مختصر الفاظ میں بات کہنے کا کھیل

رانا

محفلین
مختصر الفاظ میں بات کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ مجھ جیسے تو چند الفاظ پر مبنی سوچ کو اتنے زیادہ الفاظ کی اینٹوں سے چنوا دیتے ہیں کہ الفاظ کی دیواروں میں ہی سوچ کا دم گھٹ جاتا ہے۔:)
اس دھاگے میں ایک کھیل شروع کرتے ہیں کہ چند سطور پر مشتمل کوئی بات لکھیں اور اسے کم سے کم الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کریں۔ پتہ نہیں کوئی اس میں دلچسپی لیتا ہے یا نہیں۔ بہرحال دیکھتے ہیں ورنہ اس دھاگے کو پرانے دھاگوں کی اینٹوں سے چنوا دیا جائے گا۔:)

اصول اس کھیل کے یہ ہوں گے کہ ہر بندہ یہاں ایک بات جو ایک یا زیادہ سے زیادہ پانچ سطور پر مشتمل ہوگی، چاہے نیٹ سے لی جائے، یا کسی کالم نگار کے کالم سے کاپی پیسٹ کی جائے یا محفل سے ہی کوئی بات لے لی جائے یا اپنے ذہن سے ہی کوئی بات بیان کردی جائے۔ دوسرے محفلین کو یہ کرنا ہوگا کہ اسی بات کو دوبارہ اس طرح لکھیں کہ اس میں اصل بات کی نسبت کم الفاظ موجود ہوں لیکن مفہوم میں فرق نہ آئے۔ چاہے دو تین الفاظ ہی آپ کم کرسکیں۔ پھر ساتھ ہی اگلی بات بھی پیش کی جائے جس پر دوسرے محفلین یہ تجربہ کریں۔ یعنی ہر محفلین پہلے مراسلے میں کی گئی بات کو مختصر الفاظ میں بیان کرے گا اور ساتھ ہی ایک نئی بات بعد والوں کے لئے پیش کرے گا۔
اس پیراگراف کو ہی دیکھ لیں میں نے کتنے الفاظ خرچ کرڈالے حالانکہ یہی بات کم الفاظ میں بھی سمجھائی جاسکتی تھی۔:p

بہرحال پہلے ایک مثال پیش کرتے ہیں۔ مثلا یہ بات ایکسپریس نیوز سے ظہیر اختر بیدی صاحب کے آج کے کالم سے لی گئی ہے:
"دنیا میں ہر سال لاکھوں انسان بھوک کی وجہ سے مرجاتے ہیں، لاکھوں انسان علاج معالجے کی سہولتوں سے محرومی کی وجہ سے مر جاتے ہیں لاکھوں بچے غذا کی محرومی یا ناقص غذا کی وجہ سے مرجاتے ہیں اور لاکھوں خواتین دوران حمل اور زچگی کے دوران ناقص غذا کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتی ہیں موت عموماً طبعی عمر گزارنے کے بعد آتی ہے لیکن جو لوگ بھوک، ناقص غذا کی وجہ سے طبعی عمر گزارنے سے قبل موت کا شکار ہوجاتے ہیں کیا ان کی موت کو طبعی کہا جائے گا یا قتل؟"

اب میں اسے مختصر کرنے کی کوشش کرتا ہوں:
"ہر سال لاکھوں انسان بھوک کی وجہ سے مرجاتے ہیں، لاکھوں علاج معالجے کی سہولتوں سے محرومی کے باعث، لاکھوں بچے غذا کی محرومی یا ناقص غذا کے باعث اور لاکھوں خواتین دورانِ زچگی ناقص غذا کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتی ہیں۔ موت عموما طبعی عمر گزارنے کے بعد ہی آتی ہے لیکن جو لوگ بھوک، ناقص غذا کی وجہ سے طبعی عمر سے قبل ہی مر جائیں کیا ان کی موت کو طبعی کہا جائے گا یا قتل؟"

یہ ایک مثال ہے کہ میں نے کوئی پون سطر کے قریب الفاظ کم استعمال کئے ہیں اور مفہوم وہی ہے۔ اب کھیل کا آغاز کرتے ہیں اور پہلی بات جسے آپ نے مختصر کرنا ہے درج زیل ہے۔ یہ وسعت اللہ خان کے آج کے کالم سے لی گئی ہے:

