محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 3

(گزشتہ سے پیوستہ)


مطلعِ سوم


جب سب رفیق حقِ نمک کر چکے ادا
مرنے کی پھر خوشی سے عزیزوں نے لی رضا
وہ بھی ہوئے شہید تو رونے کی ہے یہ جا
قاسم تھے اور حضرتِ عبّاس با وفا

تھے سامنے جو لاشۂ پُر خوں دھرے ہوئے
تکتے تھے فوجِ شام کو آنسو بھرے ہوئے



مشغول تھے بکا میں شہنشاہِ ذی وقار
جو اقتلو الحسین کی ہونے لگی پکار
گرجے دہل، بلند ہوا شورِ گیر و دار
پھر کھل گئے صفوں میں علَم ہائے زر نگار

نکلے سوار جنگ کو باہم تھمے ہوئے
بڑھنے لگے صفوں سے سپاہی جمے ہوئے



نو بادۂ حَسن نے جو دیکھا یہ ماجرا
ہمشکلِ مصطفٰی سے الگ جا کے یہ کہا
بھیّا، مقامِ غور ہے رونے کی ہے یہ جا
سب مر گئے ہمیں نہ ملی رخصتِ وغا

کھیلے ہوئے تو ساتھ کے پہنچے بہشت میں
ہم نامراد رہ گئے دنیائے زشت میں


خیمہ میں آج صبح سے محشر ہے آشکار
بیٹوں کے غم میں روتی ہیں زینب بحالِ زار
کیا منہ دکھائے جا کے حرم میں یہ سوگوار
پردے کے پاس بیٹھی ہیں امّاں جگر فگار

فرمائیں گی شہید ہر اک تشنہ لب ہوا
قاسم نے لی نہ رن کی اجازت، غضب ہوا


کہتی تھیں شب کو مجھ سے یہ امّاں بچشمِ تر
قربان جاؤں آج قیامت کی ہے سحر
عمّو پہ دیکھنا جو ہجومِ سپاہِ شر
لانا دلہن کا دھیان نہ مطلق مرے پسر

حسرت یہی ہے اور ہے یہ آرزو مری
تم مر کے آئیو کہ رہے آبرو مری


یاں تو یہ ذکر کرتا تھا شبّر کا نونہال
خیمہ میں پیچ و تاب سے مادر کا تھا یہ حال
غم سے عرق جبیں پہ ہے بکھرے ہوئے ہیں بال
دل مضطرب ہے، رونے سے آنکھیں ہیں دونوں لال

صدمہ یہ ہے کہ رن کی اجازت میں کَد نہ کی
قاسم نے اس مہم میں چچا کی مدد نہ کی


کیوں کر نہ دل ہو سینۂ سوزاں میں بے قرار
سو سو طرح سے ہوئے گا امّاں کو انتشار
بھیّا، پھر ایسا وقت نہ پاؤ گے زینہار
دلوا دو تم چچا سے ہمیں اذنِ کارزار

ڈر ہے کہ پھر وغا کا جو غل بے ادب کریں
عبّاسِ نامدار نہ رخصت طلب کریں


جس دم ہجومِ یاس نے گھیرا زیادہ تر
غصّے سے کانپتی ہوئی اٹھی وہ نوحہ گر
فضّہ سے رو کے کہنے لگی وہ نکو سِیَر
لا دے حسن کے لال کی اس دم مجھے خبر

مقتل میں ہیں کہ پاس شہِ کربلا کے ہیں
رخصت ملی ہے یا ابھی طالب رضا کے ہیں


کہیو کہ اے یتیمِ حسن تم پہ مرحبا
کیا خوب ماں کو شاد کیا تم پہ میں فدا
حیراں ہوں میں کھڑے ہوئے تم دیکھتے ہو کیا
اب تک رضا نہ لی، مجھے حیرت کی ہے یہ جا

اب کون ہے جہاں میں شہِ خوشخصال کا
کیا ہے چچا کے بعد ارادہ جدال کا


شب کو کیے تھے آپ نے مادر سے یہ کلام
اقرار کیا کئے تھے، تاسّف کا ہے مقام
عمّو پہ ہے سحر سے یہ نرغہ میں ازدحام
کچھ کر سکے نہ تم مددِ شاہِ خاص و عام

سمجھا گئے تھے باپ بھی کیا کیا ہزار حیف
بازو کی بھی سند کو نہ دیکھا ہزار حیف


کیا کہہ گئے تھے آپ سے شبّر جگر فگار
تجھ کو اسی سخن کا تصوّر ہے بار بار
کہتا تھا کون باپ سے ہنگامِ اختضار
خادم کرے گا پہلے عزیزوں سے سر نثار

اس دم کہاں ہے جرأت و ہمّت وہ آپ کی
ہے ہے عمل کیا نہ وصیّت پہ باپ کی


فضّہ چلی یہ سن کے جو خیمہ سے نوحہ گر
دیکھا کہ آپ آتے ہیں قاسم جھکائے سر
منہ سرخ، تیغ ہاتھ میں، باندھے ہوئے کمر
آتے ہی ماں کے چہرۂ اقدس پہ کی نظر

تھرّائی ماں جو غیظ سے منہ اپنا موڑ کے
قاسم قدم پہ گر پڑے ہاتھوں کو جوڑ کے
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 3

(گزشتہ سے پیوستہ)


بولی اٹھا کے سر کو یہ مادر جگر فگار
واللہ تم سے یہ نہ توقع تھی میں نثار
کام آئے سب وغا میں عزیز و رفیق و یار
تم نے چچا سے کیوں نہ لیا حکمِ کارزار

کیا قہر ہے کہ شاہ سے اذنِ وغا نہ لو
زینب کے لال قتل ہوں اور تم رضا نہ لو


کس کس نے دی نہ آن کے شہ کے قدم میں جان
لو تم نہ اذن، غیر رضا لیں خدا کی شان
کیا ہو گئی وہ جرأت و ہمّت وہ آن بان
ہوتا ہے یوں خموش کوئی وقتِ امتحان

