محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 2

(گزشتہ سے پیوستہ)


میں دیر سے آمادہ ہوں تلوار کو تولے
کہدے کہ علَم فوج صفیں باندھ کے کھولے
ماروں انھیں پھوٹیں کہیں کچھ دل کے پھپھولے
سر تن سے اڑا دوں کوئی اب منہ سے جو بولے

آرام سفر کر گیا، راحت نہیں باقی
بڑھتا ہوں کہ بس اب کوئی حجّت نہیں باقی


یہ فوج ہے کیا آگ کا دریا ہو تو جھیلیں
کیا ڈر انھیں بچپن میں جو تلواروں سے کھیلیں
الٹیں صِفَتِ کاہ اگر کوہ کو ریلیں
کوفہ تو ہے کیا شام کو اور روم کو لے لیں

چاہیں تو زمیں کے ابھی ساتوں طبق الٹیں
یوں الٹیں کے جس طرح ہوا سے ورق الٹیں


کہتے ہیں جسے اہلِ جہاں گنبدِ گردان
نُہ ورقے ہیں اک جزوِ کتابِ شہ مردان
ہم آج ہیں عالم میں قضا فہم و قدر دان
حق بین و حق آگاہ و سخن سنج و ہنر دان

کس امر میں تقلیدِ محمد نہیں کرتے
فاقوں میں سوالِ فقَرا رد نہیں کرتے


اللہ نے کونین کی شاہی ہمیں دی ہے
امداد رسولوں کی مرے باپ نے کی ہے
مجھ میں بھی وہی دل، وہی شوکت، وہی جی ہے
سر برسے ہیں جب تیغِ علی میان سے لی ہے

سر تن سے کٹے جب تو مہم جنگ کی سر ہے
مر جائے بہ عزّت یہ بہادر کی ظفر ہے


ہم دولتِ دنیا کبھی گھر میں نہیں رکھتے
توقیرِ زر و مال نظر میں نہیں رکھتے
رکھتے ہیں قدم خیر میں، شر میں نہیں رکھتے
کچھ اور بجز تیغ کمر میں نہیں رکھتے

نذرِ رہِ معبود تن و سر ہے ہمارا
زیور ہے یہی اور یہی سر ہے ہمارا


شہر اس کی تب و تاب سے ویرانے ہوئے ہیں
جب چمکی ہے یہ دیو بھی دیوانے ہوئے ہیں
منھ وہ ہے کہ تلواروں میں دندانے ہوئے ہیں
لوہا وہ کہ جبریل جسے مانے ہوئے ہیں

کر دیتی ہے شب دشمنِ ایماں کے دنوں کو
جڑھ آتی ہے تپ اس کے شراروں سے جنوں کو


برباد اسی تیغ سے سر کٹ کے ہوئے ہیں
جانبر جو ہوئے، بھاگ کے یا ہٹ کے ہوئے ہیں
عاجز ہے زرِہ، خود بھی سر پٹکے ہوئے ہیں
اب تک پر جبریلِ امیں لٹکے ہوئے ہیں

باعث یہ نہ ہوتا تو پھر آرام نہ لیتے
تھا خاتمہ گر ہاتھ علی تھام نہ لیتے

.
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 2

(گزشتہ سے پیوستہ)



مشہورِ جہاں عمرو و علی کی ہے لڑائی
زور اس کا کہ یہ دیو نے قوّت نہیں پائی
خندق کے اِدھر آتے ہی تلوار جو کھائی
گویا تھی مہینوں سے تن و سر سے جدائی

لاشے کا اِدھر ڈھیر، سرِ نحس اُدھر تھا
خندق کو جو دیکھا تو لہو تا بہ کمر تھا


کب میان سے شمشیرِ دو سر لی نہیں ہم نے
لڑنے میں کبھی منہ پہ سپر لی نہیں ہم نے
جب تک کہ زمیں خون سے بھرلی نہیں ہم نے
کچھ اپنے سر و تن کی خبر لی نہیں ہم نے

شمشیر و سپر بعدِ ظفر کھولتے ہیں ہم
جب صاف ہو میداں تو کمر کھولتے ہیں ہم


پیغامِ قضا تیغِ یداللہ کو جانو
ہمتائے علی فاطمہ کے ماہ کو جانو
بینائی ہو تو کوہِ گراں کاہ کو جانو
عاجز نہ کبھی بندۂ اللہ کو جانو

انگشت سے حلقے کو مروڑا ہے علی نے
خیبر کا در اِک ہاتھ سے توڑا ہے علی نے


اللہ رے زورِ یدِ پاکیزہ و طاہر
آثار اِذَا زُلزِلَتِ الاَرض تھے ظاہر
کھاتے تھے سدا نانِ جویں خلق ہے ماہر
کچھ زر نہ سماتا تھا نظر میں نہ جواہر

اسبابِ شہنشاہِ دو عالم یہی بس تھا
قرآں تھا، یہ تلوار تھی، بس ایک فرس تھا


بھاتا تھا شریکِ فقَرا شاہ کو ہونا
بھولا نہیں راتوں کو مناجات میں رونا
ہے یاد ہمیں بوریے پر راتوں کو سونا
بستر تھا وہی دن کا، وہی شب کا بچھونا

اک ریزۂ زر خانۂ حیدر سے نہ نکلا
دنیا سے اٹھے جب تو کفن گھر سے نہ نکلا


پانی بھی ملک کوثر و تسنیم کا لائے
جبریلِ امیں عرش سے روتے ہوئے آئے
پیوند پہ پیوند جو ملبوس میں پائے
سر پیٹ کے ہم بھائیوں نے اشک بہائے

جو کچھ کہ تھا قبل اپنے شہنشاہ نے بھیجا
کافور نبی نے، کفن اللہ نے بھیجا


اللہ ہے عالم کے وہی حال ہے میرا
ریتی پہ پڑا ہے جو زر و مال ہے میرا
یہ گوہر و یاقوت ہے وہ لال ہے میرا
اس دشت میں جو مال ہے پامال ہے میرا

آرام پس از رنج و محن بھی نہ ملے گا
مجھ کو تو کئی روز کفن بھی نہ ملے گا


ہم اپنے جو لشکر کے پرے تم کو دکھائیں
تم کیا ہو بنی جان کی جانیں ابھی جائیں
جرّار کبھی تاب ٹھہرنے کی نہ لائیں
مر جائیں ہزاروں تو ہزاروں کو غش آئیں

منظور ملائک کی جو امداد کروں میں
اِک اپنے لیے لاکھوں کو برباد کروں میں


میں نے تو بھرے گھر کو تمھارے لیے چھوڑا
دربارِ پیمبر کو تمھارے لیے چھوڑا
اس قبرِ منوّر کو تمھارے لیے چھوڑا
بیماری میں دختر کو تمھارے لیے چھوڑا

نے ماں کے، نہ پہلو میں بڑے بھائی کے جا ہو
قسمت میں یہ تھا قبر مری سب سے جدا ہو



۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 2

(گزشتہ سے پیوستہ)


سچ ہے سخنِ حق میں بڑی ہوتی ہے تاثیر
تھرّائے جگر، رونے لگے فوج کے بے پیر
مولا نے سنبھل کر جو رکھی دوش پہ شمشیر
ہٹ کر پسرِ سعد پکارا کہ چلیں تیر

اک حشر بپا ہوگا جو یہ شیر لڑے گا
سر خاک پہ لوٹیں گے، بڑا کھیت پڑے گا


نقّارۂ رزمی پہ لگی چوب یکایک
تھرّانے لگا دشتِ پُر آشوب یکایک
تلواریں کھنچیں زہر میں سر ڈوب یکایک
لشکر سے بڑھے فوج کے سر کوب یکایک

رحم آیا نہ اعدا کو ولی ابنِ ولی پر
نرغہ ہوا مظلوم حسین ابنِ علی پر


غُل طبل کا، قرنا کی وہ آواز ڈرانی
زَہرے جسے سن سن کے ہوئے جاتے تھے پانی
کالے وہ عَلم، شام کے لشکر کی نشانی
دو تیر، جگر دوز کمانیں وہ کیانی

اک تیر سے مر جانے میں عرصہ نہیں کھنچتا
رستم سے بھی جن کا کبھی چلّہ نہیں کھنچتا


تحت الحَنَکیں باندھے سوارانِ تنو مند
جن کے کبھی نیزوں کے نہ رستم سے کُھلے بند
وہ گرز سپر فرق پہ روکے کوئی ہر چند
اک ضرب میں ہو جائے بشر خاک کا پیوند

نہ رُوح ہو تن میں نہ لہو قلب و جگر میں
سر سینے میں ہو سینۂ مجروح کمر میں


تلوار ادھر سیّدِ ابرار نے کھینچی
یا تیغِ دو سر حیدرِ کرّار نے کھینچی
تصویرِ اجل برقِ شرر بار نے کھینچی
گردن طرفِ غار ہر اک مار نے کھینچی

گھبرا گئے صدمہ یہ ہوا رُوحِ امیں پر
سر رکھ دیا جھک جھک کے پہاڑوں نے زمیں پر


آثار نمایاں ہوئے خالق کے غضب کے
شیروں نے ترائی سے کنارہ کیا دب کے
چونک اٹھے وہ جو سوتے تھے جاگے ہوئے شب کے
دل ہل گئے رنگ اڑ گئے کفّارِ عرب کے