"پہلی عالمی جنگ نہ ایک عام مغربی کے فائدے میں لڑی گئی، نہ ہی یہ کسی عام مشرقی کے کام کی تھی۔یہ جنگ کسی منصفانہ نظریے ، ٹھوس ملکیتی جواز یا اپنے دفاع کے لیے نہیں تھی بلکہ یورپ کے شاہوں نے تہذیب کے سینے پر سامراجی بندر بانٹ کی بساط بچھا کے کروڑوں انسانوں کو مہرہ بنا کے خونی جوا کھیلا اور پھر ہاتھ جھاڑ کے پرے ہوگئے۔"

نوٹ: خیال رہے کہ جو محفلین بھی اسے مختصر کریں وہ اگلی بات بھی ضرور پیش کریں۔
 

اکمل زیدی

محفلین
بہترین دھاگہ ...
لیجئے ..میری طرف سے اک کوشش ..

پہلی عالمی جنگ نہ کسی عام مغربی یا مشرقی کے کام کی تھی اور نہ ہی کسی منصفانہ نظریے ، ٹھوس ملکیتی جواز یا اپنے دفاع کے لئے لڑی گئی بلکے یہ خونی جوا
سامراجی بندر بانٹ کی بساط بچھا کے کروڑوں انسانوں کو مہرہ بنا کر کھیل کر کھلاڑی پرے ہو گئے.

اور اگلی بات ..

محبت انسان کو ہمیشہ سفر میں رکھتی ہے، ایک پل کا چین بھی اگر آپ کی رگوں کے نام کر دیا جائے تو آپ کا اپنا اور اپنے محبوب کا نام بھول جائے گا۔ اور ایسے میں پہلی محبت کی موت ہوتی ہے۔ باقی کی محبتیں اپنے انجام سے خوفزدہ، محبت مسلسل فعل ہے اور مسلسل زندگی اور موت۔
اک لمحے کو دہرانا بھی کسی سائے میں بیٹھ کر سستانا بھی، اور آبلے گننا بھی یا صرف اپنے لیے سانس لینا بھی جرم ہے۔"

اشفاق احمد
 

ابن رضا

لائبریرین
پہلی عالمی جنگ کسی کے مفاد میں تھی نہ کسی منصفانہ نظریے پر ، یہ یورپی حکمرانوں کی خوش طبعی کے لیے خونی کھیل تھی۔
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
محبت انسان کو ہمیشہ سفر میں رکھتی ہے، ایک پل کا چین بھی اگر آپ کی رگوں کے نام کر دیا جائے تو آپ کا اپنا اور اپنے محبوب کا نام بھول جائے گا۔ اور ایسے میں پہلی محبت کی موت ہوتی ہے۔ باقی کی محبتیں اپنے انجام سے خوفزدہ، محبت مسلسل فعل ہے اور مسلسل زندگی اور موت۔
اک لمحے کو دہرانا بھی کسی سائے میں بیٹھ کر سستانا بھی، اور آبلے گننا بھی یا صرف اپنے لیے سانس لینا بھی جرم ہے

محبت ناقابلِ معافی جرم ہے
 

رانا

محفلین
بہ
پہلی عالمی جنگ نہ کسی عام مغربی یا مشرقی کے کام کی تھی اور نہ ہی کسی منصفانہ نظریے ، ٹھوس ملکیتی جواز یا اپنے دفاع کے لئے لڑی گئی بلکے یہ خونی جوا
سامراجی بندر بانٹ کی بساط بچھا کے کروڑوں انسانوں کو مہرہ بنا کر کھیل کر کھلاڑی پرے ہو گئے.
کھیل کا اصول یہ تھا کہ مفہوم میں فرق نہیں آنا چاہئے۔ اصل بات میں یہ پتہ لگ رہا ہے کہ یہ بساط کس نے بچھائی تھی یعنی یورپ کے شاہوں نے۔ لیکن مختصر ہونے کے بعد بساط کا تو ذکر ہے لیکن بساط بچھانے والوں کا نہیں۔:)
بہرحال اچھی کوشش تھی۔
 

شزہ مغل

محفلین
محبت انسان کو ہمیشہ سفر میں رکھتی ہے، ایک پل کا چین بھی اگر آپ کی رگوں کے نام کر دیا جائے تو آپ کا اپنا اور اپنے محبوب کا نام بھول جائے گا۔ اور ایسے میں پہلی محبت کی موت ہوتی ہے۔ باقی کی محبتیں اپنے انجام سے خوفزدہ، محبت مسلسل فعل ہے اور مسلسل زندگی اور موت۔
اک لمحے کو دہرانا بھی کسی سائے میں بیٹھ کر سستانا بھی، اور آبلے گننا بھی یا صرف اپنے لیے سانس لینا بھی جرم ہے۔"

