محمد یعقوب آسی کی شعری اور نثری کاوشیں

اسد محمود کے افسانوں کا مجموعہ "درشک" (اشاعت ۔ 2010ء)
تقریبِ پذیرائی (فروری 2011ء) میں محمد یعقوب آسی کے مضمون "درشک! در ایں چہ شک؟" سے ایک اقتباس۔
اس سفر کی ابتدا ہوتی ہی بے سروسامانی سے ہے۔ جب ایک قلم کار پہلا لفظ، پہلا شعر، پہلا افسانہ، پہلا قطعہ، پہلی غزل کہتا ہے تو اس کے پاس وہی کچھ ہوتا ہے، اولین خامہ فرسائی! وہ سامان جسے ہو سکتا ہے، دورانِ سفر وہ خود ہی بارِ بے کار سمجھ کر کہیں پھینک جائے۔زادِ سفر تو وہ دورانِ سفر جمع کرتا ہے! منزلیں آتی ہیں گزر جاتی ہیں اور وہ نئی منزلوں کی طرف گامزن ہو جاتا ہے۔ اسے کیا کہئے گا؟ منزلیں مارنے کی دھُن؟ یا زادِ سفر جمع کرنے کی ہوس؟ کچھ بھی کہئے یہ ہے بڑی کام کی چیز!۔ یہاں ہم زادِ سفر ہی جمع نہیں کرتے بہت سے ہم سفر بھی بنا لیتے ہیں۔ اسد محمود خان بھی تو یہی کہتے ہیں نا: ’’میں نے ادبی سفر کا آغاز کیا تو تہی دست تھا، لیکن صد شکر کہ اب محبتوں اور دوستوں کا ایک کارواں ہم قدم ہے‘‘۔ گویا ’قلم کا سفر خود ہی زادِ سفر ہے‘۔ یہ تو بنا بنایا مصرع ہو گیا! بعض تحریریں محرک ہوتی ہیں، انہیں پڑھئے تو لگتا ہے کسی نے دل کے تاروں کو چھو لیا ہے!۔

