امجد میانداد
محفلین
آج تک مجھے یہ بات سمجھ نہیں آسکی کہ کسی کو بھی فون پہ ذلیل کرنے کا کیا تک بنتا ہے جب کہ آپ اس کو جانتے بھی نہیں اور اگر جانتے بھی ہیں تو اگلے بندے کو آپ کو جاننے میں دلچسپی نہیں ہے یہ کوئی خاص تکلیف اٹھتی ہے ہمارے معاشرے کے مردوں کو؟ کیا یہ صرف ہمارے معاشرے میں ہی ہے یا پھر ہر جگہ ہی بندوں کا یہی حال ہے ۔ گزشتہ چند روز سے ایک دوست کو ایک رانگ نمبر سے میسجز اور کالز وغیرہ موصول ہو رہی تھیں ایک تو وہ خود بھی ایک فضول چیز ہے اتنی سے بات پہ پریشان ہو کر تین دن سے اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ میری کو بھی عذاب بنا ڈالا اس نے۔ اب ایک بندہ اس کو میسجز کر رہا ہے فضول سے ، گھٹیا شاعری اور وہ سارے مجھے فاروڈ کر رہی تھی ایک تو مجھے کرنے والے پہ غصہ، پھر مجھے فاروڈ کرنے والی پہ غصہ اور پھر فراز و محسن کی بے حرمتی پہ خون کھولتا رہا۔ اور اس سارے میں میں ہماری قوم کے سپوتوں کی مستقل مزاجی کی تو داد دینی پڑے گی۔ یار کسی کا ذہنی سکون برباد کرنے کی کیا ضرورت ہے دل تو میرا کر رہا ہے کہ رج کے گالیاں دوں اس کو یہاں لیکن ۔۔۔ ۔ مجھے دو تین کے علاوہ آتی نہیں ہیں اور انگریزی گالی ان جیسوں کو لگتی نہیں ہے۔ ویسے کیا کبھی کسی کو کسی لڑکی نے اس طرح تنگ کیا کبھی؟ لڑکوں کو کیا تکلیف ہے بھئی؟ اگنور کرنے کے علاوہ اس مسئلے کا کوئی اور حل آپ لوگوں کی نظرمیں ہے تو مجھے بھی بتا دیں ۔ ویسے مختلف نیٹ ورکس کی کال بلاکس سروسز بھی زبردست ہیں لیکن یہ کوئی پائدار حل تو نا ہوا۔ ویسے عورتوں کوچاہیے منتوں مرادوں سے بیٹے مانگنے چھوڑدیں میرے خیال میں یہ معاشرے کے لیے ذلالت مانگنے کے برابر ہے موجودہ دور کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے۔ پتا نہیں اس طرح کی حرکتیں کر کے ہمارے معاشرے کے خداؤں کو کون سی تسکین ملتی ہے؟
ایک تو ان محترمہ کو اگر فون دیا گیا ہے تو اعتماد بھی دیا جانا چاہیے تاکہ وہ ایسی پریشانی کا گھر والوں سے اظہار کر سکیں، یہاں اسلام آباد میں تو ایک دو کیسز میں دیکھا ہے کہ 15 والے ایسے معاملات سے بہت اچھے نمٹتے ہیں۔
دوسرا طریقہ یہ کہ اتنا گھبرانے کی ضرورت نہیں، طریقے سے نمٹا جائے، فون ہر بار اٹینڈ کر لیا جائے، مائک میوٹ کر کے۔
تیسرا طریقہ فون کے اندر بھی کالر بلاک کا سسٹم ہوتا ہے جس سے کسی مخصوص نمبر سے کال اور ایس ایم ایس بلاک کیے جا سکتے ہیں
چوتھا طریقہ آپ کی فون کمپنی بھی آپ کے لیے ایسے مطلوبہ نمبرز سے کال اور ایس ایم ایس بلاک کرتی ہے۔