اشفاق احمد
ہم بھی طبع آزمائی کرتے ہیں۔
محبت کے سفر میں ایک پل کا چین بھی اگر آپ کو دے دیا جائے تو آپ اپنا اور محبوب کا نام بھول جائیں۔ یہ پہلی محبت کی موت ہوتی ہے۔ باقی محبتیں اپنے انجام سے خوفزدہ۔ محبت مسلسل زندگی اور موت کا فعل ہے۔اک لمحے کو دہرانا ،کسی سائے میں بیٹھ کر سستانا، آبلے گننایا صرف اپنے لیے سانس لینا بھی جرم ہے۔

اگلی بات۔۔۔
مختصر الفاظ میں بات کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ مجھ جیسے تو چند الفاظ پر مبنی سوچ کو اتنے زیادہ الفاظ کی اینٹوں سے چنوا دیتے ہیں کہ الفاظ کی دیواروں میں ہی سوچ کا دم گھٹ جاتا ہے۔اس دھاگے میں ایک کھیل شروع کرتے ہیں۔ پتہ نہیں کوئی اس میں دلچسپی لیتا ہے یا نہیں۔ بہرحال دیکھتے ہیں ورنہ اس دھاگے کو پرانے دھاگوں کی اینٹوں سے چنوا دیا جائے گا۔
 
آخری تدوین:

ماہی احمد

لائبریرین
مختصر الفاظ میں بات کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ مجھ جیسے تو چند الفاظ پر مبنی سوچ کو اتنے زیادہ الفاظ کی اینٹوں سے چنوا دیتے ہیں کہ الفاظ کی دیواروں میں ہی سوچ کا دم گھٹ جاتا ہے۔اس دھاگے میں ایک کھیل شروع کرتے ہیں۔ پتہ نہیں کوئی اس میں دلچسپی لیتا ہے یا نہیں۔ بہرحال دیکھتے ہیں ورنہ اس دھاگے کو پرانے دھاگوں کی اینٹوں سے چنوا دیا جائے گا۔
صاف صاف بات کرنا بچوں کا کهیل نہیں۔ مجھ جیسے تو بس باتوں کی جلیبیاں ڈالتے ہیں۔ یہاں ایک کهیل شروع کرتے ہیں، وللہ عالم اس کا کیا بنے۔
 

ماہی احمد

لائبریرین

کہنے لگی : دعا بھی تو ایک دھا گہ ہے جس سے اللہ اور بند ے کا تعلق سلتا ہے ۔"

میں نے کہا : دعا کے کئی رنگ ہے ،دھا گو ں کی طر ح ،جو دھا گے صرف اپنی
خو اہشوں کی ما نگ کے رنگ میں رنگے ہو تے ہیں ان دھا گو ں سے کا ڑھی ہو ئی
دعا کے رنگ مختلف ہو تے یں لیکن جن دھا گو ں پر اللہ کی محبت کا رنگ چڑھا ہو تا ہے ان سے کا ڑھی ہو ئی دعا کی خو شبو ہی اور ہو تی ہے دعا کی چھا وں میں بیٹھ کر ہر وقت اللہ سے کچھ ما نگنا ہی ضر وری نہیں بلکہ اس چھا وں پر چھپے ہو ئے خو بصورت سفر کی آہٹ سننا بھی ہے ۔
دعا کا مطلب صر ف ما نگنا ہی نہیں ہے ۔"


"مظہر الاسلام کی کتاب اے خدا سے انتخا ب
 

شزہ مغل

محفلین
صاف صاف بات کرنا بچوں کا کهیل نہیں۔ مجھ جیسے تو بس باتوں کی جلیبیاں ڈالتے ہیں۔ یہاں ایک کهیل شروع کرتے ہیں، وللہ عالم اس کا کیا بنے۔
واہ جی واہ آپ نے تو صاف صاف ہی بات کہہ دی۔(فیصلہ تو رانا بھائی ہی کریں گے کہ آپ نے ان کی تحریر کے ساتھ کتنا انصاف کیا)
اب ذرا اگلے آنے والوں کو بھی تو چیلنج دیجیئے ناں۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
واہ جی واہ آپ نے تو صاف صاف ہی بات کہہ دی۔(فیصلہ تو رانا بھائی ہی کریں گے کہ آپ نے ان کی تحریر کے ساتھ کتنا انصاف کیا)
اب ذرا اگلے آنے والوں کو بھی تو چیلنج دیجیئے ناں۔
رانا بهائی تو واقعی کبهی کبهی جلیبیاں تل دیتے ہیں۔ میں ساری بات پڑهتے پڑهتے بهول ہی جاتی ہوں کہ یہ کہہ کیا رہے ہیں :ROFLMAO:
 