سردار قدم گاڑے تھے ہر چند زمیں پر
گر گر پڑے کھل کھل کر کمر بند زمیں پر


نعرہ کیا بڑھ کر شہِ دیں نے کہ خبردار
لشکر سے کہا شمرِ لعیں نے کہ خبردار
صیحہ کیا جبریلِ امیں نے کہ خبرادر
ماہی سے کہا گاوِ زمیں نے کہ خبردار

گیتی یہ یونہیں گریہ زد و کُشت رہے گی
شاخیں مری ہوں گی نہ تری پُشت رہے گی


جنگل میں پہاڑوں کے جگر خوف سے کانپے
گرنے لگے پتّے یہ شجر خوف سے کانپے
گھڑیال تھے پانی میں مگر خوف سے کانپے
تھے دورِ اولی الاجنحہ پر خوف سے کانپے

گر قوّتِ پرواز خدا داد تھی ان کو
رُودادِ پرِ رُوحِ امیں یاد تھی ان کو


چلّاتے تھے ہر صف میں نقیبانِ جفا کیش
ہاں غازیو، اس وقت بڑی جنگ ہے در پیش
فرزندِ علی ہے یہ جگر خستہ و دل ریش
سر کرتے ہیں سر دے کر مہم کو ظفر اندیش

کوشش کی گھڑی جان لڑا دینے کا دن ہے
صفّین کے کشتوں کے عوض لینے کا دن ہے

.
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 2

(گزشتہ سے پیوستہ)


مولائے امم لشکرِ پُر کید پہ آئے
انبوہِ عناد و حسد و شید پہ آئے
گہ عَمر پہ آئے تو کبھی زید پہ آئے
یوں آئے کہ جس طرح اجل صید پہ آئے

ہلچل تھی کہ طوفاں میں جہاز آتا ہے جیسے
تیغ آتی تھی، کنجشک پہ باز آتا ہے جیسے


سر گرنے لگے جسم سے، چلنے لگی تلوار
چار آئینوں میں جا کے نکلنے لگی تلوار
افعی کی طرح زہر اگلنے لگی تلوار
پی پی کے لہو، رنگ بدلنے لگی تلوار

پانی نے اثر زہرِ ہلاہل کا دکھایا
ہر ضرب میں جلوہ حق و باطل کا دکھایا


ہر غول میں غُل تھا یہ لڑائی ہے غضب کی
انبارِ سر و تن ہیں صفائی ہے غضب کی
سر تن سے اترتے ہیں چڑھائی ہے غضب کی
یہ گھاٹ نیا ہے یہ لڑائی ہے غضب کی

چھپنے کو جگہ دامنِ صحرا میں نہیں ہے
یہ باڑھ غضب کی کسی دریا میں نہیں ہے


تلواریں جو آری ہیں تو بے آب سنانیں
بیکار کمیں میں ہیں کمینوں کی کمانیں
اک منھ میں اسے حق نے جو دو دی ہیں زبانیں
اِس رمز کو جو سیف زباں ہوں وہی جانیں

مطلب تھا کہ اب دین کو کامل یہ کرینگے
وہ شرک کو اور کفر کو باطل یہ کرینگے


بربادی ہوئی کفر کے لشکر کی اسی سے
گردن نہ بچی عَمر دلاور کی اسی سے
کچھ چل نہ سکی مرحب و عنتر کی اسی سے
چُولیں ہوئیں ڈھیلی درِ خیبر کی اسی سے

میدان ہر اک معرکہ میں ہاتھ ہے اس کے
قبضہ کی طرح فتح و ظفر ساتھ ہے اس کے


جو سایۂ شمشیرِ ظفر یاب میں آیا
ماہی کی طرح موت کے قُلّاب میں آیا
ہر طور خلل زیست کے اسباب میں آیا
جو آگیا کاوے میں وہ گرداب میں آیا

کچھ مطلبِ دل ہاتھ بھی مارے سے نہ نکلا
دریائے دمِ تیغ کے دھارے سے نہ نکلا


بجھ بجھ گئے بجلی سی چمک کر جدھر آئی
جل جل گئے شعلہ سی لپک کر جدھر آئی
کٹ کٹ گئے سینہ سے سرک کر جدھر آئی
مر مر گئے مقتل میں لچک کر جدھر آئی

ہر بار نیا رنگ نئی جلوہ گری تھی
آفت تھی، قیامت تھی، چھلاوہ تھی، پری تھی


جب مثلِ سموم آ کے نکل جاتی تھی سَن سے
پتّوں کی طرح خاک پہ سر گرتے تھے تن سے
جو شیر تھے میداں کے، ہرن ہو گئے رن سے
وحشی بھی چلے جاتے تھے بھاگے ہوئے بن سے

افعی نہ فقط ڈر کے دراڑوں میں چُھپے تھے
دب دب کے درندے بھی پہاڑوں میں چھپے تھے


سہمے ہوئے تھے مارِ سیہ کُنڈلیاں مارے
ہرنوں میں جو تھے شیر تو چیتوں میں چکارے
غل تھا کہ جلا دیں گے جہاں کو یہ شرارے
دنیا کی تباہی کے یہ آثار ہیں سارے

تلوار کے پانی سے یہ آتش زدگی ہے
جنگل سے چلو آگ زمانہ کو لگی ہے


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 2

(گزشتہ سے پیوستہ)


اللہ ری مولا کی ہزاروں سے لڑائی
فوجوں سے وغا، ظلم شعاروں سے لڑائی
پُرخاش پیادوں سے، سواروں سے لڑائی
لشکر کی حدیں چار تھیں چاروں سے لڑائی

انبوہ میں سر گرم زد و کشت کہیں تھے
جو صف سے بڑھا تیغ بکف آپ وہیں تھے


ہاتھ اٹھتا تھا جب تا بہ فلک جاتی تھی بجلی
گرتی تھی سروں پر تو کڑک جاتی تھی بجلی
جب بڑھتی تھی تلوار سرک جاتی تھی بجلی
اِس پار سے اُس پار چمک جاتی تھی بجلی

گرجے ہیں پر اس طرح مسلسل نہیں گرجے
نعرے ہیں کہ ایسے کبھی بادل نہیں گرجے


مقتل میں کوئی خاک پہ توڑ رہا تھا
باغی کوئی ہستی کا چمن چھوڑ رہا تھا
ہٹ ہٹ کے کوئی دستِ ادب جوڑ رہا تھا
گھوڑے کی ادھر باگ کوئی موڑ رہا تھا

تلوار کے سائے سے ڈرے جاتے تھے اعدا
بھاگڑ تھی کہ پس پس کے مرے جاتے تھے اعدا


شمشیرِ عدو کُش کی ہوا کے وہ تھپیڑے
ڈوبے ہوئے تھے خون میں سب فوجوں کے بیڑے
گھوڑے کو بڑھانے کے لیے کیا کوئی چھیڑے
بوچھار سروں کی تھی لہو کے تھے دڑیڑے

ساون نہیں برسا کبھی بھادوں نہیں برسا
مینھ برسا ہے ہر سال مگر یوں نہیں برسا


لاشیں تھیں دس اک لاش پہ، سر گرتے تھے سر پر
پاؤں پہ کبھی ہاتھ تو سینے تھے کمر پر
چار آئینہ شانوں پہ کٹے تیر و تبر پر
خنجر تھے انھیں کے جو پھرے ان کے جگر پر

بے چلّہ کماں، گرزِ گراں مشت کے نیچے
تیغیں تہِ گردن، سپریں پشت کے نیچے


سیدھے جو نشاں تھے انھیں کیا تیغ نے الٹا
اس صف کو بجھا کر وہ پرا تیغ نے الٹا
لشکر کا ورق وقتِ وغا تیغ نے الٹا
گردن بھی الگ تھی جو گلا تیغ نے الٹا

جو صاحبِ دفتر تھا وہ مقتل سے ہٹا تھا
جس فرد کے چہرے پہ نظر کی وہ کٹا تھا


چلّاتے تھے گِر گِر کے یہ جن بیرِ الم کے
جانوں کو بچاؤ کہیں یہ تیغ نہ چمکے
جل جائیں گے سائے سے اسی برقِ دو دم کے
رن پڑتا ہے لڑتے ہیں یہ جس کھیت میں جم کے

ہیں سیفِ خدا، عرش سے تیغ اتری ہے ان کو
جانیں وہی ان شیروں سے ہو سامنا جن کو


غالب کوئی ان پر کسی صورت نہیں رہتا
قایم قدمِ صاحبِ جرأت نہیں رہتا
بے سر ہے جو پابندِ اطاعت نہیں رہتا
کلمہ نہ پڑھے جو وہ سلامت نہیں رہتا

حملوں سے اگر ہونٹوں پہ وہ جان نہ لاتے
جنّات جو کافر تھے وہ ایمان نہ لاتے

.
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 2

(گزشتہ سے پیوستہ)


شیرِ اسدِ قلعہ شکن گونج رہا تھا
جنبش تھی پہاڑوں کو یہ رن گونج رہا تھا
قرنا سے اُدھر چرخ کہن گونج رہا تھا
نعروں سے ادھر ظلم کا بن گونج رہا تھا

غل تھا کہ لہو خوف سے گھٹ جانے کا دن ہے
بھاگو یہی گیتی کے الٹ جانے کا دن ہے


کیا تیغ کی تعریف کرے کوئی زباں سے
جِن مانگیں اماں جان کی جس آفتِ جاں سے
ہے قطعِ سخن خوب جو باہر ہو بیاں سے
دھوئی ہوئی کوثر سے زباں لاؤں کہاں سے