لکھ دی جو حق نے سیرِ ارم سرنوشت میں
دیکھو نصیبِ وہب کہ پہنچا بہشت میں


گر ہے دلہن کی فکر تو بے جا ہے یہ خیال
ہر رنج و غم میں رانڈوں کا حافظ ہے ذوالجلال
صابر ہے دکھ میں، درد میں، خیر النساء کا لال
کُھلنے کا سر کے غم ہے نہ کچھ قید کا ملال

راضی رہیں حُسین، رضا ذوالمنن کی ہو
کنگنا ہو یا رسن میں کلائی دلہن کی ہو


ماں سے سنے جو قاسمِ مضطر نے یہ کلام
آنکھوں سے اشک پونچھ کے بولا وہ لالہ فام
آگاہ دل کے حال سے ہے خالقِ انام
امّاں سحر سے مرنے کو حاضر تھا یہ غلام

کی سو طرح خوشامد و منّت غلام نے
لیکن نہ دی وغا کی اجازت امام نے


قدموں پہ گر کے شہ کے یہ کی عرض چند بار
دیجے رضا کہ مرنے کو جائے یہ جاں نثار
شاہد ہیں اس میں حضرتِ عبّاس نامدار
کیں سو خوشامدیں نہ ملا اذنِ کارزار

شک ہو اگر تو شہ کے برادر گواہ ہیں
بلوا کے پوچھیے علی اکبر گواہ ہیں


امّاں دلہن سے ملنے کی بھی کچھ ہوس نہیں
تیّار جان دینے پہ ہیں پیش و پس نہیں
حامی کوئی نہیں کوئی فریاد رس نہیں
سر پر اجل کھڑی ہوئی ہے اپنا بس نہیں

یارا کلام کا ہے نہ طاقت ہے صبر کی
درپیش آج صبح سے منزل ہے قبر کی


مادر سے رو کے ابنِ حَسن نے یہ جب کہا
بس سر جھکا کے رہ گئی وہ غم کی مبتلا
پھر اشک بھر کے آنکھوں میں بولی کہ میں فدا
ہاں واری، سچ ہے، کیوں نہ ہو شاباش و مرحبا

بہتر ہے جو خوشی ہو شہِ تشنہ کام کی
لازم یونہی ہے تم کو اطاعت امام کی


نرغہ میں آج صبح سے ہیں سرورِ امم
فرصت نہیں ہے لاش اٹھانے سے کوئی دم
کیوں کر کہیں گے وہ کہ سدھارو سوئے عدم
بیٹی کے رانڈ ہونے کا صدمہ، تمھارا غم

دیتے نہیں رضا جو شہِ کربلا تمھیں
میں اب دلائے دیتی ہوں اذنِ وغا تمھیں


جب تک حرم میں آئیں شہنشاہِ نامدار
مل آؤ تم بھی جا کے دلہن سے یہ ماں نثار
جب سے سنا ہے تم کو مہیّائے کارزار
گھونگھٹ میں رو رہی ہے وہ مغموم و سوگوار

ایسی کوئی دلہن بھی نہ بیکس غریب ہو
قسمت میں تھا، بیاہ میں رونا نصیب ہو
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 3

(گزشتہ سے پیوستہ)


باتیں یہ سن کے دل پہ جو صدمہ ہوا کمال
حجلہ میں آ کے بیٹھ گیا مجتبیٰ کا لال
آئے نظر عروس کے گوندھے ہوئے جو بال
بلوے میں سر کے کھلنے کا بس آ گیا خیال

آئی صدا جو کان میں فریاد و آہ کی
کس یاس سے عروس کی جانب نگاہ کی


جُھک کر دلہن کے رخ پہ جو دولھا نے کی نظر
دیکھا کہ ہے لباسِ بدن آنسوؤں سے تر
ہچکی لگی ہے شرم کے مارے جھکائے سر
سہرے سے مل کے گرتے ہیں آنسو اِدھر اُدھر

چہرہ تمام زرد ہے صدمے دو چند ہیں
آنکھیں وہ نرگسی کفِ رنگیں سے بند ہیں


رقّت کو ضبط کر کے یہ بولا حَسن کا ماہ
لو الوداع جاتے ہیں مابینِ رزم گاہ
مہماں ہیں کوئی آن کے، تکتی ہے موت راہ
چارہ نہیں اجل سے کسی کا، خدا گواہ

ناراض والدہ ہوں جو وقفہ ذرا کریں
صاحب یہی لکھا تھا مقدر میں کیا کریں


صاحب بس اب یہ آج کی صحبت ہے مغتنم
پھر ہم کہاں بھلا یہ فرصت ہے مغتنم
اس دکھ میں دو گھڑی کی بھی راحت ہے مغتنم
جی بھر کے دیکھ لیں کہ یہ صورت ہے مغتنم

بے درد، کل پھر آئیں گے بلوائے عام میں
منزل سحر کو ہوئے گی کل راہِ شام میں


یہ صبر کا مقام ہے روؤ نہ زار زار
صاحب تمھارے حال پہ ہوتا ہے دل فگار
ہے تیرِ آہ سینۂ سوزاں کے آر پار
مجبور ہیں، نہ بس ہے کچھ، اپنا نہ اختیار

گو عمر بھر کا منزلِ فانی میں ساتھ ہے
پر کیا کریں اجل کا گریباں میں ہاتھ ہے


دیکھو دلہن کو وہب کی اللہ رے حوصلا
دولھا کو روزِ عقد جو مرنے کی دی رضا
اللہ رے پاسِ خاطرِ دلبندِ مرتضا
دیکھا خود اپنی آنکھ سے کٹتے ہوئے گلا

تعریف ہر زباں پہ ہے اس رشکِ ماہ کی
حاضر ہے اب کنیزی میں ناموسِ شاہ کی


جس وقت کہ قتل ہوا وہبِ با وفا
بیوہ نے کی نہ آہ بجز شکرِ کبریا
ہر چند رانڈ ہونے کا صدمہ ہے جانگزا
رونے کی پر دلھن کے نہ آئی کبھی صدا

