حسان خان
لائبریرین
جنابِ «فُضولی» کے نعتیہ قصیدے «سو قصیدهسی» کی بیتِ ہشتُم:
غم گۆنۆ ائتمه دلِ بیماردان تیغین دِریغ
خَیردیر وئرمهک قارانقو گئجهده بیماره سو
(محمد فضولی بغدادی)
بہ روزِ غم، دلِ بیمار سے اپنی تیغ کو دریغ مت رکھو!۔۔۔ تاریک شب میں بیمار کو آب دینا [کارِ] خیر ہے۔
تشریح:
«تیغ» مِژگان (اور نِگاہ) کا اِستِعارہ ہے۔ شاعر اپنے یار سے درمندانہ خواہش کر رہا ہے کہ وہ خود کی نِگاہ کو اُس کے دلِ بیمار سے دریغ مت رکھے۔ اور قصیدے کی بیتِ چہارُم کی مانند اِس بیت میں بھی ایک قدیم طِبّی باور پر اِستِناد کیا گیا ہے: بیماری شب کے وقت شِدّت پکڑتی ہے، پس شبِ تاریک میں بیمار کو آب دینا اور اُس کی تیمارداری کرنا کارِ ثواب ہے۔ لیکن اِس کے باوجود، جیسا کہ بیتِ چہارم میں اشارہ گُذرا ہے، زخمی کو زیادہ آب دینا اُس کے لیے زِیاںآور اور مُہلِک ہے۔ دونوں حالتوں کو مدِّ نظر رکھا جائے، تو تیغ (نِگاہ) کو آب سے تشبیہ دی گئی ہے۔ نگاہِ معشوق اگرچہ آرامبخش و شادمانیبخش ہے۔ لیکن یہ عاشق کو فرطِ ہَیجانِ دیدار سے ہلاک کر دیتی ہے، کیونکہ «عاشقاں کُشتگانِ معشوق ہیں»۔ «بیمار کو آب دینا کارِ ثواب ہونا» صنعتِ تشبیہِ تمثیل کا ایک نمونہ ہے۔ «روزِ غم» اور «شبِ تاریک»، «دلِ بیمار» اور «بیمار»، «تیغ» اور «آب»، جُفتوں (جوڑیوں) کے لِحاظ سے ایک دوسرے کے ساتھ ارتباط رکھتے ہیں، اور اِس ارتباط سے صنعتِ لفّ و نشر وجود میں آئی ہے۔ ضِمناً، «روز» اور «شب» صنعتِ تضاد یا طِباق کے استعمال کے ذریعے سے ایک باہمی مُتَناقِض رابطے میں ایک دوسرے کے مُقابِل موجود ہیں۔
شاعر پیغمبر (ص) سے روزِ قیامت، کہ «یوم التغابُن» (روزِ زیاں و خسارہ و پشیمانی و افسوس) ہے، کے لیے شفاعت کی خواہش کر رہا ہے۔
(شارح: علیاصغر شعردوست)
(مترجم: حسّان خان)
جمہوریۂ آذربائجان کے لاطینی رسم الخط میں:
Qəm günü etmə dili-bimardən tiğin diriğ,
Xeyrdir vermək qaranqu gecədə bimarə su.
تُرکیہ کے لاطینی رسم الخط میں:
Ġam güni itme dil-i bîmârdan tîġuñ dirîġ
Ḫayrdur virmek ḳaranġu gicede bîmâre su
غم گۆنۆ ائتمه دلِ بیماردان تیغین دِریغ
خَیردیر وئرمهک قارانقو گئجهده بیماره سو
(محمد فضولی بغدادی)
بہ روزِ غم، دلِ بیمار سے اپنی تیغ کو دریغ مت رکھو!۔۔۔ تاریک شب میں بیمار کو آب دینا [کارِ] خیر ہے۔
تشریح:
«تیغ» مِژگان (اور نِگاہ) کا اِستِعارہ ہے۔ شاعر اپنے یار سے درمندانہ خواہش کر رہا ہے کہ وہ خود کی نِگاہ کو اُس کے دلِ بیمار سے دریغ مت رکھے۔ اور قصیدے کی بیتِ چہارُم کی مانند اِس بیت میں بھی ایک قدیم طِبّی باور پر اِستِناد کیا گیا ہے: بیماری شب کے وقت شِدّت پکڑتی ہے، پس شبِ تاریک میں بیمار کو آب دینا اور اُس کی تیمارداری کرنا کارِ ثواب ہے۔ لیکن اِس کے باوجود، جیسا کہ بیتِ چہارم میں اشارہ گُذرا ہے، زخمی کو زیادہ آب دینا اُس کے لیے زِیاںآور اور مُہلِک ہے۔ دونوں حالتوں کو مدِّ نظر رکھا جائے، تو تیغ (نِگاہ) کو آب سے تشبیہ دی گئی ہے۔ نگاہِ معشوق اگرچہ آرامبخش و شادمانیبخش ہے۔ لیکن یہ عاشق کو فرطِ ہَیجانِ دیدار سے ہلاک کر دیتی ہے، کیونکہ «عاشقاں کُشتگانِ معشوق ہیں»۔ «بیمار کو آب دینا کارِ ثواب ہونا» صنعتِ تشبیہِ تمثیل کا ایک نمونہ ہے۔ «روزِ غم» اور «شبِ تاریک»، «دلِ بیمار» اور «بیمار»، «تیغ» اور «آب»، جُفتوں (جوڑیوں) کے لِحاظ سے ایک دوسرے کے ساتھ ارتباط رکھتے ہیں، اور اِس ارتباط سے صنعتِ لفّ و نشر وجود میں آئی ہے۔ ضِمناً، «روز» اور «شب» صنعتِ تضاد یا طِباق کے استعمال کے ذریعے سے ایک باہمی مُتَناقِض رابطے میں ایک دوسرے کے مُقابِل موجود ہیں۔
شاعر پیغمبر (ص) سے روزِ قیامت، کہ «یوم التغابُن» (روزِ زیاں و خسارہ و پشیمانی و افسوس) ہے، کے لیے شفاعت کی خواہش کر رہا ہے۔
(شارح: علیاصغر شعردوست)
(مترجم: حسّان خان)
جمہوریۂ آذربائجان کے لاطینی رسم الخط میں:
Qəm günü etmə dili-bimardən tiğin diriğ,
Xeyrdir vermək qaranqu gecədə bimarə su.
تُرکیہ کے لاطینی رسم الخط میں:
Ġam güni itme dil-i bîmârdan tîġuñ dirîġ
Ḫayrdur virmek ḳaranġu gicede bîmâre su