رانا

محفلین
ہم بھی طبع آزمائی کرتے ہیں۔
محبت کے سفر میں ایک پل کا چین بھی اگر آپ کو دے دیا جائے تو آپ اپنا اور محبوب کا نام بھول جائیں۔ یہ پہلی محبت کی موت ہوتی ہے۔ باقی محبتیں اپنے انجام سے خوفزدہ۔ محبت مسلسل زندگی اور موت کا فعل ہے۔اک لمحے کو دہرانا ،کسی سائے میں بیٹھ کر سستانا، آبلے گننایا صرف اپنے لیے سانس لینا بھی جرم ہے۔

اگلی بات۔۔۔
مختصر الفاظ میں بات کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ مجھ جیسے تو چند الفاظ پر مبنی سوچ کو اتنے زیادہ الفاظ کی اینٹوں سے چنوا دیتے ہیں کہ الفاظ کی دیواروں میں ہی سوچ کا دم گھٹ جاتا ہے۔اس دھاگے میں ایک کھیل شروع کرتے ہیں۔ پتہ نہیں کوئی اس میں دلچسپی لیتا ہے یا نہیں۔ بہرحال دیکھتے ہیں ورنہ اس دھاگے کو پرانے دھاگوں کی اینٹوں سے چنوا دیا جائے گا۔
زبردست! مجھے یہ بات کافی مشکل لگی تھی اسی لئے مختصر کرنے کی ہمت نہیں کی۔ اسی وقت احساس ہوگیا تھا کہ اسے کوئی شعر و ادب سے تعلق رکھنے والا بندہ ہی مختصر کرسکتا ہے۔:)
اور اگلی بات میں آپ نے ماہی احمد کے ہاتھوں میری بات کی مٹی پلید کروادی۔:) یا دانستہ آپ دونوں نے میرے خلاف سازش کی تھی۔:)
 

رانا

محفلین
کہنے لگی : دعا بھی تو ایک دھا گہ ہے جس سے اللہ اور بند ے کا تعلق سلتا ہے ۔"

میں نے کہا : دعا کے کئی رنگ ہے ،دھا گو ں کی طر ح ،جو دھا گے صرف اپنی خو اہشوں کی ما نگ کے رنگ میں رنگے ہو تے ہیں ان دھا گو ں سے کا ڑھی ہو ئی
دعا کے رنگ مختلف ہو تے یں لیکن جن دھا گو ں پر اللہ کی محبت کا رنگ چڑھا ہو تا ہے ان سے کا ڑھی ہو ئی دعا کی خو شبو ہی اور ہو تی ہے دعا کی چھا وں میں بیٹھ کر ہر وقت اللہ سے کچھ ما نگنا ہی ضر وری نہیں بلکہ اس چھا وں پر چھپے ہو ئے خو بصورت سفر کی آہٹ سننا بھی ہے ۔
دعا کا مطلب صر ف ما نگنا ہی نہیں ہے ۔"

"مظہر الاسلام کی کتاب اے خدا سے انتخا ب
کہا دعا بھی تو اللہ اور بندے کے درمیان تعلق کا دھاگہ ہے۔ میں نے کہا لیکن دھاگے مختلف رنگوں کے بھی تو ہوتے ہیں کوئی خواہشات میں رنگا ہوا تو کوئی محبت الہی میں رنگین۔ ہر وقت دعا مانگنا کافی نہیں بلکہ اسکی کی چھاؤں کے خوبصورت سفر کی آہٹ بھی سننا چاہئے۔

