محمد یعقوب آسی کی شعری اور نثری کاوشیں


یہاں پہ سر بہ گریباں ہے ناطقہ اے ہوش!
کہ یہ دیارِادب ہے بلند بانگ نہ بن


1661583_756965971113530_8899162728491462233_n.jpg
بدھ 2 ستمبر 2015ء​
 
محمد یعقوب آسیؔ کے بلاگ سے

اردو اور خوش گمانی
پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس نے حکم جاری کر دیا کہ اردو کو فوری طور پر تمام سرکاری اداروں اور دفاتر میں رائج کیا جائے اور آئین کی متعلقہ دفعات پر عمل درآمد کیا جائے۔ یہ بات 8 ستمبر 2015ء کی ہے۔ اردو سے محبت کرنے والے دلوں میں خونِ تازہ دوڑا۔ معاشرے کے تقریباً ہر طبقے کی جانب سے چیف صاحب کے اس حکم کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا گیا کہ چلئے، دیر آید درست آید۔ بعض حلقوں کی طرف سے اس خدشے کا اظہار بھی کیا گیا کہ چیف صاحب کا حکم نامہ بہر حال ایک تاریخی اقدام ہے۔ تاہم اس پر عمل درآمد ہو تو جانیں۔
اردو کے عشاق کے پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ بات کچھ غلط بھی نہ تھی۔ اردو نے اسی سرزمین پر جنم لیا، اور پاؤں پاؤں چلنے سے لے کرسبک روی تک کی صلاحیت ایک ڈیڑھ صدی میں حاصل کر لی، یہ معمولی بات نہیں تھی۔ برِصغیر پاک و ہند میں بالعموم اور سرزمینِ وطن میں بالخصوص اردو کو ایسی پذیرائی ملی جس کی مثال ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ قیامِ پاکستان کا پہلا ریڈیائی اعلان اردو میں تھا۔ جس پر اہلِ جذب کی آنکھیں اب بھی نم ہو جاتی ہیں، اگرچہ یہ تیسری چوتھی نسل چل رہی ہے۔ ہمارے بزرگوں کی مسرتوں اور امیدوں کا کیا عالم رہا ہو گا!

مگر اس کو کیا کہئے کہ ہم ایک قوم کی حیثیت سے تسلیم ہو گئے مگر ایک قومی زبان سے محروم رہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ اگر قدم بہ قدم بھی اردو کو اس کی قومی زبان کی حیثیت دی جاتی تو نقشہ بہت مختلف ہوتا۔ دونوں باباؤں کے اس دارِ فانی سے کوچ کر جانے کے بعد ہماری کیفیت ایسے بچوں کی تھی جن کا باپ مر جائے اور ان کے پاس رونے کے لئے بھی اپنی زبان نہ ہو۔ انگریز راج کا خاتمہ صرف چند عبارات تک محدود رہا، سرکاری اداروں میں خط و کتابت تک انگریزی ہی سے عبارت رہی۔ اس کے اثرات کہاں تک ہوتے ہیں یہ بہت بڑا موضوع ہے اور ایک محدود عریضے میں نہیں سمویا جا سکتا۔ اس یتیمانہ صورتِ حال کا ذمہ دار کون تھا کون نہیں تھا، یہ معاملہ کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ حاصل وہی سردمہری تھی جس کا نوحہ ہم بیان کر رہے ہیں۔

ایک وقت آیا، برف کچھ ٹوٹی اور 1973 کے آئین میں اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دے دیا گیا۔ اس کے باوجود پیش منظر میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی نہیں آئی۔ بارے ایک صدارتی فرمان جاری ہوا کہ "آج سے تمام سرکاری دفاتر میں اردو رائج کی جا رہی ہے" ولے، مذکورہ فرمان بجائے خود انگریزی زبان میں تھا۔