پانچواں اگر وہ محترمہ خود فون کا غلط استعمال نہیں کرتیں تو اس کا بہترین حل یہ ہے کہ کچھ دنوں کے لیے اپنی سم اپنے کسی بھائی، والد، چچا، ماموں، کزن کسی کو بھی جس پہ اعتماد ہو اس کو دے دیں، اور جب اس بندے کو ہر بار مرد کا سامنا کرنا پڑے گا تو باز آ جائے گا۔ (یہ طریقہ 100٪ آزمایا ہوا اور کار آمد ہے)۔
چھٹا طریقہ فون کمپنی کو شکایت کی جائے، اور پی ٹی اے کو سی سی میں رکھ کے ایک ای میل کر دی جائے۔
اب آتا ہوں آپ کی بد تمیزی کی طرف:
ویسے عورتوں کوچاہیے منتوں مرادوں سے بیٹے مانگنے چھوڑدیں میرے خیال میں یہ معاشرے کے لیے ذلالت مانگنے کے برابر ہے موجودہ دور کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے۔ پتا نہیں اس طرح کی حرکتیں کر کے ہمارے معاشرے کے خداؤں کو کون سی تسکین ملتی ہے؟
دیکھیں عورتوں کے پاس فون، انٹرنیٹ، جابز، شخصی آزادی جیسی چیزیں مردوں کی نسبت دیر سے پہنچی، اس لیے پہلے ان سے مردوں نے ہر طرح کا فائدہ اٹھایا، لیکن جیسے جیسے عورتوں کو یہ سہولیات ملتی گئیں تو انہوں نے کہیں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی،
جب موبائل فون نہیں تھے تو کوئٹہ جیسے سخت ماحول میں مجھے پی ٹی سی ایل نمبر پہ لڑکیوں کی رونگ کالز آتی تھیں، اور کئی ایک نے تو بہت پریشانی بھی کھڑی کی اور ایک بار تو جب میں نے سی ایل آئی پہ نمبر دیکھ کر کال بیک کر کے گھر کے مرد کو کھری کھری سنائیں تو اسے غصہ آ گیا اور ہماری تکرار دوسرے فون سے ابو نے سن لی اور انہوں نے میرے کمرے سے فون ہی اکھاڑ پھینکا۔
اسی طرح ایک اور جاننے والی محترمہ نے بہت پریشان کیے رکھا اور پتہ نہیں چلتا تھا کہ پریشان کرنے والا کون ہے۔
پھر موبائل آنے کے بعد بھی یہی حال رہا اور اتنا تنگ بھی ہوا میں کہ اپنا گولڈن نمبر ہی امی کو دے دیا جو آج بھی ان کے استعمال میں ہے۔
شادی کے بعد کئی بار ازدواجی تعلقات پہ اثر پڑا رونگ کالز کا، اب بتائیں رات کو ایک دو بجے اگر فون آئے لڑکی کا بہلے میں بولوں نا رونگ نمبر اور بی بی آپ کیوں پریشان کرتی ہیں یا گالیاں بھی دے لوں اور بیوی کو اعتماد بھی ہو پر اثر تو پڑتا ہے نا۔
مجھے اسقدر پریشانی ہے رونگ نمبرز کی کے میں پہلے بیگم کے کونٹیکٹ لسٹ میں نمبر چیک کرتا ہوں پھر سب رشتہ داروں سے پوچھتا ہوں اور پھر سر نوچتا ہوں، یہاں تک کیا کہ پریشان کرنے والیوں کے نمبرز اپنے فارغ دوستوں کو بھی دئیے پر مجال ہے فرق پڑا ہوں ہاں خود کو ہی احساسِ شرمندگی ہوتا رہتا ہے پھر۔
اب بتائیں میں عورتوں کی بے عزتی کرنی شروع کر دوں اور ان کی پیدائش کو ذلالت کے میں شمار کروں، جن میں میری ماں میری جنت، میری راحت کا ساماں سی بہنیں، میری شریکِ حیات، اور مجھے عطا کی گئی پھول سی رحمتیں بھی شامل ہیں،
گندے کیڑے ہر معاشرے، ہر مذہب، ہر جنس اور ہر ملک اور قوم میں موجود ہوتے ہیں پر اس سے سب پہ کیچڑ نہیں اچھالنی چاہیے۔