ماں اس جری کی زینبِ مضطر کے ساتھ ہے
زوجہ جو ہے وہ شاہ کی دختر کے ساتھ ہے


اللہ رے صبرِ مادرِ وہبِ نکو سِیَر
اس کو فدا کیا کہ جو تھا غیرتِ قمر
تیغوں سے ٹکڑے ٹکڑے ہوا جب وہ نامور
بیٹے کی لاش پر بھی نہ روئی وہ نوحہ گر

نہ رخ کیا وطن کا نہ راحت قبول کی
غربت میں اہلِ بیت کی خدمت قبول کی


ظاہر ہے صبرِ مادرِ وہبِ جگر فگار
کچھ غم کیا نہ بیٹے کے مرنے کا زینہار
دولھا کو کس خوشی سے دیا اذنِ کارزار
روئی نہ دل کڑھا نہ ہوئی چشم اشکبار

عورت تھی پر جہاد کی دل سے امنگ تھی
روکیں نہ گر تو خود وہ مہیّائے جنگ تھی


تم بھی اگر خوشی سے رضا دو تو جائیں ہم
ہے آرزو کہ جلدی سے اب سر کٹائیں ہم
اب تا کجا یہ ظلم کے صدمے اٹھائیں ہم
ہے ولولہ کہ جسم پہ تلوار کھائیں ہم

بیٹی ہو کس سخی کی، بہو کس ولی کی ہو
کیوں کر نہ صابرہ ہو کہ پوتی علی کی ہو


صاحب خدا کے واسطے کھولو تو لعلِ لب
اس حال میں یہ شرم مناسب نہیں ہے اب
ہے رحم کا مقام کہ فرقت کی ہے یہ شب
اب یاں سے جا کے دیکھیے ملتے ہیں تم سے کب

کیوں کر بھلا ہراس نہ ایک ایک گام ہو
کیا جانے آج کون سی منزل پہ شام ہو


جاتے ہیں واں جہاں کوئی راحت رساں نہیں
جس جا سراغِ نقشِ رہِ کارواں نہیں
بستی کا ذکر کیا کہیں کوسوں مکاں نہیں
ساتھی نہیں، شفیق نہیں، مہرباں نہیں

کیوں کر نہ خوف ہو کہ نئی واردات ہے
صاحب غضب یہ منزلِ اوّل کی رات ہے


للہ سر جھکا کے نہ آہ و بکا کرو
آساں کرے کریم یہ مشکل، دعا کرو
دل میں خیالِ گریۂ خیر النسا کرو
جانا ہمیں کہاں ہے تصوّر ذرا کرو

اس دکھ میں چاہئے ہے مدد کار ساز کی
منزل کڑی ہے راہ ہے دور و دراز کی
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 3

(گزشتہ سے پیوستہ)


جس دم سنیں دلہن نے یہ باتیں بہ چشمِ تر
کھینچی وہ آہ دل سے کہ تھرّا گیا جگر
آہستہ سر جھکا کے یہ بولی وہ نوحہ گر
شب کی دلہن کو چھوڑ کے صاحب چلے کدھر

دیجے نہ یوں دغا کہ یہ رسمِ وفا نہیں
صاحب مرا جہاں میں کوئی آسرا نہیں


سمجھا رہے ہیں آپ مصیبت میں کیا مجھے
غربت میں کیجیئے نہ اسیرِ بلا مجھے
دکھلائی خوب آپ نے مہر و وفا مجھے
مانگو دعا کہ پہلے اٹھا لے خدا مجھے

سامان وہ ہوا ہے کہ جس کی خبر نہ تھی
بیوہ بنوں گی صبح کو اس کی خبر نہ تھی


جلتی زمیں پہ آپ جو سوئے کٹا کے سر
پھر کون اس غریب کی لے گا بھلا خبر
مہماں ہیں اور کوئی گھڑی شاہِ بحر و بر
امّاں سحر سے روتی ہیں تھامے ہوئے جگر

تقدیر میں لکھا ہے کہ سب در بدر پھریں
نیزے پہ سر ہو آپ کا ہم ننگے سر پھریں


جاتے ہو تم تو سونے کو مقتل میں ہے غضب
صحرا کی ہولناکی میں ہوگی بسر یہ شب
کیوں کر بھلا جگر پہ نہ ہو صدمہ و تعب
سہرا بڑھا نہ تھا کہ اجل نے کیا طلب

قسمت میں ہے کہ ظلم عجیب و غریب ہوں
چوتھی بکا میں، قید میں چالے نصیب ہوں


صاحب کنیز آپ کی الفت پہ ہو فدا
بیوہ بنا کے مجھ کو چلے وا مصیبتا
پر خیر جائیے مگر اتنی ہے التجا
لاشہ جہاں ہو میں بھی وہیں ہوں پئے عزا

جنگل میں کون ہوگا تنِ پاش پاش پر
رویا کروں گی راتوں کو صاحب کی لاش پر


پوچھے گا مجھ سے آ کے جو کوئی کہ اے غریب
پُر خوں یہ کس کی لاش ہے بے یار و بے حبیب
سر پیٹ کر کہوں گی یہ ہے سانحہ عجیب
مجھ سا جہاں میں کوئی نہ ہوگا بلا نصیب

دولھا شہید ہو گیا تقدیر سو گئی
شب کو دلہن تھی صبح کو میں رانڈ ہو گئی


رونے لگی یہ کہہ کے جو وہ غیرتِ قمر
قاسم کا فرطِ غم سے تڑپنے لگا جگر
ناگاہ گھر میں دوڑ کے فضّہ نے دی خبر
بی بی غضب ہوا کہ بڑھی فوجِ بد گہر

اکبر رضا طلب ہیں قیامت ہے صاحبو
لو، اب جوان بیٹے کی رخصت ہے صاحبو


ہمشکلِ مصطفٰی ہیں مہیّائے کارزار
تھامے کمر کھڑے ہیں شہنشاہِ نامدار
آئے کوئی یہ لشکرِ اعدا میں ہے پکار
تھرّا رہے ہیں غیظ سے عبّاس ذی وقار

