کمالیہ میں ہمارے گھر کے سامنے ایک مسجد ہے ۔ چونکہ مسجد ایک بند گلی میں واقع ہے اس لئے بہت محدود تعداد میں گھروں کے لوگ اس میں نماز کے لئے آتے ہیں۔ اور مسجد کے صحن میں اگر کوئی عالم صاحب تقریر فرمائیں تو کسی قسم کے سپیکر کے بغیر بھی ارد گرد کے گھروں میں آواز پہنچتی ہے۔ لیکن رسمِ دنیا نبھانے کے لئے انہوں نے سپیکر بھی لگا رکھے ہیں ...... ایک نہیں پورے 6 عدد بڑے سائز کے لاؤڈ سپیکر۔
ہمارا گھر مسجد کے بالکل سامنے واقع ہے اور جب ان چھ سپیکروں پر آذان کی اواز گونجتی تو ان کی کم بلندی کی وجہ سے ہمارے گھر میں ایک ایسی صورت ھال پیدا ہو جاتی کہ کانوں سے دھوئیں نکل جاتے۔ اوپر سے ایک نا خواندہ بابا جی ان کا آذان کا تلفظ غلط اور آواز کافی زیادہ تلخ تھی وہ آذان دیتے تو صورت ھال مزید خراب ہو جاتی۔ ایک دن بابا جی سے عرض کیا کہ حضور آپ کی آواز آذان کے لئے بہتر نہیں اور لہجہ بھی غلط ہے اس پر مستزاد کہ آپ فُل والیوم میں چھ سپیکر کھول کر آذان دیتے ہو تو اس سے آس پاس کے گھروں میں جو کوئی بیمار ہوں وہ انتہائی مشکل کا شکار ہتے ہیں ، لہذا آپ ایک سپیکر استعمال کر لیا کریں اور اس کا والیوم بھی کم رکھا کریں کیونکہ یہ چھوٹے سی آبادی کے لئے کافی ہے۔ ان دنوں میری والدہ مرحومہ بھی مرض الموت کا شکار تھیں اور ڈاکٹر نے ہمیں بھی ان کے ساتھ اونچی آواز میں بات کرنے ، حتی کہ برتن گرنے کے شور سے بھی انہیں بچانے کی ہدایت کی ہوئی تھی ۔ لیکن میرے بار بار منع کرنے کے باوجود وہ بابا جی اور مولوی صاحب باز نہ آئے۔ بلکہ ضدبازی میں پڑ گئے۔ تب میں نے اپنے ایک وکیل دوست کے ذریعے پولیس سے رابطہ کر کے پہلے سے موجود قانون کا سہارا لیا ۔ اور پولیس نے آ کر 5 سپیکر بند کروا دئے اور والیوم بھی کافی کم کروا دیا ۔
اب جناب دو دن بعد جمعہ کی تقریر میں بندہ ناچیز و پر تقصیر مولوی صاحب کے تکفیری فتووں کا نشانہ بن گیا ۔ اور جہنم کا حق دار گردانتے ہوئے حقہ پانی بند کر دینے کا سزاوار ٹھہرا دیا گیا۔ اگرچہ جمعہ کی نماز میں نے اسی مولوی کے پیچھے پڑھی لیکن باہر آ کر مسجد کے دروازے پر محترم مولوی صاحب کا انتظار کرتا رہا ۔ ان کے برآمد ہونے پر ہم نے ان کے شایان شان ان کی ”عزت افزائی“ کی اور اپنے بدستور مسلمان ہونے کا انہی کی زبان سے اقرار کروایا۔ مولوی صاحب کو اپنی بیٹھک میں بٹھا کر ان کے اساتذہ ، محلے کے عمائدین اور پولیس والوں کو بلا لیا ۔ سب کے سامنے یہ کیس رکھا اور مولوی ساحب کے تکفیری فتوے کے چشم دید اور سماع شنید گواہ پیش کر دئے۔ بالآخر مولوی صاحب کو اپنا فتوی واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا اور مسجد کے سپیکر پر آ کر اہل محلہ سے کہنا پڑا کہ یہ سب غلط فہمی کی بنا پر ہوا۔
میری والدہ مرحومہ اپنے ابدی گھر منتقل ہو گئیں اور میں لاہور منتقل ہو گیا۔ چند ماہ قبل کمالیہ گیا تو وہی کام پھر سے جاری و ساری تھا ۔ میرے دو دن قیام کے دوران سپیکوں کی آواز کم کی گئی بعد میں بھائی فون پر بتاتا رہتا ہے کہ پرنالہ پھر وہیں گر رہا ہے۔
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
آپکی اس بات سے مولانا روم کی یہ حکایت یاد آئی۔۔۔صرف ترجمہ نقل کر رہا ہوں۔قابلِ مطالعہ ہے:
1- ایک مؤذن کی آواز بہت دلخراش تھی، وہ پوری پوری رات گلا پھاڑتا تھا۔
2-اس نے انسانوں پر میٹھی نیند حرام کردی تھی اور عوام و خواص اسکی وجہ سے دردِ سر میں مبتلا تھے۔
3-بچے بستروں میں اس سے ڈرتے تھے۔ اور مرد و زن اسکی اواز کی وجہ سے عذاب میں تھے۔