چیف صاحب کے حکم نامے کے دن یعنی 8 ستمبر 2015ء کو کئی من چلوں نے "اردو کا دن" اور "قومی زبان کا دن" قرار دے دیا اور اس نعرے کو اپنا اپنا طغرہ بنا لیا (ان خوش گمانوں میں یہ فقیر بھی شامل ہے)۔ پڑھے لکھے لوگوں میں ایک بار پھر مباحث چل نکلے تاہم ماضی کی نسبت اب کی بار ان کا رُخ امید کی طرف غالب تھا۔ توقعات تھیں کہ وفاقی اور صوبائی سرکاریں اس معاملے میں پیش رفت کرتے ہوئے تفصیلی احکامات جاری کریں گی، اور اردو کے عملی نفاذ سے متعلقہ ذمہ داریاں تقسیم کی جائیں گی۔ بہت سارا کام جو پہلے سے ہو چکا ہے اس کو یک جا اور مرتب کیا جائے گا، اوربھی کتنے ہی کام ابھی کرنے کے ہیں۔

منگل 15 ستمبر 2015ء کے اخبارات میں ایک وفاقی سرکاری ادارے (ایف بی آر) کی جانب سے ملازمتوں کا اشتہار شائع ہوا ہے۔ اشتہار کے مندرجات کچھ انگریزی میں ہیں کچھ اردو میں۔ چلئے اس کے تو ہم عادی ہو چکے، اور رواں منظر نامے میں یہ کوئی ایسا سانحہ بھی نہیں سمجھا جا رہا جس پر شوروغوغا بپا ہو۔ اصل بات اس اشتہار میں مندرج کچھ چھوٹے درجے کی ملازمتیں، ان کے سکیل اور مطلوبہ تعلیمی اور فنی معیار ہے۔

ملازمتوں میں نمبر شمار (1)، (4)، (5) اور (6) خاص طور پر قابلِ توجہ ہیں۔
نمبر شمار (1): سٹینو ٹائپسٹ۔ سکیل 14۔ مطلوبہ قابلیت: انٹرمیڈیٹ، شارٹ ہینڈ اور ٹائپ کی رفتار بالترتیب 80 اور 40 لفظ فی منٹ، کمپیوٹر خاص طور پر ایم ایس آفس میں کام کرنے کا اہل ہو۔
نمبر شمار (4): یو ڈی سی۔ سکیل 11۔ مطلوبہ قابلیت: انٹرمیڈیٹ، کمپیوٹر خاص طور پر ایم ایس آفس میں کام کرنے کا اہل ہو۔
نمبر شمار (5): ایل ڈی سی۔ سکیل 7۔ مطلوبہ قابلیت: میٹرک، ٹائپنگ سپید 30 لفظ فی منٹ
نمبر شمار (6): اردو ٹائپسٹ۔ سکیل 6۔ مطلوبہ قابلیت: انٹرمیڈیٹ، شارٹ ہینڈ اور ٹائپ کی رفتار بالترتیب 80 اور 40 لفظ فی منٹ، کمپیوٹر خاص طور پر ایم ایس آفس میں کام کرنے کا اہل ہو۔

ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ سٹینوٹائپسٹ (سکیل 14) اور اردو ٹائپسٹ (سکیل 6) کے لئے مطلوبہ قابلیت حرف بہ حرف برابر ہے (انٹرمیڈیٹ، ٹائپ، شارٹ ہینڈ، کمپیوٹر)، اور اس سے ایک سکیل زیادہ لوئر ڈویژن کلرک (سکیل 7) کے لئے مطلوبہ قابلیت محض میٹرک پاس اور 30 کی ٹائپ سپیڈ ہے۔ یہاں یہ یاد دلانا قطعاً غیر ضروری ہے کہ اردو شارٹ ہینڈ اور اردو ٹائپنگ انگریزی کی نسبت قدرے مشکل ہے۔ اس مشکل کے پیشِ نظر چاہئے تو یہ تھا کہ اگر آپ انگریزی کے سٹینو کو سکیل 14 دے رہے ہیں تو اردو کے سٹینو کو سکیل 15 تو دیں نا! پوسٹ کے نام میں بھی انگریزی والا سٹینو ٹائپسٹ اور اردو والا محض ٹائپسٹ!؟

اس رویے کو کیا نام دیجئے گا!؟ وفاقی سرکاری مشینری میں اردو کے ساتھ یہ امتیازی سلوک عوام الناس میں اردو کی محبت کو کتنا بڑھائے گا؟ یہی؟ کہ چھوڑو یار! انٹرمیڈیٹ کے بعد اردو ٹائپ اور شارٹ ہینڈ سیکھ کر سکیل 6 کی نوکری کی اہلیت بنتی ہے اور انگریزی میں یہی کچھ کر کے سکیل 14 کی۔ کیا کرو گے اردو سیکھ کر؟ ۔ اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایک عام آدمی کی ترجیحات روٹی سے وابستہ ہوتی ہیں۔