آیا ہے یہ جلال علَمدارِ شاہ کو
روکا ہے لڑ کے شیر نے جنگی سپاہ کو


جس دم کہا پکار کے فضّہ نے یہ سخن
گھبرا کے اٹھ کھڑا ہوا نو بادۂ حَسن
ہتھیار سج کے تن پہ چلا جب وہ صف شکن
گھونگھٹ ہٹا کے پاس سے تکنے لگی دلھن

غل تھا جہاں سے کوچ ہے اس نونہال کا
مٹتا ہے اب نشان حَسن خوشخصال کا


رخصت کو شہ کے پاس چلا تھا وہ سیمبر
دیکھا کہ آپ آتے ہیں حضرت بہ چشمِ تر
ہیں ساتھ ساتھ اکبر و عبّاس نامور
قاسم نے جلد دوڑ کے رکھّا قدم پہ سر

کی عرض خانہ زاد کو اذنِ وغا ملے
رہ جائے آبرو جو دُرِ مدّعا ملے


مادر نے دی صدا شہِ والا نہ روکیے
ہاتھوں کو جوڑتی ہوں میں، مولا نہ روکیے
میداں سے بڑھتے آتے ہیں اعدا نہ روکیے
مرنے کی ہے انھیں بھی تمنّا نہ روکیے

سینہ میں بے قرار دلِ ناصبور ہے
صدقے گئی، غلام کی خاطر ضرور ہے


شہ نے گلے لگا کے بھتیجے سے یہ کہا
افسوس تم کو موت نے مہلت نہ دی ذرا
کس کس کا داغ دل پہ سہے ابنِ مرتضا
تم بھی چچا کو چھوڑ چلے وا مصیبتا

صدمہ فراق کا تمھیں تقدیر دے چلی
آخر تمھیں عروس، اجل بن کے لے چلی


بہتر ہے جو رضائے خدا خیر غم نہ کھاؤ
پھر ایک بار اور لگا لیں گلے سے آؤ
تم کو بھی ہم نے صبر کیا جاؤ سر کٹاؤ
بیاہی جو ایک شب کی ہے، بیوہ اسے بناؤ

راحت ہو عقد کر کے یہ حکمِ خدا نہ تھا
ہے ہے ابھی تو ہاتھ سے کنگنا کھلا نہ تھا


رونے لگے یہ کہہ کے جو سلطانِ نامدار
تسلیم کو جھکا بہ ادب وہ نکو شعار
پھر عرض کی یہ مادرِ بے کس سے ایک بار
امّاں ذرا عروس کی جانب سے ہوشیار

اب اس مریضِ غم کی پرستار آپ ہیں
بیوہ کی اس الم میں مددگار آپ ہیں


یہ بات کہہ کے مادرِ عالی مقام سے
رخصت ہوئے حسین علیہ السّلام سے
مل کر گلے شبیہِ رسولِ انام سے
تنتا ہوا چلا وہ دلاور خیام سے

دیکھا جو سرخ غیظ سے چہرہ جناب کا
گردوں پہ زرد ہو گیا رنگ آفتاب کا
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 3

(گزشتہ سے پیوستہ)


مطلعِ چہارم


پایا سجا جو اشہبِ گردوں مقام کو
چمکار کر ہَزبر نے تھاما لگام کو
زینِ فرس پہ چڑھ کے جو تولا حسام کو
آگے بڑھی جلو میں ظفر انتظام کو

چہرہ کی ضو سے خاک کو یہ مرتبا ملا
طبقہ زمیں کا چرخِ چہارم سے جا ملا


وہ حسن اور وہ رعب وہ بجلی سا راہوار
وہ ولولہ جہاد کا وہ شوقِ کارزار
خوشبو وہ عطر بیز وہ خلعت ستارہ دار
آنکھوں میں شب سے نیند کا چھایا ہوا خمار

کنگنا بندھا تھا ہاتھ میں اس خوش صفات کے
سہرے سے یہ عیاں تھا کہ دولہا ہیں رات کے


ناگاہ بادِ پا کو اڑایا دلیر نے
نیزہ عجب ہنر سے ہلایا دلیر نے
سایا جو گیسوؤں کا دکھایا دلیر نے
گھوڑے کو قلبِ فوج میں پایا دلیر نے

ہر جا صفوں میں دھوم ہوئی اس جلوس کی
بُو چار سُو مہک گئی عطرِ عروس کی


شان و شکوہ سب حسنِ مجتبیٰ کی تھی
بھالا ہلا رہے تھے پہ حسرت وغا کی تھی
جرأت جو قہر کی تھی تو ہمت بلا کی تھی
اس سن میں تھا وہ رعب کہ قدرت خدا کی تھی

چھایا ہوا تھا نور جو اس لالہ فام کا
فق تھا سحر کی طرح سے رنگ اہلِ شام کا


ناگہ صفوں سے بارشِ تیرِ ستم ہوئی
باجوں کی فوجِ کیں میں صدا دمبدم ہوئی
لڑنے پہ واں سپاہِ عدو سب بہم ہوئی
اور یاں جدا نیام سے تیغِ دو دم ہوئی

جلوہ دیا وغا میں عجب آب و تاب سے
گویا ہلال ڈوب کے نکلا سحاب سے


کھچنا تھا تیغ کا کہ قیامت بپا ہوئی
دہشت سے فوجِ شام میں ہلچل سوا ہوئی
یوں بے حواس رن میں صفِ اشقیا ہوئی
جنگی دہل کی پھر نہ صدا جا بجا ہوئی

کڑکیت یوں صفوف میں گھبرا کے رہ گئے
کیا رعب تھا کہ جھانجھ بھی تھرّا کے رہ گئے


جس پر گری چمک کے کیا تن سے سر جدا
خود و زرہ دو نیم تھی تیغ و سپر جدا
ساعد دو نیم بازو و صدر و کمر جدا
سینے سے دل جدا تھا تو دل سے جگر جدا

چم خم غضب کا تھا کہ لعیں دنگ ہو گئے
ہر وار میں سوار بھی چو رنگ ہو گئے


مارا جو بڑھ کے ہاتھ تو سر کٹ کے گر پڑا
دل بچ گیا اگر تو جگر کٹ کے گر پڑا
جلدی میں کوئی تا بہ کمر کٹ کے گر پڑا
ہر نخل قد برنگِ شجر کٹ کے گر پڑا