مکمل مضمون اس ربط پر ملاحظہ فرمائیے۔​
 

ابن رضا

لائبریرین
کوئی تو بات ہے!
8 اکتوبر 2005ء کے زلزلے کے حوالے سے ایک نظم

بات کچھ اور ہے!
واقعہ یوں نہیں !
یوں نہیں ہے کہ ...
اک دم زمیں تھرتھرانے لگی
اور کہسار کی چوٹیاں ڈھے گئیں
اور اُن پر بسی بستیاں
دیکھتے دیکھتے
پتھروں کے سمندر میں یوں بہہ گئیں
جیسے خاشاک ہو!
یوں نہیں!!!
اہلِ ادراک!ایسانہیں!
بات کچھ اور ہے!
ہاں! ستم تھا رواکوئی ایسا کہ جو
میرے شایاں نہ تھا،تیرے شایاں نہ تھا!
ظلم ایسا کوئی ہو رہا تھا کہ جو
کوہساروں پہ بھاری پڑا!!!
کون جانے!
کسی بے نواکی فغاں ابن قاسم تلک
جب نہ پہنچی تو سوئے فلک چل پڑی!
یا ...
کہیں کوئی قارون اپنے خزانوں
کی بھاری کلیدوں تلے دب گیا!
یا ...
کوئی تاجرِ بے وطن
اہلِ ایکہ کی مکاریوں کا نشانہ بنا!
یا ...
سدومی کوئی، ایک سفاک بوڑھے کی
بھوکی ہوس کی غلاظت میں لتھڑا ہوا
اپنا چہرہ زمیں میں چھپانے کو بے چین ہو!
یا ...
کہیں ...
ان پہاڑوں کے دامن میں بہتی ہوئی اک ندی
کچی کلیوں کو موسم سے پہلے چٹکتے ہوئے دیکھ کر
دم بخود رہ گئی!
مرغ و ماہی کی آنکھیں بھی شیشہ ہوئیں
پتھروں کے کلیجے چٹخنے لگے
اور وہ اپنی جا سے کھسکنے لگے
کانچ کی کتنی گُڑیاں کسی بھاری پتھر سے کُچلی گئیں!
یا ...
کسی اژدہے کی سَمِیں پھونک
ارضی بہشتوں کی ساری فضا میں کوئی زہر سا بھر گئی
اور انسان رشتوں کی پہچان سے ناشناسا ہوا
ایک حیوان اور اِک ہوس رہ گئی!
دونوں مل کر ضمیرِ شرافت کے لاشے پہ ناچا کئے!
یا ...
کسی مصر کا حکمراں
اپنے قد، اپنی اوقات سے
ایسا نکلا کہ آدم کی اولاد
اُس کی نظر میں
پرِکاہ سے یا پرِ مُور سے بھی دَنی رہ گئی!
یا ...
مکیں اپنے سنگیں مکانوں، فصیلوں کو
فطرت کے قانون سے ماورا جان کر
بجلیوں، بادلوں، زلزلوں کا تمسخر اُڑانے لگے!
یا ...
قوانینِ فطرت سے بڑھ کر
کسی حاکمِ بابل و نینوا کے بنائے ہوئے
ضابطے محترم ہو گئے
اور انسان طبقوں میں بٹنے لگا!
یا ...
کتابِ ہدایت کتابِ حکایت بنا دی گئی
کاہنوں، جوگیوں،
سادھوؤں کا کہا محترم ہو گیا
اور حرفِ ہدایت کو ذہنوں سے
اس طرح کھرچا گیا
سوچ اِس طور بدلی
کہ ہر کعبۂ جاں کا سنگِ سیہ خود خدا ہو گیا
اور خدا آدمی سے جداہو گیا!
یا ...
پیامِ ہدیٰ کے فقط لفظ باقی بچے
اور روحِ ہدیٰ کھو گئی
قلبِ محراب میں اک ادا کار
اپنی اُپَج کے مطابق معانی کی بازیگری کر گیا
یا ...
کہیں اِک اَرِینا سجا!
اک طلائی قفس میں مقید
حسیں واہمے کے لئے
لوگ اپنی انا قتل کرنے لگے
جب انا مر گئی تو سوائے تعفن کے واں کچھ نہ تھا
صاحبو!
آخرش، یہ تو ہونا ہی تھا!
یہ جہاں بھی جہاں ہے مکافات کا!
ورنہ وہ
جس کی رحمت کسی حد میں آتی نہیں
وہ حوادث کو یوں راہ دیتا کبھی؟!
بات کچھ اور ہے!
جس پہ اتنی وعیدیں اتاری گئیں
کاش ہم جان لیں!
بات کوئی تو ہے!
کارواں اک پڑاؤ پہ آکر رکا تھا ذرا دیر کو
فکرِکم کوش نے راستہ کھو دیا
منزلِ عشق دل نے فراموش کی
ذوقِ عرفاں پہ حاوی شکم ہو گیا
گرگ و سگ آدمی سے ہویدا ہوئے
کرگسِ طمع کے تیز پنجے ہوئے
اور کنجشک پر خوف طاری ہوا
برگ و بر شاخساروں پہ لرزاں ہوئے
زندگی ڈر گئی!
تن کے زنداں میں جو روح تھی، مرگئی
شدتِ غم سے پتھر لرزنے لگے
ارضِ جاں پر بپا ہو گیا زلزلہ، کچھ نہ باقی بچا!
آنسوؤں کے خدا!
قلبِ انساں میں بھی ہو بپازلزلہ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد یعقوب آسی
۴؍ نومبر ۲۰۰۵ء ... عیدلفطر ۱۴۲۶ھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماشاءاللہ بہت عمدہ سر ، نظم کا دامن کتنا وسیع ہے نا!!
 
محمد یعقوب آسیؔ کا مضمون: "غواصِ شوق"
آغا ضیا پر پروفیسر امجد اقبال کے مطالعے (گلِ صحرا : آغا ضیا) کا مطالعہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
پروفیسر امجد اقبال نے آغا ضیا کا دونوں حوالوں سے مطالعہ کیا ہے، اور آغا مرحوم کے زمانۂ حیات میں راولپنڈی کے ادبی ماحول کو بھی موضوعِ بحث بنایا ہے۔ انہوں نے کتاب کے مقدمہ میں خطۂ پوٹھوہار کی قدیم تاریخ کوبھی مختصراً بیان کر دیا ہے۔ کتاب کی ایک بہت خاص بات یہ ہے کہ پروفیسر صاحب کی تحقیقی نگاہ صرف آغا ضیا تک محدود نہیں بلکہ انہوں نے مقدمہ میں مذکور اہل قلم کے (جہاں مناسب اور ممکن ہوا ) تعارف، سوانح، حالات، تصانیف کا تذکرہ وغیرہ بھی حواشی میں مختصراً بیان کر دیے ہیں اور اُن کا نمونۂ کلام بھی شامل کر دیا ہے۔ جدید تحقیقی طریقہ کے اطلاق کی یہ بہت خوبصورت مثال ہے، کہ قاری کو موضوع کے ساتھ ساتھ متعلقاتِ موضوع سے بھی مستفید ہونے کا موقع ملتا ہے۔

