محمد خرم یاسین بھائی کا انٹرویو

اردو محفل کا آپ کی زندگی پر کوئی اثر پڑا ہے؟
جی ہاں پڑا۔ اور وہ یہ کہ اب میں زیادہ حوصلے اور ہمت کے ساتھ اردو ادب کی کچھ مخصوص اصناف کی نمائندگی کرسکتا ہوں۔مزید یہ کہ اس کے مختلف تھریڈز کا میں اپنے دوستوں اور شاگردوں کو حوالہ بھی دیتا ہوں کہ ان کا جائزہ ضرور لیں۔ یعنی اس طرح یہ میرے خیالات کا اہم حصہ بن چکی ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
پروین شاکر کو لبرلز ہیروئن مانتے ہیں اور اسلامسٹس اس کے خاص نسوانی جذبات کے بیان کی شاعری کو بری نظر سے دیکھتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ وہ ان دو دھڑوں کے درمیان پھنس گئی ہے۔جب کوئی خاتون اپنے باطن اور ظاہر کے مخصوص اوقات کا احوال سرِ عام کھلی محفلوں میں بیان کرے گی تو عوام الناس کا ری ایکشن بنتا ہے اس لیے میں خواتین کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ کلام معیاری ہو تو نسوانی جذباتیت کی سیڑھی کی ضرورت نہیں، بالخصوص ایسے معاشرے میں جو مذہبی اور معاشرتی اقدار میں سختی سے گندھا ہوا ہو ۔اس میں اس کی ایسی کوئی بھی حرکت جہاں چند مردوں کی واہ واہ حاصل کرے گی وہیں ہزاروں مردو خواتین اس کے خلاف آواز بھی اٹھائیں گے۔ بس یہی کچھ محرکات مجھے اس کی شہرت کے پیچھے نظر آتے ہیں۔ مزید یہ کہ اشفاق احمد ورک نے "خاکہ مستی" میں شاید"خوشبو والی شاعرہ" کے عنوان سےپروین شاکر کا خاکہ لکھا ہے، اسی ضمن میں اس کا مطالعہ بھی کافی مدد مہیا کرسکتا ہے۔
اس بات سے اعتراض ہے خصوصا انفرادیت کے حوالے سے. پابندی انفرادیت کے لیے ظلم ہے. اس پر جبر سرقے کو وجود میں لاتا ہے. میں سمجھتی ہوں شاعر بالخصوص تخییل اور وجدانی صلاحیت سے محروم ہے تو وہ شاعر ہی نہیں. پروین شاکر کی شاعری میں "خیال " سے گفتگو پر اتنی گرفت ہے اس کو " نقل " سے "اصل " کا سفر بھی کہا جاسکتا ہے "دھیان " پر ارتکاز کی وجہ سے .. یہی کسی بھی شاعر، مصنف کی انفرادی پہچان ہے. میں سمجھتی ہوں منٹو نے اپنی پہچان بھی اس لیے بنالی جبکہ اسکو لکھا ہضم مشکل سے ہوتا ہے کہ اس نے اس خاص موضوع سے متعلق حساسیت پیدا کرلی تھی یا ودیعت کردہ تھی. ہم اس کو گالیاں جتنی بھی دیں یا پڑھ کے جتنا برا بھلا کہیں، اس کی اپنی انفرادی پہچان ہے اس کو حظ کے طور پر پڑھ لیں یا معاشرتی برائیوں پر حساسیت کا المیہ جان لیں دونوں برابر ہے. بیشتر لوگ اس کو حظ لیتے پڑھتے منفیت کی جانب رواں دواں ہوتے ہیں. اب دیکھیے یورپ کے مفکرین ادباء میں بھی پہلے اس قسم کی رحجانات تھے کہ میری این ایوان نے اپنے مردانہ نام جارج ایلیٹ کے طور ناول نگار شہرت پائی رفتہ رفتہ ان کو سوچ کی آزادی دی گئی تو اس وجہ سے وہ قوم ترقی تو کرگئی اس آزادی سے اخلاقی تنزلی کا.شکار بھی ہوگئی ...
 

