مرد و عورت کے بیچ یادداشت کی صلاحیت میں عدم فرق اور عورت کی ناقص العقلی کا معمہ

محمد سعد

محفلین
کل عورت کی گواہی آدھی ہونے کے حوالے سے کوئی پوسٹ نظر سے گزری۔ اس میں کوئی صاحب اس کی وجہ عورت کی یادداشت کا ناقص ہونا بتا رہے تھے۔ پوسٹ کی جزئیات تو اب یاد نہیں لیکن اس کی وجہ سے اٹھنے والا سوال ذہن میں رہ گیا۔ میں چونکہ عالم دین تو نہیں ہوں چنانچہ اس نکتہ نظر سے جو بات ہے وہ میں نہیں جانتا۔ البتہ جہاں تک یادداشت کی صلاحیت میں کسی قسم کے فرق کی بات ہے تو اس دعوے کو خالصتاً سائنسی طریقے سے اکٹھے کیے گئے ڈیٹا کی مدد سے پرکھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اس کے حوالے سے کچھ تلاش کی۔
تلاش کے نتیجے میں جو نتائج سامنے آئے، ان کا خلاصہ کرنے کے لیے کچھ ریسرچ پیپرز کے اقتباسات پیش کر رہا ہوں۔

[1]
There were no differences between men and women with regard to age or education, or on a measure of global intellectual functioning. As has been demonstrated previously, men outperformed women on a visuospatial task and women outperformed men on tests of verbal fluency. In addition, the results demonstrated that women consistently performed at a higher level than did men on the episodic memory tasks, although there were no differences between men and women on the tasks assessing semantic memory, primary memory, or priming.
-
Herlitz, A., Nilsson, L.-G., & Bäckman, L. (1997). Gender differences in episodic memory. Memory & Cognition, 25(6), 801–811. https://doi.org/10.3758/BF03211324
---

[2]
These results are in general accordance with the view that males and females differ in the cognitive strategies they use to process information. Specifically, they could differ in their abilities to maintain information over interference and in the processing of the intrinsic contextual attributes of items, respectively, associated with the modulation of two anterior components. These interpretations lend support to the view that processing in females entails more detailed elaboration of information content than in males. Processing in males is more likely driven by schemas or overall information theme.
-
Guillem, F., & Mograss, M. (2005). Gender differences in memory processing: Evidence from event-related potentials to faces. Brain and Cognition, 57(1), 84–92. Redirecting
---

[3]
After writing out advice, on a surprise memory test women recalled more emotional information than men in all focus conditions with no deficit in neutral recall. Women recalled more neutral information than men in the neutral focus condition. A measure of emotional sensitivity mediated the gender difference in emotional recall suggesting that memory for emotional information is not solely a function of gender.
-
Bloise, S. M., & Johnson, M. K. (2007). Memory for emotional and neutral information: Gender and individual differences in emotional sensitivity. Memory, 15(2), 192–204. https://doi.org/10.1080/09658210701204456
---

[4]
On the behavioral level, there were no significant gender differences in memory performance or emotional intensity of memories. [...] The data show gender‐related differential neural activations within the network subserving autobiographical memory in both genders. We suggest that the differential activations may reflect gender‐specific cognitive strategies during access to autobiographical memories that do not necessarily affect the behavioral level of memory performance and emotionality.
-
Piefke, M., Weiss, P. H., Markowitsch, H. J., & Fink, G. R. (2005). Gender differences in the functional neuroanatomy of emotional episodic autobiographical memory. Human Brain Mapping, 24(4), 313–324. https://doi.org/10.1002/hbm.20092
---​

جیسا کہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے، حقیقی دنیا کا ڈیٹا عورت کو یادداشت کے معاملے میں کسی طرح سے کمتر ظاہر نہیں کر رہا۔ یادداشت کی کارکردگی میں مجموعی طور پر کوئی قابل ذکر فرق نہیں دیکھا گیا۔ نیورولوجیکل سطح پر دونوں کی یادداشت کو پراسیس کرنے کی سٹریٹجی میں فرق ہے لیکن عملی طور پر اس سٹریٹجی کی وجہ سے کارکردگی پر کوئی فرق نہیں آتا۔

ایسے میں یہ سوال میرے لیے ایک معمہ ہی ہے کہ عورت کے ناقص العقل ہونے اور اس کی یادداشت کے ناقابل اعتبار ہونے پر اتنا شدید اصرار کیوں کیا جاتا ہے۔
 

