محمد خرم یاسین بھائی کا انٹرویو

کیا ہومیو پیتھک کا علاج انسان کے لیے فائدہ مند ہے اور کیا آپ نے کبھی ہیومیو پیتھک کے کسی معالج سے علاج کے لیے رجوع کیا ہے ؟
والدِ محترم ہومیو پیتھک ڈاکٹر تھے اور گھر میں ہر وقت فی سبیل اللہ مریضوں کا آنا جانا رہتا تھا لیکن مجھے ان سے طریقہ علاج پر ہمیشہ شدید اختلاف رہا۔ میں ان سے یہ بنیادی سوالات پوچھتا رہتا تھا کہ کسی شخص کے اندر کیا مرض پل رہا ہے اس کا آپ کو کیسے پتہ چلے گا؟ بنا ٹیسٹ رپورٹس کروائے آپ اس کے مرض کی شدت کو کیسے جان لیں گے ؟ کینسر اور ہیپا ٹائٹس جیسےتگڑے امراض کی تشخیص کس طرح ان پرانی دوائیوں سے ممکن ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ جواباً وہ علامات کی بات کرتے تھے کہ ہمارا طریقہ کار علامات کے مطابق علاج کرنا ہے اور میری ان سے بحث طول پکڑ لیتی تھی۔ بہرحال گزشتہ سال تقریبا انھی دنوں میں مجھے ایک الرجی ہوگئی تھی جسے شاید "urticaria" کہتے ہیں۔ دوا کھا تے ہی لمبی تان کر سو جاتا تھا اور اس کا اثر ختم ہوتے ہی پھر سے تکلیف میں مبتلا۔ ایک پروفیسر دوست نے مشورہ دیا کہ ہومیو پیتھک دوا آزماوں۔ انھیں معلوم تھا کہ میں ان کی ہدایات پر عمل نہیں کروں گا اسی لیے اگلے روز انھوں نے خود ہی لا دی۔ میں نے مجبورا استعمال کی اور اس کا جادو اثر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ الحمدللہ ایک ہفتے میں مکمل شفا یاب ہوا اور اب پختہ یقین ہے کہ کچھ باتیں جو ناقص علم میں نہ بھی سمائیں ان کا وجود اور حقیقت ہوتی ہے۔ الرجیز میں تو میں خود بھی دوستوں کو ہومیو پیتھک کے استعمال کا مشورہ دیتا ہوں۔
 
اگر پیدل چلنا انسان کے لیے صحت مندی کی نشانی ہےتو موٹر انجن کی ایجاد کس ضرورت کے تحت کی گئی ،آپ اس موضوع پر کیا رائے رکھتے ہیں ؟
سہل پسندی اور آسانی کے لیے۔ اصل میں یہ وقت کا اصول ہے کہ جو اس کے مطابق نہیں چلتا وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتاہےاسی لیے جوں جوں انسانی زندگی میں جدت آتی گئی، وہ آسائش کی جانب متوجہ ہوتا گیا اور نتیجہ صنعتی انقلاب کی صورت میں نکلا ۔"وول ڈیورنٹ" کی تہازیبِ عالم کے حوالے سے ایک کتاب ہے جسے جب بھی پڑھا بڑے مزےدار معلومات ملیں بلکہ پڑھتے ہوئے یوں بھی لگا جیسے کہانیاں پڑھ رہے ہوں۔ اس میں عالمی سطح پر تہذیب و ثقافت کی تبدیلیوں کی جو جھلکیاں ہیں وہ معلومات میں بہت اضافہ کرتی ہیں اور کئی جگہوں پر نئے خیالات بھی جنم لیتے ہیں۔بہرحال تہذیبی ارتقا کے اس موڑ پر پہنچ کر جب انسان نے دریافت کیا ہے کہ چلنا کس قدر ضروری ہے تو باقی سفر کے لیے تو موٹر انجن ہی لیکن اپنی صحت کے لیے رننگ مشینز ایجاد کر لی ہیں یا پھر صبح سویرے پارکوں کا رخ۔
 
اگر اردو محفل کا پلیٹ فورم حادثی طور پر بندہو جائے تو آپ اس حادثی نقصان کو کون سے درجے کا سانحہ قرار دیں گے ؟
ریسکیو میں ہمیں حادثات کی نوعیت کے حوالے سے تین درجات پڑھائے جاتے تھے ۔ میں اسے اول درجے کا نقصان قرار دوں گا۔ ویسے یہاں ایک مشورہ ہے اگرچہ وہ سوال سے متعلقہ نہیں۔۔۔ اور وہ یہ کہ یہاں کئی ایسے تھریڈز موجود ہیں جن پر پوری کتاب مرتب ہوسکتی ہے۔ اگر ایسی کتب مرتب کر کے مارکیٹ اور لائبریریوں تک بھیجی جائیں تو یہ ادب کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔ آپ اپنا تھریڈ "سادہ سا سوال ہے" ہی کو دیکھ لیجیے یہ مزاحیہ ادب میں کتنا بڑا اضافہ ہوسکتا ہے اس طرح ہماری یہ تخلیقی کاوشات ان لوگوں تک بھی پہنچیں گی جو اس اردو فورم تک نہیں پہنچ سکتے۔
 
