محمد یعقوب آسی کی شعری اور نثری کاوشیں

یعنی اس نظم پر منظوم تبصرہ؟ ضرور کیجئے۔ یا ایسی کوئی اپنی نظم؟ ضرور لکھئے۔سکوں۔
یا اس نظم کا پارٹ۔2؟ یہ بات میری سمجھ میں ہنوز نہیں آئی۔ کوئی نمونہ پیش کیجئے تو شاید سمجھ سکوں۔
ویسے یوں ہوتا نہیں ہے کہ ایک نظم کا ایک حصہ میں کہوں دوسرا آپ کہیں۔
اور آپ کے علم میں ہو گا کہ یہ نظم میری کتاب "مجھے اک نظم کہنی تھی" (اشاعت مارچ 2015ء) میں شامل ہے
 

شزہ مغل

محفلین
یعنی اس نظم پر منظوم تبصرہ؟ ضرور کیجئے۔ یا ایسی کوئی اپنی نظم؟ ضرور لکھئے۔سکوں۔
یا اس نظم کا پارٹ۔2؟ یہ بات میری سمجھ میں ہنوز نہیں آئی۔ کوئی نمونہ پیش کیجئے تو شاید سمجھ سکوں۔
ویسے یوں ہوتا نہیں ہے کہ ایک نظم کا ایک حصہ میں کہوں دوسرا آپ کہیں۔
اور آپ کے علم میں ہو گا کہ یہ نظم میری کتاب "مجھے اک نظم کہنی تھی" (اشاعت مارچ 2015ء) میں شامل ہے
اسے لیے اجازت طلب کی۔
کسی اور کی نظم ہوتی تو اجازت نہ لیتی
 
اسے لیے اجازت طلب کی۔
کسی اور کی نظم ہوتی تو اجازت نہ لیتی
بات وہیں پر ہے۔ مجھے قطعاً کوئی اندازہ نہیں کہ آپ کرنا کیا چاہ رہیں ہیں۔
قاعدے کی بات تو یہ ہے کہ یہ نظم میں نے کہی، میری کتاب میں شامل ہے، ذرائع ابلاغ میں میرے نام سے آ چکی۔ اب اس پر کوئی شخص کچھ اضافی سطور لکھ کر میرے لکھے کو اپنے نام لگانا چاہے تو یہ ظاہر ہے سرقہ بالجبر قسم کی کوئی چیز ہو گا۔
اگر آپ کے ذہن میں اس طرح کی کوئی بات ہے تو اس کی اجازت کوئی بھی نہیں دے گا، ایک مجھ پر کیا موقوف۔ ہاں آپ اس کی شرح لکھ سکتی ہیں، اس پر منظوم تبصرہ کرنا چاہیں تو بھی کوئی ہرج نہیں۔ مگر اس کو کسی بھی انداز میں اپنے کلام کا حصہ نہیں بنا سکتیں۔
 
11816798_742987599178034_6264585232463879752_n.jpg


احبابِ گرامی! درستی فرما لیجئے۔ یہ شعر شیخ علی حزین کا ہے۔
جناب محمد وارث نے نشان دہی کر دی، ممنون ہوں۔ (11 اگست 2015ء)

’’آسی صاحب یہ شعر شیخ علی حزیں کا ہے، ان کا پورا نام شیخ محمد علی حزیں گیلانی اصفہانی ہے، اور تعلق اٹھارویں صدی عیسوی (بارہویں صدی ہجری) سے ہے، برصغیر میں شیخ علی حزیں اور ایران میں حزیں لاھیجی کے نام سے معروف ہیں۔ حزیں قادری پچھلی صدی کے پنجابی فلمی شاعر تھے۔‘‘
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
آسی صاحب یہ شعر شیخ علی حزیں کا ہے، ان کا پورا نام شیخ محمد علی حزیں گیلانی اصفہانی ہے، اور تعلق اٹھارویں صدی عیسوی (بارہویں صدی ہجری) سے ہے، برصغیر میں شیخ علی حزیں اور ایران میں حزیں لاھیجی کے نام سے معروف ہیں۔ حزیں قادری پچھلی صدی کے پنجابی فلمی شاعر تھے۔
 
آسی صاحب یہ شعر شیخ علی حزیں کا ہے، ان کا پورا نام شیخ محمد علی حزیں گیلانی اصفہانی ہے، اور تعلق اٹھارویں صدی عیسوی (بارہویں صدی ہجری) سے ہے، برصغیر میں شیخ علی حزیں اور ایران میں حزیں لاھیجی کے نام سے معروف ہیں۔ حزیں قادری پچھلی صدی کے پنجابی فلمی شاعر تھے۔
بہت شکریہ، آپ نے نشان دہی فرما دی، کسی وقت پلیٹ بدل دیتا ہوں۔ امکان غالب یہی ہے کہ یہ فروگزاشت میری ہے۔
توجہ رکھا کیجئے، اچھا لگتا ہے کوئی ٹوکنے والا بھی تو ہو!
 