La Alma

لائبریرین
یادداشت کا تعلق بار بار دہرائے جانے والے عمل سے بھی ہوتا ہے۔ جو چیزیں آوٹ آف پریکٹس ہو جائیں وہ جلد بھول جاتی ہیں۔ یادداشت میں ایک بہت بڑا کردار sphere of interest کا بھی ہے۔ جن چیزوں میں دلچسپی کم ہو، وہ نسبتًا ذہن سے جلد محو ہو جاتی ہیں۔ ضروری نہیں اچھی یاد داشت کا تعلق عقل اور ذہانت سے ہی ہو۔
خاص طور پر اعداد کو یاد رکھنا دیگر چیزوں یا واقعات کو یاد رکھنے کی نسبت قدرے مشکل ہے۔ روزمرہ زندگی سے ہی مثال لے لیجئے۔ کچھ عرصہ قبل زیادہ تر لوگوں کو اپنے عزیز و اقارب کے فون نمبر زبانی یاد ہوتے تھے۔ جب سے فون کی میموری میں نمبر save کرنے کی سہولت میسر ہوئی ہے، اکثر لوگوں کو دوسروں کی تو چھوڑیے، اپنا نمبر بھی یاد نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ لوگ اب ناقص العقل ہو گئے ہیں بلکہ نمبر یاد رکھنا اب پریکٹس میں نہیں رہا۔
یہی معاملہ صرف ایک خاص صورت میں ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کی گواہی کا ہے۔ اس کے پیچھے کوئی gender discrimination نہیں بلکہ صرف اور صرف مخصوص حالات میں قرض دار کے تحفظات کو دور کرنا ہے۔
جب دو اہل لوگ آپس میں کوئی لین دین یا کاروباری معاہدہ کرتے ہیں تو وہ خود دیکھ بھال کر سارے معاملات طے کرتے ہیں اور وہ اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ دھوکہ یا فراڈ ہونے کا چانس قدرے کم ہوتا ہے۔ لیکن ایسا شخص جو اپنے کاروباری معاملات یا لین دین کے لیے کسی دوسرے شخص کا محتاج ہوتا ہے۔ اس کا رسک فیکٹر بڑھ جاتا ہے۔ اب یہ دوسرے شخص کی نیت پر ہے کہ وہ اس کے behalf پر کیا ایگریمنٹ کرتا ہے۔ ایسی صورت میں گواہان کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے۔ اگر گواہان کا واسطہ ایسے کاروباری معاملات یا لین دین سے گاہے بگاہے پڑتا رہتا ہو تو امید کی جاسکتی ہے کہ ان کے تجربے کی وجہ سے مذکورہ شخص کے مفادات پر کوئی ضرب نہیں آئے گی۔
قرآن میں جس مقام پر ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کی گواہی کا بیان ہے وہاں بھی یہی صورتحال درپیش ہے۔ چونکہ خواتین کی اکثریت کی پریکٹس میں ایسے کاروباری حساب کتاب نہیں ہوتے، اور زیادہ تر دلچسپی کا بھی فقدان ہوتا ہے تو بہت ممکن ہے کچھ عرصہ بعد فریقین کے درمیان جو معاہدے کی شرائط طے پائی تھیں، وہ ان کے ذہن سے نکل جائیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًى فَاكْتُبُوهُ ۚ وَلْيَكْتُب بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ ۚ وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَن يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ ۚ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا ۚ فَإِن كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لَا يَسْتَطِيعُ أَن يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ ۚ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن رِّجَالِكُمْ ۖ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَن تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَىٰ ۚ ...
"اے ایمان والو! جب تم کسی وقت مقرر تک آپس میں لین دین کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو اور چاہیے کہ تمہارے درمیان لکھنے والا انصاف سے لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اس کو اللہ نے سکھایا ہے سو اسے چاہیے کہ لکھ دے اور وہ شخص بتلاتا جائے کہ جس پر قرض ہے اور اللّہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور اس میں کچھ کم کر کے نہ لکھائے پھر اگر وہ شخص کہ جس پر قرض ہے، بے وقوف ہے یا کمزور ہے یا وہ بتلا نہیں سکتا تو اس کا کارکن ٹھیک طور پر لکھوا دے اور اپنے مردوں میں سے دو گواہ کر لیا کرو پھر اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ان لوگوں میں سے جنہیں تم گواہو ں میں سے پسند کرتے ہو تاکہ اگر ایک ان میں سے بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے .."