یُوں تیغ کبھی عرش سے اتری ہے کسی کو
یہ وہ ہے خدا نے جسے بھیجا ہے نبی کو


تلواریں ہزاروں ہیں پہ نایاب یہی ہے
بازو درِ نصرت کا یہی، باب یہی ہے
بجلی جسے کہتے ہیں وہ بے تاب یہی ہے
ہے باڑھ پہ دریا ہمہ تن آب یہی ہے

اس قبضہ کو اس میل کو اس ساتھ کو دیکھو
تلوار کو کیا دیکھتے ہو ہاتھ کو دیکھو


ایسا ہے لڑائی کا چلن ہاتھ میں کِس کے
دیکھا ہے یہ بے ساختہ پن ہاتھ میں کِس کے
ہے زورِ شہِ قلعہ شکن ہاتھ میں کِس کے
یہ کاٹ، یہ گردش ہے، یہ کَن، ہاتھ میں کِس کے

تلوار تو کیا انگلیاں وہ تیغِ دو سر ہیں
ہاتھوں کی لکیریں نہیں تعویذِ ظفر ہیں


سر کاٹ دیا فرق پہ جس حال میں پہنچی
چہرے پہ جو گھوڑے کے پڑی بال میں پہنچی
مچھلی تھی کہ جوشن کے کبھی جال میں پہنچی
پنجہ کے لڑانے کے لیے ڈھال میں پہنچی

سمجھا یہ ہر اک، برق گری دشمنِ دیں پر
پنجہ تو سپر میں تھا کلائی تھی زمیں پر


اعضائے سوارانِ تنو مند جدا تھے
نیزے تھے تو کیا، جسم کے سب بند جدا تھے
بیٹوں سے پدر، باپ سے فرزند جدا تھے
کیا وصل تھا پیوند سے پیوند جدا تھے

تنہا نہ سرِ اہلِ ستم کاٹ دیے تھے
تلوار نے رشتے بھی بہم کاٹ دیے تھے


ڈھالوں کی گھٹا کا وہ ادھر جھوم کے آنا
تلوار کی بجلی کا چمکتے ہوئے جانا
جنگل کی سیاہی تھی کہ تیرہ تھا زمانا
دریا کا کنارا تھا کہ جیحوں کا دہانا

یُوں سیل کبھی جانبِ صحرا نہیں آتی
ایسی کبھی برسات میں بَہیَا نہیں آتی


سب تھے سپر انداختہ تلوار کے آگے
دو چار کے پیچھے تھے تو دو چار کے آگے
یوں موت تھی اس صاعقہ کردار کے آگے
جس طرح پیادہ چلے اسوار کے آگے

غل تھا وہ ہٹیں کھیت سے جو آگے بڑھے ہیں
سر نذر کرو آپ لڑائی پہ چڑھے ہیں

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 2

(گزشتہ سے پیوستہ)


ڈوبا تھا کوئی اور کوئی خون میں تر تھا
ہر نخل قد اس معرکہ میں زیر و زبر تھا
ڈھالیں تھیں نہ ساعد تھے نہ بازو تھے نہ سر تھا
پتّے تھے نہ شاخیں نہ شجر تھا نہ ثمر تھا

یوں باغ کی رونق کبھی جاتے نہیں دیکھی
ایسی بھی خزاں آج تک آتے نہیں دیکھی


جو برچھیاں بے پھل تھیں وہ خجالت سے گڑی تھیں
آری تھیں وہ تلوار سے تیغیں جو لڑی تھیں
تھیں کند سنانیں وہ جو نیزوں سے کڑی تھیں
جوشن پہ بھی ایسی کبھی کڑیاں نہ پڑی تھیں

رہتی پہ کٹے ہاتھوں کا پشتارہ ہوا تھا
ہر پارۂ چار آئنہ صد پارہ ہوا تھا


ٹکڑے ہیں کمانیں قدر انداز کریں کیا
آفت کا نشانہ ہیں فسوں ساز کریں کیا
بے تیر ہے ترکش کا دہن، باز کریں کیا
اُڑ جائیں پرِ تیر تو پرواز کریں کیا

چلّے بھی تو گوشوں کے ساتھ نہیں ہیں
جس پاس کماں رہ گئی ہے ہاتھ نہیں ہیں


زرہیں جو کٹیں موت کے قابو میں بس آئے
جب دام سے چھوٹے تو میانِ قفس آئے
چو رنگ تھے جو راس و چپ و پیش و پس آئے
وہ بیس ہوئے تیغ کے نیچے جو دس آئے

نہ غول نہ مجمع نہ پرا تھا نہ وہ صف تھی
تھی ایک ہی بجلی پہ چمک چار طرف تھی


رحم ایک جگہ ہے تو عتاب ایک جگہ ہے
اک جا ہے ظفر، فتح کا باب ایک جگہ ہے
برق ایک جگہ ہے تو سحاب ایک جگہ ہے
حیرت کی جا ہے آتش و آب ایک جگہ ہے

وہ نار جسے خوں کی روانی نہ بجھائے
یہ آگ وہی ہے جسے پانی نہ بجھائے


جس فرق پہ یہ صاعقہ کردار گری ہے
سر تن سے گرا، ہاتھ سے تلوار گری ہے
اک بار کہیں برق شرر بار گری ہے
سَو بار یہ اٹھی ہے تو سو بار گری ہے

ٹالے یہ بلا سر سے جو کوئی تو قدم لیں
اتنی ہمیں مہلت نہیں ملتی کہ دم لیں


مولا سا کوئی سائف و سیّاف نہیں ہے
صف کونسی ایسی ہے کہ جو صاف نہیں ہے
دنیا میں عدالت نہیں انصاف نہیں ہے
ایسا تو کوئی قاف سے تا قاف نہیں ہے

دکھلا دیے جوہر تھے جو خالق کے ولی کے
نے قبل لڑا کوئی نہ یوں بعد علی کے
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 2

(گزشتہ سے پیوستہ)



اللہ ری لڑائی میں سبک تازیٔ شبدیز
شہباز بھی تھے قائلِ جانبازیٔ شبدیز
وہ سینہ وہ گردن وہ سر افرازیٔ شبدیز
وہ آنکھ وہ چہرہ وہ خوش اندازیٔ شبدیز

جس طرح فرو رہتی ہے مایوس کی گردن
گردن سے یونہی جھکتی ہے طاؤس کی گردن


کلغی کا وہ بالا ہوا پایا اسی سر پر
بس عقدِ ثریّا نظر آیا اسی سر پر
تاروں کو مہِ نو نے سجایا اسی سر پر
لا ریب ہما ڈالے تھا سایا اسی سر پر

ساری ہے عناصر میں ہوا خاک نہیں ہے
شہباز نے پر کھولے ہیں فتراک نہیں ہے


آہو جو کہیں اس کو تو آہو ہے چکارا
ساتھ اسکے ہما کو نہیں پرواز کا یارا
وہ نعل وہ ہر کیل وہ سم معرکہ آرا
پتلی وہ پری سمجھے جسے آنکھ کا تارا

دیکھی ہے سموں میں کسی گھوڑے کے یہ ضَو بھی
یک جا ہیں ستارے بھی قمر بھی مہِ نو بھی


نعل اور سُم ایسے کبھی پیارے نہیں دیکھے
کیلوں سے چمکتے ہوئے تارے نہیں دیکھے
آہو نہیں دیکھے کہ چکارے نہیں دیکھے
اب تک یہ خوش اسلوب طرارے نہیں دیکھے

دیکھو اسے جب فرش سے جائے یہ سما پر
دیکھا نہ ہو گر تختِ سلیماں کو ہوا پر


اللہ ری جانداریٔ شبدیز وغا میں
تلوار کے چلنے سے بھی تھا تیز وغا میں
دل کا تھا اشارا اسے مہمیز وغا میں
ہر فعل تھا شمشیر شرر ریز وغا میں

ہاتھ اس کے جدھر آئے اجل پا گئی اس کو
اک ٹاپ پڑی جس پہ زمیں کھا گئی اس کو


تلوار کے مانند نہ بھرتا تھا دم اس کا
گردن کے مہِ نو سے وہ منکے وہ خم اس کا
دریا سے روانی میں فزوں تر قدم اس کا
کس طرح لکھے وصف کمیتِ اس کا

دوڑاؤں کہاں تک فرسِ ذہن رسا کو
کہہ دو کسی شاعر نے جو باندھا ہو ہوا کو


غُل تھا کہ چھلاوے میں یہ چھل بل نہیں دیکھی
پھرتی ہوئی یوں آج تلک کل نہیں دیکھی
باریک یہ جلد اور یہ ہیکل نہیں دیکھی
ایسی تو کبھی خواب میں مخمل نہیں دیکھی

نازک ہے کہ مہمیز کی طاقت نہیں رکھتا
ابریشمِ چینی یہ لطافت نہیں رکھتا


جو رگ ہے عوض خوں کے حرارت سے بھری ہے
جلدی جو ہے سب جلد بھی جودت سے بھری ہے
شعلے کی طرح طبع شرارت سے بھری ہے
اُبلی ہوئی ہر آنکھ شجاعت سے بھری ہے

اڑ جاتا ہے برچھوں وہ محل جست کا پا کر
تلواروں کے نیچے سے نکل جاتا ہے آ کر


چلنے میں پری کیا ہے نسیمِ سحری کیا
جس جا پہ پھرے برق کی واں جلوہ گری کیا
طاؤس ہے کیا نسر ہے کیا کبک دری کیا
یاں اوجِ سعادت کا ہما کیا ہے پری کیا