کیا مرد کے لیے شادی کا بندہن ضروری ہے ؟
بالکل ضروری ہے بلکہ دونوں کے لیے ہی ضروری ہے بصورتِ دیگر نفس و شیطان کی کاروائیوں سے محفوظ رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔ جتنے مسائل کسی دور میں ورکنگ وومن کو ہوتے تھے آج کل ایسے ہی مسائل سے دہ مرد حضرات بھی دو چار ہیں جو خواتین کے درمیان کام کر رہے ہیں اس لیے بجائے کسی مسئلے کا شکار ہونے کے شادی کے بندھن میں بندھ جایا جائے تو بہتر ہے۔ اس کے زندگی پر بہت مختلف قسم کے اثرات ہیں مثلاً ابھی چند روز قبل ایک ہوٹل میں کھانا کھا رہا تھا وہاں ساتھ والے میز پر ایک پرانے جاننے والے آ بیٹھے جن کے بارے میں مشہور تھا کہ ان کی جوانی بدمعاشی میں گزری۔ ان کی آواز خاصی بلند تھی اور وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ وہ جوانی میں چلتی خواتین کا ہاتھ پکڑ لیتے تھے لیکن جب اللہ تعالیٰ نے بیٹی دی تو اس کے بعد سے کسی کی جانب آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ ایک اور تجربہ بھی چند روز قبل ہی کا ہے۔ ایک دوست ہیں جو اب تقریبا چالیس سال کے نزدیک ہیں۔ انھوں نے ساری زندگی بہنوں کی شادیاں کرتےاور والدین کی خدمت کرتے گزاری ہے،بڑے ہی دکھ سے بتایا کہ وہ سارا دن ڈپریشن کا شکار رہتے ہیں، کوئی کھانا تک دینے والا نہیں اس لیے دن میں کام کرتے ہیں اور رات ندی کنارے بیٹھے رہتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ ان کی بیوی ہو، بچے ہوں جن کےساتھ اپنا دکھ سکھ بانٹ سکیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اب یہ اس قسم کے اتنے متنوع خیالات ملیں گے کہ شادی کی ضرورت و اہمیت بڑھتی جائے گی۔
 
موبائل فون کے بےجا استعمال سے انسانی رشتے متاثر ہوئے ہیں آپ کے نزدیک اس بات کی کیا حقیقت ہے ؟
جی ہاں یہ بات حقیقت ہے اور اس حقیقت کا تعلق جنریشن گیپ سے بھی ہے۔ بچے اکثر موبائل میں اتنے مستغرق ہوتے ہیں کہ انھیں والدین کے حکم پر عمل کرنا تو دور ان کی بات تک سننے کا وقت نہیں ملتا اور اگر ان کا موبائل کھنگال لیا جائے تو اس میں ان کی وابستگی کے ایسے ایسے جہان ملیں گے کہ الامان والحفیظ۔ بوڑھے والدین کو بیشتر معلوم ہی نہیں کہ ان کے بچے کونسی سرگرمیوں کا حصہ ہیں جب کہ بچوں کا مائینڈ سیٹ ہی اینٹی کلاسیکل ہوتا جارہا ہے۔ وہ رشتوں کو بھی جدیدیت کی عینک سے دیکھنے لگے ہیں۔ اکبر الہٰ آبادی نے لکھا تھا
ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
جنھیں پڑھ کر بچے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
اگر موصوف آج زندہ ہوتے تو یقیناً اسی ضمن میں موبائل کی کارگزاریوں پر بھی کچھ اظہارِ خیال کرتے۔
دوسری جانب آئیں اور آج کی گھریلو زندگی کے مسائل کی بات کریں بالخصوص ساس بہو اور نند بھائی کا جھگڑا ، جو کہ ہمیشہ سے ہمارے معاشرے میں موجود رہا ہے لیکن موبائل کے غلط استعمال نے اسے بڑھا دیا ہے۔ جب روزانہ کی رپورٹ ایک گھر سے دوسرے گھر جائے گی اور وہاں سے نئی ہدایات آئیں گی تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ عدم برداشت کا مادہ پھلے پھولے گا اور رشتوں کی دراڑیں بڑھتی جائیں گی۔ اس لیے اس سے انسانی رشتے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ اس میں قصور بیچارے موبائل کا نہیں ہمارے استعمال کا نکلے گا۔
 