مذکورہ صورت کے علاوہ دیگر کسی بھی صورتحال یا موقع پر عورت کی آدھی گواہی کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ خدا کے ہر حکم میں حکمت ہوتی ہے یہ جینڈر جینڈر کا کھیل تو ہم کھیلتے ہیں۔
ویسے جو لوگ اس بات کو بنیاد بنا کر عورت کو ناقص العقل ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کو چیلنج ہے کہ اگر عقل کو یادداشت کی کسوٹی پر ہی پرکھنا ہے تو صرف اپنی بیوی کی سالگرہ کا دن ہی یاد رکھ کر دکھا دیں۔:):):)
 

زیک

مسافر
خاص طور پر اعداد کو یاد رکھنا دیگر چیزوں یا واقعات کو یاد رکھنے کی نسبت قدرے مشکل ہے۔ روزمرہ زندگی سے ہی مثال لے لیجئے۔ کچھ عرصہ قبل زیادہ تر لوگوں کو اپنے عزیز و اقارب کے فون نمبر زبانی یاد ہوتے تھے۔ جب سے فون کی میموری میں نمبر save کرنے کی سہولت میسر ہوئی ہے، اکثر لوگوں کو دوسروں کی تو چھوڑیے، اپنا نمبر بھی یاد نہیں ہوتا۔
چونکہ خواتین کی اکثریت کی پریکٹس میں ایسے کاروباری حساب کتاب نہیں ہوتے، اور زیادہ تر دلچسپی کا بھی فقدان ہوتا ہے تو بہت ممکن ہے کچھ عرصہ بعد فریقین کے درمیان جو معاہدے کی شرائط طے پائی تھیں، وہ ان کے ذہن سے نکل جائیں۔
اس سے کیا یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اگر کسی کے فون نمبر کی گواہی دینی ہو تو کسی بڑی عمر کے شخص کی گواہی دو نوجوانوں کے برابر ہو گی کہ نوجوانوں کو نمبر یاد کرنے کی کبھی ضرورت نہیں رہی؟
 

زیک

مسافر
قرآن میں جس مقام پر ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کی گواہی کا بیان ہے وہاں بھی یہی صورتحال درپیش ہے۔ چونکہ خواتین کی اکثریت کی پریکٹس میں ایسے کاروباری حساب کتاب نہیں ہوتے، اور زیادہ تر دلچسپی کا بھی فقدان ہوتا ہے تو بہت ممکن ہے کچھ عرصہ بعد فریقین کے درمیان جو معاہدے کی شرائط طے پائی تھیں، وہ ان کے ذہن سے نکل جائیں۔
کیا حضرت خدیجہ جو خود کاروبار چلاتی تھیں ان کی گواہی بھی آدھی ہو گی؟ ان کا تو کام ہی تجارت کا تھا دلچسپی اور یادداشت سب کا ہونا لازم تھا۔

یا میرے ساتھ کام کرنے والے خواتین و حضرات کو لے لیں۔ سب ذہین اور اعلی تعلیم یافتہ ہیں اور کام بھی ایک ہی فیلڈ میں کرتے ہیں۔ اس صورت میں کسی بھی کاروباری معاملے میں ایک مرد کی گواہی دو خواتین برابر کیسے اور کیوں ہو گی؟
 

زیک

مسافر
کل عورت کی گواہی آدھی ہونے کے حوالے سے کوئی پوسٹ نظر سے گزری۔ اس میں کوئی صاحب اس کی وجہ عورت کی یادداشت کا ناقص ہونا بتا رہے تھے۔ پوسٹ کی جزئیات تو اب یاد نہیں لیکن اس کی وجہ سے اٹھنے والا سوال ذہن میں رہ گیا۔ میں چونکہ عالم دین تو نہیں ہوں چنانچہ اس نکتہ نظر سے جو بات ہے وہ میں نہیں جانتا۔ البتہ جہاں تک یادداشت کی صلاحیت میں کسی قسم کے فرق کی بات ہے تو اس دعوے کو خالصتاً سائنسی طریقے سے اکٹھے کیے گئے ڈیٹا کی مدد سے پرکھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اس کے حوالے سے کچھ تلاش کی۔
تلاش کے نتیجے میں جو نتائج سامنے آئے، ان کا خلاصہ کرنے کے لیے کچھ ریسرچ پیپرز کے اقتباسات پیش کر رہا ہوں۔

[1]
There were no differences between men and women with regard to age or education, or on a measure of global intellectual functioning. As has been demonstrated previously, men outperformed women on a visuospatial task and women outperformed men on tests of verbal fluency. In addition, the results demonstrated that women consistently performed at a higher level than did men on the episodic memory tasks, although there were no differences between men and women on the tasks assessing semantic memory, primary memory, or priming.
-
Herlitz, A., Nilsson, L.-G., & Bäckman, L. (1997). Gender differences in episodic memory. Memory & Cognition, 25(6), 801–811. https://doi.org/10.3758/BF03211324
---