سرسبز کوئی بانیِ ظلم و جفا نہ تھا
ایسی ہوا چلی کہ سروں کا پتا نہ تھا


تھی آبرو کی تیغِ دو پیکر کو جستجو
دریائے خوں میں پیرتی پھرتی تھی چار سُو
برہم مزاج شعبدہ کردار تند خُو
دم باز سر تراش ستمگار سرخرو

چلتی تھی بار بار، شرارے غضب کے تھے
بسمل پھڑک رہے تھے، اشارے غضب کے تھے


لڑتا تھا وہ ہزبر عجب آن بان سے
چلتا تھا ہاتھ تیغ کا حیدر کی شان سے
نامی جوان فوج کے عاجز تھے جان سے
جلدی میں بھی نہ تیغ نکلتی تھی میان سے

جانبر دمِ نبرد کوئی اہلِ شر نہ تھا
جس پر جھپٹ کے وار کیا تن پہ سر نہ تھا


جس شخص پر لپک کے وہ آتش زباں گئی
یوں دل جلا کہ لذتِ آرام و جاں گئی
جب مثلِ برق سر پہ وہ آتش فشاں گئی
ثابت نہ تھا کہ روح کہاں تھی کہاں گئی

کفّار کانپ کانپ کے گرتے تھے خون میں
کاسے سروں کے تیرتے پھرتے تھے خون میں


تلوار تولتے ہوئے قاسم جدھر چلے
خود بڑھ کے بہرِ نذر لعینوں کے سر چلے
گر سامنے سے بھاگ کے کچھ بد گہر چلے
تلوار نے لپک کے صدا دی کدھر چلے

بھاگو نہ بار بار صفِ کارزار میں
آؤ ادھر کہ فوج کی بھرتی ہے نار میں
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 3

(گزشتہ سے پیوستہ)



وہ بانکپن، وہ ناز سے چلنا ادھر ادھر
بسمل وہ ہو گیا جسے دیکھا اٹھا کے سر
برچھی چلی ادھر کو نگہ پڑ گئی جدھر
جوہر سے تھا عیاں کہ ستارے ہیں جلوہ گر

بالکل چلن عروس کے سب آشکار تھے
نابیں نہ تھیں گندھے ہوئے پھولوں کے ہار تھے


جس کو چمک کے دور سے چہرہ دکھا دیا
جان اس کی لے کے اور طرف منہ پھرا دیا
پاؤں پہ سر کسی نے جو دھڑ سے گرا دیا
دولھا نے ہاتھ روک لیا، مسکرا دیا

عاری تھی فوج کاٹ سے شمشیرِ تیز سے
خوں بہہ رہا تھا بند تھے کُوچے گریز کے


جب آئی سَن سے تیغ تو تھرّا کے رہ گئے
اٹھّا نہ ہاتھ منہ پہ سپر لا کے رہ گئے
باغی سمومِ تیغ سے مرجھا کے رہ گئے
ترکش کٹا تو تیر بھی چلّا کے رہ گئے

غل تھا کہ تیغِ تیز سے اعدا ملول ہیں
قبضہ نہ تیغ پر ہے نہ ڈھالوں میں پھول ہیں


جب مثلِ برق فوج کے بادل پر آ گری
دی رعد نے صدا کہ وہ برقِ بلا گری
ثابت ہوا نشانیِ قہرِ خدا گری
تلوار کیا کہ کھولے ہوئے منہ قضا گری

یوں مرغِ روح خوف سے اڑ کر ہوا ہوئے
گویا قفس سے طائرِ وحشی رہا ہوئے


چمکی، گری، سروں کو اڑایا، چلی گئی
خوں تن سے ناریوں کا بہایا چلی گئی
موقع جہاں پہ ذبح کا پایا چلی گئی
بیٹھی، اٹھی، جمال دکھایا چلی گئی

برہم رہی وغا میں ہر اک تیغ زن کے ساتھ
چلتی تھی سر جھکا کے مگر بانکپن کے ساتھ


ہلچل بپا تھی رعب سے غازی کے ہر کہیں
اعدا کے تن کہیں نظر آتے تھے سر کہیں
ٹکڑے تھے ہاتھ پاؤں کہیں اور کمر کہیں
بکتر کہیں تھا، تیغ کہیں تھی، سپر کہیں

صحرا میں جانور تھے نہ اژدر پہاڑ میں
روحیں چھپی تھیں خوف سے لاشوں کی آڑ میں


دیکھا جو فوج میں یہ تلاطم یہ شور و شر
گھبرا گئے تمام دلیرانِ نامور
بولا یہ شمر سے پسرِ سعد بد گہر
ارزق کدھر گیا اسے اس کی نہیں خبر

کہہ دو لڑے وہ آن کے اس گلعذار سے
بیٹھا ہے منہ چھپا کے کہاں کارزار سے


آیا شقی تو غیظ سے بولا وہ بے حیا
جا جلد بہرِ جنگ، تامّل نہ کر ذرا
فوجوں میں ابتری ہے تردّد کی ہے یہ جا
کیا وجّہ ہے کہ تو نے نہ کی اب تلک وغا

ہر گز تشفّیِ دلِ مضطر نہ ہوئے گی
جب تک لڑے نہ تو یہ مہم سر نہ ہوئے گی


بولا یہ بات سن کے وہ مغرور و خیرہ سر
آ، ہوش میں ذرا کہ ترا دھیان ہے کدھر
دنیا میں میرے زور سے واقف ہے ہر بشر
سبکی ہے، میں وغا کا ارادہ کروں اگر

یہ طفل ہے میں لڑ کے بھلا اس سے کیا کروں
عبّاسِ نامدار جو آئیں، وغا کروں


لیکن پسر مرے ہیں وہ جرّار و پہلواں
جن کا جواب آج نہیں زیرِ آسماں
شہرہ ہے ان کی جنگ و جدل کا کہاں کہاں
رستم کو ضربِ تیغ سے دیتے نہیں اماں