راکب جو ذرا چھیڑ دے اس برقِ شیَم کو
سائے کو نہ وہ پائے نہ یہ گردِ قدم کو


اُس صف کو اُلٹ کر اِدھر آیا اُدھر آیا
فوجوں سے پلٹ کر اِدھر آیا اُدھر آیا
جوں شیر جھپٹ کر اِدھر آیا اُدھر آیا
بجلی سا سمٹ کر اِدھر آیا اُدھر آیا

تھمتا ہے چھلاوہ بھی مگر یہ نہیں تھمتا
طائر بھی ٹھہر جاتا ہے پر یہ نہیں تھمتا


پامال نہ ہوں پھول جو گلزار پہ دوڑے
سم تر نہ ہوں گر قلزمِ زخّار پہ دوڑے
اس طرح رگِ ابرِ گہر بار پہ دوڑے
جس طرح کہ نغمہ کی صدا تار پہ دوڑے

اغراق ہے یاں کچھ نہ تعلّی شُعَرا کی
کافی ہے یہ تعریف کہ قدرت ہے خدا کی


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 2

(گزشتہ سے پیوستہ)


اک ظالمِ شامی سپہِ شُوم سے نکلا
مکّار بڑے ٹھاٹھ بڑی دھوم سے نکلا
لڑنے کے لیے خاصۂ قیّوم سے نکلا
کشتوں کا عوض لینے کو معصوم سے نکلا

دو بھائی بھی اس کے شہِ والا سے لڑے تھے
سر اُن کے کہیں، جسم کہیں رن میں پڑے تھے


غصّہ سے غضب سُرخ تھیں خونخوار کی آنکھیں
بجلی سے جھپکتی تھیں نہ غدّار کی آنکھیں
دیکھی جو نہ تھیں حیدرِ کرّار کی آنکھیں
مستِ مےِ نخوت تھیں جفا کار کی آنکھیں

سر کاٹیے سردار کا سودا تھا یہ سر میں
غّرہ کہ تہمتن نہ سماتا تھا نظر میں


سر طبلکِ معکوس، جبیں حد سے فزوں تنگ
غدار و سلح شور و جفا پیشہ و سرہنگ
کہنے کو بشر پر قد و قامت کا نیا ڈھنگ
حیراں شبِ ظلمات وہ تھی تیرگیِ رنگ

پہلے سے یہ کالا تھا منھ اس دشمنِ رب کا
بن جائے توا عکس سے آئینہ حلب کا


لال آنکھیں وہ ظالم کی وہ منھ قیر سے کالا
شب ایک طرف دن کو ڈرے دیکھنے والا
قد دیو کی قامت سے بلندی میں دوبالا
دانتوں کی کبودی سے دہن مار کا چھالا

شیر اس کی صدا سن کے لرز جاتے تھے بن میں
فاسد تھی ہوا رن کی یہ بد بُو تھی دہن میں


وہ ڈھال کہ جو سینۂ رستم کو چھپا لے
تلوار کا منہ ایسا کہ فولاد کو کھا لے
نیزہ وہ کہ مرحب کو جو مرکب سے اٹھا لے
گرز ایسا کہ عنتر جسے مشکل سے سنبھالے

کج طبع کہ سر جائے پہ کینے کو نہ چھوڑے
خنجر وہ کہ سالم کسی سینے کو نہ چھوڑے


ترکش کا دہن مرگِ مفاجات کا مسکن
وہ سخت کماں نرم جہاں حلقۂ آہن
چار آئینہ کو تیر بنا دیتے تھے جوشن
چلّہ وہ جسے دیکھ کہ تھرّائے تہمتن

کچھ دیو سے بھی زور زیادہ تھا شقی کا
دو ٹانک کا حلقہ تو کبادہ تھا شقی کا


سیدھا ہوا گر قوس کے قبضہ کو پکڑ کے
روحِ تنِ رستم قفسِ جاں میں پھڑکے
چلّے کو جو کھینچے وہ جفا کار اکڑ کے
گرجے وہ کہ بجلی بھی نہ اس قہر سے کڑکے

تاکیں جو نشانہ کو سلح شور کی آنکھیں
ہے کور تو کیا کور کرے مور کی آنکھیں

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 2

(گزشتہ سے پیوستہ)


حضرت نے کہا اپنے ارادے کی خبر دے
آنکھوں سے اٹھا نشۂ پندار کے پردے
بو جاتا ہے اس تخم کو دانا جو ثمر دے
غرّہ یہ ترا تجھ کو کہیں پست نہ کر دے

دنیا میں نہیں کچھ عملِ نیک سے بہتر
پیدا کیا اللہ نے اک ایک سے بہتر


کیوں عمرو کو تھا اپنے تن و توش پہ کیا ناز
مرحب کو یہ دعویٰ تھا کہ مجھ سا نہیں جانباز
تھا ناریوں میں عنترِ مغرور بھی ممتاز
تینوں تھے شقی بندۂ حرص و ہوس و آز

ایک ایک کا تن سر سے اتارا ہے علی نے
تڑپے بھی نہیں یوں انہیں مارا ہے علی نے


وہ کون سی تھی جنگ جو سر کی نہیں ہم نے
کب رن کی زمیں خون سے تر کی نہیں ہم نے
جز خیر کسی سے کبھی شر کی نہیں ہم نے
خواہش کی نظر جانبِ زر کی نہیں ہم نے

بے مانگے ہمیں دیتا ہے مختار ہمارا
مشہور ہے کونین میں ایثار ہمارا


گہ ماہِ ہلالی ہے کبھی موسم دَے ہے
اسباب و زر و مال بھلا کون سی شے ہے
تم کھوتے ہو دنیا کے لیے دین کو ہے ہے
مقلوب کرو زر کو تو وہ ماحز مے ہے

اس نشّہ سے کارہ ہے وہ کچھ بھی جسے حس ہے
زائل جو کرے عقلِ بشر کو وہ نجس ہے


اژدر تھا وہ حیدر نے جسے مہد میں چیرا
بیٹا میں علی کا ہوں، نبی کا ہوں نبیرا
فردوسِ معلّیٰ میں ہمارا ہے ذخیرا
بخل اوروں کا شیوہ ہے، سخا اپنا وطیرا

ہے کون سا قطرہ جسے دریا نہیں کرتے
زر کیا ہے کہ سر دینے میں صرفہ نہیں کرتے


بھر دیتے ہیں کشکول فقیروں کے مع ذیل
دریا ہے کہیں ہاتھ ہمارا تو کہیں سیل
ہے کُفّۂ میزان اسی ہاتھ کے دو کیل
یہ نقرہ و زر دستِ ہنر مند کے ہیں میل

فاقوں میں بھی فیضِ کفِ عالی نہیں جاتا
سائل کبھی دروازہ سے خالی نہیں جاتا


لڑتا ہے تو بڑھ عصر کا ہنگام قریں ہے
اب سجدۂ معبود کی مشتاق جبیں ہے
لشکر ہے ترے ساتھ اِدھر کوئی نہیں ہے
عبّاس سا غازی ہے نہ اکبر سا حَسیں ہے

فاقہ ہے جدا، ضعف جدا، پیاس جدا ہے
اب میں ہوں یہ تلوار ہے اور سر بہ خدا ہے


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 2

(گزشتہ سے پیوستہ)


یہ سنتے ہی سفّاک نے بھالے کو سنبھالا
تلوار کو چمکا کے بڑھے سیّدِ والا
آ پہنچا تھا سینہ کے قریں ظلم کا بھالا
فرزندِ یداللہ نے عجب ہاتھ نکالا

کیا جانیے بجلی تھی کہ تیغِ دو زباں تھی
نہ ہاتھ میں بھالا تھا نہ بھالے میں سناں تھی


حضرت نے کہا، ہول سے دم اس کا جو پُھولا
کافی تھا ترے قتل کو اک تیغ کا ہُولا
سنتے تھے کہ نیزے میں تجھے ہے یدِ طُولا
جو بند کے تھے یاد انھیں خوف سے بُھولا

نے ہاتھ میں طاقت تھی ترے اور نہ تکاں تھی
نیزہ تھا کہ تنکا تھا، قلم تھا کہ سناں تھی


جھنجھلا کے کہا اس نے کہ یا شاہِ سر افراز
سرہنگ نہ مجھ سا ہے نہ سرکش نہ سر انداز
طاقت پہ مجھے فخر تھا نیزے پہ مجھے ناز
کیا جانیے یہ سحر تھا یا آپ کا اعجاز

چمکی تھی کہاں تیغ کہاں چل کے پھری تھی
مجھ پر کبھی اس طرح سے بجلی نہ گری تھی


حضرت نے کہا سحر نہ جان اس کو ستمگر
اعجاز دکھائیں تو نہ تُو ہو نہ یہ لشکر
ہیں سیفِ خدا کوئی ہمارا نہیں ہمسر
اس ہاتھ میں شمشیرِ دو دستی کے ہیں جوہر

ہر وقت یہاں وردِ زباں نادِ علی ہے
بجلی نہیں یہ ضرب بھی ایجادِ علی ہے


قبضہ میں کماں لے کے یہ بد کیش پکارا
تیر اس کے دلِ کوہ کو کرتے ہیں دو پارا
حضرت نے کہا تیغ کا کافی ہے اشارا
کھل جائے گی یہ خیرہ سری او ستم آرا