[2]
These results are in general accordance with the view that males and females differ in the cognitive strategies they use to process information. Specifically, they could differ in their abilities to maintain information over interference and in the processing of the intrinsic contextual attributes of items, respectively, associated with the modulation of two anterior components. These interpretations lend support to the view that processing in females entails more detailed elaboration of information content than in males. Processing in males is more likely driven by schemas or overall information theme.
-
Guillem, F., & Mograss, M. (2005). Gender differences in memory processing: Evidence from event-related potentials to faces. Brain and Cognition, 57(1), 84–92. Redirecting
---

[3]
After writing out advice, on a surprise memory test women recalled more emotional information than men in all focus conditions with no deficit in neutral recall. Women recalled more neutral information than men in the neutral focus condition. A measure of emotional sensitivity mediated the gender difference in emotional recall suggesting that memory for emotional information is not solely a function of gender.
-
Bloise, S. M., & Johnson, M. K. (2007). Memory for emotional and neutral information: Gender and individual differences in emotional sensitivity. Memory, 15(2), 192–204. https://doi.org/10.1080/09658210701204456
---

[4]
On the behavioral level, there were no significant gender differences in memory performance or emotional intensity of memories. [...] The data show gender‐related differential neural activations within the network subserving autobiographical memory in both genders. We suggest that the differential activations may reflect gender‐specific cognitive strategies during access to autobiographical memories that do not necessarily affect the behavioral level of memory performance and emotionality.
-
Piefke, M., Weiss, P. H., Markowitsch, H. J., & Fink, G. R. (2005). Gender differences in the functional neuroanatomy of emotional episodic autobiographical memory. Human Brain Mapping, 24(4), 313–324. https://doi.org/10.1002/hbm.20092
---​

جیسا کہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے، حقیقی دنیا کا ڈیٹا عورت کو یادداشت کے معاملے میں کسی طرح سے کمتر ظاہر نہیں کر رہا۔ یادداشت کی کارکردگی میں مجموعی طور پر کوئی قابل ذکر فرق نہیں دیکھا گیا۔ نیورولوجیکل سطح پر دونوں کی یادداشت کو پراسیس کرنے کی سٹریٹجی میں فرق ہے لیکن عملی طور پر اس سٹریٹجی کی وجہ سے کارکردگی پر کوئی فرق نہیں آتا۔

ایسے میں یہ سوال میرے لیے ایک معمہ ہی ہے کہ عورت کے ناقص العقل ہونے اور اس کی یادداشت کے ناقابل اعتبار ہونے پر اتنا شدید اصرار کیوں کیا جاتا ہے۔
اچھے پیپر ڈھونڈ کر لائے ہیں آپ۔ بہت شکریہ
 

زیک

مسافر
عورت عورت میں فرق ہوتا ہے اور مرد مرد میں فرق ہوتا ہے
جی یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ گواہی اور گواہ کو دیکھا جائے گا کہ اس کی دلچسپی، یادداشت، مفاد، کردار وغیرہ کیسا ہے نہ کہ تمام عورتوں کو ایک جیسا ہی سمجھ کر آدھی گواہی سمجھ لی جائے
 

La Alma

لائبریرین
کیا حضرت خدیجہ جو خود کاروبار چلاتی تھیں ان کی گواہی بھی آدھی ہو گی؟ ان کا تو کام ہی تجارت کا تھا دلچسپی اور یادداشت سب کا ہونا لازم تھا۔