آخری تدوین:
کوئی ایسی بات یا کوئی ایسا راز جو کہ آپ کے ذاتی زندگی میں بہت اہمت رکھتا ہو اس پر سے پردہ اٹھتے ہوئے اس کو محفل میں آشکار کریں ؟
راز تو پتہ نہیں اسے کہہ سکتے ہیں یا نہیں البتہ یہ ہے کہ عام زندگی میں لوگ جلد میرے دوست بن جاتے ہیں۔بہت سے دوستوں نے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی لیکن میرے خیال میں اس کے سوا اور کوئی وجہ نہیں ہوسکتی کہ آپ لوگوں کو عزت دیں اور انھیں سنیں اور یہ بھی کہ اگر کوئیبات کڑوی کسیلی بھی لگے تو اس کو حوصلے سے برداشت کریں یہ سوچ کر کہ شاید اس کی ذہنی کیفیت ابھی نارمل نہیں ہے۔ اس کے بہت سے محرکات ہوسکتے ہیں مثلاً ایک بار میں جمنی میں سفر کر رہا تھا اور ایک فائر انسیڈینٹ پر جانا تھا۔ ایک چھوٹے روڈ پر ایک گدھا گاڑی والے نے بری طرح سے گدھا گاڑی پھنسالی تھی۔ ہمیں تیزی میں تھے ، ہوٹر آن تھا اور پہنچنے کی جلدی، اس پر نہ صرف وہ ریڑھی بان ٹس سے مس نہیں ہورہا تھا بلکہ اس نے ڈرائیور کو باآوازِ بلند ہوٹر بند کرنے کا مشورہ دیتے گالی بھی دے دی۔ اب عوام الناس میں آپ سرکاری گاڑی اور یونیفارم میں ہوں، حق بجانب بھی ہوں اور کوئی آپ کو گالی دے تو یہ انتہائی تکلیف دہ عمل ہے جس کے رد عمل کے طور پر کم از کم گالی دینے والے کو ایک تھپڑ رسید کرنا بنتا ہے۔ اس سے قبل کہ ڈرائیور یا ہم میں سے کوئی کاروائی کرتا، ساتھ بیٹھے ایک بزرگ دوست نے ڈرائیور کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا "یار اللہ اس بندے کا بھلا کرے نہ جانے غریب کو سارا دن کوئی مزدوری بھی ملی یا نہیں۔اسے اللہ کے واسطے معاف کر کے گاڑی آگے نکالو" میرے دل پر بزرگ دوست کی بات نے بہت اثر کیا۔ اسی طرح ایک دوست کے ساتھ بیٹھا تھا وہ موصوف فیصل آباد کی ایک بڑی مل کے مالک تھے ۔ اچانک رنگ ماسٹر کمرے میں داخل ہوا اور بولا کہ فلاں شخص کی غلطی سے اتنے ہزار میٹر کپڑا خراب ہوگیا ہے۔ دوست بہت آگ بگولہ ہوئے اور مجھے اپنا وہاں بیٹھنا غیر مناسب لگا لیکن انھوں نے مجھے جانے نہیں دیا ۔ چند منٹ لمبے سانس لینے اور پانی پینے کے بعد انھوں نے ایمرجنسی میٹنگ کال کی اور ساری میٹنگ میں بس ایک ہی سوال کرتے رہے کہ جو ہونا تھا وہ ہوگیا اب اس کا حل کیا ہے ، اس کپڑے کو کیسے بچایا جاسکتا ہے وغیرہ۔ یقین کیجیے آدھ گھنٹے کی اس میٹنگ کے بعد سب ہنستے مسکراتے وہاں سے نکلے۔۔۔ ایسے بے شمار اسباق زندگی میں وقتا فوقتا ملتے رہے جن کی وجہ سے میں نے زندگی میں کمپرومائز کرنا سیکھا اور آج الحمد للہ بہتر زندگی گزار رہا ہوں۔ میں ان کمپرو مائیزز کو نہ تو منافقت کہتا ہوں اور نہ ہی بزدلی۔ اپنی اپنی سوچ کا انداز ہے۔
 
آخری تدوین:
آپ شاید اس لیے بھی یہ کہہ رہے ہیں کیونکہ آپ ایک خاتون کو انٹرویو دے رہے ہیں مگر شاید آپ کو یہ معلوم نہیں کہ خاتون یہی مجاننا چاہتی ہیں کہ انہیں کیا کیا نہیں کرنا ہے!


آپ کا مشاہدہ یقینا معاملے کا ایک بہت اہم رخ ہے اور اس کریہہ رخ پر مجھے افسوس ہی نہیں بلکہ بعض جگہوں پر حیرت بھی ہے کیونکہ خواتین مردوں سے زیادہ pure ہوتی ہیں، اتنی بڑی ارادی contamination کرنے کا سوچتی کیسے ہیں!

مزید یہ کہ فیصل آباد میں ادبی نشستیں کہاں ہوتی ہیں اور ان میں خواتین کے لیے مناسب ماحول ہے؟
جہاں تک بات مناسب ماحول کی ہے تو میرا خیال ہے کسی مرد کے ساتھ جانے والی خواتین زیادہ محفوظ اور ایزی ہوتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر اجلاس لیٹ شروع ہوتے ہیں اورکوئی ادیب بیٹھا سگریٹیں پھونک رہا ہوتا ہے، کوئی مخصوص حلقہ بنائے دوسروں کی عیب جوئی میں مبتلاہوتا ہے کوئی بلند آواز میں ہنسی مذاق کر رہا ہوتاہے۔ یوں بالکل تنہا یا کسی غیر واقف شخص کے ساتھ جانےوالی خواتین ایزی محسوس نہیں کرتیں۔ بہتر ہے کہ یا تو خواتین کے گروپ میں جائیں یا پھر کسی واقف مرد کے ساتھ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
آپ سے بقیہ سوالات میری طرف سے ...


