ایچ اے خان
معطل
ان تہوار کو چھوڑو گے
تو کرسمس، ویلنٹائن ڈے، ہیلوون وغیرہ نہ منانا پڑے کہیں
بلکہ کئی تو منا رہے ہیں بلکہ ترغیب دے رہے ہیں
تو کرسمس، ویلنٹائن ڈے، ہیلوون وغیرہ نہ منانا پڑے کہیں
بلکہ کئی تو منا رہے ہیں بلکہ ترغیب دے رہے ہیں
لو جی ڈانس دیکھنے یا فحش ڈراموں سے کسے ایڈز ہوئی ہے اج تک اور مذہب پر پابندی نہیں کنٹرول کی بات ہو رہی ہے ۔ آپکو پتہ ہے ڈرامے کے اداکاروں کو بین کر دیا جاتا ہے ؟ اسی طرح ملاؤں کو بھی کیا جانا چاہیےایڈز تو پھیلتی ہے
قوم مریض بن جاتی ہے
حیرت ہے لوگ مذہب پر پابندی لگانے کی بات کررہے ہیں اور فحاشی کا دفاع
اللہ کو کیا منہ دکھاوگے؟
میٹھے ہیں تو کھا لیں پر پبلک کو ڈسٹرب نا کریںپاکستان میں موجاں ہی موجاں
ربیع الاول میں میلاد، محرم میں عاشورہ، عید بقر عید، شب برات
اتنی میٹھے میٹھے تہوار ہیں۔
کیوں پابندی لگاو ان پر بھلا؟
باقی لوگوں کو تکلیف ہونے پر قانون سازی ضرور ہو۔ بلکہ ہے۔
اب تو ایکو سسٹم استعمال ہوتا ہے۔ ہر مسجد والا یہی چاہتا ہے کہ اس کی آواز شہر کے آخری کونے تک سنی جائے۔محترم محمد احمد صاحب ، میرے خیال میں اس میں ایمان کو خطرے میں ڈالنے والی کوئی بات نہیں ہے ، ہم کسی کے بھی مذہب یا کہ مذہبی عبادات پر پابندی لگانے کی بات نہیں کر رہے۔بلکہ سرعام سڑکوں ، گلیوں ، بازاروں میں ان کو روکنے کی بات کر رہے ہیں ۔
پاکستان میں رہنے والے تمام مذاہب چاہے وہ کسی مسلک ،فرقے سے متعلق ہوں وہ اپنی اپنی جگہ یا گورنمنٹ کی بنائی ہوئی جگہ پر اپنی دسومات ادا کریں تو زیادہ بہتر رہے گا۔
ایک اور بات جو میرے محترم دوست بار بار کہہ رہے ہیں کہ سپیکر کی چنگھاڑنے والی آوازوں پر بھی روک لگانی چاہئے
اگر پھر بھی کوئی فتوی دیتا ہے تو دیتا پھرے۔۔۔ ۔
میٹھے ہیں تو کھا لیں پر پبلک کو ڈسٹرب نا کریں
قانون موجود ہیں بیٹااب تو ایکو سسٹم استعمال ہوتا ہے۔ ہر مسجد والا یہی چاہتا ہے کہ اس کی آواز شہر کے آخری کونے تک سنی جائے۔
اعتراض تو اس پر بھی کوئی نہیں کرتا۔۔۔قانون موجود ہیں بیٹا
پر عوام کی اکثریت ان رسومات کو مناتی ہے۔ منہ تو صرف ماڈرن ملا بناتے ہیں جو ویلنٹائن منانےکے بہانے ڈھونڈتے ہیں
ذرا انے دو الیکشن ۔ پورے لالوکھیت میں الطاف کے گانے فل ایکو پر چلیں گے جس پر بدمعاش لڑکے بالے ڈانس کریں گے۔ اسپر پابندی کی کوئی بات نہیں کرتا
فتویٰ ہی صادر کرتے ہیں نا۔ فتویٰ کا مطلب ہے رائے۔ رائے دینے میں کیا برائیاعتراض تو اس پر بھی کوئی نہیں کرتا۔۔۔
اگر ان سے جان کا خطرہ ہے تو ان سے ایمان کا خطرہ۔۔
فوراََ کفر کا فتوی صادر کر دیا جاتا ہے۔۔۔
