اَمبوا لاگا بُور
جناب مشتاق عاجزؔ کی کتاب ’’سمپورن‘‘ کا طالب علمانہ مطالعہ
(2)
مجھے یہاں ایک مشہور حکایت یاد آ گئی: دستِ قدرت نے جنت کا نقشہ پہاڑ کی چوٹی پر بنایا اور جہنم کا وادی میں، بیچ میں دنیا کا۔ باقی سب سپاٹ چھوڑ دیا کہ جنت کے باغات اور جہنم کی لپٹیں سب کچھ صاف دکھائی دے۔ کہنے والے کہنے لگے کہ یوں ہے تو کوئی ایک شخص بھی ڈھلان کو نہیں جائے گا۔ پھر کچھ ایسا ہوا کہ کمرِ کوہ سے چوٹی کی طرف نوکیلے پتھر، خاردار جھاڑیاں اور کھائیاں نمودار ہو گئیں اور باغات چھپ گئے۔ ادھر وادی کی طرف خیابان و گلستان، برگ و بر اور کہنی ان کہنی عیاشیوں کا سامان یوں بہم ہوا کہ لپٹوں تک کسی کی آنکھ جائے نہ کان ۔ کہنے والے کہنے لگے یوں ہے تو کوئی ایک شخص بھی چوٹی کو نہیں جائے گا۔ صدا آئی کہ جسے اوپر کو جانے کا دم ہو گا، وہ ان نوکیلے پتھروں، جھاڑیوں کھائیوں کو خاطر میں نہیں لائے گا اور چاہے ہانپتے کانپتے پائے، کلہء کوہ کو پا لے گا ؛ وہ نیچے جانے والا جس پھل کو چکھے گا پھوک پائے گا اور رسیلے کی تلاش میں نیچے لڑھکتا چلا جائے گا، اور آخر کو اوندھے منہ شعلوں میں گر پڑے گا۔ اب یہ دوہا پڑھئے۔
دنیا بوڑھی وِدھوا اوڑھے سر پر چنری لال
عقل کے اندھے اس پر ریجھیں منہ سے ٹپکے رال
کتاب کے اگلے دو باب ’’دھیان دھارا‘‘ اور ’’گیان گیتا‘‘ باہم متصل ہیں۔ یوں کہہ لیجئے کہ انسان جن حقائق کا مطالعہ کرتا ہے وہ دھیان ہے اور جو نتائج اخذ کرتا ہے وہ گیان ہے۔ مشتاق عاجز کی گوہر شناس نظر، مطالعہ اور تفکر اسے بتاتے ہیں کہ:
گہرا ساگر دھیان کا جس کی تھاہ کا موتی گیان
جو پاتال سے موتی لائے اس کو مان مہان
دینِ فطرت ہمیں بتاتا ہے کہ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کا وہ جتن کرے۔ اپنی منزل پانے کو اس کی طرف سفر کرناہو گا۔ قدرت نے ساری نعمتیں انسان کے لئے بنائی ہیں اور انسان کو اپنے لئے تخلیق کیا ہے۔ اس کی زندگی لکھ دی گئی، موت لکھ دی گئی رزق لکھ دیا گیا، علم لکھ دیا گیا اور یہ بھی لکھ دیا گیا کہ اس سب کچھ کو حاصل کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں ہلانے پڑیں گے۔
وقت پہ جس نے کھیتی بیجی وہ اصلی دہقان
لمبی تان کے سو جائے تو گھاس اگے کھلیان
اجیارے میں راہ سفر کی جلدی سے کٹ جائے
شام ڈھلے جو چلے مسافر پگ پگ ٹھوکر کھائے
ریکھاؤں میں کیا رکھا ہے مڑ مڑ ریکھ نہ دیکھ
ریکھا تیری مٹھی میں ہے لکھ لے اپنے لیکھ
حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے کہا ہے:
پابندیء تقدیر کہ پابندیء احکام
یہ مسئلہ مشکل نہیں ہے مردِ خرد مند
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند
یہی دعوتِ عمل مشتاق عاجز کے ہاں پائی جاتی ہے۔ انسان کو آپ اپنی مساعی کا قوام بنانا ہے اور اس کو اعلیٰ اور مفید مقصد کے لئے کام میں لانا ہے۔ نیک و بد کا امتیاز اخلاقیات کی بنیاد ہے۔ اچھی اقدار کو معروف اور بری اقدار کو منکر کہا گیا۔ اور بتا دیا گیا کہ معروف کو اپنانا ہے منکر سے بچنا ہے کہ تقویٰ اور اعلیٰ انسانی اقدار کا پاس ہی روئے زمین پر بسنے والوں کے لئے امن و آشتی کا ضامن ہے۔
لوبھ کرودھ ہیں سانپ سپولے اگلیں منہ سے آگ
اتم بیر وہی جو کیلے ایسے زہری ناگ
ساگر سے بھر لائے گاگر بدرا جل برسائے
جل ندیا میں، ندیا آخر ساگر میں مل جائے
دھیان اور گیان کے اس مرکب عمل کا کچھ نہ کچھ حاصل بھی تو رہا ہو گا۔ تیل جلتا ہے تو روشنی ہوتی ہے؛ ایک کا لوبھ دوجے سے ٹکراتا ہے تو نفرتیں اور عداوتیں جنم لیتی ہیں؛ پن گن ہے اور گن پن ہے؛ دھیان اور گیان ایک دوجے کے شانہ بشانہ چلتے ہیں۔ مشتاق عاجز نے ایسے کتنے ہی موتی پاتال سے ڈھونڈ لا کر اپنے قاری کے سامنے ڈھیر لگا دیا۔ اس باب میں پند و نصائح بھی ہیں تاہم ان کا انداز خشک اور بیزارکن ناصحانہ نہیں بلکہ دل پذیر اور دل ربا ہے۔ بعض دوہے تو ایسے ہیں کہ کچھ بعید نہیں کل وہ کہاوت کا درجہ پا لیں۔ فکری اور اخلاقی قدر و قیمت، بیان کی چاشنی اور انسانی مزاج سے ہم آہنگی، زبان کا چٹخارہ، لفظیات کا موضوعات کے ساتھ وہ قوام بنایا ہے کہ اس کی شیرینی روح میں اتار لینے کو جی چاہتا ہے۔
مندر مسجد ماتھا گھس کے گیا نہ من کا میل
تیرتھ کے سو چکر کاٹے رہے بیل کے بیل
لوبھ جگت کی پھرے اڑائے جانے کت کت اور
جت جائے چت چنتا رکھنا راہ تکت ہے گور
گور گپھا میں گھور اندھیرا دیپ جلے نہ کوئے
من میں پُن کی جوت جگا لے دور اندھیرا ہوئے
پُن اور گن کی مایا جتنی بانٹو بڑھتی جائے
ہُن کی مایا ڈھلتی چھایا، ہُن پر کیا اترائے
دوہوں کا ایک وصفِ خاص جو مشتاق عاجز کے دوہوں میں وصفِ عام بن گیا ہے وہ سلاست اور سہولت ہے۔ الفاظ جھرنے سے اترتے پانی کی صورت نرمی اور روانی سے ایک دوسرے کے پیچھے یوں آتے ہیں کہ ثقالت کو راہ نہیں ملتی، نہ ادا کرنے میں اور نہ معانی و مطالب میں۔ حسنِ تکرار اور صوتی رعایت میں مشتاق عاجز کے دقیق فلسفیانہ مضامین راگنیاں بن جاتے ہیں۔ عالمِ فانی کی بے ثباتی، موت اور اس کے بعد پھر زندگی، قبر، قبر کی تاریکی میں اعمالِ صالحہ کی روشنی، پن، گن اور ہن کی مثلث؛ یہ مضامین کسی واعظ کی زبانی سننے کا عمل جتنا بوجھل ہو سکتا تھا، مشتاق عاجز کے ہاں اتنا ہی لطیف ہو جاتا ہے۔دو بہت ہی خوب صورت دوہے نقل کرتا ہوں، ان ہشت پہلو تراشیدہ ہیروں کو ہر زاویے سے دیکھئے گا، اور دیکھئے گا کہ کس پہلو کیا کیا رنگ جھلکتے ہیں۔ کچھ باتیں، جیسے میں نے پہلے عرض کیا، محسوس کی جا سکتی ہیں، بیان کرنے میں ان کی نزاکت مانع ہوتی ہے۔