سرکاری اداروں میں ملازمتوں کے قواعد سب جگہ یکساں ہوتے ہیں۔ وفاقی سرکاری ادارے اردو کے ساتھ ایسا غیرمنصفانہ رویہ روا رکھیں گے تو دوسروں سے کیا توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں! افراد اور ادارے ہمیشہ سرکار کے پیچھے پیچھے چلا کرتے ہیں۔ یقین رہے کہ ہر باشعور پاکستانی اردو زبان سے جذباتی وابستگی رکھتا ہے۔ تاہم اردو کو عملاً نافذ کرنے کا کام افراد کے بس کا روگ نہیں، یہ سرکار کے کرنے کا کام ہے۔ سرکار کو چاہئے کہ اردو کی ترویج کے لئے قواعد کو سازگار بنائے۔ ایسا ہو جائے تو عدالتِ عظمیٰ کے حکم کی تعمیل میں بھی آسانی ہو گی اور معاشی حوالے سے اردو کی طرف عوامی رجحان میں بھی اضافہ ہو گا۔

امید رکھنی چاہئے کہ اعلیٰ اختیاراتی سرکاری ادارے اردو کے حلقوم سے انگوٹھا ہٹانے میں ممد و معاون ثابت ہوں گے اور عدالتِ عظمیٰ اپنا کردار ادا کرتے ہوئے جملہ سرکاری اداروں کو ضروری ہدایت جاری کرے گی اور ملازمتوں کے قوانین میں فوری طور پر مؤثر تبدیلیاں عمل میں لائی جائیں گی۔ خوش گمانی بری چیز بھی تو نہیں!

منگل 8 ستمبر 2015ء: اردو کا دِن، قومی زبان کا دِن! پاکستان زندہ باد!

بدرِ احمر کے قلم سے ۔۔۔ بدھ 16 ستمبر 2015ء​
 

آوازِ دوست

محفلین
ایف بی آر کا ادارہ جو کُچھ ہے اُس کی مہک اِس سے وابستہ ہر چیز سے آتی ہے۔ مذکورہ اشتہار کا ڈرافٹ یقینا" کِسی ہوشمند انسان کا کام نہیں ہے یہ کسی شدید قسم کی ذہنی بیماری کا غماز ہے۔ اُردو ٹائیپسٹ کے لیے عموما" انگریزی ٹائپ کرنا کُچھ مُشکل نہیں ہوتا البتہ انگلش ٹائیپسٹ کو اُردو میں کام کرنا اکثر مُشکل ہوتا ہے یہ زمینی حقائق ہیں اَب متعلقہ لوگ یا تو خلاء میں رہتے ہیں یا زمین پر رہتے ہوئے ہی کششِ ثقل سے آزاد ہو جاتے ہیں۔
 
میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ایک چیز تو وہی ہے "سُرخ فیتہ"؛ رسمی کاروائیوں کا یل طویل سلسلہ جو ہر کام میں تاخیر کا سبب ہوتا ہے۔
 
ایف بی آر کا ادارہ جو کُچھ ہے اُس کی مہک اِس سے وابستہ ہر چیز سے آتی ہے۔ مذکورہ اشتہار کا ڈرافٹ یقینا" کِسی ہوشمند انسان کا کام نہیں ہے یہ کسی شدید قسم کی ذہنی بیماری کا غماز ہے۔ اُردو ٹائیپسٹ کے لیے عموما" انگریزی ٹائپ کرنا کُچھ مُشکل نہیں ہوتا البتہ انگلش ٹائیپسٹ کو اُردو میں کام کرنا اکثر مُشکل ہوتا ہے یہ زمینی حقائق ہیں اَب متعلقہ لوگ یا تو خلاء میں رہتے ہیں یا زمین پر رہتے ہوئے ہی کششِ ثقل سے آزاد ہو جاتے ہیں۔
میں ایک عرصے تک دفتری نظام سے منسلک رہا ہوں۔ ڈرافٹ بنانے والا بے چارہ کوئی آفس اسسٹنٹ ہوتا ہے اور اس کو پہلے سے "حکم" دیا جا چکا ہوتا ہے کہ یہ کچھ لکھنا ہے۔ ڈرافٹ سے ورکنگ پیپر تک پہنچتے پہنچتے متن کی جو درگت بنتی ہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ 1930 کا بنا ہوا قانون صرف تاریخ بدلتی رہتی ہے۔
مثلاً: پاکستان ریلوے ایکٹ 1936ء ؟؟؟؟
 

