محمد وارث
لائبریرین
مرثیہ نمبر 3
(گزشتہ سے پیوستہ)
مطلعِ سوم
جب سب رفیق حقِ نمک کر چکے ادا
مرنے کی پھر خوشی سے عزیزوں نے لی رضا
وہ بھی ہوئے شہید تو رونے کی ہے یہ جا
قاسم تھے اور حضرتِ عبّاس با وفا
تھے سامنے جو لاشۂ پُر خوں دھرے ہوئے
تکتے تھے فوجِ شام کو آنسو بھرے ہوئے
مشغول تھے بکا میں شہنشاہِ ذی وقار
جو اقتلو الحسین کی ہونے لگی پکار
گرجے دہل، بلند ہوا شورِ گیر و دار
پھر کھل گئے صفوں میں علَم ہائے زر نگار
نکلے سوار جنگ کو باہم تھمے ہوئے
بڑھنے لگے صفوں سے سپاہی جمے ہوئے
نو بادۂ حَسن نے جو دیکھا یہ ماجرا
ہمشکلِ مصطفٰی سے الگ جا کے یہ کہا
بھیّا، مقامِ غور ہے رونے کی ہے یہ جا
سب مر گئے ہمیں نہ ملی رخصتِ وغا
کھیلے ہوئے تو ساتھ کے پہنچے بہشت میں
ہم نامراد رہ گئے دنیائے زشت میں
خیمہ میں آج صبح سے محشر ہے آشکار
بیٹوں کے غم میں روتی ہیں زینب بحالِ زار
کیا منہ دکھائے جا کے حرم میں یہ سوگوار
پردے کے پاس بیٹھی ہیں امّاں جگر فگار
فرمائیں گی شہید ہر اک تشنہ لب ہوا
قاسم نے لی نہ رن کی اجازت، غضب ہوا
کہتی تھیں شب کو مجھ سے یہ امّاں بچشمِ تر
قربان جاؤں آج قیامت کی ہے سحر
عمّو پہ دیکھنا جو ہجومِ سپاہِ شر
لانا دلہن کا دھیان نہ مطلق مرے پسر
حسرت یہی ہے اور ہے یہ آرزو مری
تم مر کے آئیو کہ رہے آبرو مری
یاں تو یہ ذکر کرتا تھا شبّر کا نونہال
خیمہ میں پیچ و تاب سے مادر کا تھا یہ حال
غم سے عرق جبیں پہ ہے بکھرے ہوئے ہیں بال
دل مضطرب ہے، رونے سے آنکھیں ہیں دونوں لال
صدمہ یہ ہے کہ رن کی اجازت میں کَد نہ کی
قاسم نے اس مہم میں چچا کی مدد نہ کی
کیوں کر نہ دل ہو سینۂ سوزاں میں بے قرار
سو سو طرح سے ہوئے گا امّاں کو انتشار
بھیّا، پھر ایسا وقت نہ پاؤ گے زینہار
دلوا دو تم چچا سے ہمیں اذنِ کارزار
ڈر ہے کہ پھر وغا کا جو غل بے ادب کریں
عبّاسِ نامدار نہ رخصت طلب کریں
جس دم ہجومِ یاس نے گھیرا زیادہ تر
غصّے سے کانپتی ہوئی اٹھی وہ نوحہ گر
فضّہ سے رو کے کہنے لگی وہ نکو سِیَر
لا دے حسن کے لال کی اس دم مجھے خبر
مقتل میں ہیں کہ پاس شہِ کربلا کے ہیں
رخصت ملی ہے یا ابھی طالب رضا کے ہیں
کہیو کہ اے یتیمِ حسن تم پہ مرحبا
کیا خوب ماں کو شاد کیا تم پہ میں فدا
حیراں ہوں میں کھڑے ہوئے تم دیکھتے ہو کیا
اب تک رضا نہ لی، مجھے حیرت کی ہے یہ جا
اب کون ہے جہاں میں شہِ خوشخصال کا
کیا ہے چچا کے بعد ارادہ جدال کا
شب کو کیے تھے آپ نے مادر سے یہ کلام
اقرار کیا کئے تھے، تاسّف کا ہے مقام
عمّو پہ ہے سحر سے یہ نرغہ میں ازدحام
کچھ کر سکے نہ تم مددِ شاہِ خاص و عام
سمجھا گئے تھے باپ بھی کیا کیا ہزار حیف
بازو کی بھی سند کو نہ دیکھا ہزار حیف
کیا کہہ گئے تھے آپ سے شبّر جگر فگار
تجھ کو اسی سخن کا تصوّر ہے بار بار
کہتا تھا کون باپ سے ہنگامِ اختضار
خادم کرے گا پہلے عزیزوں سے سر نثار
اس دم کہاں ہے جرأت و ہمّت وہ آپ کی
ہے ہے عمل کیا نہ وصیّت پہ باپ کی
فضّہ چلی یہ سن کے جو خیمہ سے نوحہ گر
دیکھا کہ آپ آتے ہیں قاسم جھکائے سر
منہ سرخ، تیغ ہاتھ میں، باندھے ہوئے کمر
آتے ہی ماں کے چہرۂ اقدس پہ کی نظر
تھرّائی ماں جو غیظ سے منہ اپنا موڑ کے
قاسم قدم پہ گر پڑے ہاتھوں کو جوڑ کے