نور وجدان

لائبریرین
دیکھیے یہ ٹینشن 1857 کے بعد آغاز پذیر ہوئی اور اس کی وجوہ میں اگر یہ کہوں کہ ایک شخص جس کا گھر بار لٹ چکا ہو، بچے بھوکے ہوں، جان کے لالے ہوں تو ایسی صورت حال میں اگر وہ زلف خم جاناں کا شکار رہے تو بہت بڑی زیاتی ہوگی۔ میرا بالکل اسی موضوع پر ایک تحقیقی مقالہ بعنوان "اردو شاعری بطور محرک تحریک آزادی" ایک ریسرچ جنرل"نور تحقیق" میں اشاعت کے لیے گیا ہے ۔ یہ ریسرچ جنرل اگست کے مہینے میں "آزادی نمبر" نکال رہا ہے اس لیے امید ہے کہ اگست میں آرٹیکل شائع ہوجائے تو میں یہاں اس فورم پر شئیر کردوں گا۔ تو بات جہاں تک احساس کی ہے تو غلام شخص کے محسوسات میں یقینا تبدیلی آتی ہے۔ یہی تبدیلی اس کی تحاریر میں بھی آجاتی ہے۔ اسی قسم کی کیفیات سے 1857 کے بعد ہمارے شعرا گزر رہے تھے کہ اوپر سے انجمن ترقی ادب کا تڑکا بھی لگ گیا جس کے بعد رومانویت والوں اور ترقی پسند والوں کے درمیان ایک سخت جنگ دکھائی دیتی ہے۔ یہاں تک کہ یہ دونوں دھڑے احمد ندیم قاسمی اور وزیر آغا کی وفات تک خوب فعال دکھائی دیتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر جدیدیت کا حامی ہوں اور کلاسیکیت کا بھی ادب کرتا ہوں کہ اس میں میر و غالب ایسے شعرا موجود رہے لیکن کلاسیکیت کا نعرہ لگانے والے حضرات اگر ایک بار کم از کم ایک بار ضرور ضرور کلاسیک شعرا میں محض جوش ہی کا دیوان دیکھ لیں تو انھیں اندازہ ہوجائے گا کہ اس کلاسیکیت کی آڑ میں بوس و کنار کے مناظر، محبوب کے اعضا کے نام اوران کے افعال، امرد پرستی پر فخر اور نہ جانے کیا کیا بیان کیا جارہا تھا اور کیا یہ محض حظ آفرینی کے سوا کسی قسم کی مقصدیت کا بھی نمائندہ تھا ؟ مرزا شوق کی مثنوی زہرَ عشق جس کے بارے میں کہیں پڑھا تھا کہ اسے پڑھ کر لوگ اپنے جذبات کے ہاتھوں خود کشی کرلیتے تھے ، آپ ذرا ایک بار پڑھئے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ فکری حوالے سے اسے دورَ حاضر کے لطائف سے زیادہ کسی چیز کا نام نہیں دیا جاسکتا اور اس قسم کے ادب کی اب نہ ضرورت ہے اور نہ ہی اہمیت۔اور ایک بار حکیم مومن خان مومن کی مثنوی دوم کا بھی مطالعہ کیا جائے تو بندہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ جوان مرد و خواتین کے سامنے ان اشعار کی کیا تشریح بیان کی جائے جن میں وہ اپنے محبوب کے منھ اور پہلو ذائقے کی بات کرتا ہے۔اس لیے محض کلاسیکیت ہمارے ہمارے عصری مسائل کی نمائندگی کرنے یا کسی بھی قسم کی مقصدیت پسندی سے دوری کا سبب تھی اور دونوں دھڑوں میں خوب تن گئی تھی۔ اس لیے جب ان دونوں کے درمیان کی راہ نکالنے حسرت موہانی، فیض احمد فیض اور ناصر کاظمی ایسے شعرا سامنے آئے تو نہ صرف احساس نہیں مرا بلکہ جدیدیت بھی ساتھ ساتھ چلتی دکھائی دی۔ میرے خیال میں تو ایسی ہی وجوہات کی بنا پر ہماری شاعری میں فکری تنوع در آیا۔
ابھی تک اس کو پڑھنے سے محروم ہوں. اس جدیدیت کی جانب رواں دواں رحجان کی اک وجہ سمجھ آگئی ہے .. میں اس خاص احساس کی باریکیوں، جسمانی اشکالات سے پرے جو احساس ہے اس سے متاثر ہوں. میری فیسبک پر آج کل کی ابھرتی شاعرہ سیماب ظفر کی شاعرہ سے دوستی ہے. اس کے کلام میں اسطرح کی باتیں نہیں پر احساس کا جو انداز اور تخییل یا وجدان کی جو چوٹ ہے، وہ پڑھنے والے کو ہلا دیتی ہے .. میں تو ویسے ہی ایسے شاعروں سے بہت متاثر ہو جاتی ہوں ....احساس تو نازک ہی ہوتا ہے تبھی اچھا لگتا ہے مگر جب احساس سوار ہوجائے تو یہی مقصدیت ختم ہوجاتی ہے ..اس دور میں یہ کلام شاید بادشاہوں کے لیے بھی لکھا جاتا ہوگا ... اس سے بادشاہِ وقت کی خوشی مقصود ہے جبکہ آج کل کا کلام عام قاری کے لیے ہے. مجھے اچھا لگا آپ کی باتیں اچھی ہیں بہت .. امید سے بڑھ کے اچھے لگے خیالات مگر اس کے ساتھ آپ کے انداز میں کچھ تلخی ہے اگر اس تلخی کو نرمی میں ڈھال دیں اور خود کو احساس سے مفتوح کرلیں تو آپ کا تجرباتی کلام بھی وجدانی سطح پر چلا جائے گا
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
اب دیگر محفلین بھی ہمارے مہمان سے سوالات پوچھ سکتے ہیں۔ :)
محمد خرم یاسین بھائی سے سوالات پوچھنا تو چاہتا ہوں لیکن آپ نے ماشاء اللہ سوالات کی ایک بہت طویل لسٹ پوچھ لی ہے، اور مجھے اس لڑی کو پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا! اس لیے جھجک رہا ہوں کہ کہیں جو سوال میں پوچھوں وہ سوال آپ پہلے ہی نہ پوچھ چکی ہوں۔
 