پیکاں کی طرح غنچۂ خاطر نہ کھلے گا
بھاگے گا تو گوشہ بھی نہ چھپنے کو ملے گا


چلّہ میں اُدھر تیر جفا کار نے جوڑا
کاوے پہ اِدھر ڈال دیا آپ نے گھوڑا
چلّہ کو ادھر کھینچ کے سفّاک نے چھوڑا
گلگوں کو اڑا کر شہِ ذیجاہ نے موڑا

باطل ہوا سرکش کو کماں پر جو گماں تھا
ناوک تھا نہ چلّہ تھا نہ ترکش کا نشاں تھا


حضرت نے کہا شرم سے نہوڑائے ہے کیوں سر
حلقہ ابھی ثابت ہے اٹھا دوسرے سر پر
حلقہ کو پٹک کر یہ پکارا وہ ستم گر
اب گرز ہے اور آپ ہیں یا سبطِ پیمبر

بگڑی ہے وغا، جان پہ اس وقت بنی ہے
بعد اس کے تو پھر معرکۂ تیغ زنی ہے


ظالم نے ادھر گرزِ گراں سر کو اٹھایا
ثابت یہ ہوا دیو نے لنگر کو اٹھایا
نے ہاتھ میں لی تیغ نہ جمدھر کو اٹھایا
مولا نے فقط تیغِ دو پیکر کو اٹھایا

اڑتے ہوئے دیکھا جو ہوا میں شرروں کو
سمٹا لیا تھّرا کے فرشتوں نے پروں کو


شپّیر قریب آ گئے گھوڑے کو ڈپٹ کے
شبدیز اِدھر سے اُدھر آیا جو سمٹ کے
ہر چند بچاتا رہا ضربت کو وہ ہٹ کے
پرکالۂ گرز اڑنے لگے تیغ سے کٹ کے

باقی تھا جو کچھ گرز وہ دو ہو گیا آخر
قبضہ جو اٹھا تھا وہ فرو ہو گیا آخر


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 2

(گزشتہ سے پیوستہ)


مطلعِ سوم

اے سیفِ یداللہ صفائی مجھے دکھلا
خیبر میں جو گزری وہ لڑائی مجھے دکھلا
دریائے شجاعت کی ترائی مجھے دکھلا
اے دستِ خدا عقدہ کشائی مجھے دکھلا

ہاں فتح کا اور تیرا سدا ساتھ رہا ہے
ہر جنگ میں میدان ترے ہاتھ رہا ہے


یا شیرِ خدا سیفِ دو دم دیجیے مجھ کو
یا شاہِ نجف طبل و علم دیجیے مجھ کو
سر بر نہ ہو لشکر وہ حشم دیجیے مجھ کو
میداں جو نہ چھوڑے وہ قلم دیجیے مجھ کو

سب فوج کے چہرے ابھی کٹتے نظر آئیں
نیزے سپۂ شام کے ہٹتے نظر آئیں


کوثر کا بھرا جام پلا دیجیے مولا
بالائے ولا اور ولا دیجیے مولا
پھر غنچۂ خاطر کو کِھلا دیجیے مولا
شمشیرِ فصاحت کو جِلا دیجیے مولا

میں وہ نہیں یا خلق میں انصاف نہیں ہے
مدّت سے جو چپ ہوں تو زباں صاف نہیں ہے


گو پیر ہوں پر زورِ جوانی ہے ابھی تک
سوکھے ہوئے دریا میں روانی ہے ابھی تک
دنداں نہیں پر تیز زبانی ہے ابھی تک
قبضے میں وہ تیغِ صَفَہانی ہے ابھی تک

جوہر ہیں وہی، باڑھ وہی، گھاٹ وہی ہے
کہنہ تو ہے شمشیر مگر کاٹ وہی ہے


اس گھر کے وغا کرنے کا سب ڈھنگ دکھا دے
جس طرح علی لڑتے تھے وہ جنگ دکھا دے
تلوار کی بجلی کو تہِ تنگ دکھا دے
راکب کو بھی، مرکب کو بھی، چورنگ دکھا دے

ٹھہرے نہ کہیں زیں سے جو مرکوب کے نکلے
دو تین وجب خاک میں پھل ڈوب کے نکلے


لو غور سے چلتی ہوئی صمصام کو دیکھو
بے رونقیِ ظالمِ ناکام کو دیکھو
تیغ و سپرِ شاہِ خوش انجام کو دیکھو
اعجاز ہے، اک جا سحر و شام کو دیکھو

قرباں رُخِ تابانِ شہِ جن و بشر کے
خورشیدِ مبیں بیچ میں ہے شام و سحر کے


منہ سرخ ہے سب خاطرِ اقدس ہے جو برہم
رخساروں پر بل کھا رہے ہیں گیسوئے پُر خم
ابرو میں چلتی ہوئی تلوار کا عالم
پتلی کا یہ رعب کہ تھّراتے ہیں ضیغم

لو دیکھ لو اس صاحبِ شمشیر کی آنکھیں
غصّے میں نہ دیکھی ہوں اگر شیر کی آنکھیں

.
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 2

(گزشتہ سے پیوستہ)



دبتا ہے سرکتا ہے سمٹتا ہے وہ ظالم
گھوڑے کے قریب آ کے پلٹتا ہے وہ ظالم
بڑھ آتے ہیں جب آپ تو ہٹتا ہے وہ ظالم
رد ہوتا ہے جب وار تو کٹتا ہے وہ ظالم

شمشیر کلیجے پہ چُھری پھیرے ہوئے ہے
بھاگے تو کدھر جائے اجل گھیرے ہوئے ہے


غل تھا کبھی دیکھی نہیں رد و بدل ایسی
چلتی نہیں تلوار کبھی بر محل ایسی
اب ہوگی زمانے میں نہ جنگ و جدل ایسی
ہاتھ ایسا زبردست تو برقِ اجل ایسی

بل جسم میں، کَس ہاتھ میں، تلوار میں جَس ہے
سو سر کا وہ دشمن ہو تو اِک وار اسے بس ہے


جب چلتی ہے سَن سے شرر اڑتے ہیں ہوا میں
ذرّے بھی اِدھر سے ادھر اڑتے ہیں ہوا میں
کاٹے ہوئے تیروں کے پر اڑتے ہیں ہوا میں
پرکالۂ قرصِ سپر اڑتے ہیں ہوا میں

کچھ شبہ و تشکیک غلط اس پہ نہیں ہے
اس ڈھال کے سو ٹکڑے ہیں، خط اس پہ نہیں ہے


تلوار چمک کر ادھر آئی جو ادھر سے
برسی تو زرہ گر گئی خود اڑ گیا سر سے
چہرے سے چھلم کھل گئی، زنجیر کمر سے
پہلو سے سپر میں تھی کلائی پہ سپر سے

دنیا سے اسے رشتۂ تقدیر نے کھویا
دستانوں کو بھی ہاتھ سے بے پیر نے کھویا


مولا کی طبیعت جو ذرا جوش پر آئی
تلوار اجل بن کے زرہ پوش پر آئی
گہ فرق پہ چمکی تو کبھی دوش پر آئی
آفت کمر و صدر و تن و توش پر آئی

جانے کی جہاں سے خبر آتی ہے کسی کو
گرتی ہوئی بجلی نظر آتی ہے کسی کو


سر پر جو پڑی تیغ، جبیں سے اتر آئی
کیا ذکرِ جبیں، صدرِ لعیں سے اتر آئی
بڑھ کر کمرِ دشمنِ دیں سے اتر آئی
کیا بندِ کمر، خانۂ زیں سے اتر آئی

خوں بھی نہ تنِ توسنِ چالاک سے نکلا
بجلی سا چمکتا ہوا پھل خاک سے نکلا


تکبیر کا نعرہ جو کیا آپ نے تن کے
صاف آئی صدا بیچ سے یہ چرخِ کہن کے
اے لختِ جگر بادشہِ قلعہ شکن کے
لڑتے ہیں یونہیں فوج سے جو شیر ہیں رن کے

تُو صبر میں ایّوبِ خوش انجام ہے شبّیر
اب سجدے میں جھک عصر کا ہنگام ہے شبّیر


.
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 2

(گزشتہ سے پیوستہ)



سن کر یہ صدا آپ نے تلوار کو روکا
تلوار کو کیا برقِ شرر بار کو روکا
بے چین تھا پر اسپِ خوش اطوار کو روکا
گردوں کی طرف دیکھ کے رہوار کو روکا

فرمایا کہ جینے سے دل اب تنگ ہے گھوڑے
تھم جا کہ بس اب خاتمۂ جنگ ہے گھوڑے


اب سینے کو وقفِ تبر و تیر کریں گے
اب طاعتِ معبود کی تدبیر کریں گے
اب عصر کی نیّت میں نہ تاخیر کریں گے
اب سجدۂ باری تہِ شمشیر کریں گے

ایذا ہو کہ دکھ سہل ہے سب راہِ خدا میں
سر دے کے بس اب جائیں گے درگاہِ خدا میں


عاشق کو نہیں دُوریِ معشوق گوارا
سر جلد کٹاؤ یہ ہے خالق کا اشارا
مشتاقِ اجل ہے اسداللہ کا پیارا
اب خنجرِ بے آب ہے اور حلق ہمارا