1. Intellectual dishonesty کے بارے میں پہلے بھی سن رکھا ہے تاہم مرد حضرات بھی سرقے کا شکار ہوتے ہیں وہ بیرون ملک مصنفین کی کتب کا ترجمہ اپنے نام سے بیچ دیتے ہیں. انفرادیت کی اس ضمن میں کیا پہچان ہے؟

۲. وجدان کے بارے میں آپ نے خوب لکھا ہے. آپ کی نظمیں میں مشاہدے تجربے کی آنچ ہے مجھے وجدان کی وہ سطح جو آپ میں موجود ہے کم دکھی؟

۳. تصوف کے بارے میں کیا خوب فرمایا آپ نے. روحانیت اور تصوف کا کیا تعلق ہے؟

۴. آپ کو میں نے اکثر پوسٹس میں تبصرہ کرتے پایا تو اک بات محسوس کی کہ آپ بہت جلد دلبرداشتہ ہوجاتے ہیں جبکہ آپ بہت ہمت والے ہی‍‍ں ایسا کیوں؟

۵. آپ نے اپنے والدین ہر کوئی منظوم کلام، نثم یا نثر تحریر کی ؟ خواہ وہ ڈائری کے اوراق کیوں نہ ہوں؟ کیا محسوس کیا؟
۶. پروین شاکر کے بارے متضاد رائے ہیں . کوئی جذبات کی ملکہ، نسوانیت کا پیکر تو کوئی اپنی زندگی کی ڈائری لکھنے والا کہتا ہے .. پروین شاکر سے اس ردعمل کے پیچھے کیا وجہ ہے؟؟

۷ ... میں نے کلاسکی ادباء شعراء کے کلام میں احساس کا انداز دیکھا جو آج کل کے شعراء میں مقفود ہے جو جدیدیت کے حامی ہیں کیوں؟
۸. اردو کیا ہے؟ ورثہ؟ زبان؟ معاشرتی تعامل؟

۹. اردو محفل کا آپ کی زندگی پر کوئی اثر پڑا ہے؟
۱۰.آپ کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی کیا ہے؟ .
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
حاصل مطالعہ ۔۔۔۔۔

دعا ایک ایسی نعمت ہے جو قبول ہو یا نہ ہو دل کو اطمینان ضرور ہوجاتا ہے کہ ہم نے اپنی پریشانیاں اور مصائب ایسی ہستی کے سپرد کیے جس کے سوا کوئی بھی ان کا مداوا نہیں کرسکتا۔

آپ ان تمام تجربات میں دیکھ سکتے ہیں کہ محنت اور لگن تو ہے ہی لیکن اللہ تعالیٰ کا انعام بھی ساتھ ساتھ ہے اور میرے خیال میں آپ کی لگن کو دیکھتے ہوئے ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے جب اللہ تعالیٰ اس علم کے دروازے آپ کے دل و دماغ پر کھول دیتا ہے۔
ماشاء اللہ
سچ میں بہت اچھا لگا سادگی و سچائی سے مہکتے جوابات پڑھ کر
اک سوال ذہن میں آ گیا ۔۔ عطا سے پا کر خوشی زیادہ ہوتی ہے یا کسب سے پا کر ۔۔؟
اللہ سوہنا آپ کی راہوں کو سدا آسان فرمائے محمد عارش اور بٹیا رانی ستاروں کی مانند سدا مسکرائیں آمین
بہت دعائیں
 
حاصل مطالعہ ۔۔۔۔۔




ماشاء اللہ
سچ میں بہت اچھا لگا سادگی و سچائی سے مہکتے جوابات پڑھ کر
اک سوال ذہن میں آ گیا ۔۔ عطا سے پا کر خوشی زیادہ ہوتی ہے یا کسب سے پا کر ۔۔؟
اللہ سوہنا آپ کی راہوں کو سدا آسان فرمائے محمد عارش اور بٹیا رانی ستاروں کی مانند سدا مسکرائیں آمین
بہت دعائیں
اگراس بات کو میں محض اور محض اپنی ذات تک ہی محدود رکھوں تو میں نے بہت بار کامیابی کو اتنا قریب دیکھا کہ یقین ہوگیا کہ یہ میری منزل ہے جیسے سی ایس ایس ایسے امتحان کو مکمل پاس کرنا وغیرہ لیکن پھر اچانک یہ اتنی دور چلی گئی کہ حیرت کے سوا کچھ نہ بچا۔ اسی طرح بہت بار سروس کے دوران بھی اور عام زندگی میں بھی ایسی غلطیاں سر زد ہوئیں جن کی کم از کم سزا رخصت ہی بنتی تھی لیکن ایسی جگہوں پر بھی عزت محفوظ رہی یوں مجھے تو یہی لگتا ہے کہ عطا سے زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ جب آپ انتہائی مشکل میں کسی سہارے کی تلاش میں ہوتے ہیں اوراچانک سے وہ مسئلہ نہ صرف حل ہوجاتا ہے بلکہ اطمینان قلب بھی حاصل ہوتا ہے تو زیادہ خوشی محسوس ہوتی ہے۔ ہمیں جو کچھ ملتا ہے وہ محض ہماری محنت ہی کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ اس میں یقینا ہم سے جڑے رشتوں کا صدقہ بھی ہوتا ہے۔کسب کا معاملہ یوں ہی ہے کہ بہت محنت کے باوجود بھی نا معلوم کچھ مل سکے یا نہ مل سکے اس لیے درمیانی کیفیت کا شکار رہتا ہوں لیکن دعا پر عطا ہوجائے تو زیادہ خوشی محسوس ہوتی ہے۔
 
