پردیسی
محفلین
میرے خیال میں شاید ایسا ہی ہومیں نے بلاگ بنایا تو وہ پاکستان کا سب سے متنازعہ بلاگ ہو گا پھر
میرے خیال میں شاید ایسا ہی ہومیں نے بلاگ بنایا تو وہ پاکستان کا سب سے متنازعہ بلاگ ہو گا پھر
جب تک جڑ زمین سے نکال باہر نہ کی جائے ۔ لاکھ شجر کے پتے شاخیں حتی کہ تنے کو ہی کیوں نہ کاٹ دیا جائے ۔
شجر کسی نہ کسی صورت اپنی زندگی کو قائم رکھتا ہے ۔ اور مناسب موسم پاتے ہی دگنے پھیلاؤ سے سامنے آتا ہے ۔
سوچ اس بات کی ہونی چاہیئے کہ " برداشت " کیوں ختم ہوئی ۔ ؟
کمالیہ میں ہمارے گھر کے سامنے ایک مسجد ہے ۔ چونکہ مسجد ایک بند گلی میں واقع ہے اس لئے بہت محدود تعداد میں گھروں کے لوگ اس میں نماز کے لئے آتے ہیں۔ اور مسجد کے صحن میں اگر کوئی عالم صاحب تقریر فرمائیں تو کسی قسم کے سپیکر کے بغیر بھی ارد گرد کے گھروں میں آواز پہنچتی ہے۔ لیکن رسمِ دنیا نبھانے کے لئے انہوں نے سپیکر بھی لگا رکھے ہیں ...... ایک نہیں پورے 6 عدد بڑے سائز کے لاؤڈ سپیکر۔"تُسی تے مینوں کوئی کافر لگدے اوہ"
آہو فیر ؟
پاکستان آ جاؤ ملوا دوں گا۔ایسے بندے ہمیں کیوں نہیں ملتے یارررررررررررررر
وہاں بھی نہیں ملے ہم جاتے ہیں تو سب ٹھیک ہو جاتے ہیں یا کم از کم ہمیں تو ٹھیک نظر آنے لگتے ہیںپاکستان آ جاؤ ملوا دوں گا۔
اسلام کا ”جن“ تو امن و شانتی والا ہے۔ اسلام کے معنی ہی امن کے ہیں۔ تشدد اور جنونیت در اصل ”فرقوں“ کی پیداوار ہے، جو اسلام کے نام پر بنادئے گئے ہیں۔ آپ تو قرآن و حدیث کے سننا اور پڑھنا ہی ”گوارا“ نہیں کرتے ورنہ آپ کو بخوبی معلوم ہوجاتا کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو ”حبل اللہ“ کو تھامنے اور ”فرقہ بندی“ ہی سے منع کرتا ہے(وَٱعۡتَصِمُواْ بِحَبۡلِ ٱللَّهِ جَمِيعً۬ا وَلَا تَفَرَّقُواْۚاس سب کا حل تعلیم میں ہے جاھل ملاء جو نفرت اور مار کھا کھا کر گھر سے دور پلا بڑھا ہو مدرسے کی روٹیاں کھا کر اس سے نفاست کی توقع رکھنا یا کسی کا خیال رکھنے کی امید کرنا بے وقوفی ہے ۔ اسی طرح مذہبی جنونی چاہے وہ کسی فرقے سے ہوں ان کو کوئی کیسے کنٹرول کرے گا؟ اسلام نے خؤد ایک ایساجن بوتل سے نکال دیا ہے جو اب اسلام کے قابو سے باہر ہو چکا ہے ۔