بھور بھئے گھر آنگن چھوڑا جا نکلا کت جا
سونا آنگن باٹ نہارے سانجھ بھئی گھر آ
من میں پی کی پیت بسا لے، من سندر ہو جائے
پیتم کے من بھائے سندرتا من میں آن سمائے
میں نے کہیں کہا تھا کہ ’’بوٹے تے بولیاں، دونہاں نوں مٹی چاہی دی اے‘‘۔ میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ زبان تہذیب کا اعلیٰ ترین مظہر ہوتی ہے۔جب اس میں انشا، سلیقہ اور جمالیات شامل ہو تو اسے ادب کہتے ہیں۔ لوک ادب کا نمایاں وصف یہ ہوتا ہے کہ اس میں دھیان بھی اور گیان بھی دھرتی سے پھوٹتے ہیں اور ان میں پایا جانے والا دھرتی کا رس محسوسات اور سماعتوں کو نہال کر جاتا ہے۔ رومان اور جمالیات لازم و ملزوم ہیں ایک کے بغیر دوسرے کا تصور محال ہے۔ ’’روپ سروپ‘‘ میں یہی رومانی جمالیات کارفرما ہے۔ اس باب میں مشتاق عاجز کی پیکر تراشی کی صلاحتیں عروج پر دکھائی دیتی ہیں۔ اس کا دقیق مشاہدہ، ملکہء اظہار اور شاعرانہ اندازِ نظر، رومان پسند طبع اور فن کارانہ قوتِ تجزیہ اس کے طبع زاد دوہوں کو لوک شاعری بنا دیتے ہیں۔ یہاں اس کے دوہوں کی خاص بات نرمی، حسن، زبان و اسلوب اور مرقع نگاری کی دھنک ہے۔ سارے دوہے یہاں نقل کرنا ممکن نہیں کچھ بے شست نمونے دیکھئے۔
ہونٹ گلابی، نین شرابی اور نشیلی چال
امبر ڈول نہ جائے گوری اپنا آپ سنبھال
نرم کومل چنچل گوری جیوں پارا بے چین
چین چرائے چنچل چتون، نیند اڑائیں نین
مدھ کا بھر کٹورا جوبن چھلک چھلک ترسائے
ترس ترس مر جائیں پیاسے ہاے رے یہ اَنیائے
سر پر دھر کر گاگر گوری مٹک مٹک لہرائے
لچک لچک بل کھائے کمریا بھومی گھومی جائے
حسن اور عشق کا رشتہ بھی کیا عجیب رشتہ ہے۔ شعری روایت میں حسن کو بے پروا اور عشق کو سراپا لگن کہا جاتا ہے۔ بے داد کے سارے الزامات بھی حسن کو دئے جاتے ہیں۔ سوچنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ عشق کا مرجع و مقصود اگر حسن ہے تو حسن کا مرجع و مقصود کیا ہے؟ حسن ایسا بے پروا بھی نہیں ہو سکتا، نہیں تو وہ حسن ہوتا ہی نہیں۔ اس کا حسن ہونا بھی تو آخر کسی کے لئے ہے نا! کہ کوئی اس کو چاہے، اس کے لئے تڑپے، اس تک پہنچنے کے جتن کرے۔ یعنی حسن کو مطلوب ہونے کی طلب ہے تو اس کا تقاضا کس سے ہے؟ عشق سے، نا! گویا حسن خود بھی تو عشق کا طالب ہے؛ طالب بھی اور مطلوب بھی جب کہ عشق طلب ہی طلب ہے؟ اس سوال کا جواب اگلے باب میں تلاش کریں گے، یہاں حسن کے کچھ اور زاویے دیکھتے چلئے۔
روپ نگر کی راج کماری کرے دلوں پر راج
