش عش کر اٹھے۔۔۔اور یہ شخصیت احمد رضا خان صاحب کی ہے۔ ان کے علاوہ جتنے بھی شعرا کو ابھی تک پڑھا سبھی نے اپنے فن میں کمال حاصل کرنے کےلیےمحنت کی ہے البتہ اس عمل کو مکمل خود اختیاری بھی نہیں کہا جاسکتا۔ پریکٹس سے آپ چیزیں قابوکرنے کے قابل تو ہوجاتے ہیں لیکن ان میں کتنے بڑے ماہر بنتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت پر منحصر ہے۔ الیگزنڈر فلیمنگ کی محنت اور لگن تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جو انعام عطا کیا اس کی طرز الہامی تھی۔۔۔ نہ پھپھوندی کا ٹکڑا گرتا ، نہ جرثومے مرتے اور نہ ہی یہ دریافت ہوتی۔ نہ سیب گرتا، نہ ہی شعور میں یہ بات سماتی اور نہ ہی اگلا سلسلہ چلتا، نہ ہی تار روشن ہوتی اور نہ ہی جہان روشن ہوتا اور نہ ہی تھامس ایڈیسن عظیم لوگوں کی فہرست میں شامل ہوتا۔ آپ ان تمام تجربات میں دیکھ سکتے ہیں کہ محنت اور لگن تو ہے ہی لیکن اللہ تعالیٰ کا انعام بھی ساتھ ساتھ ہے اور میرے خیال میں آپ کی لگن کو دیکھتے ہوئے ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے جب اللہ تعالیٰ اس علم کے دروازے آپ کے دل و دماغ پر کھول دیتا ہے۔ جدید نفسیات بھی اس سائنس کو مانتی ہے۔
 
کیا دنیاوی آسائش کے بغیر انسان اپنی زندگی پرسکون گزارسکتا ہے ؟
اگر میں اپنی ذات کی بات کروں تو مجھے لگتا ہے کہ میری زندگی کا سکون میرے اعزاو اقربا کی خوشی سے جڑا ہے۔ اگر میرے پاس اپنے بچوں کو دینے کے لیے گھر نہیں، مناسب خوراک نہیں، اچھا سکول نہیں تو میں غربت میں جتنا بھی مطمئن ہوں، اپنے بچوں کی جانب سے غیر مطمئن ہی رہوں گا۔ اس لیے اگر محض اپنی ذات کی بات ہو تو انسان آسائشوں کے بغیر بھی زندگی پر سکون گزار سکتا ہے لیکن جہاں آپ کی ذات سے بہت سے لوگ وابستہ ہوں وہاں آسائشوں کا میسر نہ ہونا روحانی آزار کا سبب بنتا ہے۔ کم از کم میرے ساتھ تو ایسا ہی ہے کیوں کہ مجھے ہمیشہ خود سے زیادہ اپنے رشتہ داروں کا خیال رہا ہے۔
 
ہٹلر کے بارے میں آپ کیا رائے رکھتے ہیں کیا اس کےاصول انسانیت کے لیے فائدہ مند ہیں ؟
ہٹلر کے بارے میں زیادہ نہیں پڑھا البتہ اس کے خلاف بننے والی بہت سی یہودی فلمیں جن میں "بوائے ان دا سٹرپڈ پجاما"، "بی فور فال"، "لائف از بیوٹی فل" اور دیگر کئی فلمیں دیکھی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک سخت گیر اور ظالم شخص تھا لیکن بہرحال فلمیں کہانیوں پر بنائی جاتی ہیں اور کہانیاں ضروری نہیں کہ سچ ہوں بقول ایک فلاسفر کے "Stories are edited realities"
البتہ یہ اصول تو سختی سے انسانیت کے خلاف ہے کہ آپ اپنی نسل یا قوم کو عظیم ترین سمجھتے ہوئے باقی سب کو روند دیں۔ اب میں جو بات کہنے والا ہوں اس سے شاید دوست متفق نہ ہوں لیکن یہ بات عزیز احمد ایسے بڑے تاریخ دان نے اپنی کتاب "برٹش امپیرلیزم ان انڈیا" میں کہی ہے۔۔۔ اس کا ملخص پیش کرنا چاہوں تو یہ ہے کہ ہم ڈارون کو محض نظریہ ارتقا اور سائنس کے حوالے سے جانتے ہیں جب کہ اس کے نظریہ ارتقا کی پیروی کرتے ہوئے دنیا میں جتنی جنگ و غارت گری ہوئی اس کے اثرات پر غور نہیں کرتے۔ اگر میں یہ سمجھ لوں کہ میں سب سے منفرد اور اعلیٰ ہوں اور میرا بچاو محض اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ میں باقی سب کو یا تباہ کردوں یا اپنے تابع ۔۔۔تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس سے کتنی بڑی بربادی واقع ہوسکتی ہے۔ اگر ہٹلر محض نسل پرستی یا قوم پرستی کی وجہ سے یہ اقدامات کرتا رہا تو یہ انسانیت کے خلاف اور غلط تھے میں ان کی مذمت کرتا ہوں۔
 
Top