محمد یعقوب آسی
محفلین
اسد محمود کے افسانوں کا مجموعہ "درشک" (اشاعت ۔ 2010ء)
تقریبِ پذیرائی (فروری 2011ء) میں محمد یعقوب آسی کے مضمون "درشک! در ایں چہ شک؟" سے ایک اقتباس۔
اس سفر کی ابتدا ہوتی ہی بے سروسامانی سے ہے۔ جب ایک قلم کار پہلا لفظ، پہلا شعر، پہلا افسانہ، پہلا قطعہ، پہلی غزل کہتا ہے تو اس کے پاس وہی کچھ ہوتا ہے، اولین خامہ فرسائی! وہ سامان جسے ہو سکتا ہے، دورانِ سفر وہ خود ہی بارِ بے کار سمجھ کر کہیں پھینک جائے۔زادِ سفر تو وہ دورانِ سفر جمع کرتا ہے! منزلیں آتی ہیں گزر جاتی ہیں اور وہ نئی منزلوں کی طرف گامزن ہو جاتا ہے۔ اسے کیا کہئے گا؟ منزلیں مارنے کی دھُن؟ یا زادِ سفر جمع کرنے کی ہوس؟ کچھ بھی کہئے یہ ہے بڑی کام کی چیز!۔ یہاں ہم زادِ سفر ہی جمع نہیں کرتے بہت سے ہم سفر بھی بنا لیتے ہیں۔ اسد محمود خان بھی تو یہی کہتے ہیں نا: ’’میں نے ادبی سفر کا آغاز کیا تو تہی دست تھا، لیکن صد شکر کہ اب محبتوں اور دوستوں کا ایک کارواں ہم قدم ہے‘‘۔ گویا ’قلم کا سفر خود ہی زادِ سفر ہے‘۔ یہ تو بنا بنایا مصرع ہو گیا! بعض تحریریں محرک ہوتی ہیں، انہیں پڑھئے تو لگتا ہے کسی نے دل کے تاروں کو چھو لیا ہے!۔تقریبِ پذیرائی (فروری 2011ء) میں محمد یعقوب آسی کے مضمون "درشک! در ایں چہ شک؟" سے ایک اقتباس۔
مکمل مضمون اس ربط پر ملاحظہ فرمائیے۔