حاصل مطالعہ ۔۔۔۔۔




ماشاء اللہ
سچ میں بہت اچھا لگا سادگی و سچائی سے مہکتے جوابات پڑھ کر
اک سوال ذہن میں آ گیا ۔۔ عطا سے پا کر خوشی زیادہ ہوتی ہے یا کسب سے پا کر ۔۔؟
اللہ سوہنا آپ کی راہوں کو سدا آسان فرمائے محمد عارش اور بٹیا رانی ستاروں کی مانند سدا مسکرائیں آمین
بہت دعائیں

آمین۔ جزاک اللہ :)
 

نایاب

لائبریرین
اگراس بات کو میں محض اور محض اپنی ذات تک ہی محدود رکھوں تو میں نے بہت بار کامیابی کو اتنا قریب دیکھا کہ یقین ہوگیا کہ یہ میری منزل ہے جیسے سی ایس ایس ایسے امتحان کو مکمل پاس کرنا وغیرہ لیکن پھر اچانک یہ اتنی دور چلی گئی کہ حیرت کے سوا کچھ نہ بچا۔ اسی طرح بہت بار سروس کے دوران بھی اور عام زندگی میں بھی ایسی غلطیاں سر زد ہوئیں جن کی کم از کم سزا رخصت ہی بنتی تھی لیکن ایسی جگہوں پر بھی عزت محفوظ رہی یوں مجھے تو یہی لگتا ہے کہ عطا سے زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ جب آپ انتہائی مشکل میں کسی سہارے کی تلاش میں ہوتے ہیں اوراچانک سے وہ مسئلہ نہ صرف حل ہوجاتا ہے بلکہ اطمینان قلب بھی حاصل ہوتا ہے تو زیادہ خوشی محسوس ہوتی ہے۔ ہمیں جو کچھ ملتا ہے وہ محض ہماری محنت ہی کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ اس میں یقینا ہم سے جڑے رشتوں کا صدقہ بھی ہوتا ہے۔کسب کا معاملہ یوں ہی ہے کہ بہت محنت کے باوجود بھی نا معلوم کچھ مل سکے یا نہ مل سکے اس لیے درمیانی کیفیت کا شکار رہتا ہوں لیکن دعا پر عطا ہوجائے تو زیادہ خوشی محسوس ہوتی ہے۔
یعنی بات وہی کہ " مالی کم پانی دینا بھر بھر مشکاں پاوے ۔ مالک دا کم پھل پھول لانا لاوے نہ لاوے "
عطا پر ہی یقین اچھا ۔۔ کسب کا نتیجہ بھی اسی پر استوار
بہت دعائیں
 
Intellectual dishonesty کے بارے میں پہلے بھی سن رکھا ہے تاہم مرد حضرات بھی سرقے کا شکار ہوتے ہیں وہ بیرون ملک مصنفین کی کتب کا ترجمہ اپنے نام سے بیچ دیتے ہیں. انفرادیت کی اس ضمن میں کیا پہچان ہے؟
مجھے جہاں تک یاد ہے شاید "نقوش" رسالہ تھا اس کا سرقہ نمبر پڑھا تھا اور کئی بار حیرت سے دوچار ہوا تھا۔ اس کے بعد تقریبا اسی سے ملتا جلتا سوال میں نے ریڈیو پاکستان کے ایک مصاحبے میں ڈاکٹر نعمان سے کیا تھا جن کی تین ناول قسط وار مختلف پاکستانی رسائل میں شائع ہوچکے ہیں تو انھوں نے معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ نیشنل لیول کی بات تو ایک طرف انٹرنیشنل لیول پر ہمارے اردو ادب کا بھی مختلف زبانوں میں سرقہ ہوتا ہے۔ اب ذرا سوال کی جانب آئیے تو یہ حقیقت ہے کہ سرقے کا کاروبار کئی طرح سے ہورہا ہے۔ ایک تو یہ کسی واقف زبان سے شعر یا نثر لیں اور اسے دوسری زبان میں تبدیل کردیں یا پھر کسی غیرمانوس صنف کے ماسٹر پیس کو دوسری صنف میں داخل کر دیں جیسے کسی افسانے کو منظوم کرنا یا اس کے تھیم کو غزل کے شعر میں ڈھالنا وغیرہ۔ مارکیٹ میں کئی قسم کا سرقہ ہورہا ہے اور ظاہر ہے کہ چونکہ خواتین لکھتی ہی کم ہیں یا زیادہ زور لکھوانے پر ہوتا ہے تو یہ سرقہ زیادہ تر مرد حضرات ہی کرتےہیں۔اب اس ضمن میں انفرادیت کی پہچان خاصا مشکل کام ہے کیوں کہ یہ تحقیق سے جڑا ہے ۔ میں نے اپنے مقالےمیں دوران تحقیقی کئی جگہوں پر سرقے کی نشاندہی کی ہے۔ ایک صاحب نے تو دوسرے کا سرقہ کرتے ہوئے 85 فیصد اور ایک نے 99 فیصد سرقے سے کام لیا ہے۔ اب یہ دونوں حضرات ہی اہم اقبال شناس کہلاتے ہیں لیکن تحقیق نے ان کی اوقات دکھادی ہے۔
 
