محمد وارث
لائبریرین
مرثیہ نمبر 1
(گزشتہ سے پیوستہ)
( 128 )
جانباز نے طے کی عجب انداز سے وہ راہ
لے آئی سلیماں کو ہوا تا صفِ جنگاہ
وہ رعب، وہ شوکت وہ نہیبِ شہِ ذی جاہ
دلدل کو اڑاتے ہوئے آئے اسد اللہ
غل تھا یہ محمد ہیں کہ خالق کے ولی ہیں
اقبال پکارا کہ حسین ابنِ علی ہیں
(129)
نصرت نے صدا دی کہ مدد گارِ جہاں ہیں
صولت نے کہا تاجِ سرِ کون و مکاں ہیں
گویا ہوئی ہمّت کہ محمد کی زباں ہیں
غربت نے کہا فاقہ کش و تشنہ دہاں ہیں
سطوت یہ پکاری بخدا شیر یہی ہیں
بولی ظفر اللہ کی شمشیر یہی ہیں
(130)
عکسِ رخِ روشن جو چمکتا ہوا آیا
ذرّوں نے شہِ شرق کے پہلو کو دبایا
جنگل میں پری بن گیا ہر نخل کا سایا
کرسی سے زمیں کہتی تھی دیکھا مرا پایا
تھی چاندنی، خورشیدِ فلک شرم سے گم تھا
وہ روزِ دہم رشکِ شبِ چار دہم تھا
(131)
تنہا تھے یہ اللہ ری جلالت شہِ دیں کی
تھرّاتے تھے سب دیکھ کے صولت شہِ دیں کی
گردوں پہ مَلک تکتے تھے صورت شہِ دیں کی
غل تھا کہ یہ آخر ہے زیارت شہِ دیں کی
خود حُسن یہ کہتا تھا کہ شمعِ سحری ہوں
شبّیر کا کیا کوچ ہے میں بھی سفری ہوں
(132)
ہاں دیکھ لو تنویرِ جبینِ شہِ والا
یہ حُسن میں ہے ماہِ دو ہفتہ سے دو بالا
ہے برقِ تجلّی اِسی مہتاب کا ہالا
اندھیر ہے پر جب نہ رہا اس کا اجالا
آنکھوں سے نہاں ہوگی جو یہ نور کی صورت
ہو جائیں گی صبحیں شبِ دیجور کی صورت
(133)
گر لاکھ جلائے گا دل اپنا کوئی دل سوز
اس کعبۂ ابرو سے نہ ہوگا شمع افروز
گردش میں رہیں گے جو مہ و مہر شب و روز
دیکھیں گے یہ زلفیں نہ یہ رخسارِ دل افروز
کلیاں تو بہت باغ میں نرگس کی کِھلیں گی
ڈھونڈیں گی جو مردم کو تو آنکھیں نہ ملیں گی
۔
(گزشتہ سے پیوستہ)
( 128 )
جانباز نے طے کی عجب انداز سے وہ راہ
لے آئی سلیماں کو ہوا تا صفِ جنگاہ
وہ رعب، وہ شوکت وہ نہیبِ شہِ ذی جاہ
دلدل کو اڑاتے ہوئے آئے اسد اللہ
غل تھا یہ محمد ہیں کہ خالق کے ولی ہیں
اقبال پکارا کہ حسین ابنِ علی ہیں
(129)
نصرت نے صدا دی کہ مدد گارِ جہاں ہیں
صولت نے کہا تاجِ سرِ کون و مکاں ہیں
گویا ہوئی ہمّت کہ محمد کی زباں ہیں
غربت نے کہا فاقہ کش و تشنہ دہاں ہیں
سطوت یہ پکاری بخدا شیر یہی ہیں
بولی ظفر اللہ کی شمشیر یہی ہیں
(130)
عکسِ رخِ روشن جو چمکتا ہوا آیا
ذرّوں نے شہِ شرق کے پہلو کو دبایا
جنگل میں پری بن گیا ہر نخل کا سایا
کرسی سے زمیں کہتی تھی دیکھا مرا پایا
تھی چاندنی، خورشیدِ فلک شرم سے گم تھا
وہ روزِ دہم رشکِ شبِ چار دہم تھا
(131)
تنہا تھے یہ اللہ ری جلالت شہِ دیں کی
تھرّاتے تھے سب دیکھ کے صولت شہِ دیں کی
گردوں پہ مَلک تکتے تھے صورت شہِ دیں کی
غل تھا کہ یہ آخر ہے زیارت شہِ دیں کی
خود حُسن یہ کہتا تھا کہ شمعِ سحری ہوں
شبّیر کا کیا کوچ ہے میں بھی سفری ہوں
(132)
ہاں دیکھ لو تنویرِ جبینِ شہِ والا
یہ حُسن میں ہے ماہِ دو ہفتہ سے دو بالا
ہے برقِ تجلّی اِسی مہتاب کا ہالا
اندھیر ہے پر جب نہ رہا اس کا اجالا
آنکھوں سے نہاں ہوگی جو یہ نور کی صورت
ہو جائیں گی صبحیں شبِ دیجور کی صورت
(133)
گر لاکھ جلائے گا دل اپنا کوئی دل سوز
اس کعبۂ ابرو سے نہ ہوگا شمع افروز
گردش میں رہیں گے جو مہ و مہر شب و روز
دیکھیں گے یہ زلفیں نہ یہ رخسارِ دل افروز
کلیاں تو بہت باغ میں نرگس کی کِھلیں گی
ڈھونڈیں گی جو مردم کو تو آنکھیں نہ ملیں گی
۔