ارے سر جی ابھی حکومت اخبار میں اشتہار دے دے کہ اس تعلیمی قابلیت کے فلانے ضلع کے ائمہ کرام کے عہدوں کے لیے درخواستیں مطوب ہیں یہی ملا اپنا قبلہ صحیح کریں گے اور درخواستیں جمع کرائیں گے ۔ابتدا اسلام آباد سے کریں ۔اب تقریباَ اسی فیصد مساجد میں جو پیش امام ہیں وہ غیر مقامی ہیں ار مقامی لوگ صرف کسی سفارش کی وجہ سے بغیر تحقیق کیے رکھ لیتے ہیں جس کے بعد وہی مولوی قریب میں جہاں مسجد تعمیر ہورہی تھی وہاں اپنے بندے کے لیے بھاگ دوڑ شروع کردیتا خصوصاَ خیبر پختون خواہ ، میں تو بیشتر ایسے ہی ہیں نہ کوئی ان کی تعلیمی اسناد چیک کرتا ہے ۔اور مساجد کو قومیانے کا عمل اتنا تیز ہو کہ مداخلت کا موقع ہی نہ ملے بہر حال فی الحال تو صرف دیوانے کا خواب ہے ۔لیکن جس رفتار سے مذہبی تفرق بازی پر کام ہو رہا ہے یقیناَ ایک وقت ضرور آئے گا کہ اسلام پسند حکومت بھی ایسا عمل کرنے پر مجبور ہوجائے گی ۔لا تقنطو من رحمۃ اللہحکومت کبھی بھی اس میں دخل نہیں دے گی کیونکہ حکومت کی پالیسی ہے لڑاؤ اور حکومت کرو۔
دوسری بات ہمارے مُلا کبھی بھی نہیں مانیں گے کہ ان کے حلوے مانڈے ختم ہو جائیں گے۔
یہ اللہ کا فرمان بھول کر اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ الاپتے ہیں۔
دیہاتوں میں تو انہوں نے اور بھی اَت مچا رکھی ہے۔ وہاں پر لوگ اللہ رسول کو کم اور مسجد کے مولوی کو زیادہ مانتے ہیں۔
تمام قسم کی تقریبات کو دوسروں کے لئے سوہانِ روح بنانے پر پابندی کی بات ہو رہی ہے عالی جاہ۔ پورے دھاگے کا مطالعہ فرمائیں اور ڈاکٹروں سے بھی معلوم کر لیں کہ ٹینشن اور شور کس قدر خطرناک بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔قانون موجود ہیں بیٹا
پر عوام کی اکثریت ان رسومات کو مناتی ہے۔ منہ تو صرف ماڈرن ملا بناتے ہیں جو ویلنٹائن منانےکے بہانے ڈھونڈتے ہیں
ذرا انے دو الیکشن ۔ پورے لالوکھیت میں الطاف کے گانے فل ایکو پر چلیں گے جس پر بدمعاش لڑکے بالے ڈانس کریں گے۔ اسپر پابندی کی کوئی بات نہیں کرتا
بموں سے اڑا دیتے ہیں جی۔۔۔فتویٰ ہی صادر کرتے ہیں نا۔ فتویٰ کا مطلب ہے رائے۔ رائے دینے میں کیا برائی
گولی تو نہیں ماردیتے دن دھاڑے الطاف کی طریوں
تمام قسم کی تقریبات کو دوسروں کے لئے سوہانِ روح بنانے پر پابندی کی بات ہو رہی ہے عالی جاہ۔ پورے دھاگے کا مطالعہ فرمائیں اور ڈاکٹروں سے بھی معلوم کر لیں کہ ٹینشن اور شور کس قدر خطرناک بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔
بالکل متفق ہوں، عوامی مقامات میں مجالس و محافل منعقد کرنا انتہائی غیر مناسب ہے۔ ہمیں تو پبلک جگہوں پر موبائل تک میں ہلکی ٹیون یا پھر سائیلنٹ رکھنا چاہیے، چہ جائے کہ کان پھاڑ دینے والی آوازوں سے عزائم کا اظہار کیا جائے، جبکہ عمل کا ارادہ ٹھوکر پر ہو۔
اگر عوام کچھ کرے تو فتوے صادر ہوں گے فِرق مخالف کی جانب سے، حکومت واحد حل ہے، ورنہ خونریزی کا اندیشہ ہے، جو آج کل ہر مسئلے کا واحد حل ہے ملکِ عزیز میں۔