شزہ مغل

محفلین
’’گوہلاں‘‘ کا دیباچہ (بہت مختصر) ۔۔۔

جھولی

کدی کدی گل کرنی ڈاہڈی اوکھی ہو جاندی اے، تے کدی اپنے آپ نال گلاں کرن نوں جی کردا اے۔ شاعری وی خبرے اپنے آپ نال گلاں کرن دا ای ناں اے!؟ اپنے آپ نال گلاں کرن دی ایہ رت کچھ کچھ ساون بھادوں دی جھڑی ورگی ہوندی اے، کسے پاسیوں اک واء دا بلا آیا تے نال ای نیلے آسمان تے چٹیاں چٹیاں بدلیاں دسن لگ پیاں۔ ویہندیاں ای ویہندیاں ایہ کالے بدل بن گئے، تے پھر گجن وی لگ پئے، تے مینہ! اللہ دے تے بندہ لے۔جے بدل ٹک گئے تے ست اٹھ دن بنے، تے جے اڈ گئے تے اوہ گئے، نہ بدل نہ مینہ، نہ رُت نہ گلاں!۔

جیوندے جاگدے بندے دے اندر دا ساون بھادوں کسے کیلنڈر دے ماتحت نہیں ہوندا۔ بس اک واء دا بلا چاہی دا اے، بھانویں اوہ باہروں کتوں آوے بھانویں اندروں ای کتوں اٹھ پوے۔اندروں اٹھی جھڑی لگ جاوے تے پھر سفنے تے سدھراں، ہوکے تے ہاہواں، وین تے گاون، پکیاں ہوئیاں رس بھریاں گوہلاں وانگوں سوچاں دی دھرتی نوں ڈھک لیندیاں نیں تے گوہلاں دا رس سوچاں دی مٹی نوں وی رسیلی بنا جاندا اے، جیہو جہیاں گوہلاں، اوہو جیہا رس۔

ایہ رت وی تاں عارضی ہوندی اے نا، پر ایہدا اثر عمراں تیکر رہندا اے۔ جہدی جھولی وچ سدھراں تے سفنیاں دیاں پکیاں رس بھریاں گوہلاں آ جان، عمراں تیکر اونہاں دی رسان اپنے بلہاں تے ای نہیں، اپنی روح وچ وی محسوس کردا اے، تے نالے ونڈی وی جاندا اے۔ جے اوہ کچیاں گوہلاں نال جھولی بھری پھرے تے رس کتھوں!

میری جھولی وچ وی کچھ گوہلاں نیں، رلیاں ملیاں، کچیاں وی تے پکیاں وی، پھوکیاں وی تے رس بھریاں وی، تے کچھ سلونیاں وی نیں! گوہلاں جو ہوئیاں! !!
مینوں پنجابی تے اینی نئیں آندی پر چنگا نئیں لگدا کہ پنجابی تحریر تے اردو وچ تبصرہ ہووے۔
میں تہاڈی اردو دیاں تحریراں تے شاعری وی پڑھی اے پر اینا سواد نئیں آیا جنا ایس پنجابی تحریر نو پڑھن وچ آیا۔ عام طور تے میں بڑے کٹ لوکی ویکھے نیں جنا نے اردو تے پنجابی دوہاں زباناں وچ لکھیا ہووے تے اردو دی نسبت پنجابی وچ زیادہ سواد ہووے۔
میری گل منو تے پنجابی وچ ای لکھدے ریہا کرو۔
 

شزہ مغل

محفلین
ایک ہلکی پھلکی تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور !!!