مکمل مضمون یہاں ملاحظہ ہو۔
 
خواب سے سانجھ تک

میری شاعری کا اولین مجموعہ "مجھے اک نظم کہنی تھی" (اردو نظمیں) مارچ 2015ء میں شائع ہوا۔ اس کا دیباچہ "خواب سے سانجھ تک" بارہ صفحات پر پھیلا ہوا ہے، میرے بلاگ پر دستیاب ہے۔ اس کے پہلے دو تین اور آخری دو تین پیراگراف اپنی آواز میں ریکارڈ کئے ہیں۔ اور جس جذباتی مد و جذر کی کیفیت میں ریکارڈ کئے ہیں اس کا اندازہ آپ کو یہ ریکارڈنگ سننے پر ہو جائے گا، لنک یہ ہے۔ وہاں آپ براہِ راست بھی سن سکتے ہیں اور ڈاؤن لوڈ بھی کر سکتے ہیں۔
 
شہزاد عادل کی (زیرِ نظر) غزلوں پر کچھ گزارشات
دیارِ ادب ٹیکسلا کے ہفتہ وار اجلاس منعقدہ جمعہ المبارک 16 اکتوبر 2015ء میں پیش کیا گیا مضمون
"اچھا لکھتے ہو یار"

اقتباس:
غزل کے بارے میں وہ جو کہا جاتا رہا ہے کہ عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کی سی باتیں کرنا، یا اس کو گل و بلبل اور لب و عارض سے ، یا ہجر و فراق اور وصالِ یار، حسن و عشق، داد بے داد وغیرہ سے خاص کر دینا؛ وہ باتیں پرانی ہو چکیں۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ غزل نے زندگی کے جملہ موضوعات کو اپنے اندر سمویا ہے اور ایسی خوبی سے سمویا ہے کہ متعدد دیگر اصناف سے خاصی آگے نکل گئی ہے۔
دکھ، رنج، خوشیاں، محبتیں، حسرتیں، شکوے، خوف، رجا، بیم اور دیگر مد وجذر کا تعلق جیسا انسان کے داخل سے ہے، ویسا ہی انسان کے خارج سے بھی ہے۔ شہزاد عادل کے ہاں تعلقِ خاطر موجود ہے مگر اس میں رومانی پہلو بہت زوردار نہیں۔ وہ لب و عارض کی بات بھی کرتا ہے، وصال و ہجر کی بھی مگر بنیادی تبدیلی اس میں یہ آئی کہ تعلق کی نوعیت رومان سے آگے بڑھ کر معاشرے، برادری، دوستی، اور اکرامِ باہمی کو احاطہ کرنے لگی۔ وہ روایتی محبوب کے نازو ادا کی بات بھی کرتا ہے تاہم اس کا شاکی رہنے کی بجائے دوست، بھائی، راہنما، چارہ گر، شہریار وغیرہ سے مکالمہ کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔


پورا مضمون اس فقیر کے بلاگ پر ملاحظہ فرمائیے۔
 
بیس برس پہلے کی ایک تحریر ۔۔
صاحبِ اسلوب شاعر اور افسانہ نگار سید علی مطہر اشعر سے ایک غیر رسمی گفتگو کا احوال ۔۔۔