جائیں گے وہ تو خلعت و انعام پائیں گے
یہ طفل کیا، حسین کا سر کاٹ لائیں گے


یہ سن کے خوش ہوا پسرِ سعد نحس تب
بیٹوں کو رزم گاہ سے اس نے کیا طلب
آئے وہ بے حیا تو یہ بولا وہ بے ادب
تم چار پہلواں ہو، یہ ہے ایک تشنہ لب

شہرہ ہے شش جہت میں تمھارے جہاد کا
سر لاؤ جلد کاٹ کے اس خوش نہاد کا


یہ کہہ کے چپ ہوا جو وہ بد کیش و بد گہر
فوراً بڑھا نبرد کو ان میں سے اک پسر
آیا قریب جب ستم آرا بہ کرّ و فر
تھم کر نگاہِ قہر سے قاسم پہ کی نظر

واں برقِ تیغ قہر و غضب شعلہ در ہوئی
اور یاں دعائے حیدرِ صفدر سپر ہوئی


بولا جری یہ کھینچ کے شمشیرِ برق دم
آ جلد آ کہ دیر سے یاں منتظر ہیں ہم
عرصہ نہ کر جدال میں او بانیِ ستم
واں بے قرار ہیں ملک الموت دم بدم

منطور تھا جو قتل ترا کردگار کو
پہلے تجھی کو موت نے بھیجا شکار کو


یہ بات کہہ کے قاسمِ گلگوں قبا بڑھے
گویا جہاد کو حسنِ مجتبیٰ بڑھے
جس کی بساط خاک نہ ہوئے وہ کیا بڑھے
ملتی ہے کب امان جو تیغِ قضا بڑھے

سب طنطنہ شقی کا فرو ہو کے رہ گیا
نامرد ایک ضرب میں دو ہو کے رہ گیا


بھائی کا ایک بھائی نے دیکھا جونہی یہ حال
غصّہ سے دوسرا بھی ہوا عازمِ جدال
تیر افگنی میں ظالمِ ثانی تھا بے مثال
رستم بھی گوشہ گیر ہو جس سے بہ شکلِ زال

نکلا کماں کو دوش پہ ظالم دھرے ہوئے
ترکش میں تیرِ ظلم و تعدّی بھرے ہوئے


بولے پکار کر یہ علی اکبرِ جواں
لو دوسرا شکار بھی آتا ہے بھائی جاں
بودا ہے کیا بساط ہے گو ہے یہ پہلواں
بھیّا، اسے سناں پہ اٹھا لو معِ کماں

مہلت نہ دو جدال کی اس حیلہ ساز کو
دکھلا تو دو جہاں کے نشیب و فراز کو


یہ بات سن کے غیظ میں آیا جو وہ شریر
کھینچی کماں کہ سہم گئے سب جوان و پیر
خالی کیے شقی نے برابر سے جتنے تیر
اک دم میں سب کو کاٹ گئی تیغِ بے نظیر

کانپا بدن غبارِ الم دل میں بھر گیا
خالی کماں جو رہ گئی، چہرہ اتر گیا


ناوک نہ پڑ سکا کوئی ابنِ حسن پہ جب
نادم ہوا خطا پہ خود اپنی وہ بے ادب
سوچا کہ رخ پھرا کے نکلیے یہاں سے اب
آواز دی یہ قاسمِ گلگوں قبا نے تب

او کج نہاد عزم نہ کیجو گریز کا
لے دیکھ کاٹ اب مری شمشیرِ تیز کا


چھیڑا یہ کہہ کے اشہبِ گردوں خرام کو
جلوہ دیا وغا کا حسینی حسام کو
مارا جو ہاتھ دوڑ کے اس تیرہ فام کو
کاٹا تبر کو، تیغ کو، چلّے کو، دام کو

پایا مزہ جو تیغ نے خوں اسکا چاٹ کے
در آئی جسمِ نحس میں ترکش کو کاٹ کے


راہی ہوا جو ظالمِ ثانی بھی سوئے نار
نو بادۂ حسن نے صدا دی یہ ایک بار
سنتا ہے او لعین بد آئین و بد شعار
اب لا تو ان کو اور جو ہوں آزمودہ کار

ہوویں شریک ان کے عذابِ الیم میں
مالک کو انتظار ہے نارِ حجیم میں


ارزق نے اس کلام سے کھایا جو پیچ و تاب
بس تیسرے پسر کو روانہ کیا شتاب
آیا جو تیغ تول کے وہ خانماں خراب
یاں اسپِ تیز گام اڑا صورتِ عقاب

وہ خاک اڑی کہ دشت بھی پُر گرد ہو گیا
دہشت سے رنگِ تیرہ دروں زرد ہو گیا


آ پہنچا زد پہ تیغ کی جس دم وہ بے ہنر
نیزہ یہاں جری نے اٹھایا بہ کرّ و فر
ماری سناں جو سینۂ دشمن پہ دوڑ کر
تھّرا کے یہ زمیں نے صدا دی کہ الحذر

ثابت ہوا کہ شعلۂ برقِ اجل گرا
رہوار سے الٹ کے شقی منہ کے بل گرا


چوتھے پسر کو دیکھ کے بولا یہ ذی وقار
آ تو بھی بہرِ جنگ کہ پورے ہوں چار یار
سمجھا تجھے بھی نشّۂ جرأت کا ہے خمار
حسرت سے دیکھتی ہے اجل تجھ کو بار بار

دوزخ میں بھی قرار نہیں انتظار میں
ساتھی ترے وہ ڈھونڈتے پھرتے ہیں نار میں


یہ سن کے آگ لگ گئی اس نابکار کو
نیزہ اٹھا کے گرم کیا راہوار کو
رد کر دیا ہزبر نے ظالم کے وار کو
جولاں کیا تگادرِ آہو شکار کو

مارا لپک کے ہاتھ جو اس شہ سوار نے
گھوڑے سے گر کے سانس نہ لی نابکار نے
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 3

(گزشتہ سے پیوستہ)