طالب ہوں رضا مندیِ ربّ ِ دو سرا کا
صد شکر کہ وقت آ گیا وعدے کی وفا کا


یہ کہہ کر رکھی میان میں شبیر نے تلوار
حکمِ شہ والا سے کھڑا ہو گیا رہوار
بجلی جو تھمی ہونے لگی تیروں کی بوچھار
دو لاکھ کے نرغے میں گھرے سید ابرار

مجروح ہوا صدر بھی، زخمی ہوا سر بھی
چلنے لگیں تیغیں بھی سنانیں بھی تبر بھی


یہ سنتے ہی مولا نے رکھی میان میں تلوار
حربے لیے پھر رن سے بڑھے فوج کے سردار
ٹوٹے ہوئے پھر رن میں پرے جم گئے اک بار
اترے ہوئے چلّوں کو چڑھانے لگے خونخوار

تھا شور کہ ہاں نیزوں سے پیاسے کو گرا دو
گھوڑے سے محمّد کے نواسے کو گرا دو


چلّے سے شقی تیر لگانے کو پھر آئے
سیّد کا لہو تن سے بہانے کو پھر آئے
زہرا و محمّد کے رلانے کو پھر آئے
کفّارِ عرب کعبے کے ڈھانے کو پھر آئے

خوں بہنے سے بے تاب و تواں ہو گئے شپیر
تلواروں کی کثرت سے نہاں ہو گئے شپیر


دو لاکھ عدہ فاطمہ زہرا کا پسر ایک
فریاد کہ سو خنجرِ خونخوار ہیں سر ایک
نوکوں پہ تو نوکیں ہیں سنانوں کی، جگر ایک
بیداد کو کانٹے ہیں ہزاروں، گلِ تر ایک

کثرت ہے کہ اک زخم سے اک زخم ملا ہے
لالے کا چمن جسمِ مبارک پہ کھلا ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 2

(گزشتہ سے پیوستہ)


تیروں سے سَبُک ہے جو صدرِ شہِ صفدر
پُر خوں وہ قبا، صاف ہے تابوت کی چادر
گرتا ہے جو پیشانی کا خوں ریش سے بہہ کر
چلّو میں اسے لیتے ہیں اور ملتے ہیں منہ پر

فریاد ہے یہ لب پہ امامِ دو سرا کے
جاؤں گا یونہی سامنے محبوبِ خدا کے


طالب ہیں کہ پانی تو پلاؤ مجھے یارو
کہتے ہیں لعیں، ساقیِ کوثر کو پکارو
فرماتے ہیں خیر اب مجھے نیزے تو نہ مارو
وہ کہتے ہیں، ہے حکم کہ سر تن سے اتارو

آفت پہ جو آفت تو ستم ہوں گے ستم پر
پامال ہو لاشہ، یہی تاکید ہے ہم پر


ناگہ بنِ اشعث کی لگی تیغ جبیں پر
تھّرا گیا گھوڑے پہ جگر گوشۂ حیدر
قربوس پہ جھک کر جو اٹھے سبطِ پیمبر
اک بار لگے حلق پہ دو تیر برابر

ناموسِ نبی گھر سے کُھلے سر نکل آئے
دو تیر گلا توڑ کے باھر نکل آئے


زھرا کی صدا ہے مرے پیارے کو سنبھالو
گرتے ہوئے اس عرش کے تارے کو سنبھالو
یا شیرِ خدا پیاس کے مارے کو سنبھالو
ہاتھوں پہ مرے راج دلارے کو سنبھالو

نرغے سے یہ مظلوم نکلنے نہیں پاتا
بچّہ مرا گھوڑے پہ سنبھلنے نہیں پاتا


گھوڑے سے گرا جب وہ دو عالم کا خُو زادہ
مرکب سے اتر کر ہوا تب شمر پیادہ
ظالم نے کیا بے اَدَبی کا جو ارادہ
زخموں میں ہوا سینے کے درد اور زیادہ

رکھنے جو لگا حلق پہ خنجر شہِ دیں کے
دو ہاتھ نظر آئے گلے پر شہِ دیں کے


پوچھا ستم ایجاد نے تب غیظ میں آ کے
یہ کون ہے پہلو میں امامِ دو سرا کے
فرمانے لگے سبطِ نبی اشک بہا کے
گردن میں مری، ہاتھ ہیں محبوبِ خدا کے

جھک کر مری گردن پہ گلا دھرتے ہیں نانا
تلوار ہٹا پیار مجھے کرتے ہیں نانا


ہاں اہلِ عزا رؤو اب آتی ہے قیامت
لازم ہے کرو کچھ تو ادا حقِ محبت
نزدیک ہے سر تن سے جدا ہونے کی ساعت
حضرت کو جھکے دیکھتے ہیں اہلِ شقاوت

دنیا سے بس اب کوچ ہے مولا کا تمھارے
بے جرم گلا کٹتا ہے آقا کا تمھارے


شارع کا یہ ہے حکم جو ہے مومنِ دیندار
دنیا میں وہ مجرم کہ ہو قتل اس کا سزاوار
ارشادِ نبی ہے اسے دو اور نہ آزار
مہلت کا ہو طالب تو مناسب نہیں انکار

مارو نہ تبر سے اسے نہ گرزِ گراں سے
سینے کو نہ مجروح کرو تیر و سناں سے


گر بھائی بہن کے ہو وہ دیدار کا خواہاں
دکھلا دو بلا کر تو کرو پھر اسے بے جاں
سن لو جو وصیّت کرے وہ مردِ مسلماں
گھر اس کا پسِ مرگ نہ لوٹو کسی عنواں

پڑھنے دو نماز اس کو جو وقت آئے ادا کا
نرمی تمھیں لازم ہے کہ بندہ ہے خدا کا


پیاسا ہو تو پانی اسے منگوا کے پلاؤ
ہر عضو سے خون اس کا زمیں پر نہ بہاؤ
سو جائے تو ہر گز بہ خشونت نہ جگاؤ
اک ضرب سوا اور اسے ضربت نہ لگاؤ

مر جائے تو مرقد میں دھرو لاش کو اس کی
گھوڑوں سے نہ پامال کرو لاش کو اس کی


فریاد ہے شبّیر پہ کچھ رحم نہ آیا
سرتاجِ فلک احمدِ مختار کا جایا
بے جرم و گنہ پر نہ تَرَس ایک نے کھایا
مرتے ہوئے قطرہ بھی نہ پانی کا پلایا

مانگا کیے خود خاک پہ سر دھرنے کی مہلت
سیّد کو نہ دی سجدۂ رب کرنے کی مہلت


دیکھا دمِ آخر نہ بہن کو نہ پسر کو
ہلنے نہ دیا شمر نے زھرا کے قمر کو
ناموسِ نبی سامنے پیٹا کیے سر کو
کن سختیوں سے ذبح کیا تشنہ جگر کو

دَب دَب کے لہو نور کے آئینے سے نکلا
دم شمر کے زانو کے تلے سینے سے نکلا
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 2

(گزشتہ سے پیوستہ)


جب کٹ گیا حلقِ پسرِ حیدرِ کرّار
خوش ہو کے پکارا پسر سعد جفا کار
اتریں ابھی گھوڑوں سے نہ سب فوج کے اسوار
پیدل بھی ابھی اپنی کمر کھولیں نہ زنہار

قتلِ شہِ بے کس کا صلا دینا ہے مجھ کو
اک کام ابھی اور ہے وہ لینا ہے مجھ کو


جو لوگ ادھر ہیں قدم آگے نہ بڑھائیں
جو آگے ہیں غول اپنے وہ اس سمت کو لائیں
جو میسرہ پر ہیں وہ سوئے میمنہ جائیں
اور میمنہ والے طرَفِ میسرہ آئیں

سب فوج پہ جب یہ ہوئی تاکید شقی کی
پامال ہوئی لاش حسین ابنِ علی کی


بشّاش چلا شمر لعیں جانبِ لشکر
اک ہاتھ میں سر شاہ کا اور ایک میں خنجر
پُر نور تھا چہرہ صفَتِ مہرِ مُنوّر
خوں حلقِ بریدہ سے ٹپکتا تھا زمیں پر

رخساروں پہ زخمِ تبر و تیر پڑے تھے
ماتھے پہ اسی طرح کئی تیر گڑے تھے


عمّامہ نہ تھا فرق پہ، عریاں تھا سرِ پاک
اور دونوں طرف گیسؤوں میں جم گئی تھی خاک
پُر آب تھی چشمِ پسرِ سیّدِ لولاک
ابروئے مُطہّر کئی جا تیغوں سے تھے چاک

خُوں جم گیا تھا ریشِ امامِ دو سرا میں
سوکھے ہوئے لب ہل رہے تھے ذکرِ خدا میں


بجنے لگے باجے ظفر و فتح کے جس دم
آپس میں گلے ملنے لگے فوج کے اظلم
خیمے سے نکل آئی ادھر زینبِ پُر غم
فریاد جو کی ہلنے لگے عرشِ مُعظّم

عُریاں سرِ زھرا و پیمبر نظر آیا
آگے جو بڑھی لاشۂ بے سر نظر آیا


سر پیٹ کے چلّائی کہ ہے ہے مرا بھائی
جیتی رہی میں، لُٹ گئی امّاں کی کمائی
بھیّا ہوئی کس وقت سر و تن میں جدائی
ناشاد بہن آپ تک آنے بھی نہ پائی