آخری تدوین:
وجدان کے بارے میں آپ نے خوب لکھا ہے. آپ کی نظمیں میں مشاہدے تجربے کی آنچ ہے مجھے وجدان کی وہ سطح جو آپ میں موجود ہے کم دکھی؟
یہ بات بالکل درست کہی آپ نے۔ یہاں بہت کم کم اور ایسا ادب ہی شئیر کرتا ہوں جو کہیں سے اچانک سامنے آجائے جیسے کوئی پرانی فیس بک پوسٹ وغیرہ اس لیے بھی اور اس لیے بھی کہ عمومی طور پرنظم کسی وجدانی کیفیت کا نتیجہ نہیں ہوتی اس لیے بھی میری پوسٹس میں آپ کو وجدانی کیفیات نظر نہیں آئیں گی۔ ایک وقت تھا جب میں اس حوالے سے بہت لکھتا تھا مثلا میرا ایک غیر مطبوعہ ناول ہجر و وصال جو چار سو صفحات پرمحیط ہے اس کا بڑا حصہ وجدانی ہے لیکن اب اس حوالے سے کم مائیگی کا احساس ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ مجھے نجانے کیوں ایسا لگتا تھا کہ یہاں اس قسم کی پوسٹ کو کوئی نہیں پڑھے گا اس لیے بھی کوئی صنف ادب شئیر نہیں کی۔ میں نے خود آپ کی پوسٹس پڑھی ہیں جو اسی حوالے سے ایک خاص رو میں تحریر کی گئی ہیں لیکن ان پر کتنے لوگوں نے توجہ دی جب کہ آپ یہاں شئیر کرتے ہوئے کم از کم ایک بار تو ضرور سوچتی ہوں گی کہ شاید یہ کسی کے کام آئے یا کوئی پڑھ کر اس پر سنجیدہ رائے دے۔اس ضمن میں آخری بات یہ کہ خطبات اقبال کے مطالعے سے بھی میرے افکار میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور میرا مستقبل قریب میں ان شا اللہ درس نظامی کا ارادہ تاکہ اسلام کو سمجھنے کے لیے بنیادی علوم پر میری دستر س ہو ۔شاید اسی کے بعداس قابل ہوسکون کہ اپنے وجدانی نظریات کو شریعت کی سان پر پرکھ سکون اور پھر ہی شیئر کروں ورنہ وہ مجھ تک ہی محدود رہیں تو بہتر ہے۔
 
تصوف کے بارے میں کیا خوب فرمایا آپ نے. روحانیت اور تصوف کا کیا تعلق ہے؟
آج کل کے تصوف کا ذکر کریں جس پر جب تک پیر صاحب کا پاوں نہ چومیں ، چادر نہ چڑھائیں یا رنگ برنگے جھنڈوں کے سائے میں بھنگڑا نہ ڈالیں یا چرس پی کر جھولے لعل کا نعرہ نہ لگائیں تو کوئی آپ کو صوفی نہیں سمجھتا ، میں اس سے سخت بیزار ہوں۔ کچھ لوگوں نے اسی کے رد عمل میں کہا ہے کہ تصوف ہم نے ہندوں سے لیا وغیرہ لیکن یہ نظریہ بھی انتہا پسندانہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد پڑھا تھا جس میں انھوں نے خود کو صوفی کہا تھا پھر اصحاب صفہ کی امثال بھی ہمارے سامنے ہیں اس سب سے میں جو نتیجہ اخذ کرتا ہو اس سے آپ کو اختلاف ہوسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ نما زکی ادائیگی شریعت ہےجب کہ اس میں خشوع وخضو ع تصوف۔ روزے کا ادائیگی فرض ہے اور اس میں عاجزی و انکساری، نم آنکھیں، دعا میں اٹھے کپکپاتے ہاتھ اور لرزتے ہونٹ تصوف ۔ یہی تصوف آپ کا اللہ تعالیٰ سےوہ تعلق جوڑتا ہے جس میں آپ پر انکشاف ذات ہوتا ہے ، رب اپنے ہونے کا پتہ دیتا ہے اور وجدانی کیفیات میں ایسے ایسے رموز آپ پر آشکارہوتے ہیں کہ آپ کہیں پنڈ دادن خان کی پہاڑی پر بیٹھے دنیا کا قطر بتا دیتے ہیں اورکہیں آنکھ کی ساخت و افعال۔ علامہ محمد اقبال نے اپنے خطبہ اول میں اس تصوف سے دوری کو امت مسلمہ کا فکری جمود اور پستی کا مرکز قرار دیا ہے۔ اب اس تصوف کا روحانیات سے جو تعلق ہے اس کے بارے میں فلسفے کی زبان سے تو کچھ نہیں کہہ سکتا البتہ بنا ان دونوں کا تعلق روح سے ہے اور میں بنا تصوف روحانیات کا قائل نہیں۔ مزید یہ کہ ہم مسلکی پوائنٹ سیکورنگ نہ کریں تو ہر مسلک میں بلکہ ہر مذہب میں صوفی ملتے ہیں۔ میرے نزدیک تو تھامس ایڈیسن، لوئس پاسچر اور مدر ٹریسا بھی کمال کے صوفی تھے۔
 