مرا خیال ہے تمام عبادت گاہیں نیشنلائز کرلیں ۔ تعلیم یافتہ ملا کی سرکاری ملازمت ہو جس میں تبادلے بھی معمول کا حصہ ہوں ۔خطبہ سرکاری ہو ۔ مدارس سے تحقیق کے بعد ڈگریاں جاری ہوں ان کا عملہ بھی سرکاری ہو۔کوئی عبادت گاہ چندہ نہیں وصول کرے گی جس نے دینا ہو وہ صرف عبادت گاہ کے تعمیری و تزئینی کام خود کرا سکتا ہے یا مسجد کمیٹی۔۔ پیش امام یا خطیب کا مقامی آبادی سے پیسہ رشوت کے ضمن میں گردانا چاہئیے۔ حکومتی خزانے پر بوجھ تو پڑے گا مگر یہ درباروں کی آمدن سے کافی حد تک پورا ہو جائے گا ۔ مولوی کو سرکاری نوکری ملے گی تو اس کا وعظ بھی صحیح ہوگا ۔ایسے مولوی بھی دیکھے ہیں جن کا اپنا تو ایک مسلک سے تعلق ہوتا ہےمگر پیٹ کی خاطر دوسرے مسلک کی مسجد میں خدمات دے رہے ہوتے ہیں ایک ایسے بھی صاحب ہیں جن کے پاس ہر مسلک کی تقاریر لکھی ہوئی ہیں حسب موقعہ استعمال کرتے ہیں ۔انکو ان کی تعلیم کی مناسبت سے ملازمت ملے تو نہ یہ مسلک کا راگ لاپے گیں اور نہ ہی سیاسی باتیں کریں گے ۔ فیکٹریوں کارخانوں میں ملازم کتنا صحیح کام کرتے ہیں ۔مسلم ممالک سے آنے والی امداد کا بھی یا تو سد باب ہو جائے گا یا پھر حکومت کے خزانے میں جمع ھو جائے گی ۔اس سب کا حل تعلیم میں ہے جاھل ملاء جو نفرت اور مار کھا کھا کر گھر سے دور پلا بڑھا ہو مدرسے کی روٹیاں کھا کر اس سے نفاست کی توقع رکھنا یا کسی کا خیال رکھنے کی امید کرنا بے وقوفی ہے ۔ اسی طرح مذہبی جنونی چاہے وہ کسی فرقے سے ہوں ان کو کوئی کیسے کنٹرول کرے گا؟ اسلام نے خؤد ایک ایساجن بوتل سے نکال دیا ہے جو اب اسلام کے قابو سے باہر ہو چکا ہے ۔
اسلام نے کوئی ایسا جن بوتل سے نہیں نکالا۔ یہ خود ساختہ ملاؤں کی ایجاد ہے جو اب ان کے بس سے باہر ہو چکا ہے۔اس سب کا حل تعلیم میں ہے جاھل ملاء جو نفرت اور مار کھا کھا کر گھر سے دور پلا بڑھا ہو مدرسے کی روٹیاں کھا کر اس سے نفاست کی توقع رکھنا یا کسی کا خیال رکھنے کی امید کرنا بے وقوفی ہے ۔ اسی طرح مذہبی جنونی چاہے وہ کسی فرقے سے ہوں ان کو کوئی کیسے کنٹرول کرے گا؟ اسلام نے خؤد ایک ایساجن بوتل سے نکال دیا ہے جو اب اسلام کے قابو سے باہر ہو چکا ہے ۔
حکومت کبھی بھی اس میں دخل نہیں دے گی کیونکہ حکومت کی پالیسی ہے لڑاؤ اور حکومت کرو۔سید زبیر سر جی کی بات سے متفق ہوں میں
جہاں تک مجھے لگتا ہے ہماری حکومت میں دین کا عمل دخل صرف رویت ہلال کمیٹی تک ہے
باقی معاملات میں حکومت نے علماء کو اور علماء نے حکومت کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے
ہر کسی نے اپنا بت خانہ بنا رکھا ہے
اور اپنے بت کو قائم رکھنے کے لیئے دوسروں کو بت شکنی کا درس دیتے ہیں
یہ الگ بات ہے کہ ملکِ عدم میں موبائل کی سہولت میسر نہیں ورنہ خودکش بمبار کا میسج آتا، "ملاء جی بارود زیادہ ہوگیا تھا۔ جنت پیچھے چھوٹ گئی ہے۔"ان مذہبی اجتماعات کا مقصد ہی مذہبی جنونیوں کو دعوت دینا ہے کہ وہ اپنا جنتی خود کش بم یہاں آکر ٹیسٹ کر لیں!