کیا قہر ہے وقفِ الم و یاس نہ ہوں میں
کٹ جائے گلا آپ کا اور پاس نہ ہوں میں


کیا گزری تہہِ تیغِ جفا ہائے برادر
یہ ذبح کی ایذا و بلا ہائے برادر
تنہائی میں صدمہ یہ سہا ہائے برادر
دی تم نے بہن کو نہ صدا ہائے برادر

نازک یہ گلا کون سے خونخوار نے کاٹا
آئی یہ صدا شمرِ ستم گار نے کاٹا


پُوچھا کہ دیا تھا دمِ آخر تمھیں پانی
فرمایا کہ اب تک نہ بجھی تشنہ دہانی
چلّائی وہ ناشاد بصد اشک فشانی
تھا پاس کوئی اے اسد اللہ کے جانی

تنہا ستم ایجادوں کے حلقے میں پڑے تھے
فرمایا کہ نانا مرے پہلو میں کھڑے تھے


بے چین مری روح ہے آنسو نہ بہاؤ
سر ننگے خدا کے لیے بلوے میں نہ آؤ
گھر لُوٹنے فوج آتی ہے اب خیمے میں جاؤ
گوشہ کوئی مل جائے تو بچّوں کو چھپاؤ

بیدردوں کے ہاتھوں سے نہ دکھ پائے سکینہ
ڈر ہے نہ کہیں سہم کے مر جائے سکینہ
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 2

(گزشتہ سے پیوستہ)

کیوں چرخ یہ حال اس کا جو ہو خلق کا والی
اک چاند پہ امڈی یہ گھٹا ظلم کی کالی
وہ ناوکِ دلدوز، وہ جسمِ شہِ عالی
حلقہ کوئی جوشن کا نہیں تیر سے خالی

طاری ہے غشی، دل کو سنبھالا نہیں جاتا
اک تیر بھی سینے سے نکالا نہیں جاتا


مظلوم مسافر پہ یہ بیداد صد افسوس
اک جان ہزاروں ستم ایجاد صد افسوس
ٹوٹے ہوئے ہیں پیاسے پہ جلّاد صد افسوس
شہ کی کوئی سنتا نہیں فریاد صد افسوس

جز نیزہ و تیغ و تبر آتا نہیں کوئی
فرزندِ محمد کو بچاتا نہیں کوئی


بے حال ہیں رہوار پہ آقائے خوش اوقات
بند آنکھیں ہیں، خوں بہتا ہے، کی جاتی نہیں بات
سر پیٹتے ہیں اہلِ حرم لٹتے ہیں سادات
حامی نہیں کوئی، کوئی پرساں نہیں، ہیہات

حالِ شہ، آوارہ وطن دیکھ رہی ہے
تلواروں میں بھائی کو بہن دیکھ رہی ہے


لو خاک پہ گھوڑے سے گرے سبطِ پیمبر
تھرّائی زمیں ہلنے لگا عرشِ منوّر
سر پیٹتی مقتل کو چلی زینبِ مضطر
یاں شمر ستم گار بڑھا کھینچ کے خنجر

سر ننگے نجف سے شہِ مرداں نکل آئے
مرقد سے نبی چاک گریباں نکل آئے


چلّائے ملائک کہ قیامت ہوئی برپا
گھبرا کے درختوں سے اُڑے طائرِ صحرا
آندھی ہوئی اک غرب کی جانب سے ہویدا
تھرّانے لگے کوہ، ابلنے لگے دریا

تیرہ ہوا دن، اُڑنے لگی خاک جہاں میں
غل، ہائے حسینا کا اٹھا کون و مکاں میں


اس حشر میں احمد کی نواسی کا یہ تھا حال
گرتی تھی کبھی، اٹھتی تھی گہ، کھولے ہوئے بال
چلّاتی تھی سر پیٹ کے اے فاطمہ کے لال
ہے ہے تمھیں تلواروں میں گھیرے ہیں بد افعال

کیا کیا مجھے صدمہ یہ جدائی نہیں دیتی
لاش آپ کی زینب کو دکھائی نہیں دیتی


بھیّا مجھے رستہ نہیں ملتا کدھر آؤں
کیونکر تمھیں جلّادوں کے پنجہ سے چھڑاؤں
بھیّا تمھیں اس بھیڑ میں کس طرح سے پاؤں
سب قتل ہوئے بہرِ مدد کس کو بلاؤں

کیا ہے کہ جو بابا کی سواری نہیں آتی
بھیّا مجھے آواز تمھاری نہیں آتی


لی جن سے زمیں مول انھیں لوگوں کو بلاؤ
میں کس کو پکاروں کہ ترَس بھائی پہ کھاؤ
اے اہلِ زراعت تمھیں امداد کو آؤ
لٹتے ہوئے کنبے کو محمد کے بچاؤ

کام آؤ غریبوں کے تو احساں ہے تمھارا
یہ بے وطن اس دشت میں مہماں ہے تمھارا


شہ نے جو سنی زاریِ زینب تہِ خنجر
گھبرا کے صدا دی کہ ادھر آؤ نہ خواھر
کہا قہر ہے تم رن میں چلی آئیں کُھلے سر
مشغول ہے امّت کی دعا میں یہ برادر

مطلوب رضا مندیِ معبود ہے زینب
تنہا نہیں، اللہ تو موجود ہے زینب


کس طرح اٹھیں، سینۂ زخمی پہ ہے جلّاد
نانا مجھے گودی میں لیے کرتے ہیں فریاد
امّاں مرے پہلو میں ہیں اے زینبِ ناشاد
روتے ہیں مرے بھائی بھی یہ دیکھ کہ بیداد

گریاں و حزیں خاصۂ قیّوم کھڑے ہیں
بابا بھی سرھانے مرے مغموم کھڑے ہیں


یہ سنتے ہی دوڑی طرَفِ لاش وہ مضطر
چلّائی کہ ہمشیر بھی آتی ہے برادر
لاشے پہ نہ پہنچی تھی کہ برپا ہوا محشر
دیکھا کے لیے جاتا ہے قاتل سرِ سرور

سب تیر اسی طرح سے سینہ میں گڑے ہیں
بے سر شہِ دیں خاک پہ مقتل میں پڑے ہیں


ہاں پیٹ کے سر روئیں وہ جو اہلِ عزا ہیں
یاں احمدِ مختار بھی سرگرمِ بکا ہیں
مقتل میں کُھلے سر حرَمِ شیرِ خدا ہیں
خاک اڑتی ہے، جنباں طبقِ ارض و سما ہیں

سر کٹ چکا لختِ دلِ زھرا و علی کا
اب لٹتا ہے ملبوسِ کہن سبطِ نبی کا


عمّامۂ پُر خوں لیے جاتا ہے کوئی آہ
بھاگا ہے کوئی لے کے عبائے شہِ ذی جاہ
ہاتھوں سے قبا کھینچ رہا ہے کوئی گمراہ
عُریاں ہے زمیں پر تنِ فرزندِ یدُاللہ

اب لشکرِ کیں لاش کو پامال کرے گا
بعد اس کے ستم ہاتھوں پہ جمّال کرے گا


خاموش انیس اب کہ نہیں طاقتِ تحریر
عالم جسے روتا ہے وہ مظلوم ہے شپّیر
خالق سے دعا مانگ کہ اے مالکِ تقدیر
دکھلا مجھے آنکھوں سے مزارِ شہِ دلگیر

محسوب ہوں زوّارِ امامِ دو سرا میں
مر جاؤں تو مدفن ہو جوارِ شُہَدا میں

(ختم شد مرثیہ نمر 2)

الحمدللہ کہ دوسرا مرثیہ بھی مکمل ہوا، اس مرثیے میں کل 212 بند (636 اشعار) ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 3

(یا رب عروسِ فکر کو حُسن و جمال دے)


یا رب عروسِ فکر کو حُسن و جمال دے
مُلکِ سخنوری کو دُرِ بے مثال دے
رنگینیٔ کلام کو سحرِ حلال دے
آئے قمر کو رشک وہ اوجِ کمال دے

گُلکاریاں کروں جو مضامیں کے باغ میں
پھولوں کی بُو بہشت سے آئے دماغ میں


ہاں اے زباں روانیِ طبعِ رسا دکھا
دریائے فکر کے گُہَرِ بے بہا دکھا
اس معرکہ میں جوھرِ سیفِ خدا دکھا
تصویرِ رزمِ قاسمِ گلگوں قبا دکھا

شُہرت ریاضِ دہر میں ہو چار سُو مری
بلبل بھی سن کے وجد کرے گفتگو مری



مطلعِ ثانی
جب رن میں زر فشاں وَرَقِ آسماں ہوا
پنہاں نظر سے حُسنِ رُخِ کہکشاں ہوا
ہر سُو فروغِ نُور سے روشن جہاں ہوا
اسلام کی سپاہ میں شورِ اذاں ہوا

رُو پوش ہو گیا مہِ تاباں حجاب سے
ذرّے نظر لڑانے لگے آفتاب سے


پردے سے آسماں کے جو طالع ہوئی سَحَر
مشغولِ ذکرِ حق ہوئے صحرا کے جانور
کوسوں سما تھا نور کا بالائے خشک و تر
سجدے میں جھک گئے تھے نہالانِ باروَر

جھونکے نسیمِ صبح کے بھی سرد سرد تھے
ذرّوں میں یہ چمک تھی کہ ہیرے بھی گرد تھے


ڈُوبا تھا اپنے رنگ میں ہر گُل جدا جدا
پُھولا تھا ہر طَرَف چَمَنِ قدرَتِ خدا
سبزہ وہ اس کچھار کا، صحرا کی وہ فضا
گویا زمرَّدیں تھا بیابانِ کربلا