راجے راج کُنْور سب بھولے راج سبھا کے کاج
سینے سے جب آنچل ڈھلکے غنچے آنکھ چرائیں
کھلتا جوبن دیکھ کے کلیاں گھونگھٹ میں شرمائیں
مہکی مہکی آنچ بدن کی دہکی دہکی آگ
بہکی بہکی بانی کا سر چھیڑے دیپک راگ
رومانی روایت میں محبوبی عام طور پر تانیث کے حصے میں آئی ہے۔ محبوب کو کبھی ہیر کا سراپا دیا جاتا ہے تو کبھی سوہنی کا، کبھی شیریں کا تو کبھی سسی کا، اور کبھی درخانئے کا۔ ان کے لئے جہاں کوئی رانجھا بے چینیوں کے سر بکھراتا ہے تو کہیں کوئی مہینوال اپنے ماس سے بنی سوغات لاتا ہے۔ کہیں فرہاد پتھروں کا سینہ چیرتا ہے تو کہیں پنوں اسیری کاٹتا ہے اور کہیں آدم خان پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرتا دکھائی دیتا ہے۔ برصغیر میں تانیث عاشقی سے بھی سرفراز ہے۔ جوگی جنگل جنگل پھرتا ہے اور جوگن اس کے لئے ترس تڑپ رہی ہوتی ہے۔ صوفیا نے بھی رومانی روایت میں تانیثی لہجہ اختیار کیا اور محبوب کو تذکیر میں رکھا ہے۔ فراق کی کیفیات اور نازک احساسات کے اظہار کو جو رنگ جہاں بھا جائے، محبوب کی توجہ پا لے۔برہا کی تپش دونوں طرف کارفرما ہوتی ہے۔ محبوبِ حقیقی کا بھی تو کہا جاتا ہے کہ جب اس نے چاہا کہ مجھے کوئی اپنے طور پر پہنچاننے کی کوشش کرے تو اس نے کائنات تخلیق کی اور انسان کو بنایا۔ صمد تو وہ ایک ذات ہے، سارے تو صمد نہیں ہو سکتے؛ عاشق بھی تڑپتا ہے اور معشوق بھی۔ ’’برہن بین‘‘ کے باب میں ایسی کیفیات اور تپش کا اظہار کرنے میں مشتاق عاجز کے الفاظ بھی تپنے اور تڑپنے لگتے ہیں، اور ان کی کاٹ قاری کے محسوسات پر حاوی ہو جاتی ہے۔
بن میں کویل شور مچائے من میں ناچے مور
تن میں ساون آگ لگائے، آن ملو چت چور
چوڑی کی چھنکار سجے نہ پایل کی جھنکار
چھن چھن چھُن چھُن سن کر لاگے تن من تیز کٹار
نسائیت کی وہ ساری رنگینیاں جو روپ سروپ میں قاری کو گدگداتی ہیں، برہن بین میں نسائی جذبات کا مہجور مہجور اور شرمایا سا اظہار اور حیا کی رنگینیاں اس کو اور بھی نکھار دیتی ہیں۔ آم پر بور لگنے کی رومانویت کے رنگ ہی سارے اپنے ہیں! شوخ و شنگ بھی، نرم و نازک بھی، گدگدی کرتے ہوئے بھی اور کچھ نئے نئے احساسات سے روشناس کراتے ہوئے بھی۔توجہ فرمائیے گا کہ اس سے زیادہ کھل کر بات کرنے میں بات کا حسن جاتا ہے۔
سَکھیاں پوچھیں روگ جیا کا، اکھیاں کھولیں بھید
چپ سادھوں تو آہیں نکلیں سینے میں سو چھید
نیر بہاؤں پیاس بجھاؤں دیکھوں پی کی باٹ
چولھا چوکا چھوڑ کے بیٹھی دوار بچھائی کھاٹ
ماتھے بندیا آن سجاؤ، مانگ بھرو سیندور
جھولا آن جلاؤ متوا، امبوا لاگا بور