چاروں شریر جب ہوئے دوزخ میں ایک جا
کانپا غضب سے ارزقِ ملعون و بے حیا
اس دم یہ بڑھ کے حضرتِ قاسم نے دی صدا
دیکھا ہماری ضرب کو او بانیِ جفا

دبکا ہوا ہے فوج میں کیوں منہ کو پھیر کے
ہشیار اب اجل تجھے لائی ہے گھیر کے


یہ سن کے آ گیا جو حرارت کا دل میں جوش
پہنا شقی نے زیورِ جنگی بصد خروش
چھائی یہ بیخودی نہ رہا دست و پا کا ہوش
بیٹوں بغیر زہر تھا دنیا کا ناؤ نوش

نے رحم کچھ نہ خوف تھا قہرِ الٰہ سے
بدعت ٹپک رہی تھی شقی کی نگاہ سے


بڑھ کر مثالِ دیو، پکارا وہ خیرہ سر
او طفل اب اجل تری آئی ہے بے خبر
مارے ہیں تو نے جان سے، چاروں مرے پسر
پھنکتا ہے جسم، دل میں بھڑکتے ہیں جب شرر

ہے موت زندگی کہ وہ آرامِ جاں نہیں
جب تک عوض میں اسکا نہ لوں، پہلواں نہیں


قبضہ میں ہے مرے وہ حسامِ قضا نظیر
جس سے پناہ مانگتے ہیں سب جوان و پیر
جوڑوں اگر کمانِ کیانی میں بڑھ کے تیر
چلّا کے رزم گاہ سے رستم ہو گوشہ گیر

سیکھے ہیں افسروں نے چلن مجھ سے حرب کے
سکّے پڑے ہوئے ہیں مرے حرب و ضرب کے


سہراب میرے سامنے آئے یہ تاب کیا
نیزہ کوئی شریر ہلائے یہ تاب کیا
تیوری کوئی وغا میں چڑھائے یہ تاب کیا
آنکھ آفتاب مجھ سے ملائے یہ تاب کیا

ہر گز ہٹا نہیں میں صفِ کارزار سے
لاکھوں میں بھی لڑا ہوں اکیلا ہزار سے


دیکھ اب بھی کچھ گیا نہیں لڑنے سے درگزر
دولھا بنا ہے اپنی جوانی پہ رحم کر
بچّہ ہے کیا وغا کے دکھاؤں تجھے ہنر
پھینکے ہیں میں نے کاٹ کے روئیں تنوں کے سر

نعرہ کروں تو شیرِ ژیاں ہانپنے لگے
پیرِ فلک کا ڈر سے جگر کانپنے لگے


بولا یہ بڑھ کے تب حسنِ مجتبیٰ کا لال
او نابکار، دھیان کدھر ہے زباں سنبھال
بس اب نہ کیجیو یہ تعلّی یہ قیل و قال
دم بھر میں اب نہ تیر نہ ترکش ہے اور نہ ڈھال

تیغِ زباں کے وار سے کب ڈرنے والے ہیں
تو کیا کہ تیرے پیر بھی سب دیکھے بھالے ہیں


بیٹوں کا کیا خیال ہے او قیدیِ اجل
پہنچے سزا کو اپنی وہ مکّار و پُر دَغل
باغِ جہاں میں ظلم کا ان کو ملا یہ پھل
چاروں لٹک رہے ہیں جہنم میں سر کے بل

چاروں سقر میں جلتا ہے ایک اک پسر ترا
اب بن رہا ہے پانچویں دوزخ میں گھر ترا
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 3

(گزشتہ سے پیوستہ)


گھبرا نہ او شریر و بد آئین و بد گہر
تو بھی چلا وہیں کہ جہاں ہیں ترے پسر
قعرِ سقر میں بھی تری الفت ہے شعلہ در
لینے کو بار بار لپکتا ہے ہر شرر

مالک ہے بیقرار ترے انتظار میں
جلدی ہے نار کو تجھے کھینچے کنار میں


کیا تیری ضرب کیا تری تیغ اور کیا یہ تیر
آنکھوں سے عین جنگ میں دیکھا ہے گوشہ گیر
مخفی نہیں ہے جانتے ہیں سب یہ او شریر
بھاگے ہزار بار لڑائی میں تیرے پیر

اس پر کہ سب وہ افسرِ فوجِ کثیر تھے
لیکن کھڑے ہوئے تو جنابِ امیر تھے


یہ سن کے اس شقی نے بڑھایا جو راہوار
سنبھلا ادھر سمند پہ شبّر کی یادگار
آئی صدا علی کی یہ پوتے کو ایک بار
جانے نہ دیجیو کہ یہ ہے پانچواں شکار

آتا ہے زد پہ ظلم کے بانی کو دو کرو
ہاں میرے شیر، مرحبِ ثانی کو دو کرو


سربر وغا میں تم سے نہ ہوگا یہ خیرہ سر
تم عاشقِ حسین ہو یہ پیروِ عَمَر
کیا جانتا ہے جنگ کی باتیں یہ بے ہنر
دیکھو کہ لے چلی اجل اس کو سوئے سقر

گو ہے قوی پہ زور کہاں بدخصال میں
ڈوبا ہوا ہے خود عرقِ انفعال میں


دیکھو غرور و کبر سے ہوتا ہے دم میں زیر
یہ بزدلا ہے، تم کو کیا ہے خدا نے شیر
ہے بے حواس دیکھتا ہے منہ کو پھیر پھیر
بس فیصلہ ہے تیغ کے کھچنے کی ہے یہ دیر

الجھا ہے اس کے گھات میں دامِ کمند بھی
غصّہ سے چاہتا ہے دہانہ سمند بھی


مژدہ یہ سن کے ابنِ حسن شادماں ہوا
چہرے پہ اور رعب و تہوّر عیاں ہوا
واں ڈر سے زرد رنگ رخِ پہلواں ہوا
یاں سے ہزبر تازی پہ چڑھ کر رواں ہوا

