موبائل فون کے بےجا استعمال سے انسانی رشتے متاثر ہوئے ہیں آپ کے نزدیک اس بات کی کیا حقیقت ہے ؟
جی ہاں یہ بات حقیقت ہے اور اس حقیقت کا تعلق جنریشن گیپ سے بھی ہے۔ بچے اکثر موبائل میں اتنے مستغرق ہوتے ہیں کہ انھیں والدین کے حکم پر عمل کرنا تو دور ان کی بات تک سننے کا وقت نہیں ملتا اور اگر ان کا موبائل کھنگال لیا جائے تو اس میں ان کی وابستگی کے ایسے ایسے جہان ملیں گے کہ الامان والحفیظ۔ بوڑھے والدین کو بیشتر معلوم ہی نہیں کہ ان کے بچے کونسی سرگرمیوں کا حصہ ہیں جب کہ بچوں کا مائینڈ سیٹ ہی اینٹی کلاسیکل ہوتا جارہا ہے۔ وہ رشتوں کو بھی جدیدیت کی عینک سے دیکھنے لگے ہیں۔ اکبر الہٰ آبادی نے لکھا تھا
ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
جنھیں پڑھ کر بچے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
اگر موصوف آج زندہ ہوتے تو یقیناً اسی ضمن میں موبائل کی کارگزاریوں پر بھی کچھ اظہارِ خیال کرتے۔
دوسری جانب آئیں اور آج کی گھریلو زندگی کے مسائل کی بات کریں بالخصوص ساس بہو اور نند بھائی کا جھگڑا ، جو کہ ہمیشہ سے ہمارے معاشرے میں موجود رہا ہے لیکن موبائل کے غلط استعمال نے اسے بڑھا دیا ہے۔ جب روزانہ کی رپورٹ ایک گھر سے دوسرے گھر جائے گی اور وہاں سے نئی ہدایات آئیں گی تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ عدم برداشت کا مادہ پھلے پھولے گا اور رشتوں کی دراڑیں بڑھتی جائیں گی۔ اس لیے اس سے انسانی رشتے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ اس میں قصور بیچارے موبائل کا نہیں ہمارے استعمال کا نکلے گا۔