بچھڑی ہوئی روحوں کی یہ کرلاٹ اور ملن کی منہ زور آشا خوش ذوق قارئین پر محسوسات کے ان دیکھے آفاق کے در وا کر رہی ہے۔ مشتاق عاجز کے دھڑکتے ہوئے الفاظ ان بچھڑی ہوئی روحوں کی ساری بے چینیاں نہ صرف اپنے اندر سمو لیتے ہیں، بلکہ اپنے قاری کو بھی انہی بے ترتیب دھڑکنوں سے شناسا کر جاتے ہیں۔
اس عالمگیر موضوع کے تسلسل میں قاری پریم پنتھ کے مرحلے میں داخل ہوتا ہے اور اُن تمام کیفیات سے دوچار ہوتا ہے جن میں تپش بھی ہے اور لگن بھی۔ مشتاق عاجز کا فن یہاں بلندی اور گہرائی ہر دو کو احاطہ کرتا ہے۔ ’’صوفلسفی‘‘ مزاج کا حامل ہمارا شاعر یہاں جدائی کی ٹیس خود بھی محسوس کرتا ہے اور اپنے قاری کو بھی محسوس کراتا ہے۔ پروفیسر انور مسعود کا یہ قول، میں پتہ نہیں کتنے مقامات پر بیان کر چکا ہوں، کہ: شعر وہ ہے جو آپ کو چھیڑ دے اور آپ کا ذہن اس کے پیچھے یوں لپکے جیسے بچہ تتلی کے پیچھے بھاگتا ہے۔ مشتاق عاجز کے دوہوں کے تناظر میں پروفیسر صاحب کی اس تتلی کے اڑتے کھلتے سمٹتے رنگوں کی معنویت اور بھی بڑھ جاتی ہے اور اس پر مستزاد اس کی منحنی اڑان ہے جو وارداتِ قلبی کی طرح کسی بھی لمحے کوئی بھی رخ اختیار کر سکتی ہے۔ چند دوہے نقل کر رہا ہوں ان میں اس تتلی کی کیفیات بھی مترشح ہیں اور ان کا نفسیاتی تجزیہ بھی از خود شاملِ کلام ہے۔
جن اکھین سے نیر نہ ٹپکے وہ اکھین ویران
منوا دکھ سے خالی ہے تو جیون ہے شمشان
جس تن لاگے سو تن جانے اور نہ جانیں لوگ
من کی پیڑا جانے جس کے جی کو لاگا روگ
برہا کی آگ کا تاپ دوطرفہ ہوتا ہے اور اس کا اثر ایک سا بھی ہو سکتا ہے، مختلف بھی ہو سکتا ہے۔ پر ہو جیسا بھی، سکھ چین کو بھسم کر ڈالتا ہے۔آگہی کی اس منزل پر جذبہ صادق ہے تو ملن ہو نہ ہو، وہ آپ کندن بن جاتا ہے، نہیں تو راکھ رہ جاتی ہے اور اس کا ہونا نہ ہونا برابر۔
آگہی آگ ہی تو ہوتی ہے
کوئی کندن کوئی غبار ہوا
مشتاق عاجز کا بیان اور اس کی چاشنی ملاحظہ کیجئے۔
پریم اگن میں جل کر کندن ہو جائے جو نار
اس کے تن سے چھو جائے تو نار بنے گلزار
اس کے ہاں جل ساگر سے اٹھتا ہے، میگھا اور برکھا کا روپ دھار کے بھومی پر آن پڑتا ہے اور ماٹی میں مل جاتا ہے۔ تب کہیں وہ پھر اسی ساگر سے جا ملتا ہے ، وہ کتنی کٹھنائیوں سے لڑتا بھڑتا ہے تب کہیں اس پر سنجوگ کا سمے آتا ہے۔ اس کٹھنائی کا ایک روپ یہ بھی ہے۔
ساغر سب کی پیاس بجھائے خود پیاسا رہ جائے
دھرتی پر جو بادل برسے اپنا آپ مٹائے
بجوگ کے سارے روگ تو کوئی کیا گِنوائے گا! کوئی ایک دو چار دس تو ہوتے نہیں۔ محب کی ہستی کا ایک ایک انگ آپ روگ بن جاتا ہے۔ وہ اندر ہی اندر ایسی آگ میں جلتا رہتا ہے جس کا دھواں بھی باہر نہیں نکلتا، نکلے بھی تو وہی جل، کبھی بادل، کبھی ٹھنڈی آہیں اور کبھی آنسو، کبھی جگنو تو کبھی تارے۔