عظیم

محفلین
اس بات سے قطع نظر کہ جو سوال میں کروں وہ مریم افتخار بہن بھی کر چکی ہوں، میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ فیصل آباد ایسے پنجابی اکثریت والے شہر میں رہتے ہوئے محمد خرم یاسین بھائی کی اردو اتنی اچھی کیسے ہے؟ ماشاء اللہ، جو لڑی انہوں نے مریم افتخار بہن کے انٹرویو کے لیے بنائی تھی، اس لڑی کے آغاز سے میں بہت متاثر ہوا تھا، جس طرح انہوں نے منظر کشی کی تھی، اس کی تعریف کرنا واقعی بنتا ہے
 
اس بات سے قطع نظر کہ جو سوال میں کروں وہ مریم افتخار بہن بھی کر چکی ہوں، میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ فیصل آباد ایسے پنجابی اکثریت والے شہر میں رہتے ہوئے محمد خرم یاسین بھائی کی اردو اتنی اچھی کیسے ہے؟ ماشاء اللہ، جو لڑی انہوں نے مریم افتخار بہن کے انٹرویو کے لیے بنائی تھی، اس لڑی کے آغاز سے میں بہت متاثر ہوا تھا، جس طرح انہوں نے منظر کشی کی تھی، اس کی تعریف کرنا واقعی بنتا ہے
پہلی بات تو یہ کہ یہ محض آپ کی ذرہ نوازی ہے ایسی کوئی بات نہیں اور دوسری یہ کہ الحمد للہ میں اہلِ زبان میں سے ہوں اور تیسری یہ کہ ریڈیو پاکستان کے پروگرامز میں ایک ایک لفظ تول کر بولنا پڑتا ہے ورنہ فوراً ڈائریکٹر ٹوک دیتا ہے، وہاں بھی کچھ پریکٹس ہوئی۔ لیکن اس سب کے باوجود مجھے اس حوالے سے ہمیشہ کم مائیگی کا احساس رہتا ہے ۔ ابھی میں پندرہ رمضان کو کراچی گیا تھا اور ہر بار کی طرح یہ احساس دامن گیر رہا کہ ہمارے پروفیسر اتنی اچھی اردو نہیں بوتے جتنی اچھی اردو یہاں کے سادہ لوح دکاندار بول لیتے ہیں بلکہ محاورہ تو ایسا کمال کا کہ واہ واہ۔ اس ضمن میں آخری بات یہ کہ ہمارے ہاں بہت سے لوگ اچھی اردو لکھ بھی لیں تو انھیں سننا بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ہمارے پنجابی بھائیوں کی اکثریت افعال و متعدی افعال کو زیر کے بجائے زبر سے بولتے ہیں جیسے کھَلانا، پَلانا وغیرہ یا پھر غیر ضروری پیش کا استعمال کرتے ہیں ۔ میرے خیال میں ہم صرف متعدی افعال کی زیر زبر درست کر لیں تو 70 فیصد اردو درست ہوجائےگی۔
 