تھا ہر طَرَف شَفَق کا گماں لالہ زار سے
جانیں لڑی ہوئی تھیں عروسِ بہار سے


جنّت پہ طعنہ زن چَمَنِ روزگار تھا
پھولوں کی ڈالیوں پہ بھی جوشِ بہار تھا
پر بلبلوں کو خندۂ گل ناگوار تھا
یعنی وہ شورِ قتلِ شہِ نامدار تھا

شبنم جو روئی غم میں شہِ دل ملول کے
موتی بھرے ہوئے تھے کٹوروں میں پھول کے


ظاہر ہوئی سَحَر کی سفیدی جو ایک بار
نکلے درِ خیام سے سلطانِ نامدار
ہمشکلِ مصطفیٰ نے اذاں دی بحالِ زار
باندھیں صفیں سبھوں نے بصد عزّ و افتخار

اس دم زباں پہ تھا یہ ہر اک دل ملول کی
یہ آخری نماز ہے سبطِ رسول کی


بے مثل تھی جماعتِ شاہِ فَلَک سریر
ہنس ہنس کے دیکھتا تھا جوانوں کو چرخِ پیر
کیونکر نہ ہوں وہ جرأت و ہمّت میں بے نظیر
پیرو تھے اسکے جس نے پیا فاطمہ کا شیر

ہر دم سُوئے امامِ غریباں نگاہ تھی
پیاسے تو تھے پہ یُوسُفِ زھرا کی چاہ تھی


وہ دبدبہ، وہ رعب و حَشَم، وہ شکوہ و شان
سوکھے لبوں پہ شکرِ خداوندِ دو جہان
ہر وقت بس اسی کا تصوّر، اسی کا دھیان
ہو جائیں ہم نثارِ شہنشاہِ انس و جان

آقا پہ تھا جو غم تو خوشی ناپدید تھی
الفت ہے اسکا نام کہ مرنے کی عید تھی
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 3

(گزشتہ سے پیوستہ)


رضواں پکارتا تھا یہ جنّت میں بار بار
آؤ مجاہدو کہ سحر سے ہے انتظار
دیکھو یہ باغِ خلد یہ میوے یہ سبزہ زار
یہ حُلّۂ بہشت یہ کوثر یہ لالہ زار

حُبّ ِ حُسین ہے جو تمھاری سرشت میں
دیکھو دیے خدا نے یہ رتبے بہشت میں


حق نے عطا کئے ہیں تمھیں اسطرح کے گھر
جن میں جڑے ہیں لعل کہیں اور کہیں گُہَر
میوے وہ خوشگوار وہ پھولے پھلے شجر
چھایا ہوا وہ سایۂ طُوبیٰ اِدھر اُدھر

نہریں بھی لہریں لیتی ہیں کوثر کے ذوق میں
آنکھیں حباب دیر سے کھولے ہیں شوق میں


حُوروں میں غُل یہ ہے کہ وہ صفدر کب آئیں گے
مضطر ہے دل، حُسین کے یاور کب آئیں گے
پیاسے ہزبر جانبِ کوثر کب آئیں گے
جانیں لڑی ہوئی ہیں وہ گوہر کب آئیں گے

ہاتھوں میں ظرف سُرخ کہیں سبز فام ہیں
چھلکے ہوئے شرابِ طَہُورا کے جام ہیں


فارغ ہوئے نماز سے جب سبطِ مصطفیٰ
خالق سے ہاتھ اٹھا کے یہ کرنے لگے دعا
اے دستگیرِ بے کس و محتاجِ بے نوا
کٹ جائے آج خنجرِ برّاں سے یہ گلا

اترے یہ بارِ دوش تو راحت ہو چین ہو
ہاتھوں پہ سر دھرے ہوئے حاضر حُسین ہو


اعدا کے جو ستم ہیں وہ تجھ سے نہاں نہیں
راحت سے ایک دم کوئی تشنہ دہاں نہیں
صحرا میں شورِ قتل ہے گھر میں اماں نہیں
جاؤں کدھر یہ نرغۂ اعدا کہاں نہیں

ہے قحطِ آب فاطمہ زھرا کے لال پر
ٹکڑے جگر کے ہوتے ہیں بچوں کے حال پر


کیا منہ بشر سے وصف جو ہوئیں ادا ترے
غربت میں لطف عام ہیں صبح و مسا ترے
اشفاق ہیں پدر سے فزوں کبریا، ترے
بچّوں پہ کون رحم کرے گا سوا ترے

خوش ہوں پسر جو زیورِ آہن میں غرق ہو
رسّی میں ہو گلا پہ نہ ہمّت میں فرق ہو


یا رب جہاں میں آلِ پیمبر کو صبر دے
کلثوم کو، حُسین کی دختر کو صبر دے
چادر چھنے تو زینبِ بے پر کو صبر دے
ہر اک گھڑی میں عابدِ مضطر کو صبر دے

ہر حال میں تجھ ہی پہ ہے تکیہ فقیر کا
حافظ ہے تُو بلا میں یتیم و اسیر کا


صابر ہے ہر مہم میں رسولِ خدا کا لال
صدقے ہیں تیری راہ میں اطفالِ خورد سال
راضی ہوں میں اسیر ہو گر فاطمہ کی آل
کچھ غم نہیں کھلیں بھی جو سیدانیوں کے بال

زنداں میں بیٹیاں ہوں جنابِ بتول کی
لیکن رہا ہو نار سے امّت رسول کی


فارغ ہوئے دعا سے جو سلطانِ ذی وقار
اس وقت ہاتھ جوڑ کے بولے یہ جاں نثار
آتے ہیں تیر لشکرِ اعدا سے بار بار
اب اذنِ جنگ دیجیے یا شاہِ نامدار
(اس بند کا آخری شعر اصل کتاب کرم خوردہ ہونے کی وجہ سے شائع نہیں ہوا)
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 3

(گزشتہ سے پیوستہ)


مولا دلوں کو تاب نہیں اب خدا گواہ
گھیرے ہے چار سمت سے اعدا کی سب سپاہ
باجوں کا شور ہوتا ہے، ہلتی ہے رزم گاہ
بڑھ بڑھ کے مورچوں سے ڈراتے ہیں روسیاہ

گر حکم ہو تو فوجِ ستم سے وغا کریں
ایسا نہ ہو کہ بے اَدَبی اشقیا کریں


فوجِ گراں ادھر ہے تو ہو، کچھ نہیں ہے غم
سب باگیں پھیر لیں گے جو تیغیں ہوئیں عَلَم
کب تک سنیں کلامِ درشت ان کے دمبدم
کچھ انتہا بھی ظلم کی ہے یا شہِ اُمَم

مغرور و بے حیا سِپَہِ بے شعور ہے
مولا اب انکی چشم نمائی ضرور ہے


بولے یہ سن کے حضرتِ عبّاس نیک خُو
سنتے ہیں کچھ حضور دلیروں کی گفتگو
اللہ رے عزّ و شانِ جوانانِ ماہ رُو
دریا بہے گا آج لہو کا کنارِ جُو

لشکر پہ جا پڑیں گے ارادے یہ سب کے ہیں
چتوَن جو قہر کی ہے تو تیور غضب کے ہیں


ایک ایک سرفروش ہے ایک ایک جاں نثار
تکتے ہیں چشمِ غیظ سے اعدا کو بار بار
ڈر ہے گلوں پہ پھیر نہ لیں تیغِ آبدار
بہتر ہے اب کہ ان کو ملے حکمِ کارزار

دم بھر قرار شاق ہے دنیائے زشت میں
جلدی انہیں یہی ہے کہ پہنچیں بہشت میں


بولے بہا کے اشک شہنشاہِ کربلا
بھیّا کسے ملے ہیں یہ انصارِ با وفا
شکوہ نہ پیاس کا ہے نہ فاقوں کا کچھ گِلا
کیونکر انھیں میں برچھیاں کھانے کی دوں رضا

تیغِ الم سے میرا جگر چاک چاک ہے
چھوٹے جو یہ رفیق تو دنیا پہ خاک ہے


دیکھے، یہ دل کسی کے نہ پتّے نہ یہ جگر
پر حیف اب بچھڑتے ہیں یہ غیرتِ قمر
کچھ بس نہیں کھڑے ہیں یہ باندھے ہوئے کمر
اچّھا خوشی ہے ان کی تو جائیں کٹائیں سر

چھوڑیں اکیلا فاطمہ کے نورِ عین کو
ہیں آج سب کے داغ اٹھانے حُسین کو


خوش ہو گئے یہ سن کے رفیقانِ شاہِ دیں
جانے لگا جہاد کو اک ایک مہ جبیں
ایسے لڑے سپاہ سے وہ ناصرانِ دیں
ہتھیار پھینک پھینک کے بھاگے سب اہلِ کیں

نہ وہ صفیں نہ مجمعِ مردم تھا گھاٹ پر
خشکی میں ابتری تھی تلاطم تھا گھاٹ پر


کس کس بہادری سے لڑے عاشقِ امام
اللہ رے حرب درہم و برہم تھی فوجِ شام
لیکن کہاں چھ لاکھ کہاں چند تشنہ کام
کھا کھا کے زخم مر گئے آخر وہ لالہ فام

ایذا تھی دھوپ میں جو تنِ پاش پاش کو
جا کر حُسین لاتے تھے ایک ایک لاش کو
 
Top