ساون کی من بھاون بیلا بدرا گھر گھر آئے
شیتل شیتل پون جھکورا من کا چین چرائے
ساون بھادوں برسے برکھا نت برسیں میرے نین
جب سے پی پردیس سدھارے آٹھ پہر کی رین
آٹھ پہر کی رات میں بیان کیا گیا کرب برہا کی ایسی نادیدہ مگر جان گسل کیفیت ہے جسے بیان کرنے کی کوشش میں بات تارے گننے سے بھی آگے نکل جاتی ہے کہ تارے آنکھوں سے گرنے لگتے ہیں۔
تارے آنکھ مچولی کھیلیں یاد تہاری آئے
پورن ماشی چندا چمکے من میں آگ لگائے
ایسی گھور تاریکی میں اس منہ زاور آرزو کو اور کیوں کر بیان کیجئے گا کہ۔
دیکھ تو موری اور منوہر میں بھی تو منہار
چھلک رہا مورا جوبن چھیلا، دہک رہا انگار
طلب صادق ہو تو رائیگاں نہیں جاتی۔ چاہے لاکھوں قیامتوں، کروڑوں عمروں کے بعد آئے وصل کا مرحلہ آ ہی جاتا ہے۔ سنجوگ مشتاق عاجز کے ہاں ایک بہت وسیع علامت ہے جس کا پھیلاؤ انسان سے انسان تک اور پھر انسان سے بھگوان تک ہے۔ یہاں آ کر لفظ پی کے معانی یکسر بدل جاتے ہیں اور کل اور جزو کو ایک کر جاتے ہیں۔ بات توفیق کی ہے، اور نصیب کی جسے جو مل جائے۔ جس نے محبوب کو پا لیا وہ شہیدِ محبت ٹھہرا، اور جو نہیں پا سکا وہ سرے سے معدوم ہو گیا۔ ہجر کے سارے آتشیں سفر اور مرحلے وصال کی لذت سے شناسا ہوتے ہیں تو سب کچھ بھول جاتا ہے اور پھر چاروں اور بھی، من کے اندر بھی، بہار ہی بہار ہوتی ہے، پھول ہی پھول ہوتے ہیں۔ بلکہ یوں لگتا ہے کہ پچھلا سارا سفر پھولوں کے سنگ ہوا ہے۔ محبوب اور محب یک جان ہو جاتے ہیں اور من و تو کا امتیاز اٹھ جاتا ہے۔
اَن آدی بے انت پیا کا تھاما میں نے ہاتھ
جگ جگ کا سنجوگ ہمارا جنم جنم کا ساتھ
میں پیتم میں، پیتم مجھ میں، پیتم میری جان
میں ماٹی کی مورت لیکن مجھ میں بسے بھگوان
یہاں آ کر ہم مشتاق عاجز کے لہجے اور لفظیات میں بھی نمایاں تبدیلی دیکھتے ہیں۔ وہ جتنی شدتِ درد کے ساتھ بجوگ اور برہا کا حال کہتا ہے اس سے کہیں زیادہ مسرت کے ساتھ سنجوگ کے طبعی اور قلبی مناظر کی تخییل کرتا ہے۔ وہی بارش جو کبھی چھم چھم برستے نین کی تصویر ہوتی تھی، اس کی رم جھم میں پی کی آواز سنائی دیتی ہے۔ راستے پھولوں سے لد جاتے ہیں، اور صدیوں کی کٹھنائیاں کہیں دور دھول میں کھو جاتی ہیں۔
پھولوں میں مہکار پیا کی اور اسی کے رنگ
گلشن گلشن گھوم رہی میں اپنے پیا کے سنگ
جب سے پی کی اور چلی میں کھلے ڈگر میں پھول
پھولوں میں من اٹکا جائے راہ نہ جاؤں بھول
خود دہی کا عالم یہ ہوتا ہے کہ اپنی کوئی مرضی منشا بھی باقی نہیں رہتی، زندگی کا نام پیار ہو جاتا ہے اور پیار کا نام زندگی۔ تسلیم و رضا اسی غیر مشروط خود سپردگی کا نام ہی توہے۔