یا میرے ساتھ کام کرنے والے خواتین و حضرات کو لے لیں۔ سب ذہین اور اعلی تعلیم یافتہ ہیں اور کام بھی ایک ہی فیلڈ میں کرتے ہیں۔ اس صورت میں کسی بھی کاروباری معاملے میں ایک مرد کی گواہی دو خواتین برابر کیسے اور کیوں ہو گی؟
جی یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ گواہی اور گواہ کو دیکھا جائے گا کہ اس کی دلچسپی، یادداشت، مفاد، کردار وغیرہ کیسا ہے نہ کہ تمام عورتوں کو ایک جیسا ہی سمجھ کر آدھی گواہی سمجھ لی جائے
اس کا تعلق عورت کی قابلیت یا صلاحیت سے ہر گز نہیں بلکہ متعلقہ فیلڈ میں اس کے exposure کے تناسب سے ہے۔ اعداد و شمار یہی بتاتے ہیں کہ وجوہات جو بھی رہی ہوں لیکن کاروباری لین دین کے معاملات میں آج بھی خواتین مردوں کی نسبت کم سر گرم عمل ہیں۔
اگر کوئی شخص معاملہ فہم ہے تو وہ اپنی مرضی کے کوئی بھی گواہ مرد یا عورت منتخب کر لے،کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔
لیکن یہاں موضوع بحث ایسا شخص ہے جو اپنے معاملات خود ڈیل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اگر وہ خود اتنا اہل نہیں تو وہ گواہوں کی اہلیت کو کیسے پرکھے گا۔ خواتین کی اس میدان میں ایکٹولی پارٹیسیپیشن کی شرح تناسب کم ہونے کی وجہ سے ایسے شخص کو قدرے محفوظ راستہ اپنانے کی نصیحت کی گئی ہے۔ اس سے عورتوں کی قابلیت پر کسی قسم کا کوئی حرف نہیں آتا۔
یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم کہیں کہ مرد اچھا کھانا نہیں بنا سکتا۔ دیکھا جائے تو بڑے بڑے ریستورانز کے ماسٹر شیفز زیادہ تر مرد حضرات ہی ہیں۔اور وہ اپنے کام میں انتہائی ماہر بھی ہیں۔ لیکن ہمارے کلچر میں کھانا پکانا تو دور کی بات زیادہ تر مردوں کو مصالحوں کے نام بھی نہیں آتے۔ لینے کچھ بھیجو لے کر کچھ آ جا تے ہیں۔:):)
 

محمد سعد

محفلین
اس کا تعلق عورت کی قابلیت یا صلاحیت سے ہر گز نہیں بلکہ متعلقہ فیلڈ میں اس کے exposure کے تناسب سے ہے۔ اعداد و شمار یہی بتاتے ہیں کہ وجوہات جو بھی رہی ہوں لیکن کاروباری لین دین کے معاملات میں آج بھی خواتین مردوں کی نسبت کم سر گرم عمل ہیں۔
یہ معاملہ تو وقتی معاشرتی رجحانات کا ہو گیا جو بدلتے رہتے ہیں۔ اس شے کو خالصتاً جنس کے زیر اثر فنکشن (purely a function of gender) تو نہیں کہا جا سکتا۔
 

زیک

مسافر
اس کا تعلق عورت کی قابلیت یا صلاحیت سے ہر گز نہیں بلکہ متعلقہ فیلڈ میں اس کے exposure کے تناسب سے ہے۔ اعداد و شمار یہی بتاتے ہیں کہ وجوہات جو بھی رہی ہوں لیکن کاروباری لین دین کے معاملات میں آج بھی خواتین مردوں کی نسبت کم سر گرم عمل ہیں۔
اگر کوئی شخص معاملہ فہم ہے تو وہ اپنی مرضی کے کوئی بھی گواہ مرد یا عورت منتخب کر لے،کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔
لیکن یہاں موضوع بحث ایسا شخص ہے جو اپنے معاملات خود ڈیل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اگر وہ خود اتنا اہل نہیں تو وہ گواہوں کی اہلیت کو کیسے پرکھے گا۔ خواتین کی اس میدان میں ایکٹولی پارٹیسیپیشن کی شرح تناسب کم ہونے کی وجہ سے ایسے شخص کو قدرے محفوظ راستہ اپنانے کی نصیحت کی گئی ہے۔ اس سے عورتوں کی قابلیت پر کسی قسم کا کوئی حرف نہیں آتا۔
یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم کہیں کہ مرد اچھا کھانا نہیں بنا سکتا۔ دیکھا جائے تو بڑے بڑے ریستورانز کے ماسٹر شیفز زیادہ تر مرد حضرات ہی ہیں۔اور وہ اپنے کام میں انتہائی ماہر بھی ہیں۔ لیکن ہمارے کلچر میں کھانا پکانا تو دور کی بات زیادہ تر مردوں کو مصالحوں کے نام بھی نہیں آتے۔ لینے کچھ بھیجو لے کر کچھ آ جا تے ہیں۔:):)

یہ معاملہ تو وقتی معاشرتی رجحانات کا ہو گیا جو بدلتے رہتے ہیں۔ اس شے کو خالصتاً جنس کے زیر اثر فنکشن (purely a function of gender) تو نہیں کہا جا سکتا۔
اگر بات خاص معاشرے اور عصر کے رجحانات کی ہے تو یونیورسلزم کا دعوی تو لایعنی ہے۔
 
Top