سب سے پہلے تو خوبصورت افسانے کو شریک محفل کرنے کا بےحد شکریہ ۔ اب آتے ہیں تحریر کی جانب
نفسیاتی طور پر انسان اپنی ذات سے آگے کم ہی سوچ پاتا ہے اور بجائے دوسروں کی سوچ کو سمجھنے کی کوشش کرنے کے اُن پر اپنی سوچ منطبق کر رہا ہوتا ہے ۔ہمارے خیال میں چھوٹا بھائی بھی یہی کر رہا ہے اس کہانی میں ۔۔۔دوسری بات یہ ہے کہ انسان دوسروں کو گراؤنڈ فیکٹس سے جج کرنے کی کوشش کرتا ہے یعنی جو بات آپ کرنا چاہتے ہیں وہ کر نہیں پاتے دووسرے وہ کیسے جان جائیں ؟؟ہمارے خیال میں بڑے بھائی کا کردار ایک ردعمل کے طور پر ہے ۔ہماری ذاتی رائے میں انسان کسی بھی ذات سے محبت کی انتہا پر رُک جاتا ہے اور پھر امتداد زمانہ کی ناگزیر تبدیلیوں کو فراموش کرتے ہوئے اُس سے ہمیشہ اُسی لگاوٹ کا طلبگار رہتا ہے جو اُس کے اپنےذہن نے اُس کے بارے میں قیاس کر رکھی ہوتی ہیں۔۔نتیجاَ َ دُکھی ہوتا ہے۔۔کہیں چھوٹے بھائی کی صورت میں شکایت دل میں رکھ کر ردعمل کا اظہار کرتا ہے تو کہیں بڑے بھائی کی صورت حال سامنے آتی ہے۔۔۔۔یعنی ''اور محبت وہی انداز پرانے مانگے''اصل چیز ہے روابط یا کمیونیکیشن کی کمی ۔اور سب سے بڑھ کر ہمارے بدلتے ہوئے اقدار کی جھلک بھی اس کہانی میں نظر آتی ہے ۔آپ کا انداز فکر اورقلم کی روانی و پختگی تحریر کے اسلوب اور تاثر کو بےحددلکش بناجاتی ہے ۔
خوبصورت تحریر پر بہت سی داد قبول فرمایئے ۔
سلامت رہیں ۔