اس ربط پر ملاحظہ فرمائیے ۔۔۔۔ "برگد کی چھاؤں میں" ۔۔۔

گفتگو سے ایک اقتباس پیش ہے
ماہیا اور ہائیکو؛ ماہیا تو پنجابی سے آیا ہے، ہائیکو باہر سے آئی ہے کیا خاص طور پر ہائیکو کا جواز ہے؟ اس پر علی مطہر اشعر صاحب نے کہا: میں ماہیا اور ہائیکو میں کوئی فرق نہیں سمجھتا۔ دونوں میں فوری احساسات کو شعر میں ڈھالنے کا عنصر نمایاں ہے ۔ دونوں اپنی اپنی تہذیبوں کے اندر ہزاروں سالوں سے موجود ہیں تاہم ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہائیکو ہم تک براہِ راست نہیں پہنچی بلکہ انگریزی کے توسط سے پہنچی ہے۔ اُس میں اپنی زمین کے حوالے سے سورج، چٹان، پھول، سمندر اور سمندر سے متعلقہ تمام بڑی علامتیں مثلاً مینڈک بڑی قوت کے ساتھ آئی ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ماہئے میں زمین جنگل، دریا، پہاڑ، سرسوں، کوا، چاندی، بادل، زیورات وغیرہ۔ البتہ ایک خاص فرق ہے ہماری برصغیر کی شاعری اور باہر کی شاعری میں! یہاں ہم نے اوزان مقرر کر لئے ہیں اور ان کی پابندی کرتے ہیں جب کہ باہر ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں ردھم یعنی موسیقیت کی بنیاد پر سب کچھ چلتا ہے اور اوزان کا وہ تصور بالکل نہیں جو ہمارے ہاں ہے۔ اشعر صاحب نے کہا: احمد فراز کی شاعری کی مقبولیت کی بڑی وجہ اس کی موسیقیت ہے ورنہ اس میں گیرائی مفقود ہے۔ احمد ندیم قاسمی اور منیر نیازی بلاشبہ بڑے شاعر ہیں اور ڈاکٹر وزیر آغا بھی جو صرف شاعر ہی نہیں؛ محقق، تاریخ دان، نقاد اور جانے کیا کچھ ہیں۔ انہوں نے پچاس کے قریب کتابیں لکھی ہیں۔ انشائیہ کے حوالے سے ڈاکٹر وزیر آغا کا ایک مسلمہ مقام ہے۔
۔۔۔۔
 
ایک پرانی مگر شگفتہ تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "وہ چلا گیا" از: محمد یعقوب آسی
پورا آرٹیکل پڑھنے کے لئے اوپر کی سطر میں عنوان کو کلک کیجئے۔​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اقتباس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرزا صاحب کے ساتھ آنے والا زلزلہ بچوں کو ذرا بھی متاثر نہیں کر سکا اور یہی بچوں کا کمال ہے کہ ان کی معصومیت انہیں اس سے بھی بڑے جھٹکوں سے محفوظ رکھتی ہے۔ ہمارے چھوٹے صاحب زادے ... نہیں صاحب زادے نہیں ... کیونکہ ہمیں درویشی کا دعویٰ تو ہے صاحب ہونے کا نہیں ... ہمارا چھٹا بیٹا اتفاقاً اپنے سے چھوٹے کو لے کر نکلا۔ ہمارے اندر کار میں بیٹھنے کا جو شوق چھپا بیٹھا ہے ہماری اولاد میں اس حد تک ضرور سرایت پذیر ہوا ہے کہ وہ کسی چمچماتی کار کو چھو کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ بَس، اس سے یہی خطا ہو گئی کہ اس نے اپنی خواہش کے تحت میرزا صاحب کی کار کو چھو لیا۔ وہ تو شکر ہے پتھر کا نہیں ہو گیا! میرزا صاحب نے جو ناک کے معاملے میں بھی خاصے محتاط واقع ہوئے ہیں اور حساس بھی، اپنے اسی پیمانۂ تفاخر کو سکیڑا اور بچے سے فرمایا: ’’اس چھوٹے کو لے جاؤ!‘‘۔ اپنی مسندِ شاہی کی رونق کو ویران کئے بغیر انہوں نے مجھے بکمالِ نوازش کار میں بیٹھنے کی اجازت بلکہ حکم سے نوازا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
ایک طرحی غزل (29 نومبر 1985ء) ۔۔ جو آج اتفاق سے سامنے آ گئی۔

اس طرح زندگی کر رہا ہوں
جانئے دل لگی کر رہا ہوں

مجھ سے بیزار ہے میرا سایہ
بات میں آج کی کر رہا ہوں

بات میری نہیں آپ کی ہے
آپ نے جو کہی کر رہا ہوں

اب مروت نہیں ہو گی مجھ سے
ہار کر بے رخی کر رہا ہوں

نفرتوں کی ہوائیں ہیں، میں ہوں
ماتمِ دوستی کر رہا ہوں

اپنے ہونے کا احساس کھو کر
"آپ اپنی نفی کر رہا ہوں"