آوازِ دوست

محفلین
میں ایک عرصے تک دفتری نظام سے منسلک رہا ہوں۔ ڈرافٹ بنانے والا بے چارہ کوئی آفس اسسٹنٹ ہوتا ہے اور اس کو پہلے سے "حکم" دیا جا چکا ہوتا ہے کہ یہ کچھ لکھنا ہے۔ ڈرافٹ سے ورکنگ پیپر تک پہنچتے پہنچتے متن کی جو درگت بنتی ہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ 1930 کا بنا ہوا قانون صرف تاریخ بدلتی رہتی ہے۔
مثلاً: پاکستان ریلوے ایکٹ 1936ء ؟؟؟؟
جی سر میں بھی ہائیرنگ اتھارٹی کے مائینڈ سیٹ کو ہی کوس رہا ہوں حُکم بجا لانے والے تو مجبور محض ٹہرے۔ میرا خیال ہے اِس بیہودگی پر متاثرہ اُمیدوار کورٹ سے با آسانی خط تنسیخ پھروا سکتا یہ الگ بات کہ ہماری کورٹس کی دُنیا بھی ایک طلسم ہوشربا ہے۔
 

ابن رضا

لائبریرین
جی سر میں بھی ہائیرنگ اتھارٹی کے مائینڈ سیٹ کو ہی کوس رہا ہوں حُکم بجا لانے والے تو مجبور محض ٹہرے۔ میرا خیال ہے اِس بیہودگی پر متاثرہ اُمیدوار کورٹ سے با آسانی خط تنسیخ پھروا سکتا یہ الگ بات کہ ہماری کورٹس کی دُنیا بھی ایک طلسم ہوشربا ہے۔
آپ بھی ؟؟؟؟؟:cautious:

(ملازمت دہندہ انتظامیہ یا مجاز انتظامیہ، سوچ، عدالت، عدالتیں)
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
تاہم مکمل مسودہ جانچ مقصود و مطلوب ہرگز نہ تھی بلکہ اردو سے محبت بھی اور انگریزی کا استعمال بھی ایک ہی ساتھ ذرا کھٹک رہا تھا۔ اور املا کی غلطیاں الگ ہیں جو کہ موضوعِ بحث نہ ہیں
 

آوازِ دوست

محفلین
تاہم مکمل مسودہ جانچ مقصود و مطلوب ہرگز نہ تھی بلکہ اردو سے محبت بھی اور انگریزی کا استعمال بھی ایک ہی ساتھ ذرا کھٹک رہا تھا
یہ بھی اُردو کا ہی ایک کاک ٹیل ہے اور کبھی کبھی مزہ دیتا ہے۔ ویسے تحریر میں آپ اپنے موڈ اور مزاج کے مطابق ہی چلیں تو خیالات کا بہتر اظہار آسانی سے ہو پاتا ہے :)
آپ نے دیکھا نہیں کہ آسی صاحب نے اشتہار کے متن پر اعتراض نہیں کیا بلکہ ناانصافی کا ذکر کیا ہے :)
 

ابن رضا

لائبریرین
یہ لڑی چونکہ سر آسی صاحب کی شعری اور نثری کاوشوں کے لیے مخصوص ہے اس لیے میں یہاں خاموشی اختیار کر تا ہوں۔
 
ایک وہ حرفِ مدعا
محمد ابن الحسن سید کی کتاب ’’جوئے تشنہ‘‘ پر ایک نظر
یہ مضمون ۲۹؍ اگست ۱۹۸۸ء کو لکھا گیا اور ۱۰؍ ستمبر ۱۹۸۸ء کو پاکستان یوتھ لیگ واہ کینٹ کے زیرِ اہتمام ہونے والی تقریب میں پڑھا گیا۔ بعد ازاں ماہنامہ "روایت" راولپنڈی (مدیر: احمد ہاشمی مرحوم) میں شائع بھی ہوا۔
پورا مضمون یہاں ملاحظہ ہو۔
 
Top