تازہ ترین نثری کاوش ۔ اہلِ محفل کی نذر
’’کہاں ہو تم؟‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ترمیم شدہ
اسے اپنا تو کچھ پتہ نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے اور کس عالم میں ہے۔ سامنے دو آنکھیں تھیں اور ان سے زندگی گویا امڈ جانے کو بے تاب تھی اور سرمے کی گاڑھی چار دیواری اسے امڈنے سے روک رہی تھی۔ زندگی کہاں رکتی ہے بھلا، اس نے ایک اور روپ دھار لیا، روشنی کا روپ، جسے وہ کالی چار دیواری کسی طور بھی روک نہیں سکتی تھی۔ اسے تو یہ بھی احساس نہیں تھا کہ وہ زندگی کی اس روشنی کو دیکھ رہا ہے یا خود اس کا حصہ بن گیا۔ بے وجودی کی یہ کیفیت بھی شاید اس کے ادراک میں نہیں آئی تھی، آ جاتی توبے چین تو ہو جاتا، اور کچھ نہ ہوتا تو! ایک پرسکون خود فراموشی، سرمدی خاموشی اور دو آنکھیں! یہ وہ کل کائنات تھی جس کا وہ مشاہدہ کر رہا تھا؛ ایسا عمیق مشاہدہ کہ خود بھی شاید اسی کا حصہ بن گیا تھا۔
اس نے دیکھا وہ آنکھیں اس پر مرتکز ہو رہی ہیں اور ان کے چاروں طرف کچھ سائے سے بن رہے ہیں۔ سرمے سے لدی سیاہ پلکوں سے ذرا اوپر بھویں سی ایک لمحے کو دکھائی دے جاتیں اور پھر غائب ہو جاتیں۔ ذرا دیر کو اسے ایک کشادہ پیشانی کا شائبہ ہوا جس کی اوپری حد کا تعین سیاہ بالوں کے اس سائے سے ہو رہا تھا جو کسی لامحدود دودھیا روشنی میں ایک لمحے کو نظر آتا اور ایک لمحے کو غائب ہو جاتا۔ آنکھوں سے نیچے بھی وہی چاندنی جیسی دودھیا روشنی تھی۔ اس پورے پس منظر میں صرف ایک منظر پوری قوت سے نمایاں تھا، سرمے کی گاڑھی دیواروں میں خوبصورتی سے سجی دو آنکھیں جن سے زندگی پھوٹ رہی تھی۔ اسے اپنے اندر زندگی کا احساس ہوا تو اس نے جانا کہ ان دو آنکھوں کے نیچے دودھیا روشنی میں شفق رنگ عارض چھپے ہوئے ہیں تاہم اسے کوئی جلدی تھی نہ بے تابی کہ یہ عارض اور ان کی سرخی اپنی آنکھوں میں بھر لے۔ دونوں عارض کے بیچ ایک دل ربا ابھار، اس کے نیچے دو گہری گلابی پنکھڑیاں اپنے سارے رس لئے اس کے شوق کو ابھار رہی ہیں۔وہ ایسی سرشاری میں تھا کہ ان ہونٹوں کو دیکھنے یا چھونے کی طلب بھی کہیں نہیں تھی، اور عجیب تر بات یہ کہ وہ کسی بھی قسم کی محرومی کا کوئی احساس اپنے اندر نہیں پا رہا تھا۔ اسے یوں لگ رہا تھا کہ وہ لب و عارض ازل سے اس کے اندر سمائے ہوئے ہیں۔
پھر اُس نے ایک بہت بڑا پھاٹک دیکھا جو بند تھا۔ اسے اس پر بھی کوئی دکھ یا قلق محسوس نہیں ہوا۔بلند دیوار جس میں پھاٹک بنا تھا، دونوں طرف حدِ نظر سے بھی باہر تک پھیلی ہوئی ہو گی مگر روشنی کی چادر جو اُن دو آنکھوں کے گرد حمائل تھی اس نے دیوار کو بھی چھپا لیا ۔ وہ آنکھیں اب اسے بڑے دروازے کے اوپر سے دیکھ رہی تھیں۔ اسے تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ ان آنکھوں کو کس انداز میں دیکھ رہا ہے۔ خبر اور بے خبری کے بین بین اسے محسوس ہوا کہ وہ آنکھیں کچھ کہہ رہی ہیں۔ وہ سماعت کے بوجھ سے بھی بے نیاز ہو چکا تھا۔ یوں بھی آنکھوں کی زبان کانوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ اس کی بصیرت نے سنا کہ وہ دو سرمہ سا، حیات زا آنکھیں کہہ رہی ہیں:’’کہاں ہو تم؟ کہاں رہ گئے ہو؟ میں یہاں تمہاری منتظر ہوں۔‘‘ روشنی کا یہ پیغام اسے مضطرب کر گیا اور وہ اضطراری کیفیت میں آگے کو لپکا۔ اس کا اپنا پورا وجود ایک دم کہیں سے ظاہر ہو گیا تھا۔ وہ تقریباً اڑتا ہوا بڑے دروازے کے سامنے پہنچا۔ پھاٹک بند نہیں تھا، بھِڑا ہوا تھا۔ اس کی غیرمرئی انگلیوں کے مَس ہوتے ہی کھل گیا اور ۔۔۔
۔۔۔ وہ اندر داخل ہوا تو، نہ وہ پھاٹک تھا، نہ بلند و بالا دیواریں۔ وہ ایک گھر کے صحن میں تھا، اس نے اپنے پیچھے چار فٹ کا عام سا دروازہ بند کیا، صحن میں دیکھا کہ کچھ مرغیاں گھر میں اگے موتیے کے اکلوتے پودے کے نیچے دانہ چگ رہی ہیں اور ان کے گرد سفید کلیاں بکھری پڑی ہیں؛ دو میمنے سفید اون کی بے داغ قبائیں پہنے کھلے پھر رہے ہیں۔ یہ ایک گاؤں کا سادہ سا گھر تھا۔ دائیں طرف کھرا تھا، اس سے متصل رسوئی اور سامنے کچی اینٹوں سے بنی تازہ لپی ہوئی ایک دیوار، بائیں طرف دو کمروں کے دروازے جو بھڑے ہوئے تھے۔ نکڑ والے کمرے کے ساتھ سرخ پختہ اینٹوں سے بنی سیڑھی مکان کی چھت پر جا رہی تھی۔ اور کمرے کے چونترے پر کچی مٹی کا چولھا بنا ہوا تھا۔ صحن بھی سارا کچی مٹی اور سفید گارے سے تازہ لپا ہوا تھا اور دیواریں بھی۔ اس نے سوچا مویشی دوسرے احاطے میں بندھے ہوں گے، مگر یہ میمنے؟ یہ اکیلے یہاں کیوں پھر رہے ہیں؟صحن میں ایک چارپائی بچھی تھی، جس کی پائنتی پر ڈبیوں والا کھیس سلیقے سے رکھا تھا اور سرہانے کی طرف ایک بڑا سا گول تکیہ پڑا تھا۔ سارے سوالوں کو جھٹک کر وہ بلا تکلف اس چارپائی پر بیٹھ گیا جیسے یہ اسی کے لئے رکھی ہو۔ بیٹھتے میں اس کی نظر اپنے براق سفید لباس پر پڑی تو اسے لگا کہ اس دودھیا روشنی کا منبع وہ سرمگیں آنکھیں ہیں جو اس نکڑ والے کمرے کو جگمگا رہی ہیں۔ وہ حیرت سے کبھی اپنے ہاتھ پاؤں کی طرف دیکھتا، کبھی چارپائی کی طرف اور کبھی اپنے سفید لباس کی طرف۔ ایسے میں اسے اپنے اندر سے کہیں اٹھتا ہوا مدھم سا ارتعاش محسوس ہوا کہ: ’’کہاں ہو تم؟ کہاں رہ گئے ہو؟ میں یہاں تمہاری منتظر ہوں۔‘‘ اسے معلوم تھا کہ یہ صدا نہیں انہی سرمگیں آنکھوں کی طرف سے آنے والا پیغام ہے۔ اس نے چارپائی سے اٹھنا چاہا تو جیسے وہ آپ سے آپ ہوا میں اٹھ گیا ہو۔
اس کے اپنے لباس کی سفیدی چاندنی کی طرح پھیل گئی، سارا ماحول جیسے اس میں تحلیل ہو گیا اور وہ خود بھی اسی دودھیا ٹھنڈی روشنی کا حصہ بن گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
محمد یعقوب آسی ۔ 11 ستمبر 2014 ء
سید فصیح احمد ،
سید عاطف علی ،
نیرنگ خیال ،
محمد اسامہ سَرسَری ،
محمد خلیل الرحمٰن ،
الف عین ،
محمد وارث اور جملہ اصحابِ ذوق