احباب کی خدمت میں

نیوکاسٹر کا خط ۔۔۔۔۔۔۔ اس کا مرکزی خیال فیس بک پر ’’پرنسس خدیجہ‘‘ کی ایک پوسٹ سے ماخوذ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیوز کاسٹر کا اپنے محبوب کے نام خط ۔
تحریر و پیش کش ۔۔۔ شائستہ ریاض عرف شانو۔

جنابِ محبوبِ کامدار اور چند دنوں بعد بننے والے شوہرِ نامدار کے لئے خبروں اور نبضوں کے اس خصوصی نشریے کے ساتھ حاضر ہیں۔ شانو کا آداپ!۔

سب سے پہلے شہ ’’سرخیاں‘‘۔

معروف قابلِ اعتماد خبر ساز ایجنسی چچی کے ذرائع کے مطابق تم این آر او پر دستخطوں کا مرحلہ جلد از جلد طے کرنا چاہتے ہو۔ مراسلے پر تیز تر عمل درآمد کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ تاہم ایک اہم نکتے پر اماں اور بابا میں اختلافات کے شواہد ملے ہیں۔ تفصیلات کھانے اور کانا پھوسی کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔

ْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ((((دوپہر کا کھانا بنانے کے بعد ))) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شانو کا آداب مکرر۔ خبروں کی تفصیل کے ساتھ حاضر ہیں۔ کھانا ہم نے ڈٹ کر کھایا ہے اور پیٹ لبالب بھرا ہوا ہے۔ لہٰذا ڈکاروں کے شدید جھونکوں کا امکان ہے۔ تاہم ماہرینِ خوراک کے مطابق یہ جھونکے قطعاً نقصان دہ نہیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر ساز ایجنسی کے ذرائع کے مطابق تم نے این آر او ٹریٹی یعنی شادی کے لئے ہنگامہ برپا کیا ہوا ہے۔ ذرائع مواصلات کی برق رفتاری اور مقناطیسیت کی بدولت مبینہ ہنگاپے کے اثرات حریم ذات یعنی ہمارے گھر میں بھی نمایاں ہیں اور خاصی بے چینی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ ذمہ دار شہریوں کی تنظیم کے صدر المعروف بھائی جان نے ہماری نمائندہ کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’’یہاں تھر تھلی مچ گئی ہے‘‘ ۔ اور اس تھرتھلی کی وجہ چچی کے دفتر سے جاری ہونے والا وہ مراسلہ ہے جس کے مطابق کہ وہ اگلے ہفتے دن مقرر کرنے کے لئے آ رہی ہیں۔ ان کے دورے کی حتمی تاریخ کا اعلان اماں حضور کی توثیق کے بعد کیا جائے گا۔ اس خبر اور تم سے منسوب مذکورہ ہنگامے کے ردعمل کے طور پر میری ٹانگوں میں کچھ مسئلہ پیدا ہو گیا ہے اور میرے پاؤں زمین پر نہیں ٹِک رہے۔

پیارے شوریدہ سر کو اس ذاتی بلیٹن کے ذریعے خبر دار کیا جا رہا ہے کہ کابینہ اور سینیٹ کے جملہ ارکان شادی کی تیاری زور شور سے کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز وزارتِ عظمٰی یعنی اماں حضور نے فرنیچر لاہور سے منگوانے کا بل صدر دفتر کو ارسال کر دیا تھا۔ اس کے باوجود صدرِ مملکت یعنی ابا حضور نے ایک صدارتی حکم نامہ جاری کر دیا ہے کہ فرنیچر سیالکوٹ سے منگوایا جائے۔ حکم نامہ میں سیالکوٹ میں دستیاب فرنیچر کی کوالٹی کو اعلٰی اور قابلِ اعتماد قرار دیا گیا ہے۔ وزارتِ خارجہ نے صدر کے حکم کی فوری تعمیل کا عندیہ دے دیا ہے۔ باخبر ذرائع یعنی خود ہمارے مطابق صدارتی محل اور وزارتِ عظمٰی میں سرد جنگ کے اثرات پائے جا رہے تھے۔ ذمہ دار شہریوں کی تنظیم کے صدر جناب بھائی جان نے اسلام آباد میں اپنی دیگر سفارتی اور مدارتی تقاریب کو ملتوی کرتے ہوئے آج صبح سویرے خصوصی طور پر گھر کا دورہ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے دونوں اداروں کے اختلافات کو سرد کرنے میں مؤثر کردار ادا کیا ہے، اور اس بھاری نقصانات کا خطرہ ٹل گیا ہے جو مذکورہ اداروں کے اختلافات سے رو نما ہو سکتے تھے۔

ادھر کراچی سے وزارتِ عظمٰی کی ذیلی برانچ خالہ شرمیلی نے ہاٹ لائن پر رپورٹ دی ہے کہ وہ معاہدہ کی تاریخ سے پندرہ دن قبل اپنی بارہ رکنی کابینہ کے ساتھ یہاں پہنچ جائیں گی تاکہ معاملات کو سنبھالنے یا بگاڑنے میں اپنا مؤثر کردار ادا کر سکیں۔ گورنر شرمیلا نے کہا ہے کہ وہ اپنا پروگرام مقامی حالات کے مطابق طے کریں گے، تاہم انہوں نے شرکت کی توثیق کر دی ہے۔