محمد خرم یاسین بھائی سے سوالات پوچھنا تو چاہتا ہوں لیکن آپ نے ماشاء اللہ سوالات کی ایک بہت طویل لسٹ پوچھ لی ہے، اور مجھے اس لڑی کو پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا! اس لیے جھجک رہا ہوں کہ کہیں جو سوال میں پوچھوں وہ سوال آپ پہلے ہی نہ پوچھ چکی ہوں۔
آپ جو پوچھنا چاہیں میں حاضر ہوں اپنی سمجھ کے مطابق درست جواب کی کوشش کروں گا۔
 
اس بات سے اعتراض ہے خصوصا انفرادیت کے حوالے سے. پابندی انفرادیت کے لیے ظلم ہے. اس پر جبر سرقے کو وجود میں لاتا ہے. میں سمجھتی ہوں شاعر بالخصوص تخییل اور وجدانی صلاحیت سے محروم ہے تو وہ شاعر ہی نہیں. پروین شاکر کی شاعری میں "خیال " سے گفتگو پر اتنی گرفت ہے اس کو " نقل " سے "اصل " کا سفر بھی کہا جاسکتا ہے "دھیان " پر ارتکاز کی وجہ سے .. یہی کسی بھی شاعر، مصنف کی انفرادی پہچان ہے. میں سمجھتی ہوں منٹو نے اپنی پہچان بھی اس لیے بنالی جبکہ اسکو لکھا ہضم مشکل سے ہوتا ہے کہ اس نے اس خاص موضوع سے متعلق حساسیت پیدا کرلی تھی یا ودیعت کردہ تھی. ہم اس کو گالیاں جتنی بھی دیں یا پڑھ کے جتنا برا بھلا کہیں، اس کی اپنی انفرادی پہچان ہے اس کو حظ کے طور پر پڑھ لیں یا معاشرتی برائیوں پر حساسیت کا المیہ جان لیں دونوں برابر ہے. بیشتر لوگ اس کو حظ لیتے پڑھتے منفیت کی جانب رواں دواں ہوتے ہیں. اب دیکھیے یورپ کے مفکرین ادباء میں بھی پہلے اس قسم کی رحجانات تھے کہ میری این ایوان نے اپنے مردانہ نام جارج ایلیٹ کے طور ناول نگار شہرت پائی رفتہ رفتہ ان کو سوچ کی آزادی دی گئی تو اس وجہ سے وہ قوم ترقی تو کرگئی اس آزادی سے اخلاقی تنزلی کا.شکار بھی ہوگئی ...
آپ کو اختلاف کا مکمل حق ہے۔ اس حوالے سے میں نے جو جواب پیش کیا یقینا وہ ادھورا ہے اور بذاتِ خود ایک طویل بحث کا نقطہ آغاز ہے۔ مجھے پروین شاکر پر کوئی اعتراض نہیں مجھے اگر کبھی اعتراض ہوتا ہے تو محض اس بات پر کہ آپ انفرادیت کا نعرہ لگا کر اپنی ان تمام معاشرتی روشن اقدار کو چکنا چور کرنا شروع کردیں جو نہ تو آپ کے لیے ماضی میں نقصان دہ رہی تھیں، نہ حال میں ہیں اور نہ ہی مستقبل قریب و بعید میں۔ اب راجہ گدھ کی مثال لیجیے ؛ مجھے معلوم ہے لوگ اس ناول سے بہت محبت کرتے ہیں اور اس کے نام کی آئیڈیز بناتے ہیں، کلاسز میں ڈسکس کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ میرا معصومانہ سوال ہے وہ یہ کہ کیا جس دور میں نہ عوام الناس کو ڈش میسر تھی، نہ ٹی وی نہ وی سی آر اور نہ ہی ایسا کوئی بھی ذریعہ جو با آسانی ہر ایک کو میسر ہو اور نفسانی جذبات کو ابھارے، اس دور میں ایسا ناول لکھنا جس میں کبھی ایک بد کردار چودھری گاوں کی غریب عورت کے بیٹے کو کہتا ہے کہ اپنی ماں کو کہنا کہ۔۔۔۔۔ (یہاں اس عوامی فورم پر بیان کرنا میری ہمت سے باہر ہے) یا پھر مصنفہ مختلف مناظر میں گہری رات میں گھنے درختوں کے سائے میں دو نوجوان جنسِ مخالف کو بغلگیر ہوتا اور اس سے ایک قدم آگے تک کا احوال بیان کرے اور آخر میں لے دے کر اس سب کا نقطہ اختتام "حلال و حرام" کا فلسفہ قرار دے دے یا کہے کہ یہ تو ہم نے حلال و حرام سمجھانے کے لیے بیان کیا تو یہ بات بڑی مضحکہ خیز بن جاتی ہے۔ اس حوالے سے سلیم خان جو ارباز خان، سلمان خان کے والد ہیں اور سلیم جاوید کی جوڑی کی صورت میں انڈیا میں بڑی معروف فلموں کی کہانی اور گیت لکھتے رہے ، ان کا "گفتگو" میں انٹرویو سنا تھا اور میرا یہ نظریہ مزید پختہ ہوا تھا کہ ایک لکھاری جو حقیقتاً لکھاری ہو، اس کو جنسیات کی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں پڑتی اور نہ ہی اس کے ہاں موضوعاتی تنوع میں کمی واقع ہوتی ہے۔ میں نے مانا کہ جنسات جزوی طور پر فن پارے میں شامل ہوجاتی ہے لیکن آپ اس منظر کشی کو طول دیتے جائیں، ہر چار صفحات کے بعد پھر وہی قصے نئے رنگ میں پیش کریں اور آخر میں کہہ دیں کہ یہ تو حلال و حرام کا فلسفہ سمجھایا جا رہا تھا تو میرے خیال میں یہ بات مضحکہ خیز ہی ہوسکتی ہے۔باقی ہر شخص کا اپنا ادبی تجربہ اور نقطہ نظر ہے میں کسی پر اپنی مرضی نہیں تھوپ سکتا نہ ہی اپنے خیالات مسلط کر سکتا ہوں۔
 