4-اس دردِسر اور تکلیف کو دور کرنے کیلئے وہ لوگ چندہ اکٹھا کرنے لگے۔
5-انہوں نے اس مؤذن کو بلایا اور تمام رقم اسکو دی اور کہنے لگے۔
6- اے جناب! آپ نے دن رات دین کی بہت خدمت کی اور آپکی اذان سے ہم سب نے بہت راحت پائی۔
7-چونکہ آپکی وجہ سے ہم سب کو دین کی بیش قیمت دولت ہاتھ آگئی ہے چنانچہ اس نے ہماری نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں۔
8۔ہم بدلے میں اور تو کوئی خدمت ادا نہیں کرسکتے، یہی کہیں گے کہ آپ یہ نقدی لیجئے اور کچھ عرصہ بے فکری سے راحت فرمائیے اورفکرِ معاش سے بے پرواہ ہوکر باطنی توجہ میں مشغول ہوجائیے۔
9-اسی دوران ایک قافلہ حج کیلئے مکّے کو روانہ ہورہا تھا۔ یہ مؤذن جھٹ اس قافلے میں جا شامل ہوا۔
10- قافلہ روانہ ہوا اور اثنائے سفر اسکا گذر کافروں کے علاقے سے ہوا۔
11- قافلے والوں نے کفرستان میں رات کے وقت پڑاؤ کیا۔
12- اس مؤزن نے جو اپنی آواز پر عاشق تھا،بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ کفرستان میں اذان دینا شروع کی۔
13- بہت سے لوگوں نے کہا کہ یہ کفرستان ہے یہاں اذان نہ دے ورنہ خوامخواہ کی دشمنی پیدا ہوگی اور لڑائی شروع ہوجائے گی۔
14-لیکن اس نے جھگڑا کرتے ہوئے اس بات کو تسلیم نہ کیا اور اذان دے ہی ڈالی۔
15- اہلِ قافلہ اب فتنے کے ظاہر ہونے کے اندیشے میں مبتلا ہوگئے اور ڈر کر بیٹھ گئے۔
16-اتنی دیر میں ایک کافر بہت سے تحفے تحائف لئے ہوئے آیا اور موذن کے بارے میں پوچھنے لگا۔
17- بتاؤ وہ مؤذن کہاں ہے جسکی آواز نے ہمیں بہت راحت بخشی۔
18-قافلے والوں نے سوچاہ کہ ہائیں! اس بھدی آواز (جو اچانک مندر میں پہنچی)اس سے بھلا کسی کو کیا راحت ملی؟
19-وہ بولا کہ میری ایک لڑکی ہے نہایت پاکیزہ اور بہت خوبصورت۔ اسکو کافی عرصے سے مسلمان ہونے کی آرزو تھی۔
20- یہ خیال اور یہ جنون اس سے کبھی دور ہی نہ ہوتا تھا ہم نے بہتیری کوششیں کیں کہ وہ اس ارادے سے باز آجائے۔
21-بہت سے کافر اسے نصیحتیں کرتے تھے لیکن اسکے دل میں ایمان کی محبت پیدا ہوچکی تھی۔ اور یہ خیال انگیٹھی کے اندر بخور کی لکڑی کی طرح اسکے اندر سلگ رہا تھا۔
22- میں اس بات کا کوئی علاج نہ کر پا رہا تھا کہ اچانک اس مؤذن نے اذان دی۔
23-لڑکی نے گھبرا کر پوچھا کہ یہ ڈراؤنی آواز کیسی ہے جسکے دو چار ٹکڑے میرے کان سے ٹکرائے ہیں؟
24-میں نے تمام عمر اس مندر اور اس بت خانے میں ایسی بھدی آواز نہیں سنی۔
25-اسکی بہن نے کہا کہ یہ اذان کی آواز تو مسلمانوں کا ایک اعلان اور علامت ہے۔
26-اسکو یقین نہیں آیا اور اس نے دوسری سہیلی سے پوچھا تو اس نے بھی یہی کہا کہ ہاں اے چاند۔
27-جب اسکو یقین ہوگیا تو اسکا چہرہ زرد پڑگیا اور مسلمانی کی طرف سے اسکا دل افسردہ ہوگیا۔
28-چنانچہ میں اس عذاب سے چھوٹ گیا اور گذشتہ رات بڑے سکون اور اطمینان سے سویا۔
29-چونکہ مجھے اسکی آواز سے یہ راحت پہنچی اسی لئے میںشکرانے میں یہ ہدیہ لایا ہوں، وہ شخص کہاں ہے؟
30-جب اس نے مؤذن کو دیکھا تو کہا کہ یہ ہدیہ قبول کیجئے۔ کیونکہ آپ میرے پناہ دینے والے اور دستگیر ہیں۔
31-آپ نے جو احسان اور بھلائی مجھ سے کی، میں ہمیشہ کیلئے آپکا غلام ہوگیا ہوں۔
32-اگر میں مال اور سلطنت میں بڑھا ہوا ہوتا تو آپکا منہ سونے سے بھر دیتا۔
33-اخیر میں مولانا روم اس حکایت کے اختتام پر لکھتے ہیں کہ تمہارا یہ ایمان بھی مکر اور مجاز ہےاور اسی طرح کا ڈاکو ہے جس طرح کی یہ اذان تھی۔
ہست ایمانِ شما زرق و مجاز۔۔۔۔
راہزن ہم چوں کہ آں بانگِ نماز