(گزشتہ سے پیوستہ)
مطلعِ سوم
جب سب رفیق حقِ نمک کر چکے ادا
مرنے کی پھر خوشی سے عزیزوں نے لی رضا
وہ بھی ہوئے شہید تو رونے کی ہے یہ جا
قاسم تھے اور حضرتِ عبّاس با وفا
تھے سامنے جو لاشۂ پُر خوں دھرے ہوئے
تکتے تھے فوجِ شام کو آنسو بھرے ہوئے
مشغول تھے بکا میں شہنشاہِ ذی وقار
جو اقتلو الحسین کی ہونے لگی پکار
گرجے دہل، بلند ہوا شورِ گیر و دار
پھر کھل گئے صفوں میں علَم ہائے زر نگار
نکلے سوار جنگ کو باہم تھمے ہوئے
بڑھنے لگے صفوں سے سپاہی جمے ہوئے
نو بادۂ حَسن نے جو دیکھا یہ ماجرا
ہمشکلِ مصطفٰی سے الگ جا کے یہ کہا
بھیّا، مقامِ غور ہے رونے کی ہے یہ جا
سب مر گئے ہمیں نہ ملی رخصتِ وغا
کھیلے ہوئے تو ساتھ کے پہنچے بہشت میں
ہم نامراد رہ گئے دنیائے زشت میں
خیمہ میں آج صبح سے محشر ہے آشکار
بیٹوں کے غم میں روتی ہیں زینب بحالِ زار
کیا منہ دکھائے جا کے حرم میں یہ سوگوار
پردے کے پاس بیٹھی ہیں امّاں جگر فگار
فرمائیں گی شہید ہر اک تشنہ لب ہوا
قاسم نے لی نہ رن کی اجازت، غضب ہوا
کہتی تھیں شب کو مجھ سے یہ امّاں بچشمِ تر
قربان جاؤں آج قیامت کی ہے سحر
عمّو پہ دیکھنا جو ہجومِ سپاہِ شر
لانا دلہن کا دھیان نہ مطلق مرے پسر
حسرت یہی ہے اور ہے یہ آرزو مری
تم مر کے آئیو کہ رہے آبرو مری
یاں تو یہ ذکر کرتا تھا شبّر کا نونہال
خیمہ میں پیچ و تاب سے مادر کا تھا یہ حال
غم سے عرق جبیں پہ ہے بکھرے ہوئے ہیں بال
دل مضطرب ہے، رونے سے آنکھیں ہیں دونوں لال
صدمہ یہ ہے کہ رن کی اجازت میں کَد نہ کی
قاسم نے اس مہم میں چچا کی مدد نہ کی
کیوں کر نہ دل ہو سینۂ سوزاں میں بے قرار
سو سو طرح سے ہوئے گا امّاں کو انتشار
بھیّا، پھر ایسا وقت نہ پاؤ گے زینہار
دلوا دو تم چچا سے ہمیں اذنِ کارزار
ڈر ہے کہ پھر وغا کا جو غل بے ادب کریں
عبّاسِ نامدار نہ رخصت طلب کریں
جس دم ہجومِ یاس نے گھیرا زیادہ تر
غصّے سے کانپتی ہوئی اٹھی وہ نوحہ گر
فضّہ سے رو کے کہنے لگی وہ نکو سِیَر
لا دے حسن کے لال کی اس دم مجھے خبر
مقتل میں ہیں کہ پاس شہِ کربلا کے ہیں
رخصت ملی ہے یا ابھی طالب رضا کے ہیں
کہیو کہ اے یتیمِ حسن تم پہ مرحبا
کیا خوب ماں کو شاد کیا تم پہ میں فدا
حیراں ہوں میں کھڑے ہوئے تم دیکھتے ہو کیا
اب تک رضا نہ لی، مجھے حیرت کی ہے یہ جا
اب کون ہے جہاں میں شہِ خوشخصال کا
کیا ہے چچا کے بعد ارادہ جدال کا
شب کو کیے تھے آپ نے مادر سے یہ کلام
اقرار کیا کئے تھے، تاسّف کا ہے مقام
عمّو پہ ہے سحر سے یہ نرغہ میں ازدحام
کچھ کر سکے نہ تم مددِ شاہِ خاص و عام
سمجھا گئے تھے باپ بھی کیا کیا ہزار حیف
بازو کی بھی سند کو نہ دیکھا ہزار حیف
کیا کہہ گئے تھے آپ سے شبّر جگر فگار
تجھ کو اسی سخن کا تصوّر ہے بار بار
کہتا تھا کون باپ سے ہنگامِ اختضار
خادم کرے گا پہلے عزیزوں سے سر نثار
اس دم کہاں ہے جرأت و ہمّت وہ آپ کی
ہے ہے عمل کیا نہ وصیّت پہ باپ کی
فضّہ چلی یہ سن کے جو خیمہ سے نوحہ گر
دیکھا کہ آپ آتے ہیں قاسم جھکائے سر
منہ سرخ، تیغ ہاتھ میں، باندھے ہوئے کمر
آتے ہی ماں کے چہرۂ اقدس پہ کی نظر
تھرّائی ماں جو غیظ سے منہ اپنا موڑ کے
قاسم قدم پہ گر پڑے ہاتھوں کو جوڑ کے