آخری تدوین:
ابھی تک اس کو پڑھنے سے محروم ہوں. اس جدیدیت کی جانب رواں دواں رحجان کی اک وجہ سمجھ آگئی ہے .. میں اس خاص احساس کی باریکیوں، جسمانی اشکالات سے پرے جو احساس ہے اس سے متاثر ہوں. میری فیسبک پر آج کل کی ابھرتی شاعرہ سیماب ظفر کی شاعرہ سے دوستی ہے. اس کے کلام میں اسطرح کی باتیں نہیں پر احساس کا جو انداز اور تخییل یا وجدان کی جو چوٹ ہے، وہ پڑھنے والے کو ہلا دیتی ہے .. میں تو ویسے ہی ایسے شاعروں سے بہت متاثر ہو جاتی ہوں ....احساس تو نازک ہی ہوتا ہے تبھی اچھا لگتا ہے مگر جب احساس سوار ہوجائے تو یہی مقصدیت ختم ہوجاتی ہے ..اس دور میں یہ کلام شاید بادشاہوں کے لیے بھی لکھا جاتا ہوگا ... اس سے بادشاہِ وقت کی خوشی مقصود ہے جبکہ آج کل کا کلام عام قاری کے لیے ہے. مجھے اچھا لگا آپ کی باتیں اچھی ہیں بہت .. امید سے بڑھ کے اچھے لگے خیالات مگر اس کے ساتھ آپ کے انداز میں کچھ تلخی ہے اگر اس تلخی کو نرمی میں ڈھال دیں اور خود کو احساس سے مفتوح کرلیں تو آپ کا تجرباتی کلام بھی وجدانی سطح پر چلا جائے گا
شکریہ۔ جزاک اللہ۔ آپ کا حسنِ نظر ہے اور ان شا اللہ آپ کا یہ مشورہ بھی مشعلِ راہ ثابت ہوگا۔
 
Top