اگلی بات:
واہ بھئی کیا کہا ماہی نے کہ میں باتوں کی جلیبیاں ڈالتا ہوں۔ حالانکہ پچھلے جنم میں جب خاکسار فرعون کا مشیر خاص تھا تو برائے نام ہی الفاظ کا استعمال کرتا تھا اور اکثر صرف اشاروں سے ہی کام نکال لیتا تھا۔ فرعون نے پوچھا ملکہ عالیہ کہاں ہیں، خاکسار نے جنبش ابرو سے کچن کی طرف اشارہ کردیا۔ منہ سے ایک لفظ نہیں کہا۔ کبھی فرعون کا غیظ و غضب عروج پر ہوا تو دور سے ہی ہامان کو سر کے قریب انگلی کو گھما کے بتا دیا کہ آج میٹر گھوما ہوا ہے ذرا بچ کے رہنا۔ حالانکہ دوسرے یہی بات بتانے میں کئی الفاظ خرچ کر ڈالتے۔ یہاں تو ویسے بھی الفاظ میں یہ بات کہنا خطرے سے خالی نہ ہوتا کہ فرعون سن لیتا تو خاکسار کو اگلے جنم کے لئے رخت سفر باندھنا پڑتا۔
 
آخری تدوین:

شزہ مغل

محفلین
زبردست! مجھے یہ بات کافی مشکل لگی تھی اسی لئے مختصر کرنے کی ہمت نہیں کی۔ اسی وقت احساس ہوگیا تھا کہ اسے کوئی شعر و ادب سے تعلق رکھنے والا بندہ ہی مختصر کرسکتا ہے۔:)
اور اگلی بات میں آپ نے ماہی احمد کے ہاتھوں میری بات کی مٹی پلید کروادی۔:) یا دانستہ آپ دونوں نے میرے خلاف سازش کی تھی۔:)
بالکل نہیں بھیا۔ کوئی سازش نہیں تھی۔
مجھے اس قابل کوئی سطور فی الفور میسر نہیں آئیں اس لیے آپ ہی کی تحریر سے اقتباس لیا۔
اب مجھے کیا پتا تھا کی ماہی احمد ہاتھ میں غلیل لیے بیٹھی ہیں۔:idontknow::)
 

ماہی احمد

لائبریرین
زبردست! مجھے یہ بات کافی مشکل لگی تھی اسی لئے مختصر کرنے کی ہمت نہیں کی۔ اسی وقت احساس ہوگیا تھا کہ اسے کوئی شعر و ادب سے تعلق رکھنے والا بندہ ہی مختصر کرسکتا ہے۔:)
اور اگلی بات میں آپ نے ماہی احمد کے ہاتھوں میری بات کی مٹی پلید کروادی۔:) یا دانستہ آپ دونوں نے میرے خلاف سازش کی تھی۔:)
میں سوچ رہی سوئینر والے لڑی کھول لوں۔ آپ کا ہر مراسلہ یہاں لکھ دیا کروں، ٹائم کی بچت ;):sneaky:
 

ماہی احمد

لائبریرین
کہا دعا بھی تو اللہ اور بندے کے درمیان تعلق کا دھاگہ ہے۔ میں نے کہا لیکن دھاگے مختلف رنگوں کے بھی تو ہوتے ہیں کوئی خواہشات میں رنگا ہوا تو کوئی محبت الہی میں رنگین۔ ہر وقت دعا مانگنا کافی نہیں بلکہ اسکی کی چھاؤں کے خوبصورت سفر کی آہٹ بھی سننا چاہئے۔

اگلی بات:
واہ بھئی کیا کہا ماہی نے کہ میں باتوں کی جلیبیاں ڈالتا ہوں۔ حالانکہ پچھلے جنم میں جب خاکسار فرعون کا مشیر خاص تھا تو برائے نام ہی الفاظ کا استعمال کرتا تھا اور اکثر صرف اشاروں سے ہی کام نکال لیتا تھا۔ فرعون نے پوچھا ملکہ عالیہ کہاں ہیں، خاکسار نے جنبش ابرو سے کچن کی طرف اشارہ کردیا۔ منہ سے ایک لفظ نہیں کہا۔ کبھی فرعون کا غیظ و غضب عروج پر ہوا تو دور سے ہی ہامان کو سر کے قریب انگلی کو گھما کے بتا دیا کہ آج میٹر گھوما ہوا ہے ذرا بچ کے رہنا۔ حالانکہ دوسرے یہی بات بتانے میں کئی الفاظ خرچ کر ڈالتے۔ یہاں تو ویسے بھی الفاظ میں یہ بات کہنا خطرے سے خالی نہ ہوتا کہ فرعون سن لیتا تو خاکسار کو اگلے جنم کے لئے رخت سفر باندھنا پڑتا۔
میں کچھ بولوں گی تو سب کہیں گے کہ بولتی ہے :p
 
Top