تھا سامنا وغا کا جو موذی مہیب سے
پڑھتی تھی فتح، آیۂ نصرت قریب سے


وہ ولولہ سوار کا وہ شانِ راہوار
راکب جو ہاں کہے تو یہ ہوئے صفوں کے پار
وہ سُم کہ ہر قدم پہ ہلالِ فلک نثار
وہ جلد پاک صاف کہ منہ دیکھ لے سوار

تن تن کے جست و خیز دکھاتا تھا راہ میں
گویا کہ پھر رہی تھی پری رزم گاہ میں


تلوار تول کر جو بڑھا بانیِ حسد
یاں قاسمِ جرّی نے کہا 'یا علی مدد'
دولھا کو دی تھی حق نے اسی فتح کی سند
جتنے شقی نے وار کیے سب ہوئے وہ رد

تصویر سب نبرد میں شانِ حسن کی تھی
کیوں کر بھلا نہ ہو کہ مدد پنجتن کی تھی
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 3

(گزشتہ سے پیوستہ)


سر بر ہوا وغا میں جو ان سے نہ وہ شریر
بولا یہ مسکرا کے حسَن کا مہِ منیر
گھبرا کے ہاتھ پشت پہ رکھے ہیں تیرے پیر
کیا غم تجھے کہ جب ترے آئے ہوں دستگیر

دوزخ میں بھی کیا نہ گوارا جدائی کو
آئے ہیں خود سقر سے تری پیشوائی کو

یہ بات کہہ کے ہاتھ میں لی تیغِ شعلہ زا
منہ پر سپر کو روک کے ظالم جھجھک گیا
قاسم نے بڑھ کے غیظ سے موذی کو دی صدا
او روسیاہ، ڈھال تو چہرے سے کر جدا

فاقوں میں کیا حواس ہیں میرے ادھر تو دیکھ
آنکھیں ملا کے جنگ و جدل کے ہنر تو دیکھ

ظالم ابھی سے جسم میں رعشہ ہے اس قدَر
نیزے کی بھال دیکھ کے تھرّا گیا جگر
ہے امتحاں کا وقت دکھا جنگ کے ہنر
تلوار کھینچ ہاتھ میں ہتھوانس لے سپر

بے زخم کھائے شیر کبھی ٹوکتے نہیں
جو مرد ہیں وہ منہ پہ سپر روکتے نہیں

بودا نہ ہو جدال میں کر مجتمع حواس
ہے تشنگی تو نہر سے جا کر بجھا لے پیاس
نامرد تین روز کے پیاسے سے یہ ہراس
ڈرتا ہے گر تو اور بلا لے کسی کو پاس

کوئی تو اس وغا میں بھلا جد و کد کرے
دے شمر کو صدا کہ وہ تیری مدد کرے

یہ بات سُن کے گرز اٹھایا ذلیل نے
گھیرا شقی کو قہرِ خدائے جلیل نے
مارا جو ہاتھ دوڑ کے اس مست پیل نے
پھرتی سے دو کیا اسے تیغِ اصیل نے

چمکی جو برق ہاتھ بھی چلنے سے رُک گیا
ظالم سپر کو روک کے گھوڑے پہ جھک گیا
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 3

(گزشتہ سے پیوستہ)

جھکنا تھا بسکہ یاں سے چلی تیغِ سربلند
کاٹے سنان و تیغ و زرہ حلقہٴ کمند
کیا آبدار تھی وہ حسامِ وغا پسند
وہ تھا لئیم سر سے کمر تک معِ سمند

امدادِ پنجتن کے طریق آشکار تھے
کٹ کر گرے جو خاک پہ دونوں تو چار تھے


ٹکڑے کئے وغا میں جو اس نحس و شوم کے
چھپنے لگے صفوں میں جواں شام و روم کے
سیدھے ہوئے فرس پہ جو نوشاہ جھوم کے
روحِ حسَن لپٹ گئی بازو کو چوم کے

دیکھا جو ضربِ قاسمِ گردوں رکاب کو
چُوما ظفر نے دوڑ کے پائے جناب کو


اکبر نے بڑھ کے حضرتِ عبّاس سے کہا
لو عمّو جان فتح ہوئی شکرِ کبریا
شہرہ تھا جس کی جنگ کا شہروں میں جا بجا
مارا گیا وہ ارزقِ ملعون و بے حیا

کہہ دیجیے پھوپھی سے نہ آہ و بکا کریں
رونے کے بدلے شکر کا سجدہ ادا کریں


دیجے خبر یہ مادرِ قاسم کو دوڑ کر
ارزق پہ فتح یاب ہوا آپ کا پسر
سب سے سوا دلہن پہ ہے صدمہ زیادہ تر
حجلہ میں غش پڑی ہے وہ مغموم و نوحہ گر

جلدی خبر خوشی کی اسیرِ محن کو دیں
چونکا کے اہلبیت تسلّی دلہن کو دیں


قاسم کو بڑھ کے پھر یہ پکارا وہ نوجوان
کس آن بان سے اسے مارا ہے بھائی جان
آنکھوں میں پھر رہی ہے جنابِ حسَن کی شان
توصیفِ حرب و ضرب میں قاصر ہے یہ زبان

اب پست ہمّتِ عمرِ خیرہ سر ہوئی
آؤ گلے ملیں کہ تمھاری ظفر ہوئی


بھیّا کمال آپ کی مادر تھی بے حواس
کیسی دعائیں مانگ رہی تھیں وہ حق شناس
دل پر وفورِ غم سے جو تھا دمبدم ہراس
ڈیوڑھی پہ تھیں کبھی، کبھی گریاں دلہن کے پاس

کہتی تھیں دمبدم مرے دلبر کی خیر ہو
اے کردگار قاسمِ مضطر کی خیر ہو


صد شکر، کی خدا نے دُعا انکی مستجاب
اس وقت کی دعا سے نہایت تھا اضطراب
کیونکر نہ ہوتے ارزقِ ملعوں پہ فتحیاب
چالاک دست، ہوش بجا، تیغ لاجواب

ہاں بھائی جان قاتلِ کفّار کیوں نہ ہو
بیٹے ہو کس کے، صفدر و جرّار کیوں نہ ہو
 
Top