میں بھٹک جاؤں ممکن نہیں ہے
اپنی خود رہبری کر رہا ہوں

بے رخی، عیب جوئی خوشامد
آج کل بس یہی کر رہا ہوں

آپ ہی توڑ کر ہاتھ پاؤں
شکوہء بے بسی کر رہا ہوں

اپنی کُٹیا کو تیلی دکھا کر
شہر میں روشنی کر رہا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ غزل پہلی بار انٹرنیٹ پر پیش کر رہا ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط محمد یعقوب آسی (ٹیکسلا) پاکستان​
 
ریڈیو ڈراما ۔۔۔۔ ناراض ہوائیں ۔۔۔۔ تحریر: محمد یعقوب آسی
ہدایات : الماس شبی ۔۔ پنج ریڈیو، یو ایس اے ۔۔
منگل 10 نومبر 2015ء کو شب کے ساڑھے گیارہ بجے نشر ہو گا۔ ان شاء اللہ۔
لنک یہ ہے: http://punjradiousa.weebly.com/ ۔۔
ڈرامے کا سکرپٹ میرے بلاگ پر ملاحظہ ہو: http://yaqubassy.blogspot.com/2015/10/blog-post_9.html?spref=fb
12190041_786387854838008_7524471970787408182_n.jpg
 
ریڈیو ڈراما ۔۔۔۔ ناراض ہوائیں ۔۔۔۔ تحریر: محمد یعقوب آسی
ہدایات : الماس شبی ۔۔ پنج ریڈیو، یو ایس اے ۔۔
منگل 10 نومبر 2015ء کو شب کے ساڑھے گیارہ بجے نشر ہو گا۔ ان شاء اللہ۔

تازہ نشریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کے لنک: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریڈیو ڈراما ۔۔۔۔ ناراض ہوائیں ۔۔۔۔ تحریر: محمد یعقوب آسی
ہدایات : الماس شبی ۔۔ پنج ریڈیو، یو ایس اے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ڈراما اعلان کردہ نظام الاوقات کے مطابق منگل 10 نومبر 2015ء کو شب کے ساڑھے گیارہ بجے پنج ریڈیو سے نشر ہوا۔ ڈرامے کا دورانیہ آدھا گھنٹہ تھا۔ ڈراما نشر ہو چکنے کے بعد سکائپ پر موجود خواتین و حضرات نے اپنی آراء کا بے لاگ اظہار کیا۔ آراء کی ریکارڈنگ وصول ہوتے ہی، احباب کی خدمت میں پیش کر دوں گا۔ ان شاء اللہ۔ نشر مکرر کا وقت معلوم ہو گیا تو وہ بھی بتا دوں گا۔ پنج ریڈیو کا لنک یہ ہے: http://punjradiousa.weebly.com/ ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ ۔۔۔۔ ڈرامے کی فائنل ریکارڈنگ (ایم پی 3 فائل) درج ذیل لنک پر سنی اور ڈاؤن لوڈ بھی کی جا سکتی ہے۔ ڈراپ باکس: https://www.dropbox.com/s/r52jrwzzbynixws/Naraaz Hawaen - Drama 5R USA - final.mp3?dl=0
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈرامے کا سکرپٹ میرے بلاگ پر دستیاب ہے۔ ربط ہے:
http://yaqubassy.blogspot.com/2015/10/blog-post_9.html?spref=fb
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزید بعد میں عرض کروں گا۔ ان شاء اللہ۔ اس دوران بھی اور بعد ازاں بھی مجھے آپ کی بے لاگ آراء کا انتظار رہے گا۔
 