آپ کو میں نے اکثر پوسٹس میں تبصرہ کرتے پایا تو اک بات محسوس کی کہ آپ بہت جلد دلبرداشتہ ہوجاتے ہیں جبکہ آپ بہت ہمت والے ہی‍‍ں ایسا کیوں؟
یہ ایک اہم بات پوائنٹ آوٹ کی آپ نے ۔ میں نے کبھی اس پر غور نہیں کیا انشا اللہ آئندہ اس بارے میں خود پر غور کروں گا۔ویسے عموم طور پر جب ایک ہال میں آپ کی تقریر کے موقع پر سبھی اٹھ کر شور مچانے لگیں یا آپ کی بات نہ سنیں تو شاید آپ دلبرداشتہ ہوکر وہ تقریر ہی نہ کریں ۔ہو سکتا ہے یہاں بھی کچھ پوسٹس میں ایسا معاملہ رہا ہو بالخصو ص کلام موزوں اور غیر وزوں کی پوسٹس میں۔
 
آپ نے اپنے والدین ہر کوئی منظوم کلام، نثم یا نثر تحریر کی ؟ خواہ وہ ڈائری کے اوراق کیوں نہ ہوں؟ کیا محسوس کیا؟
جی ہاں میں نے اپنے والدین پر کافی کچھ تحریر کیا ہے ۔ بالخصوص ان کے بچھڑنے کے موقع پر۔ ابھی میرے پاس میرا لیپ ٹاپ موجود نہیں اس لیےشئیر نہیں کرسکتا البتہ پرسوں جب میں اپنے شہر واپس پہنچوں گا تو انشا اللہ ضرورشئیر کروں گا۔ بلکہ اس حوالے سےتو میں بہت ناسٹالجک رہا ہوں جس پر ایک بار ہادیہ بہن نے ٹوکا بھی تھا۔ ان کی یادیں قرطاس پر اتارتے ہوئے دکھ کی کیفت میں مبتلا ہوا اور اس کیفیت کو محفوظ کرلیا تاکہ میں یہ یاد رکھ سکوں کہ میرے والدین میرے لیے کیا تھے اور مجھے اپنی اولاد کے لیے کیسا بننا یارہنا ہے۔مزید یہ کہ کل کو میری اولاد میرے والدین کے بارے میں پڑھے تو اسلاف سے محبت کا یہ سفر جاری ہے۔
 
پروین شاکر کے بارے متضاد رائے ہیں . کوئی جذبات کی ملکہ، نسوانیت کا پیکر تو کوئی اپنی زندگی کی ڈائری لکھنے والا کہتا ہے .. پروین شاکر سے اس ردعمل کے پیچھے کیا وجہ ہ؟؟
پروین شاکر کو لبرلز ہیروئن مانتے ہیں اور اسلامسٹس اس کے خاص نسوانی جذبات کے بیان کی شاعری کو بری نظر سے دیکھتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ وہ ان دو دھڑوں کے درمیان پھنس گئی ہے۔جب کوئی خاتون اپنے باطن اور ظاہر کے مخصوص اوقات کا احوال سرِ عام کھلی محفلوں میں بیان کرے گی تو عوام الناس کا ری ایکشن بنتا ہے اس لیے میں خواتین کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ کلام معیاری ہو تو نسوانی جذباتیت کی سیڑھی کی ضرورت نہیں، بالخصوص ایسے معاشرے میں جو مذہبی اور معاشرتی اقدار میں سختی سے گندھا ہوا ہو ۔اس میں اس کی ایسی کوئی بھی حرکت جہاں چند مردوں کی واہ واہ حاصل کرے گی وہیں ہزاروں مردو خواتین اس کے خلاف آواز بھی اٹھائیں گے۔ بس یہی کچھ محرکات مجھے اس کی شہرت کے پیچھے نظر آتے ہیں۔ مزید یہ کہ اشفاق احمد ورک نے "خاکہ مستی" میں شاید"خوشبو والی شاعرہ" کے عنوان سےپروین شاکر کا خاکہ لکھا ہے، اسی ضمن میں اس کا مطالعہ بھی کافی مدد مہیا کرسکتا ہے۔
 