ذیلی برانچ کے اس ہاٹ لائنی پیغام کے بعد گھر کے افراد وقتاً فوقتاً زلزلے کے سے جھٹکے محسوس کر رہے ہیں۔ متاثرین میں وزیرِ خوراک ماسی کرامتے کی حالت نازک بتائی جاتی تھی تاہم اب ان کی جان اور ہمارے طعام کو کوئی خطرہ نہیں، کیوں کہ وزارتِ عظمٰی نے انہیں اپنی تینوں بیٹیوں کو بطور نائبات اپنے ساتھ شامل کرنے کا اجازت نامہ جاری کر دیا ہے۔ ہماری پی آر او، یعنی چھوٹی بہن نے کہا ہے صدر دفتر سے اس اجازت نامے کی ہنگامی توثیق ہو چکی ہے۔

اور اب، موسمیات کی رپورٹ۔

چچی کے مراسلے کے بعد موسم خاصا گرم ہو گیا تھا، خالہ کی ہاٹ لائینی رپوٹ کے بعد مطلع ابر آلود ہے۔ اماں کی گرج دار آواز ہر وقت اور ہر طرف سُنائی دیتی ہے، جب کہ ابا کا موڈ ایسے بادل کی طرح ہے جو بغیر گرجے کسی بھی وقت برس سکتا ہے۔ جملہ انتظامی کمیٹیاں ابا کے احکام اور بھائی جان کی نگرانی میں تیزی سے مصروفِ عمل ہیں تا کہ کسی بھی ہنگامی صورتِ حال سے نمٹا جا سکے۔

مجھے اس شور وغُل میں دھنک کے وہ رنگ دکھائی دے رہے ہیں جن کی طرف کسی اور کی توجہ مبذول نہیں ہوئی۔ یہ خصوصی بلیٹن تمہیں اس ساری صورتِ حال اور اپنی قلبی کیفیات سے آگاہ کرنے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بریکنگ نیوز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امان جان کی گرج چمک اور ہواؤں کا رخ اس وقت نیوز روم کی طرف ہے۔ لہٰذا ممکنہ مکوں اور لاتوں سے محفوظ رہنے کے لئے اس خبر نامے کو مختصر کیا جا رہا ہے۔ چونکہ این آر او (نہ روکیں اوئے) پر دستخط ہو جانے کے بعد حالات ہمارے جذبات کے مطابق ہوں گے، تب تک کے لئے اپنی شانو کو عارضی اجازت دو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد وارث، الف عین، محمد خلیل الرحمٰن، محب علوی، مدیحہ گیلانی،
اور دیگر خوش ذوق قارئین کی نذر۔
واہ۔ کیا نیوز کاسٹنگ ہے۔
 
مینوں پنجابی تے اینی نئیں آندی پر چنگا نئیں لگدا کہ پنجابی تحریر تے اردو وچ تبصرہ ہووے۔
میں تہاڈی اردو دیاں تحریراں تے شاعری وی پڑھی اے پر اینا سواد نئیں آیا جنا ایس پنجابی تحریر نو پڑھن وچ آیا۔ عام طور تے میں بڑے کٹ لوکی ویکھے نیں جنا نے اردو تے پنجابی دوہاں زباناں وچ لکھیا ہووے تے اردو دی نسبت پنجابی وچ زیادہ سواد ہووے۔
میری گل منو تے پنجابی وچ ای لکھدے ریہا کرو۔
تہاڈی مہربانی اے شزہ مغل ۔۔ پر، ویکھو اک ہور مہربانی کرو : میرے تے نہ لکھن والی پابندی نہ لاؤ۔ میرا قلم اے نا جیہڑا (اج کل کی بورڈ) جدھر چل پوے مُڑدا نہیں، تے میں موڑدا وی نہیں۔ روک اس نوں چنگی نہیں لگدی، تہاڈے طرح۔
جیوندے رہو۔
 

شزہ مغل

محفلین
پروفیسر انور مسعود نے 1990 میں ایک بات کہی تھی۔ لب لباب یہ ہے:
پنجابی کی یہ جو صنف ہے ’’بولی‘‘۔ ایک سطر ہے، اس میں ایک پورا مضمون! میں تو اردو والوں کو کہتا ہوں کی یار، اس کو اپنا لو!
انور مسعود صاحب میرے پسندیدہ ترین شاعروں میں سے ہیں۔ چند دن پہلے میں نے کسی نجی ٹی وی چینل پر ان کا پروگرام دیکھا تو بہت خوشی ہوئی۔
میں نے اپنے موبائیل فون میں ریکارڈ بھی کیا ہوا ہے۔ اور جب بھی کچھ اچھا سا سننے کا من ہو وہ سن لیتی ہوں۔
 