اکمل زیدی

محفلین
تازہ نشریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کے لنک: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریڈیو ڈراما ۔۔۔۔ ناراض ہوائیں ۔۔۔۔ تحریر: محمد یعقوب آسی
ہدایات : الماس شبی ۔۔ پنج ریڈیو، یو ایس اے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ڈراما اعلان کردہ نظام الاوقات کے مطابق منگل 10 نومبر 2015ء کو شب کے ساڑھے گیارہ بجے پنج ریڈیو سے نشر ہوا۔ ڈرامے کا دورانیہ آدھا گھنٹہ تھا۔ ڈراما نشر ہو چکنے کے بعد سکائپ پر موجود خواتین و حضرات نے اپنی آراء کا بے لاگ اظہار کیا۔ آراء کی ریکارڈنگ وصول ہوتے ہی، احباب کی خدمت میں پیش کر دوں گا۔ ان شاء اللہ۔ نشر مکرر کا وقت معلوم ہو گیا تو وہ بھی بتا دوں گا۔ پنج ریڈیو کا لنک یہ ہے: http://punjradiousa.weebly.com/ ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ ۔۔۔۔ ڈرامے کی فائنل ریکارڈنگ (ایم پی 3 فائل) درج ذیل لنک پر سنی اور ڈاؤن لوڈ بھی کی جا سکتی ہے۔ ڈراپ باکس: https://www.dropbox.com/s/r52jrwzzbynixws/Naraaz Hawaen - Drama 5R USA - final.mp3?dl=0
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈرامے کا سکرپٹ میرے بلاگ پر دستیاب ہے۔ ربط ہے:
http://yaqubassy.blogspot.com/2015/10/blog-post_9.html?spref=fb
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزید بعد میں عرض کروں گا۔ ان شاء اللہ۔ اس دوران بھی اور بعد ازاں بھی مجھے آپ کی بے لاگ آراء کا انتظار رہے گا۔
ہر چیز بہترین ......تحریر (خاصکر مرکزی خیال اور اختتام) ...کردار ......ادائیگی ......پسمنظر آوازیں ....بہت عمدہ ...بہت خوب ...یعقوب آسی صاحب
 
آخری تدوین:
غزل
جنابِ احمد فاروق کی نذر
..........

دردِ اظہار میں کٹ جاتی ہے
روح گفتار میں کٹ جاتی ہے

کون کہتا ہے کہ رفتارِ حیات
حلقۂ دار میں کٹ جاتی ہے

کام کا کام نہ کر پائیے تو
کارِ بے کار میں کٹ جاتی ہے

اے خوشا، آبلہ پا! ہر تکلیف
راہِ پرخار میں کٹ جاتی ہے

بازئ دل ہے عجب جنگ آثار
جیت بھی ہار میں کٹ جاتی ہے

شبِ فرقت کی طوالت معلوم
شوقِ دیدار میں کٹ جاتی ہے
..........

محمد یعقوب آسیؔ
بدھ ... 13؍ جنوری 2016ء
 
غزل
جنابِ احمد فاروق کی نذر
..........

دردِ اظہار میں کٹ جاتی ہے
روح گفتار میں کٹ جاتی ہے

کون کہتا ہے کہ رفتارِ حیات
حلقۂ دار میں کٹ جاتی ہے

کام کا کام نہ کر پائیے تو
کارِ بے کار میں کٹ جاتی ہے

اے خوشا، آبلہ پا! ہر تکلیف
راہِ پرخار میں کٹ جاتی ہے

بازئ دل ہے عجب جنگ آثار
جیت بھی ہار میں کٹ جاتی ہے

شبِ فرقت کی طوالت معلوم
شوقِ دیدار میں کٹ جاتی ہے
..........

محمد یعقوب آسیؔ
بدھ ... 13؍ جنوری 2016ء


واہ ، واہ ، واہ استادِ محترم کیا کہنے ۔۔ کیا کہنے۔۔
بہت کمال ہے۔۔ واہ۔۔
استادِ محترم ، آپ سے محفل پر آتے رہنے کی درخواست ہے ۔ اور عمدہ اشعار ، سے ہمیں فیضیاب کرتے رہیں۔
 
تازہ غزل

دشت میں محوِ فغاں تھے ہم بھی
ہمرہِ قہرِ رواں تھے ہم بھی


عندلیبوں کو خبر تو ہو گی
شاملِ صلصلگاں تھے ہم بھی


اپنے بچپن میں کبھی ایسا تھا
ساکنِ کوئے اماں تھے ہم بھی


ہم سدا سے کفِ دریا تو نہیں
غیرتِ کوہ گراں تھے ہم بھی


راہِ ویراں پہ کھڑے سوچتے ہیں
کبھی پُرشور و رواں تھے ہم بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد یعقوب آسی ۔۔۔ آج جمعہ 15 اپریل 2016ء ۔۔۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محرک شعر:
وہ جو محسوس کیا کرتے تھے
وہ سمجھتے تھے کہ ہاں، تھے ہم بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔ احمد فاروق
 
Top