امریکہ کینیڈا میں ایک ہی دن مدر ڈے ہوتا ہے؟تمام محفلین خاص طور پر وہ جو مائیں ہیں اور محفلین کی والداؤں کو مدرز ڈے مبارک۔
پھر فادرز ڈے کب مناتے ہیں؟ہمارے لیے ہر ایک ڈے ہی مدر ڈے ہے
عارف بھائی ۔ ہم مسلمانوں کیلئے ماں اور باپ سے محبت کیلئے کوئی ایک دن نہیں سال کے تین سو پینسٹھ دن ایک جیسے ہیں۔ ہمارے مسلمان کلچر اور ایشیائی معاشرت میں ہر دن ہی ماں اور باپ سے محبت ان کی خدمت کا دن ہے۔ہمارے لیے ہر دن مدر ڈے اور فادر ڈے ہے۔ یہ سارے ٹوپی ڈرامے یورپی تہذیب کے ہیں۔ جہاں مذہب اور شریفانہ اقدار سے منحرف لبرل لوگ اپنے ماں باپ کو عمر رسیدہ ہونے پر کیئر ٹیک ہومز میں چھوڑ آتے ہیں اور پھر سال میں ایک دن ان سے ملنے کے دن کو مدر ڈے اور فادر ڈے کے طور پر مناتے ہیں۔ قرآن مجید میں ماں باپ سے محبت اور حسن سلوک کا حکم صرف سال کے ایک دن کیلیے نہیں ہر وقت ہر دن کیلیے ہے۔اس لیے ہمارا ہر دن مدر ڈے ہمارا ہر دن فادر ڈے ہے۔ آپ دوست اس موقف کو پر مزاح کی ریٹنگ دو یا کچھ ہمارے لیے یہ احکامات الہی کا حصہ ہے۔پھر فادرز ڈے کب مناتے ہیں؟
یہاں جوائنٹ فیملی سسٹم نہیں ہوتا اسلئے بلوغت کی عمر پہنچنے کے بعد اولاد والدین کیساتھ عموماً نہیں رہتی۔ جب ماں باپ کی عمر بڑھاپے تک پہنچ جاتی ہے اور وہ اپنی دیکھ بھال خود نہیں کر سکتے تو وہ اولڈ ہومز کا رُخ کرتے ہیں۔ اپنی اولاد پر بوجھ نہیں بنتے جو خود اپنی اولاد کو سنبھالنے کی فکر میں مصروف ہوتی ہے۔یہ سارے ٹوپی ڈرامے یورپی تہذیب کے ہیں۔ جہاں مذہب اور شریفانہ اقدار سے منحرف لبرل لوگ اپنے ماں باپ کو عمر رسیدہ ہونے پر کیئر ٹیک ہومز میں چھوڑ آتے ہیں اور پھر سال میں ایک دن ان سے ملنے کے دن کو مدر ڈے اور فادر ڈے کے طور پر مناتے ہیں۔
عارف بھائی اب آپ خود سوچیں کہ کیا یہ مغربی معاشرت کا المیہ نہیں ہے؟ کیا یہ درست نہیں ہے کہ بڑھاپے میں ماں باپ کو اولاد کی طرف سے دیکھ بھال اور ان کی موجودگی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن مغربی اولاد اپنے ماں باپ کو کئیر ٹیک ہومز میں ڈال کر اپنے ان ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جاتی ہے جو کسی دیسی یا ولائتی معاشرے سے پہلے انجیل زبور تورات اور قرآن نازل کرنے والے اللہ تعالی نے ڈالی ہیں۔یہاں جوائنٹ فیملی سسٹم نہیں ہوتا اسلئے بلوغت کی عمر پہنچنے کے بعد اولاد والدین کیساتھ عموماً نہیں رہتی۔ جب ماں باپ کی عمر بڑھاپے تک پہنچ جاتی ہے اور وہ اپنی دیکھ بھال خود نہیں کر سکتے تو وہ اولڈ ہومز کا رُخ کرتے ہیں۔ اپنی اولاد پر بوجھ نہیں بنتے جو خود اپنی اولاد کو سنبھالنے کی فکر میں مصروف ہوتی ہے۔