میں نے کلاسکی ادباء شعراء کے کلام میں احساس کا انداز دیکھا جو آج کل کے شعراء میں مقفود ہے جو جدیدیت کے حامی ہیں کیوں؟
دیکھیے یہ ٹینشن 1857 کے بعد آغاز پذیر ہوئی اور اس کی وجوہ میں اگر یہ کہوں کہ ایک شخص جس کا گھر بار لٹ چکا ہو، بچے بھوکے ہوں، جان کے لالے ہوں تو ایسی صورت حال میں اگر وہ زلف خم جاناں کا شکار رہے تو بہت بڑی زیاتی ہوگی۔ میرا بالکل اسی موضوع پر ایک تحقیقی مقالہ بعنوان "اردو شاعری بطور محرک تحریک آزادی" ایک ریسرچ جنرل"نور تحقیق" میں اشاعت کے لیے گیا ہے ۔ یہ ریسرچ جنرل اگست کے مہینے میں "آزادی نمبر" نکال رہا ہے اس لیے امید ہے کہ اگست میں آرٹیکل شائع ہوجائے تو میں یہاں اس فورم پر شئیر کردوں گا۔ تو بات جہاں تک احساس کی ہے تو غلام شخص کے محسوسات میں یقینا تبدیلی آتی ہے۔ یہی تبدیلی اس کی تحاریر میں بھی آجاتی ہے۔ اسی قسم کی کیفیات سے 1857 کے بعد ہمارے شعرا گزر رہے تھے کہ اوپر سے انجمن ترقی ادب کا تڑکا بھی لگ گیا جس کے بعد رومانویت والوں اور ترقی پسند والوں کے درمیان ایک سخت جنگ دکھائی دیتی ہے۔ یہاں تک کہ یہ دونوں دھڑے احمد ندیم قاسمی اور وزیر آغا کی وفات تک خوب فعال دکھائی دیتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر جدیدیت کا حامی ہوں اور کلاسیکیت کا بھی ادب کرتا ہوں کہ اس میں میر و غالب ایسے شعرا موجود رہے لیکن کلاسیکیت کا نعرہ لگانے والے حضرات اگر ایک بار کم از کم ایک بار ضرور ضرور کلاسیک شعرا میں محض جوش ہی کا دیوان دیکھ لیں تو انھیں اندازہ ہوجائے گا کہ اس کلاسیکیت کی آڑ میں بوس و کنار کے مناظر، محبوب کے اعضا کے نام اوران کے افعال، امرد پرستی پر فخر اور نہ جانے کیا کیا بیان کیا جارہا تھا اور کیا یہ محض حظ آفرینی کے سوا کسی قسم کی مقصدیت کا بھی نمائندہ تھا ؟ مرزا شوق کی مثنوی زہرَ عشق جس کے بارے میں کہیں پڑھا تھا کہ اسے پڑھ کر لوگ اپنے جذبات کے ہاتھوں خود کشی کرلیتے تھے ، آپ ذرا ایک بار پڑھئے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ فکری حوالے سے اسے دورَ حاضر کے لطائف سے زیادہ کسی چیز کا نام نہیں دیا جاسکتا اور اس قسم کے ادب کی اب نہ ضرورت ہے اور نہ ہی اہمیت۔اور ایک بار حکیم مومن خان مومن کی مثنوی دوم کا بھی مطالعہ کیا جائے تو بندہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ جوان مرد و خواتین کے سامنے ان اشعار کی کیا تشریح بیان کی جائے جن میں وہ اپنے محبوب کے منھ اور پہلو ذائقے کی بات کرتا ہے۔اس لیے محض کلاسیکیت ہمارے ہمارے عصری مسائل کی نمائندگی کرنے یا کسی بھی قسم کی مقصدیت پسندی سے دوری کا سبب تھی اور دونوں دھڑوں میں خوب تن گئی تھی۔ اس لیے جب ان دونوں کے درمیان کی راہ نکالنے حسرت موہانی، فیض احمد فیض اور ناصر کاظمی ایسے شعرا سامنے آئے تو نہ صرف احساس نہیں مرا بلکہ جدیدیت بھی ساتھ ساتھ چلتی دکھائی دی۔ میرے خیال میں تو ایسی ہی وجوہات کی بنا پر ہماری شاعری میں فکری تنوع در آیا۔
 
اردو کیا ہے؟ ورثہ؟ زبان؟ معاشرتی تعامل؟
دیکھیے معاشرتی تعامل کا تعلق معاشرے کی سرگرمیوں سے ہے اور اب جب اردو کے مولد کے حوالے سے چار بڑے نظریا ت پیش کرنے والے محققین کے درمیان اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ مختلف بولیوں اور لوگوں یا قوموں کے اختلاط سے وجود میں آئی اس لیے ہمارے ثقافتی ورثے کی امین بھی ہے اور زبان بھی ہے۔
 
Top