پیتم کا جب نام جپوں تو منوا ہو آنند
پیت پیا کی جیون دھارا پیتم کی سوگند
منوا چاہے یوں ہو جائے پی چاہے یوں ہو
جو پی چاہے سو ہو جائے من چاہا کیوں ہو
کٹھ پتلی اور ڈوری کا ہے جنم جنم کا ساتھ
جیسا چاہے ناچ نچائے ڈوری والا ہاتھ
مطالعے کا پہلا دور تکمیل پذیر ہوا، ابھی سیکھنے کی اور بہت باتیں باقی ہیں۔ مشتاق عاجز کے طبع زاد، لوک رنگ دوہوں کے اس مجموعے کا نام بجائے خود بہت اہم ہے۔ ’’سمپورن‘‘ سات کے سات راگوں کے یکجا ہونے کا نام ہے۔ یہ فقیر راگ رنگ سے ویسا شناسا ہوتا تو اور بات تھی، راگ سے اپنا علمی تعلق رہا ہی نہیں، رنگ سے البتہ کچھ کچھ علاقہ رہا ہے۔ دھنک کے سات رنگ، زندگی کی رنگا رنگی کی علامت ہیں۔ سائنس والے کہتے ہیں کہ یہ سات رنگ ایک دوجے میں جذب ہورہیں تو چاندنی بن جاتی ہے۔ سفید دودھیا چاندنی، زندگی کی پہنائیوں کا استعارہ، نور اور پاکیزگی کی علامت اور اسی میں سارے رنگ پنہاں ہوتے ہیں؛ وہ بنیادی سات رنگ بھی اور ان کے جزوی ملاپ سے بننے والے ہزاروں لاکھوں رنگ اور جن کا شاید کوئی نام نہیں۔ سمپورن میں پنہاں اور عیاں کی رنگینیوں اور چابک دستی کا کچھ مختصر بیان ہو جائے۔
مشتاق عاجز نے دھرتی سے، اور دھرتی کی رِیت سے جڑ کر شاعری کی ہے اور بھومی کی باس رس اس کے قاری کے ذہن و دل کو شانت کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مٹی، لوبان، خوشبو، مہمان، سیوا، پنجرا، پنچھی، بالک، ریت، درد، تن، کٹیا، کچا کوٹھا، کنواری نار، پراتی، سندیس، پن، پاپ، گن، دھن، کانٹے، ساگر، بادل، دھاگا، نوکر چاکر، ناؤ، ریشم، مسجد، مندر، کتاب، بیل، پھل جھڑی، سدھ بدھ مدھ، ساون بھادوں، منگل، سچی بات، جھوٹی قسم، وچن، کلپنا، دیوالی، پنگھٹ، گاگر، جوبن، جھولا، انبوا، بور، سیندور، مانگ، چھن چھن، چھُن چھُن، آنگن؛ زندگی سے اتنا گہرا اور تفصیلی رابطہ شاعری میں ہو اور قاری نہال نہ ہو، مشکل بات ہے۔
مشتاق عاجز نے لفظوں کی بصری اور صوتی ساخت سے بھی فن آفرینی کا کام لیا ہے، اور تکرار کو ایسے حسین پیرائے میں لائے ہیں کہ شعر قاری کے اندر لہرئیے لیتا محسوس ہوتا ہے۔
جب سے ڈالا کان میں بالا، بالا من بے چین
تم بن مورا جیون سونا جیوں کاجل بن نین
رعایاتِ لفظی و معنوی کی بات اس لئے نہیں کروں گا کہ مجھے ایک بھی ایسا شعر دکھائی نہیں دیا جس میں کوئی لفظ خالی محسوس ہوا ہو۔ اس کی رعایات، علامتیں اور استعارے اپنی پوری معنوی اور حسیاتی قوت کے ساتھ اجاگر ہوتے ہیں۔ چند شعر پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں، کتاب کا مطالعہ خود کر لیجئے گا۔