بجا کہا۔ اور یہ مولوی باقاعدہ بولیوں کے تحت "بک" کر عید کی نمازیں پڑھانے دوسرے دیہاتوں کو جاتے ہیں۔ یقین کریں یہ لوگ جو زبان عید کی صبح لاؤڈ سپیکر پر استعمال کرتے ہیں، وہ میں یہاں لکھ نہیں سکتاحکومت کبھی بھی اس میں دخل نہیں دے گی کیونکہ حکومت کی پالیسی ہے لڑاؤ اور حکومت کرو۔
دوسری بات ہمارے مُلا کبھی بھی نہیں مانیں گے کہ ان کے حلوے مانڈے ختم ہو جائیں گے۔
یہ اللہ کا فرمان بھول کر اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ الاپتے ہیں۔
دیہاتوں میں تو انہوں نے اور بھی اَت مچا رکھی ہے۔ وہاں پر لوگ اللہ رسول کو کم اور مسجد کے مولوی کو زیادہ مانتے ہیں۔
ایکسیلنٹ یاریہ الگ بات ہے کہ ملکِ عدم میں موبائل کی سہولت میسر نہیں ورنہ خودکش بمبار کا میسج آتا، "ملاء جی بارود زیادہ ہوگیا تھا۔ جنت پیچھے چھوٹ گئی ہے۔"
ایسے بندے ہمیں کیوں نہیں ملتے یارررررررررررررر
یہ تحریر میرے دوست شیخو کی ہے ۔۔ مگر میں اس سے سو فیصد متفق ہوں
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
مذہبی اجتماعات کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئے
جہاں دیکھو میلاد ، جہاں دیکھو مجلس ، جہاں دیکھو کوئی نہ کوئی محفل ۔۔۔
اگر آپ کو اپنے مذہب سے اتنی ہی عقیدت ہے اور آپ اس کو مانتے بھی ہیں تو ایک جگہ مقرر کرلیں ۔ پھر جو جی چاہے کریں ۔۔لوگوں کو تو قربانی کا بکرا نہ بنائیں اور نہ ہی کوئی ایسا سیکورٹی رسک پیدا کریں جس سے عام معصوم انسانوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہو۔
کیا آپ لوگوں کے اس طرح سر عام اجتماعات کرنے سے لوگ آپ کے مذہب کی طرف راغب ہو جائیں گے ؟
میرے خیال میں اگر ہم لوگوں نے تفرقہ بازی ، ایک دوسرے سے نفرت ، شدت پسندی اور دہشت گردی جیسے عنفریت کا خاتمہ کرنا ہے تو جلد یا بدیر ہمیں ایسے اقدام کرنا ہوں گے کہ جس سے خصوصا پاکستان میں رہنے والے انسان سکھ اور آزادی کا سانس لے سکیں ۔
اہل تشیع ہوں ، بریلوی ہوں ، دیوبندی ہوں یا کہ اہلحدیث ۔۔سب کو اپنے مذہبی اجتماعات اپنی قائم کردہ یا گورنمنٹ کی مخصوص کردہ جگہوں پر کرنے چاہئے۔سڑکوں ، گلیوں یا بازاروں میں ہر قسم کے اجتماعات پر مکمل پابندی لگا دینی چاہئے ۔
ہم تمام لوگوں کو سر عام مذہبی اجتماعات کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئے تاکہ پاکستان کا عام مسلمان سکھ کا سانس لے سکے۔اگر پاکستان میں مذہبی اجتماعات مخصوص کردہ جگہوں پر ہونے لگے تو آپ دیکھئے گا کہ اور کچھ ہو نہ ہو پاکستان میں تفرقہ بازی ضرور ختم ہو جائے گی
عیدین کے اجتماع ہمیشہ ایک ہی جگہ ہوتے ہیں، یعنی مرکزی مساجد وغیرہمتفق تو سب ہیں، اصل مسئلہ پابندی کے اجرا کا ہے۔ حکومت کو اگر موثر پابندی لگانی ہے تو بلاتفریق ہر مذہبی اجتماع پر پابندی لگانی ہوگی۔ ورنہ ایسے بیانات کہ شیعہ اپنے جلوسوں پر پابندی لگائیں، یا بریلوی اپنے جلوسوں پر پابندی لگائیں فرقہ وارانہ سوچ کی عکاس ہی سمجھے جائیں گے۔ پابندی میں عیدین کے اجتماع بھی شامل ہونے چاہییں، ورنہ شیعہ یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ ایک اجتماع تو ملک میں جائز ہے لیکن دوسرے اجتماع پر پابندی۔