حسن نظامی
لائبریرین
کیونکہ ۔۔۔ جب قرآن ہی میں کوئی ذکر نہ ہو تب ؟؟ تب کون سی کسوٹی استعمال میں لائی جائے گی
اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔ دو صحیح احادیث ، واضح طور پر نصِ قرآنی سے متعارض ہیں ! کیا ان صحیح احادیث کو ریجکٹ کر دیا جائے گا ؟ حالانکہ امتِ مسلمہ کا صدیوں سے ان احادیث پر اجماع و عملِ متواتر ہے۔
حوالے کے لیے : نکتہ نمبر (4) اور (5) ، یہاں (پوسٹ نمبر 76) ملاحظہ فرمائیں۔
باذوق انکل کون سي ايسي بات ہے جو قرآن ميں موجود نہيں آپ تو نص قطعي کے منکر ہو رہے ہيں
اللہ تعالي فرماتے ہيں
لا رطب و لايابس الا في کتاب مبين
اور دوسري بات کے جواب ميں صرف ايک عبارت
وحکم الخاص من الکتاب وجوب العمل بہ لا محالت فان قابلہ خبرالواحد والقياس فان امکن الجمع بينہما بدون تغيير في حکم الخاص يعمل بھما والا يعمل بالکتاب و يترک ما يقابلہ
ترجمہ خود ہي کر ليجيے گا يہ اصول الشاشي کي عبارت ہے ۔۔
اور اب خدارا مناظرے سے پرہيز کريں
ميري آپ سے يہي بنتي ہے