گھور اندھیرا، دور سویرا جانا ہے اس پار
ناؤ پرانی، گہرا پانی، چھوٹ گئے پتوار
پھول کھلے ہرجائی بھنورا رس چوسے اڑ جائے
دیپ جلے تو پریم پتنگا اپنے پنکھ جلائے
سب کے سر پر چھاتا تانے دھوپ جلے چھتنار
سکھ بانٹے اور کشٹ اٹھائے پریمی اور اوتار
بابل کا گھر چھوڑ کے گوری سنگ پیا کے جا
پریتم توہے لینے آئے پریت کی ریت نبھا
ترکیب سازی بہت احتیاط طلب امر ہوتا ہے۔ اس میں جہاں لفظی بازی گری کو اپنے کام میں لانا ہے وہاںیہ اہتمام بھی کرنا ہوتا ہے کہ لفظ خالی منقش کٹورے ہی نہ رہ جائیں۔ مشتاق عاجز کی پختہ کاری کا ثمر ہمیں بہت بھرپور اور تازہ کار تراکیب کی صورت میں ملتا ہے: مایا موہ، سمپورن راگ، گھور گپھا، انتم پریتم، گن ونتی، کچی کٹیا، کچا کوٹھا، پن کی دمڑی، نِردھن دھنوان، بوڑھی وِدھوا، پرانی پاپن، دھیان دھارا، پن کی جوت، دیپ شکھا، باٹ نہارن، لاگ لگن کی آگ، آٹھ پہر کی رین، بالا من، آشا دیپ، چڑیا جتنا پیٹ، گیان گیتا، گن دھارا؛ وغیرہ۔
ع:’’ اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں‘‘ کے مصداق ایک دو جگہ پر میں ٹھٹکا ضرور ہوں۔ مجھے مشتاق عاجز کے لکھے پر اعتماد بھی ہے تاہم دل میں آئی بات فاضل شاعر کے قارئین و ناقدین کے حضور پیش کر دینے میں کوئی قباحت بھی نہیں پاتا۔
(۱)۔ فٹ نوٹس میں کہیں ’’لالہ گولک رام‘‘ کی وضاحت بھی کر دیتے!
(۲)۔ یہ ایک دوہا مجھے چال میں کچھ الگ سا لگا:
اس بالی کے دانے سونا، دھوپ جلے جو بالی
اس بالی کی کیا ہریالی جو دانوں سے خالی
(۳) تکرارِ لفظی حسنِ فن ہے، پر ایک آنچ کی کمی رہ جائے تو ماٹی اکسیر نہیں بن پاتی۔
ماٹی کو اکسیر بنانا ہے پارکھ کا کام
پارکھ کے جب ہاتھ لگے تو ماٹی جم کا جام
تن ماٹی کا پنجرا جس میں پنچھی رہے اداس
دانْو لگے تو توڑ کے پنجرا اُڑ جائے آکاس
تیرے من کے اندر مندر مسجد اور کنشت
اپنے من کا نرگ جہنم کر لے سورگ بہشت
نیند بھری سب اکھیاں دیکھیں سپنوں کا سنسار
جو جاگیں پی درشن پائیں اور کریں دیدار
(۴) تکرار کی بہت خوب صورت مثالیں مطالعے میں پیش کر چکا ہوں، یہاں بھی پیش کر دوں۔
ساگر سے بھر لائے گاگر بادل جل برسائے
جل ندیا میں، ندیا آخر ساگر میں مل جائے
سر پر دھر کر گاگر گوری مٹک مٹک لہرائے
لچک لچک بل کھائے کمریا بھومی گھومی جائے
احباب کی محبتوں کے لئے تشکر کے اظہار کے ساتھ اپنی گزارشیں اور جسارتیں سمیٹتا ہوں۔ اختتامِ کلام مشتاق عاجز کے اس شعر پر جو مجھے بے حد پسند آیا۔
ماتھے بندیا آن سجاؤ مانگ بھرو سیندور
جھولا آن جھلاؤ متوا، امبوا لاگا بور
*****
محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان
بدھ ۔ 4 فروری 2015 ء ۔