ارے سر جی ابھی حکومت اخبار میں اشتہار دے دے کہ اس تعلیمی قابلیت کے فلانے ضلع کے ائمہ کرام کے عہدوں کے لیے درخواستیں مطوب ہیں یہی ملا اپنا قبلہ صحیح کریں گے اور درخواستیں جمع کرائیں گے ۔ابتدا اسلام آباد سے کریں ۔اب تقریباَ اسی فیصد مساجد میں جو پیش امام ہیں وہ غیر مقامی ہیں ار مقامی لوگ صرف کسی سفارش کی وجہ سے بغیر تحقیق کیے رکھ لیتے ہیں جس کے بعد وہی مولوی قریب میں جہاں مسجد تعمیر ہورہی تھی وہاں اپنے بندے کے لیے بھاگ دوڑ شروع کردیتا خصوصاَ خیبر پختون خواہ ، میں تو بیشتر ایسے ہی ہیں نہ کوئی ان کی تعلیمی اسناد چیک کرتا ہے ۔اور مساجد کو قومیانے کا عمل اتنا تیز ہو کہ مداخلت کا موقع ہی نہ ملے بہر حال فی الحال تو صرف دیوانے کا خواب ہے ۔لیکن جس رفتار سے مذہبی تفرق بازی پر کام ہو رہا ہے یقیناَ ایک وقت ضرور آئے گا کہ اسلام پسند حکومت بھی ایسا عمل کرنے پر مجبور ہوجائے گی ۔لا تقنطو من رحمۃ اللہ
یہی والا دکھا دیں گے یار۔ فکر ناٹایڈز تو پھیلتی ہے
قوم مریض بن جاتی ہے
حیرت ہے لوگ مذہب پر پابندی لگانے کی بات کررہے ہیں اور فحاشی کا دفاع
اللہ کو کیا منہ دکھاوگے؟
اگر انہی لوگوں نے عوام کو مذہبی حوالے سے جاہل نہ رکھا ہوتا تو یہی کام کوئی بھی نیک انسان سرانجام دے سکتا تھا۔ پر اس میں اپنی دکانداری ختم ہونے کا خدشہ ہے یاراجو تن خواہ پر یہ پیش امام کام کرتے ہیں اتنے میں اپکی بیٹریاں اتی ہیں (گر پیتے ہوں تو) ۔ ہر ایک کا دل گردہ نہیں ہے۔ کبھی بیمار پڑجائیں تو دوا لانے کے پیسے بھی نہیں ہوتے۔ پھر بھی اذان و نماز پڑھاتے ہیں۔
کیسا قومیانا؟ بلکل قومیانا چاہیے بلکہ ہر ایک سے زیادہ تنخواہ ہو۔ مگر یہ کب ممکن ہے
اس وقت تو یہ پیش امام، موذن ہی جہاد کررہے ہیں اسلام کو عوام میں زندہ رکھ کر کہ گھر میں موت میت ہو یا شادی غمی ۔ یہ لوگ بلاوے جائیں ہیں
یہی تو میری بھی عرض تھی ان کو ان کی قابلیت اور اہلیت کے مطابق حیثیت ،مرتبہ دیں مگر انجانے ملا کو بغیر تحقیق کیے اس کو عالم کا ددرجہ کیسے دے سکتے ہیں یا پھر دوسرا علا ج ہے کہ ہم مولوی بن جائیں ،کوہاٹ میں ایک بستی ہے جس کے ہر گھر میں دو تین حافظ ضرور ہیں مسجد کے پیش امام مقامی کاشتکار ہیں جو انہی میں سے ہیں۔وہ صبح فجر کی نماز کے بعد کھیتوں پر کام کرتے ہیں۔سبزیاں کاشت کرتے ہیں ۔ یہ بھی تو ہم نہیں کرسکتے ۔عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے ۔جو تن خواہ پر یہ پیش امام کام کرتے ہیں اتنے میں اپکی بیٹریاں اتی ہیں (گر پیتے ہوں تو) ۔ ہر ایک کا دل گردہ نہیں ہے۔ کبھی بیمار پڑجائیں تو دوا لانے کے پیسے بھی نہیں ہوتے۔ پھر بھی اذان و نماز پڑھاتے ہیں۔
کیسا قومیانا؟ بلکل قومیانا چاہیے بلکہ ہر ایک سے زیادہ تنخواہ ہو۔ مگر یہ کب ممکن ہے
اس وقت تو یہ پیش امام، موذن ہی جہاد کررہے ہیں اسلام کو عوام میں زندہ رکھ کر کہ گھر میں موت میت ہو یا شادی غمی ۔ یہ لوگ بلاوے جائیں ہیں
اگر اعمال ایسے رہ تو منہ نہیں دکھا سکیں گےیہی والا دکھا دیں گے یار۔ فکر ناٹ
ن اکر یار معاف کر دے چھوڑ پرے بندے کا منہ بس زوجہ ماجدہ ھھھھھھھ مطلب زوجہ کو پسند ہے تو پھر ٹینشن نہیں لیتے ۔ ویسے بھی تم اب کسے منہ دکھاؤ گے یار چھوڑ دفع کراگر اعمال ایسے رہ تو منہ نہیں دکھا سکیں گے