شزہ مغل

محفلین
انور مسعود صاحب میرے پسندیدہ ترین شاعروں میں سے ہیں۔ چند دن پہلے میں نے کسی نجی ٹی وی چینل پر ان کا پروگرام دیکھا تو بہت خوشی ہوئی۔
میں نے اپنے موبائیل فون میں ریکارڈ بھی کیا ہوا ہے۔ اور جب بھی کچھ اچھا سا سننے کا من ہو وہ سن لیتی ہوں۔
مجھے تو لگتا ہے پاکستانی اردو ادب دو ہی انوار کے زیر اثر ہے۔ ایک 'انور مسعود' اور ایک 'انور مقصود'
 
مجھے تو لگتا ہے پاکستانی اردو ادب دو ہی انوار کے زیر اثر ہے۔ ایک 'انور مسعود' اور ایک 'انور مقصود'
طنز و مزاح (شاعری) میں آپ کی بات انور مسعود کے حوالے سے بہت حد تک قابلِ قبول ہے۔ انور مقصود کا میدان الگ ہے، وہاں زیادہ رول کیمرے (چہرے پر تاثرات چھاپنے) کا ہوتا ہے۔ بہ این ہمہ دونوں بزرگوں کے اسلوب کی نقل ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے۔ پورے اردو ادب کا احاطہ چند جملوں میں نہیں ہو سکتا۔

اردو نثر کے بھی کئی میدان ہیں اور ہر میدان میں مشاہیر موجود ہیں۔ میرے جیسا شخص کبھی کسی کا اثر قبول کرتا ہے کبھی کسی کا اور کبھی کچھ ملا جلا اور کبھی کچھ اپنا بھی۔
بس ملا جلا چلتا ہے۔
 

شزہ مغل

محفلین
’’آپ اجازت دیں تو ایک دفعہ .... ایک دفعہ آپ کو ’’امی‘‘ کہہ لوں؟ ‘‘
’’نہ بیٹا نہ، ایک دفعہ نہیں دس دفعہ کہنا ہو گا‘‘ اماں بی نے اسے اپنے سینے میں چھپا لیا۔ عنبر ہچکیاں لے لے کر رونے لگی۔ مہ نور اور توقیر حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
اماں بی نے سرگوشی کے انداز میں پوچھا ’’سیٹھ جمال کی بیٹی ہو؟‘‘ کسی نے بھی تو سیٹھ جمال کا ذکر نہیں کیا تھا!
’’جی امی‘‘ ہچکیوں کے درمیان یہ دو لفظ کتنی مشکل سے ادا ہوئے، اس کا احساس ان دونوں کے سوا کسی کو کیسے ہوتا۔ اماں بی کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو ٹپ سے گرے۔
؎ وہ جو غم تھا وہ کسی اور نے جھیلا ہو گا
یہ جو آنسو ہے یہ میری آنکھ سے ٹپکا کیوں ہے
 

شزہ مغل

محفلین
تہاڈی مہربانی اے شزہ مغل ۔۔ پر، ویکھو اک ہور مہربانی کرو : میرے تے نہ لکھن والی پابندی نہ لاؤ۔ میرا قلم اے نا جیہڑا (اج کل کی بورڈ) جدھر چل پوے مُڑدا نہیں، تے میں موڑدا وی نہیں۔ روک اس نوں چنگی نہیں لگدی، تہاڈے طرح۔
جیوندے رہو۔
اسی کون ہندے آں تہاڈے تے روک لان والے۔ ایویں بس دل چ آئی، دس دتی۔ لکھدے روو جناب۔
لکھنا روکنا وی نئیں چاہی دا۔
جیویں سپ اپنا ذہر اپنے اندر دکھے تے اودی اپنی جان لئی خطرہ ہندا اے۔ اوسے طرح لکھاری لکھنا چھڈ دووے تے اودے اپنے لئی خطرناک ہو جاندا اے۔۔۔
(سپ دی مثال دینا چنگا نئیں لگیا پر اے میں اپنے واستے ٹھیک سمجھنی آں۔ تہاڈے لئی مناسب نئیں لگدی۔ معاف کر دئیو)
 
Top